آرٹسٹ کے لیے سیلانی ہونا شرط ہے مجسمہ سازی کو آج بھی ہمارے ہاں ’’ٹیبو‘‘سمجھا جاتا ہے
آرٹ، آرٹسٹ کی صلاحیتوں کا ذاتی اظہار خیال ہے۔ اِس میں آپ کی ذات کی شمولیت ضروری ہے۔
لمبے، بکھرے بال۔ ٹی شرٹ، پرانی جینز، پیر میں چپل۔
ایک خاص نوع کی لاتعلقی ہے اُن کی شخصیت میں۔ لہجے میں بغاوت ہے۔ احتجاج کا رنگ ہے اُس میں۔ بات دوٹوک کرتے ہیں۔ ساتھ ہی بے تکلفی کا ہتھیار بھی برتتے ہیں، جس کے وسیلے گفت گو پتھریلے پن سے محفوظ رہتی ہے۔
یہ منفرد مجسمہ ساز، کامران حامد کا تذکرہ ہے، جنھوں نے خود کو فن کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اپنی ذات کو پتھر جیسے مشکل میڈیم کے سپرد کردیا ہے۔ آج کل وہ سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کے لیے ایک خصوصی منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جو کثیر الجہتی اور قوی الجثہ ہے۔
جب ہم انٹرویو کے لیے کامران صاحب کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچے، تو وہ تنہا نہیں تھے۔ اُن کے طلبا بھی، جنھیں وہ اپنا دوست ٹھہراتے ہیں، وہاں موجود تھے۔ یہ ہی نوجوان اُن کی ٹیم ہیں، جن کے ساتھ وہ پتھر میں چُھپی اشکال تلاش کرتے ہیں۔
کامران گذشتہ تین عشروں سے مجسمے تراش رہے ہیں۔ کسی سے باقاعدہ اس فن کی تربیت حاصل نہیں کی۔ شاید یہ صلاحیت بہ درجہ اتم موجود تھی۔ برف، مٹی، لکڑی، کانسی، ہر میڈیم میں کام کرچکے ہیں، مگر پتھر تراشنے میں اُنھیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ جہاں کمرشیل بنیادوں پر کام کیا، وہیں برسوں مختلف آرٹ اسکولز سے وابستگی رہی، جہاں انھوں نے کئی نوجوان تیار کیے، البتہ اداروں سے وابستگی کا اختتام ہمیشہ ایک ''ٹریجڈی'' پر ہوا، جس کا اُنھیں قطعی قلق نہیں۔
چند برس قبل اُنھوں نے ٹک ٹُک اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جس کے تحت تراشے ہوئے فن پاروں نے ناقدین اور شایقین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ بین الاقوامی سطح پر بھی کام کیا۔ 2005میں دبئی سے بلاوا آیا، جہاں منعقد ہونے والے سمپوزیم میں بین الاقوامی دنیا سے پچاس مجسمہ سازوں کا انتخاب کیا گیا تھا، جن میں کامران بھی شامل تھے۔ 2006 میں اِس سمپوزیم کا دوبارہ حصہ بنے۔ دبئی میں بھی پتھر کی صورت گری کی۔
کامران کے فن پاروں کی طرح اُن کے خیالات بھی چونکا دیتے ہیں۔ آرٹ اسکولز سے وہ نالاں ہیں، اُن میں سے بیش تر کو بزنس اسکولز قرار دیتے ہیں۔ بہ قول ان کے،''نوجوانوں میں جو تھوڑا بہت شوق ہوتا بھی ہے، یہ اُسے بھی چوس لیتے ہیں۔'' دُکھ ہے کہ کراچی جیسی میگا سٹی میں آرٹ کا انفرااسٹرکچر موجود نہیں۔ کہتے ہیں،''نہ تو یہاں گیلریز ہیں، نہ ہی میوزیمز۔ آرٹ کے حقیقی نقاد بھی ہمارے ہاں نہیں۔ جو افراد آرٹ پر لکھتے ہیں، اُنھوں نے اِس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی۔ اِسی طرح شہر میں کوئی ایک بھی ایسا مقام نہیں، جہاں مصور، مجسمہ ساز بیٹھ سکیں، اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکیں۔'' حالات کے بگاڑ کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو براہ راست آرٹ کی مارکیٹ اثرانداز ہوتے ہیں۔
وہ پرائیویٹ گیلریز کی تعداد کو ناکامی قرار دیتے ہیں۔''بدقسمتی سے پرائیویٹ گیلریز چلانے والے بیش تر افراد کی سوچ کمرشیل ہے۔'' سرکاری گیلریز کے قیام اور وہاں حقیقی افراد کی تعیناتی کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ ''باہر میوزیم ہوتے ہیں۔ کیوریٹر ہوتے ہیں، جو لوگوں کو آرٹ سے متعلق بتاتے ہیں۔ یہاں تو میوزیم ہی نہیں، تو کیوریٹر بھلا کہاں سے آئے گا۔''
