ڈالر مہنگا ہونے سے زندگی کیسے دشوار ہوتی ہے
پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی کرنسی کی قدر بڑھنے سے اشیائےضروریات پاکستانیوں کی رسائی سے دور نکل جاتی ہیں
نذیراں ایک بیوہ خاتون ہے۔ اس کے شوہر کی وفات کے بعد اس کو دس لاکھ روپے ملے تھے۔ کوئی کاروبار یا سرمایہ کاری کی سکت تو اس میں تھی نہیں لہٰذا اس نے یہ رقم بینک میں جمع کرادی۔وہ رقم سے حاصل ہونے والے منافع سے اپنا گذارا کررہی ہے
۔نذیراں نے کئی سال قبل جب یہ رقم بینک میں جمع کرائی تھی تو اس وقت ڈالر نوے روپے کا تھا۔لیکن اب ڈالر ایک سو سات تک پہنچ چکا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ روپوں کی صورت میں بینک میں جمع اس کی رقم کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی ہوچکی ہے۔نذیراں کی طرح جن لاکھوں افراد نے اپنی رقم پاکستانی روپوں کی صورت بینکوں میں جمع کرارکھی ہے، ان کی رقم کی قدر بھی کم ہوچکی ہے لیکن یہ غریب اور ضعیف افراد اور بیوائیں اس حقیقت سے شاید بے خبر ہیں کہ ان کے خون پسینے کی کمائی کی قدر کو کس بے دردی سے کم کیا جارہا ہے۔
جی ہاں، حال ہی میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں زبردست اضافہ ہونے کے بعد غریب لوگوں کی بچت کی رقم کی قدر میں بڑے پیمانے پرکی کمی ہوچکی ہے اور اگر بالفرض ڈالر کی قیمت اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو چار پانچ سال میں لوگوں کی بینکوں میں پڑی بچت کی رقم کی قدر خاصی کم ہوجائے گی۔ 2009 میں ڈالر کی قیمت 80 روپے تھی لہذا 2009 سے لیکر 2013 تک مجموعی طورپر ڈالرکی قیمت میں بیس سے پچیس روپے اضافہ ہوچکا ہے اور اب یہ 80 سے 110 روپے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آخری سطور کی اشاعت تک ڈالر کی قیمت خرید 107.5 اور قیمت فروخت 107.50 تھی لیکن اس مہینے کے آخری عشرے میں تو ڈالر 110 تک پہنچ گیا تھا۔
حقیقت میں ڈالر کی قیمت میں اضافے سے سب سے زیادہ نقصان پاکستانی روپوں میں بچت کرنے والے عوام کو ہوتا ہے چاہے وہ اس سے لاعلم ہوں یا اس کے بارے میں جانتے ہوں۔ اس کے علاوہ پاکستانی روپوں میں بچت کرنیوالوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جن رئیسوں نے بینکوں میں ڈالر کی صورت میں رقم جمع کرارکھی ہے، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بیٹھے بٹھائے ان کی رقم کی پاکستانی روپے میں مالیت کو پر لگ جاتے ہیں جو فی الحال لگ چکے ہیں۔
غریب غربا کی شامت یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ وہ کمر کس رکھیں۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد پاکستان میں مہنگائی کی زبردست لہر آنے والی ہے۔مہنگائی کی اس لہر سے زیادہ تر غریب لوگ ہی متاثر ہوں گے۔امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ مہنگائی کی اس لہر کی وجہ بنے گا۔ معاشی ماہرین اور اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک ریکارڈ اضافے سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔یہ اضافہ کیسے ہوگا ، یہ ہم آگے بیان کریں گے۔
ان سطور کی اشاعت تک آخری اطلاعات کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے مارکیٹ میں سراسیمگی پھیل گئی تھی اور سٹاک ایکسچینج کریش کرچکی تھی۔ڈالر کی قیمت اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے یعنی ایک ڈالر کی قیمت لگ بھگ107 پاکستانی روپوں کے برابر ہوچکی ہے۔معاشی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈالرکی قیمت میں اس ریکارڈ اضافے کے نتیجے میں مستقبل قریب میں پاکستانی روپیہ مزید دباؤ میں آئے گا۔ اس وقت ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت لگ بھگ 107.5روپے ہے جبکہ انٹر بینک ریٹ 105.5 روپے ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ڈالر جو کبھی پیسوں کے حساب سے اوپر جاتا تھا ، اس کی قیمت میں صرف چند ماہ کے دوران چھ سے سات روپے اضافہ سب کو حیران و پریشان کر گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے 5جون 2013 کو اقتدار سنبھالا تو اس وقت ڈالر کی قیمت سو روپے تھی لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت اوپر جاتی رہی اور اب اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر قائم ہے۔ڈالر کی قدر میں اضافے کے حوالے سے کئی قسم کے نکتہ نظر پیش کیے جارہے ہیں۔کچھ کاخیال ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور اس کے لیے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کرنے کا وعدہ کرلیا جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ روپیہ ''قیاس آرایؤں'' کی وجہ سے نیچے گیا۔
دوسری جانب وزارت خزانہ نے بھی روپے کی قدر میں کمی کی ذمہ داری قیاس آرائیوں پر عائد کی۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے میں ڈالر کی قیمت مستحکم ہوجائے گی کیونکہ حکومت نے مختلف پرائیویٹ بینکوں سے 625 ملین ڈالر قرضہ حاصل کرنے کے پروپوزل کو حتمی شکل دیدی ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جائے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف وجوہات کے باعث روپیہ بدستور دباؤ کا شکار رہے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے پاکستانی روپیہ بدستور دباؤ میں رہے گا۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت شدت کے ساتھ ڈالر کی ''خدمت'' میں لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔انہوں نے مطلع کیا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ انٹربینک مارکیٹ سے غیرملکی زرمبادلہ خریدے جبکہ سٹیٹ بینک پہلے ہی گذشتہ دو ماہ جولائی اور اگست کے دوران 125 ملین ڈالر خرید چکا ہے۔
ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ مارکیٹ سے محدود پیمانے پر ڈالرکی خریداری سے ایکسچینج مارکیٹ عدم استحکام کا شکار ہوگئی ہے اور روپیہ اپنی قدر کھو بیٹھا ہے۔ان کے بقول اب پرائیویٹ کمرشل بینکوں سے سوا چھ سو ملین ڈالر کی خریداری کی تجویز سے مارکیٹ بے چینی میں مبتلا ہے۔
متعدد معاشی ماہرین کاکہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بینکوں سے سوا چھ سو ملین ڈالر خریدنے سے پاکستانی روپے کو عارضی طورپر تو ریلیف ملے گا تاہم خلا بہت زیادہ ہے اور بڑے ان فلو سے ہی پُر ہوسکتا ہے۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ حکومت کے آئی ایم ایف سے hidden agreement کا نتیجہ ہے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثال کے طورپر ڈالر کے مقابلے میں سونے میں سرمایہ کاری اور حج سیزن وغیرہ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں سٹیٹ بنک نے اوپن مارکیٹ میں مداخلت کرکے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کیا تاکہ اس کی ڈیمانڈ میں کمی آئے تاہم اب سٹیٹ بنک خاموش تماشائی بن گیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف نے سٹیٹ بنک کو اوپن مارکیٹ سے دور رہنے کے لیے کہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کے لیے کوئی مختصر مدتی حل موجود نہیں۔جب برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بڑھیں گی تو روپیہ دباؤ میں رہے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ متبادل اقدامات کرکے درآمدات کو کنٹرول کیا جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت پر ہر جانب سے تنقید کے تیر برسائے جاتے تھے اور آج بھی اسے بیڈ گورننس اور کرپشن کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن دلچسپ بات ہے کہ اسی پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے بھرپور دباؤ کے باوجود ڈالر کی قیمت بڑھانے سے انکار کردیا تھا۔