آرٹ کی تعریف وہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں۔ ''آرٹ، آرٹسٹ کی صلاحیتوں کا ذاتی اظہار خیال ہے۔ اِس میں آپ کی ذات کی شمولیت ضروری ہے۔ اور یہ سادہ سی بات آرٹ اسکول میں کوئی نہیں بتاتا۔''
حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ کامران حامد 1962 میں، کراچی میں مقیم ایڈووکیٹ سید حامد حسین کے گھر پیدا ہوئے۔ والد کی اصول پسندی اپنی جگہ، مگر بچوں سے اُن کے دوستانہ روابط رہے۔ ایک بہن، تین بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ تخلیقی خواہش بہ درجہ اتم موجود تھی۔ والدہ، طاہرہ حامد سے یہ فن وراثت میں ملا، جنھوں نے شادی سے پہلے مصوری کا تجربہ کیا، ریڈیو پاکستان سے غزلیں بھی پیش کیں۔ شاید یہ اُن ہی کا اثر تھا کہ کم سن کامران کوئلے سے دیواروں پر لکیریں کھینچنے لگے۔
بچپن میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ تیراکی بھی کرتے رہے۔ اوسط درجے کے طالب علم تھے۔ میٹرک کا مرحلہ بہ مشکل طے کیا، جس کا سبب آرٹ کے شعبے میں بڑھتی دل چسپی تھی، جس نے نصاب سے دل اچاٹ کردیا۔ اِس عرصے میں جم کر ڈرائنگ کرتے رہے، جو گھر کی دیواروں کی زینت بنتی رہیں۔ کسی نہ کسی طرح اسلامیہ سائنس کالج میں داخلہ ہوگیا۔ کلاسوں سے وہ اکثر غیرحاضر رہتے۔ یا تو ٹیبل ٹینس کھیلتے نظر آتے، یا کومن روم میں بیٹھے اسکیچ بناتے رہتے۔ نتیجہ متوقع تھا، کوئی پرچہ پاس نہیں کرسکے۔
کالج چھوڑ کر خالو کی ایڈورٹائزنگ کمپنی سے وابستہ ہوگئے، جنھوں نے کامران کی آرٹ میں دل چسپی دیکھی، تو اُنھیں سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹ، آرٹس کونسل کے کمیونیکشن ڈیزائنگ ڈپلوما کورس میں داخل کروا دیا۔ اب شوق کو اظہار کی راہ مل گئی کہ ماحول میسر تھا۔ البتہ خود کو اساتذہ کی روایت پسند مزاج سے ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ چار برس تک اُن کا باغیانہ تخیل وسعتوں کی سمت پرواز کر تا تھا، اور اساتذہ اُسے محدود کرنے کوشش کرتے رہے۔
ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، داخلہ تو کمیونیکشن ڈیزائننگ کے کورس میں ہوا تھا، مگر دل چسپی فائن آرٹ میں تھی۔ اوائل عمری میں وہ گتے سے پرندے اور دیگر اشکال بنایا کرتے تھے۔ توجہ شروع سے Three Dimensional Shapes (سہ جہتی اشکال) پر مرکوز رہی۔ آرٹس کونسل میں قدم رکھنے کے بعد تخیل نے خیال کے قالب میں ڈھلنا شروع کیا۔ مٹی میں چھپی اشکال پکارنے لگیں، مگر اساتذہ، ان کے بہ قول، حوصلہ افزائی کے لیے تیار نہیں تھے۔ مسئلے کا حل تلاش کر ہی لیا۔ Sculpture کے استاد سے چُھپ کر وہ گیلی مٹی کو سانچوں میں ڈھالنے لگے۔ ٹیگور کے مجسمے سے آغاز ہوا۔ پھر مزید تجربات کیے۔
87ء میں ڈپلوما مکمل کیا، مگر عملی زندگی میں پہلے ہی قدم رکھ چکے تھے۔ کراچی کے ایک بڑے ہوٹل سے وہ منسلک تھے، جہاں وہ Ice Carving کیا کرتے۔ برف کو، اپنی تخلیقی اپچ کے سہارے، مختلف سانچوں میں ڈھالتے۔ اس کام کے ساڑھے چار ہزار روپے ملا کرتے تھے، جو خاصی رقم تھی۔ کچھ عرصے بعد ایک اور فائیو اسٹار ہوٹل میں ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہ وار پر فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اِس عرصے میں کمرشیل بنیادوں پر مختلف اداروں اور افراد کے لیے کام کیا۔ 90ء میں انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھی گئی۔ کامران اس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ پانچ برس وہ اس کی Faculty Of Sculpture سے منسلک رہے۔ پھر استعفیٰ دے دیا، جس کا سبب وہ انتظامیہ کے رجحانات میں آنے والی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں۔
اسی زمانے میں آرٹس کونسل سے بلاوا آیا۔ کچھ عرصے وہاں کام کیا۔ تن خواہ، ان کے مطابق، انتہائی معمولی تھی، وہ فقط فروغ فن کے لیے کام کر رہے تھے۔ آنے والے برسوں میں اس ادارے سے رشتہ جُڑتا ٹوٹتا رہا۔ آخری بار 2012 کے انت میں، انتہائی تلخ تجربے کے ساتھ اُس سے الگ ہوئے۔ اب اپنے اسٹوڈیو کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں۔
گذشتہ بائیس برسوں میں کئی طلبا نے اُن کی زیرنگرانی مجسمہ سازی کے مراحل طے کیے، پتھر جیسے مشکل میڈیم میں کام کیا۔ بہ قول کامران، وہ آرٹ اسکولز میں پتھر پر کام شروع کروانے وہ پہلے استاد ہیں۔ ''سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں پتھر پر کام کیوں نہیں ہوتا؟ دراصل یہ بے حد مشکل ہے۔ سخت گرمی میں چھینی ہتھوڑا چلانا پڑتا ہے، توانائی خرچ کرنی پڑی ہے، مگر ہم محنت سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں تو شارٹ کٹ چاہیے۔''
2010 میں اُنھوں نے اپنے پانچ طلبا (اصغر علی سید، طارق راجا، راشد امین، سلمان احمد اور سروش غوری) کے ساتھ ٹَک ٹُک اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جس کے ارکان کو وہ اِس کا صدر قرار دیتے ہیں، خود کو بانی کہنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں۔ ادارے کے قیام کا مقاصد اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،''دنیا بھر میں مجسمہ سازی کا فن بہت ترقی کر گیا ہے، مگر ہمارے ہاں اس فن، خصوصاً پتھر کے کام پر توجہ نہیں دی گئی۔ ٹَک ٹُک اسٹوڈیو دراصل ایک گروپ ہے، جس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں قابلیت اور صلاحیت کی کمی نہیں۔ اگر نوجوانوں کو موقع دیا جائے، تو یہ بین الاقوامی سطح پر خود کو منوا سکتے ہیں۔ ابھی ہماری توجہ پتھر پر مرکوز ہے، مستقبل میں ہم دیگر میڈیمز کا بھی تجربہ کریں گے۔''
اس اسٹوڈیو کی ابتدائی کاوشوں نے جب آرٹ کی نمایشوں تک رسائی حاصل کی، تو شان دار ردعمل آیا۔ ناقدین نے بھی خوب داد دی، جس سے خاصا حوصلہ ملا۔ کامران ہنستے ہوئے کہتے ہیں،''بس، اسی شان دار کارکردگی کے باعث مجھے روانگی کا پروانہ تھما دیا گیا۔''
پیشہ ورانہ سفر کے بعد خیالات زیربحث آئے، تو کامران بتانے لگے کہ فن مجسمہ سازی کو ہمارے ہاں اب تک قبول نہیں کیا۔ ''آپ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آرٹ اسکولز میں Sculpture کے طلبا کی تعداد سب سے کم ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں اسے 'ٹیبو' سمجھا جاتا ہے۔'' اِس طرز فکر کا سبب وہ مذہبی نظریات کی من چاہی تشریح کرنے کے رویے کو قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ضیا دور کا ذکر کرتے ہیں، جس نے فنون لطیفہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے، فن اور فن کار سُکڑتے گئے۔ ''بھٹو دور میں ایک کھلا ہوا معاشرہ تھا، ضیاء الحق نے اس میں انتہاپسندی کا بیج بویا، جو اب دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے آرہا ہے۔''
معاشرتی مسائل، سماجی محدودات سے وہ آگاہ ہیں۔ ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔ کامران کے مطابق مجسمہ سازی پر اعتراض کرنے والے دراصل مجسموں سے جھلکتی انسانی شبیہہ پر اعتراض کرتے ہیں، اس تنازعے سے بچنے کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ انسانی شبیہہ بنانے سے اجتناب برتا۔ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی سطح پر یہ سمجھوتا کرنے کے مترادف ہے، مگر دوسرے پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ''آپ پاکستان کے فائیو اسٹار ہوٹلز اور بڑے ریسٹورنٹس میں جائیں، تو وہاں آپ کو Nude Sculptures بھی ملیں گے، مگر پبلک آرٹ میں ہمارے ہاں اِن کی گنجایش نہیں۔ جن پاکستانی فن کاروں نے یہ کوشش کی، انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ ہمارے برعکس موجودہ نسل محدود نہیں۔ اُن کے پاس انٹرنیٹ ہے، انٹرنیشنل مارکیٹ ہے۔ جو کچھ میں نے سیکھا، وہ اپنے طلبا میں منتقل کردیا۔ یہ اسے آگے بڑھائیں گے۔''
انھیں پاکستان میں آرٹ کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ کہنا ہے، حکومتی ادارے اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے، نجی اداروں کی ترجیحات مختلف ہیں۔ البتہ نوجوانوں کی وہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور اُنھیں انٹرنیشنل مارکیٹ کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
آرٹ میں تجریدی اثرات زیربحث آئے، تو کہنے لگے،''تجرید فقط آرٹ تک محدود نہیں۔ یہ زندگی کا عنصر ہے۔ تجرید، جوش کے اشعار میں ہے، افسانوں، ناولوں میں ہے۔ بدقسمتی سے یہ آرٹ میں Exploit ہوگئی، کیوں کہ لوگوں کو تجرید کا مطلب نہیں پتا۔ اب ایک موسمی ہے۔ میں نے اُسے کاٹا، اس کا رس نچوڑ لیا، گلاس میں پیش کیا۔ اب گلاس میں وہ ہی موسمی ہے، بس اس کی شکل بدل گئی۔ یہ ہی تجرید ہے۔'' وہ آرٹ میں تجریدیت کے لیے پیچیدگی، یہاں تک کہ تبدیلی کے الفاظ بھی مناسب خیال نہیں کرتے۔ کہنا ہے،''یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ ہر شے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھتی ہے۔''
مائیکل اینجلو کا ''ڈیوڈ'' اُن کا پسندیدہ ترین مجسمہ ہے۔ پاکستانی فن کاروں میں شاہد سجاد کو سراہتے ہیں۔ آرٹسٹ کے لیے ان کے نزدیک سیلانی ہونا شرط ہے کہ اِس کے ذریعے تجربات و مشاہدات میں زرخیزی آتی ہے۔ فن کار کی مصروفیات کو ان کے نزدیک، وقت کے پیرایے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ''کبھی آپ گھنٹوں خاموشی سے پیس کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ اور کبھی دیوانوں کی طرح کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ طبیعت پر منحصر ہے۔'' ابن انشا کے سفر نامے اور ساحر کی شاعری انھیں اچھی لگی۔ مہدی حسن خان کی گائیکی کے مداح ہیں۔ ودیا بالن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ستیہ جیت رئے کی فلمیں بہت پسند ہیں۔
تذکرہ ایک قوی الجثہ دیوار گیر مجسمے کا۔۔۔
اِس وقت کامران صاحب ایک مشکل منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جو تکمیل کے بعد کسی شاہ کار سے کم نہیں ہوگا۔
دراصل ان دنوں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ 11x27 فٹ کے ایک قوی الجثہ دیوار گیر مجسمے (Relief) کی تکمیل میں جٹے ہیں، جو سندھ اسمبلی کی نئی بلڈنگ کی زینت بنے گا۔
آسان دھاتوں پر کام کرنا تو اُنھیں گوارا نہیں۔ یہ میگا پراجیکٹ بھی پتھر ہی میں مکمل ہوگا۔ اِس دیوار گیر مجسمے کا بنیادی موضوع سندھ کا ارتقائی سفر ہے۔ یہ دور قدیم سے موجود سندھ تک کی کہانی بیان کرے گا۔ اس میں موئن جودڑو کی جھلکیاں ہوں گی، صوفیوں کے ساز ملیں گے، سندھ کی پہچان، لینس ڈائون برج ہوگا، یوں دھیرے دھیرے سفر آگے بڑھتے ہوئے دورجدید تک آئے گا۔
یہ ذمے داری اُنھیں مذکورہ بلڈنگ تعبیر کرنے والی، سید ضیا نقوی کی آرکیٹیکچرل فرم نے سونپی ہے۔ کمپنی کی جانب سے انھیں بنیادی خیال دیا گیا، جسے انھوں نے اپنی تخلیقی اپچ کے سہارے آگے بڑھایا۔
آرٹ یہاں بسکٹ اور پیسٹری کی طرح بِکتا ہے
کیا پاکستانی آرٹ میں دل چسپی لیتے ہیں؟
کامران اِس سوال کا بڑا دل چسپ جواب دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''ہمارے ہاں لوگ خود کو تہذیب یافتہ ثابت کرنے کے لیے پرائیویٹ گیلریز سے منہگی پینٹنگز خرید کر گھروں میں لگا دیتے ہیں، تاکہ مہمانوں پر اچھا اثر پڑے۔ ساتھ ہی شیلف میں آرٹ پر کتابیں اور انسائیکلوپیڈیا سجا دیے جاتے ہیں۔
جہاں آرٹ کے نقاد ہی نہیں، وہاں عوام میں آرٹ کا کتنا شعور ہوگا، اِس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ یہاں تو آرٹ بسکٹ اور پیسٹری کی طرح بکتا ہے۔ مجسمے اور پینٹنگز خریدنے والوں کی اکثریت اس کی سمجھ نہیں رکھتی۔ بس دکھاوے کے لیے خریدا جاتا ہے۔''
ایک خاص نوع کی لاتعلقی ہے اُن کی شخصیت میں۔ لہجے میں بغاوت ہے۔ احتجاج کا رنگ ہے اُس میں۔ بات دوٹوک کرتے ہیں۔ ساتھ ہی بے تکلفی کا ہتھیار بھی برتتے ہیں، جس کے وسیلے گفت گو پتھریلے پن سے محفوظ رہتی ہے۔
یہ منفرد مجسمہ ساز، کامران حامد کا تذکرہ ہے، جنھوں نے خود کو فن کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اپنی ذات کو پتھر جیسے مشکل میڈیم کے سپرد کردیا ہے۔ آج کل وہ سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کے لیے ایک خصوصی منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جو کثیر الجہتی اور قوی الجثہ ہے۔
جب ہم انٹرویو کے لیے کامران صاحب کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچے، تو وہ تنہا نہیں تھے۔ اُن کے طلبا بھی، جنھیں وہ اپنا دوست ٹھہراتے ہیں، وہاں موجود تھے۔ یہ ہی نوجوان اُن کی ٹیم ہیں، جن کے ساتھ وہ پتھر میں چُھپی اشکال تلاش کرتے ہیں۔
کامران گذشتہ تین عشروں سے مجسمے تراش رہے ہیں۔ کسی سے باقاعدہ اس فن کی تربیت حاصل نہیں کی۔ شاید یہ صلاحیت بہ درجہ اتم موجود تھی۔ برف، مٹی، لکڑی، کانسی، ہر میڈیم میں کام کرچکے ہیں، مگر پتھر تراشنے میں اُنھیں یدطولیٰ حاصل ہے۔ جہاں کمرشیل بنیادوں پر کام کیا، وہیں برسوں مختلف آرٹ اسکولز سے وابستگی رہی، جہاں انھوں نے کئی نوجوان تیار کیے، البتہ اداروں سے وابستگی کا اختتام ہمیشہ ایک ''ٹریجڈی'' پر ہوا، جس کا اُنھیں قطعی قلق نہیں۔
چند برس قبل اُنھوں نے ٹک ٹُک اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جس کے تحت تراشے ہوئے فن پاروں نے ناقدین اور شایقین کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ بین الاقوامی سطح پر بھی کام کیا۔ 2005میں دبئی سے بلاوا آیا، جہاں منعقد ہونے والے سمپوزیم میں بین الاقوامی دنیا سے پچاس مجسمہ سازوں کا انتخاب کیا گیا تھا، جن میں کامران بھی شامل تھے۔ 2006 میں اِس سمپوزیم کا دوبارہ حصہ بنے۔ دبئی میں بھی پتھر کی صورت گری کی۔
کامران کے فن پاروں کی طرح اُن کے خیالات بھی چونکا دیتے ہیں۔ آرٹ اسکولز سے وہ نالاں ہیں، اُن میں سے بیش تر کو بزنس اسکولز قرار دیتے ہیں۔ بہ قول ان کے،''نوجوانوں میں جو تھوڑا بہت شوق ہوتا بھی ہے، یہ اُسے بھی چوس لیتے ہیں۔'' دُکھ ہے کہ کراچی جیسی میگا سٹی میں آرٹ کا انفرااسٹرکچر موجود نہیں۔ کہتے ہیں،''نہ تو یہاں گیلریز ہیں، نہ ہی میوزیمز۔ آرٹ کے حقیقی نقاد بھی ہمارے ہاں نہیں۔ جو افراد آرٹ پر لکھتے ہیں، اُنھوں نے اِس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہوتی۔ اِسی طرح شہر میں کوئی ایک بھی ایسا مقام نہیں، جہاں مصور، مجسمہ ساز بیٹھ سکیں، اپنے خیالات کا تبادلہ کر سکیں۔'' حالات کے بگاڑ کا خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جو براہ راست آرٹ کی مارکیٹ اثرانداز ہوتے ہیں۔
وہ پرائیویٹ گیلریز کی تعداد کو ناکامی قرار دیتے ہیں۔''بدقسمتی سے پرائیویٹ گیلریز چلانے والے بیش تر افراد کی سوچ کمرشیل ہے۔'' سرکاری گیلریز کے قیام اور وہاں حقیقی افراد کی تعیناتی کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں۔ ''باہر میوزیم ہوتے ہیں۔ کیوریٹر ہوتے ہیں، جو لوگوں کو آرٹ سے متعلق بتاتے ہیں۔ یہاں تو میوزیم ہی نہیں، تو کیوریٹر بھلا کہاں سے آئے گا۔''
آرٹ کی تعریف وہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں۔ ''آرٹ، آرٹسٹ کی صلاحیتوں کا ذاتی اظہار خیال ہے۔ اِس میں آپ کی ذات کی شمولیت ضروری ہے۔ اور یہ سادہ سی بات آرٹ اسکول میں کوئی نہیں بتاتا۔''
حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ کامران حامد 1962 میں، کراچی میں مقیم ایڈووکیٹ سید حامد حسین کے گھر پیدا ہوئے۔ والد کی اصول پسندی اپنی جگہ، مگر بچوں سے اُن کے دوستانہ روابط رہے۔ ایک بہن، تین بھائیوں میں اُن کا نمبر دوسرا ہے۔ تخلیقی خواہش بہ درجہ اتم موجود تھی۔ والدہ، طاہرہ حامد سے یہ فن وراثت میں ملا، جنھوں نے شادی سے پہلے مصوری کا تجربہ کیا، ریڈیو پاکستان سے غزلیں بھی پیش کیں۔ شاید یہ اُن ہی کا اثر تھا کہ کم سن کامران کوئلے سے دیواروں پر لکیریں کھینچنے لگے۔
بچپن میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ تیراکی بھی کرتے رہے۔ اوسط درجے کے طالب علم تھے۔ میٹرک کا مرحلہ بہ مشکل طے کیا، جس کا سبب آرٹ کے شعبے میں بڑھتی دل چسپی تھی، جس نے نصاب سے دل اچاٹ کردیا۔ اِس عرصے میں جم کر ڈرائنگ کرتے رہے، جو گھر کی دیواروں کی زینت بنتی رہیں۔ کسی نہ کسی طرح اسلامیہ سائنس کالج میں داخلہ ہوگیا۔ کلاسوں سے وہ اکثر غیرحاضر رہتے۔ یا تو ٹیبل ٹینس کھیلتے نظر آتے، یا کومن روم میں بیٹھے اسکیچ بناتے رہتے۔ نتیجہ متوقع تھا، کوئی پرچہ پاس نہیں کرسکے۔
کالج چھوڑ کر خالو کی ایڈورٹائزنگ کمپنی سے وابستہ ہوگئے، جنھوں نے کامران کی آرٹ میں دل چسپی دیکھی، تو اُنھیں سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈ کرافٹ، آرٹس کونسل کے کمیونیکشن ڈیزائنگ ڈپلوما کورس میں داخل کروا دیا۔ اب شوق کو اظہار کی راہ مل گئی کہ ماحول میسر تھا۔ البتہ خود کو اساتذہ کی روایت پسند مزاج سے ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ چار برس تک اُن کا باغیانہ تخیل وسعتوں کی سمت پرواز کر تا تھا، اور اساتذہ اُسے محدود کرنے کوشش کرتے رہے۔
ماضی بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں، داخلہ تو کمیونیکشن ڈیزائننگ کے کورس میں ہوا تھا، مگر دل چسپی فائن آرٹ میں تھی۔ اوائل عمری میں وہ گتے سے پرندے اور دیگر اشکال بنایا کرتے تھے۔ توجہ شروع سے Three Dimensional Shapes (سہ جہتی اشکال) پر مرکوز رہی۔ آرٹس کونسل میں قدم رکھنے کے بعد تخیل نے خیال کے قالب میں ڈھلنا شروع کیا۔ مٹی میں چھپی اشکال پکارنے لگیں، مگر اساتذہ، ان کے بہ قول، حوصلہ افزائی کے لیے تیار نہیں تھے۔ مسئلے کا حل تلاش کر ہی لیا۔ Sculpture کے استاد سے چُھپ کر وہ گیلی مٹی کو سانچوں میں ڈھالنے لگے۔ ٹیگور کے مجسمے سے آغاز ہوا۔ پھر مزید تجربات کیے۔
87ء میں ڈپلوما مکمل کیا، مگر عملی زندگی میں پہلے ہی قدم رکھ چکے تھے۔ کراچی کے ایک بڑے ہوٹل سے وہ منسلک تھے، جہاں وہ Ice Carving کیا کرتے۔ برف کو، اپنی تخلیقی اپچ کے سہارے، مختلف سانچوں میں ڈھالتے۔ اس کام کے ساڑھے چار ہزار روپے ملا کرتے تھے، جو خاصی رقم تھی۔ کچھ عرصے بعد ایک اور فائیو اسٹار ہوٹل میں ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہ وار پر فن کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اِس عرصے میں کمرشیل بنیادوں پر مختلف اداروں اور افراد کے لیے کام کیا۔ 90ء میں انڈس ویلی اسکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھی گئی۔ کامران اس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ پانچ برس وہ اس کی Faculty Of Sculpture سے منسلک رہے۔ پھر استعفیٰ دے دیا، جس کا سبب وہ انتظامیہ کے رجحانات میں آنے والی تبدیلیوں کو قرار دیتے ہیں۔
اسی زمانے میں آرٹس کونسل سے بلاوا آیا۔ کچھ عرصے وہاں کام کیا۔ تن خواہ، ان کے مطابق، انتہائی معمولی تھی، وہ فقط فروغ فن کے لیے کام کر رہے تھے۔ آنے والے برسوں میں اس ادارے سے رشتہ جُڑتا ٹوٹتا رہا۔ آخری بار 2012 کے انت میں، انتہائی تلخ تجربے کے ساتھ اُس سے الگ ہوئے۔ اب اپنے اسٹوڈیو کی دیکھ ریکھ کر رہے ہیں۔
گذشتہ بائیس برسوں میں کئی طلبا نے اُن کی زیرنگرانی مجسمہ سازی کے مراحل طے کیے، پتھر جیسے مشکل میڈیم میں کام کیا۔ بہ قول کامران، وہ آرٹ اسکولز میں پتھر پر کام شروع کروانے وہ پہلے استاد ہیں۔ ''سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں پتھر پر کام کیوں نہیں ہوتا؟ دراصل یہ بے حد مشکل ہے۔ سخت گرمی میں چھینی ہتھوڑا چلانا پڑتا ہے، توانائی خرچ کرنی پڑی ہے، مگر ہم محنت سے گھبراتے ہیں۔ ہمیں تو شارٹ کٹ چاہیے۔''
2010 میں اُنھوں نے اپنے پانچ طلبا (اصغر علی سید، طارق راجا، راشد امین، سلمان احمد اور سروش غوری) کے ساتھ ٹَک ٹُک اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی، جس کے ارکان کو وہ اِس کا صدر قرار دیتے ہیں، خود کو بانی کہنے سے بھی اجتناب برتتے ہیں۔ ادارے کے قیام کا مقاصد اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں،''دنیا بھر میں مجسمہ سازی کا فن بہت ترقی کر گیا ہے، مگر ہمارے ہاں اس فن، خصوصاً پتھر کے کام پر توجہ نہیں دی گئی۔ ٹَک ٹُک اسٹوڈیو دراصل ایک گروپ ہے، جس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں قابلیت اور صلاحیت کی کمی نہیں۔ اگر نوجوانوں کو موقع دیا جائے، تو یہ بین الاقوامی سطح پر خود کو منوا سکتے ہیں۔ ابھی ہماری توجہ پتھر پر مرکوز ہے، مستقبل میں ہم دیگر میڈیمز کا بھی تجربہ کریں گے۔''
اس اسٹوڈیو کی ابتدائی کاوشوں نے جب آرٹ کی نمایشوں تک رسائی حاصل کی، تو شان دار ردعمل آیا۔ ناقدین نے بھی خوب داد دی، جس سے خاصا حوصلہ ملا۔ کامران ہنستے ہوئے کہتے ہیں،''بس، اسی شان دار کارکردگی کے باعث مجھے روانگی کا پروانہ تھما دیا گیا۔''
پیشہ ورانہ سفر کے بعد خیالات زیربحث آئے، تو کامران بتانے لگے کہ فن مجسمہ سازی کو ہمارے ہاں اب تک قبول نہیں کیا۔ ''آپ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آرٹ اسکولز میں Sculpture کے طلبا کی تعداد سب سے کم ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں اسے 'ٹیبو' سمجھا جاتا ہے۔'' اِس طرز فکر کا سبب وہ مذہبی نظریات کی من چاہی تشریح کرنے کے رویے کو قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ضیا دور کا ذکر کرتے ہیں، جس نے فنون لطیفہ پر انتہائی منفی اثرات مرتب کیے، فن اور فن کار سُکڑتے گئے۔ ''بھٹو دور میں ایک کھلا ہوا معاشرہ تھا، ضیاء الحق نے اس میں انتہاپسندی کا بیج بویا، جو اب دہشت گردی کی صورت میں ہمارے سامنے آرہا ہے۔''
معاشرتی مسائل، سماجی محدودات سے وہ آگاہ ہیں۔ ان سے نمٹنے کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔ کامران کے مطابق مجسمہ سازی پر اعتراض کرنے والے دراصل مجسموں سے جھلکتی انسانی شبیہہ پر اعتراض کرتے ہیں، اس تنازعے سے بچنے کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ انسانی شبیہہ بنانے سے اجتناب برتا۔ تسلیم کرتے ہیں کہ کسی سطح پر یہ سمجھوتا کرنے کے مترادف ہے، مگر دوسرے پہلو پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ ''آپ پاکستان کے فائیو اسٹار ہوٹلز اور بڑے ریسٹورنٹس میں جائیں، تو وہاں آپ کو Nude Sculptures بھی ملیں گے، مگر پبلک آرٹ میں ہمارے ہاں اِن کی گنجایش نہیں۔ جن پاکستانی فن کاروں نے یہ کوشش کی، انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ البتہ ہمارے برعکس موجودہ نسل محدود نہیں۔ اُن کے پاس انٹرنیٹ ہے، انٹرنیشنل مارکیٹ ہے۔ جو کچھ میں نے سیکھا، وہ اپنے طلبا میں منتقل کردیا۔ یہ اسے آگے بڑھائیں گے۔''
انھیں پاکستان میں آرٹ کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ کہنا ہے، حکومتی ادارے اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے، نجی اداروں کی ترجیحات مختلف ہیں۔ البتہ نوجوانوں کی وہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور اُنھیں انٹرنیشنل مارکیٹ کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
آرٹ میں تجریدی اثرات زیربحث آئے، تو کہنے لگے،''تجرید فقط آرٹ تک محدود نہیں۔ یہ زندگی کا عنصر ہے۔ تجرید، جوش کے اشعار میں ہے، افسانوں، ناولوں میں ہے۔ بدقسمتی سے یہ آرٹ میں Exploit ہوگئی، کیوں کہ لوگوں کو تجرید کا مطلب نہیں پتا۔ اب ایک موسمی ہے۔ میں نے اُسے کاٹا، اس کا رس نچوڑ لیا، گلاس میں پیش کیا۔ اب گلاس میں وہ ہی موسمی ہے، بس اس کی شکل بدل گئی۔ یہ ہی تجرید ہے۔'' وہ آرٹ میں تجریدیت کے لیے پیچیدگی، یہاں تک کہ تبدیلی کے الفاظ بھی مناسب خیال نہیں کرتے۔ کہنا ہے،''یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ ہر شے مختلف مراحل سے گزر کر آگے بڑھتی ہے۔''
مائیکل اینجلو کا ''ڈیوڈ'' اُن کا پسندیدہ ترین مجسمہ ہے۔ پاکستانی فن کاروں میں شاہد سجاد کو سراہتے ہیں۔ آرٹسٹ کے لیے ان کے نزدیک سیلانی ہونا شرط ہے کہ اِس کے ذریعے تجربات و مشاہدات میں زرخیزی آتی ہے۔ فن کار کی مصروفیات کو ان کے نزدیک، وقت کے پیرایے میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ ''کبھی آپ گھنٹوں خاموشی سے پیس کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ اور کبھی دیوانوں کی طرح کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ طبیعت پر منحصر ہے۔'' ابن انشا کے سفر نامے اور ساحر کی شاعری انھیں اچھی لگی۔ مہدی حسن خان کی گائیکی کے مداح ہیں۔ ودیا بالن کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ستیہ جیت رئے کی فلمیں بہت پسند ہیں۔
تذکرہ ایک قوی الجثہ دیوار گیر مجسمے کا۔۔۔
اِس وقت کامران صاحب ایک مشکل منصوبے پر کام کر رہے ہیں، جو تکمیل کے بعد کسی شاہ کار سے کم نہیں ہوگا۔
دراصل ان دنوں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ 11x27 فٹ کے ایک قوی الجثہ دیوار گیر مجسمے (Relief) کی تکمیل میں جٹے ہیں، جو سندھ اسمبلی کی نئی بلڈنگ کی زینت بنے گا۔
آسان دھاتوں پر کام کرنا تو اُنھیں گوارا نہیں۔ یہ میگا پراجیکٹ بھی پتھر ہی میں مکمل ہوگا۔ اِس دیوار گیر مجسمے کا بنیادی موضوع سندھ کا ارتقائی سفر ہے۔ یہ دور قدیم سے موجود سندھ تک کی کہانی بیان کرے گا۔ اس میں موئن جودڑو کی جھلکیاں ہوں گی، صوفیوں کے ساز ملیں گے، سندھ کی پہچان، لینس ڈائون برج ہوگا، یوں دھیرے دھیرے سفر آگے بڑھتے ہوئے دورجدید تک آئے گا۔
یہ ذمے داری اُنھیں مذکورہ بلڈنگ تعبیر کرنے والی، سید ضیا نقوی کی آرکیٹیکچرل فرم نے سونپی ہے۔ کمپنی کی جانب سے انھیں بنیادی خیال دیا گیا، جسے انھوں نے اپنی تخلیقی اپچ کے سہارے آگے بڑھایا۔
آرٹ یہاں بسکٹ اور پیسٹری کی طرح بِکتا ہے
کیا پاکستانی آرٹ میں دل چسپی لیتے ہیں؟
کامران اِس سوال کا بڑا دل چسپ جواب دیتے ہیں۔ کہنا ہے،''ہمارے ہاں لوگ خود کو تہذیب یافتہ ثابت کرنے کے لیے پرائیویٹ گیلریز سے منہگی پینٹنگز خرید کر گھروں میں لگا دیتے ہیں، تاکہ مہمانوں پر اچھا اثر پڑے۔ ساتھ ہی شیلف میں آرٹ پر کتابیں اور انسائیکلوپیڈیا سجا دیے جاتے ہیں۔
جہاں آرٹ کے نقاد ہی نہیں، وہاں عوام میں آرٹ کا کتنا شعور ہوگا، اِس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں۔ یہاں تو آرٹ بسکٹ اور پیسٹری کی طرح بکتا ہے۔ مجسمے اور پینٹنگز خریدنے والوں کی اکثریت اس کی سمجھ نہیں رکھتی۔ بس دکھاوے کے لیے خریدا جاتا ہے۔''