اس سلسلے میں حکومت کا موقف تھا کہ ایسا کرنے سے ملک کی پہلے سے بیمار معیشت مزید متاثر ہوگی۔اس کے علاوہ ادائیگیو ںمیں عدم توازن اور تجارتی خسارہ بھی ازخود بڑھ جائے گا۔اب موجودہ حکومت نے ڈالر کی قیمت میں جس طرح زبردست اضافہ کیا ہے، اس کے نتائج کیا ہوں گے، ہر قسم کی اشیاء کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ ہوگا۔امپورٹ بل کس طرح بڑھے گا، اس کا آنے والا وقت میں پتہ چلے گا۔
ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائیکیوں بڑھتی ہے؟
پاکستان کے غریب عوام کے لیے یہ بری خبر ہے کہ اب وہ مزید مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ پاکستان بے شمار اشیا ئے خورد نوش اور ان اشیاء کی پروڈکشن میں استعمال ہونے والی ضروری اشیاء بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے ۔ یوں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد یہ اشیاء مزید مہنگے داموں ملیں گی لیکن پروڈیوسرز اور مینو فیکچررز کو اس سے شاید کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اپنے امپورٹ بل یا اپنی اشیاء کی تیاری پر بڑھنے والی لاگت کا بوجھ عوام کی جانب منتقل کردیں گے۔
مثال کے طور پر پاکستانی عوام اپنے ہر کھانے میں گھی یا کوکنگ آئل کا استعمال کرتے ہیں۔یہ گھی اور کوکنگ آئل پام آئل سے تیار ہوتا ہے جو بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔اب یہ پام آئل مزید مہنگا ملے گا جس کی وجہ سے مینوفیکچررز کو گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں اضافہ کرنا ہوگا جو صارفین یا اینڈ یوزر ادا کریں گے۔اس طرح ڈالر کی قیمت میں اضافے سے پٹرول کا درآمدی بل بھی بڑھ جائے گا۔پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر پاکستانی کو پتہ ہے کہ کیا ہوتا ہے۔گاڑیوں کے کرائے بڑھ جائیں گے۔
اشیائے خورد ونوش اور دیگر چیزوں کی قیمتیں بھی اس بہانے بڑھائی جائیں گی کہ ان کو گاڑیوں کے ذریعے ہی پورے ملک کو سپلائی کیا جاتا ہے۔بجلی بھی مہنگی ہوجائے گی کیونکہ یہ بھی درآمدی ایندھن سے تیار ہوتی ہے۔موٹرسائیکل کی ٹینکی مڈل کلاس کے خون پسینے کی مزید کمائی اپنے پیٹ میں بھرنے لگے گی۔زرعی ادویات اور کھادیں بھی بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں چنانچہ جب یہ اشیاء مہنگی ملیں گی تو کاشتکار اپنی فصل کی قیمت بڑھادے گا۔پھل بھی مزید مہنگے ہوجائیں گے ۔
اس طرح خاکم بدہن اگر پاکستان میں گندم کی فصل اچھی نہیں ہوتی اور گندم بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے تو ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے یہ بھی مہنگی ملے گی۔اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گندم کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے یا عوام کے لیے سبسڈی دیتی ہے۔
اس طرح کارخانہ دار اور فیکٹری مالکان اپنی فیکٹریوں کارخانوں کے لیے جو مشینری و پرزے وغیرہ درآمد کرتے ہیں ، وہ بھی مہنگے ملیں گے اور یوں ان فیکٹریوں سے تیار ہونے والی اشیاء کی قیمت بڑھا کر اس خسارے کو پورا کیا جائے گا اور صارفین کو ان فیکٹریوں کی اشیا مہنگی ملیں گے۔آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ امپورٹ کی جانے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ان کو تو یقیناً بہت فائدہ ہوگا جن کی تجوریوں میں ڈالراور دیگر غیرملکی کرنسیاں بھری ہوئی ہیں لیکن مہنگائی کی چکی عوام کا مقدر بنے گی۔
۔نذیراں نے کئی سال قبل جب یہ رقم بینک میں جمع کرائی تھی تو اس وقت ڈالر نوے روپے کا تھا۔لیکن اب ڈالر ایک سو سات تک پہنچ چکا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ روپوں کی صورت میں بینک میں جمع اس کی رقم کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی ہوچکی ہے۔نذیراں کی طرح جن لاکھوں افراد نے اپنی رقم پاکستانی روپوں کی صورت بینکوں میں جمع کرارکھی ہے، ان کی رقم کی قدر بھی کم ہوچکی ہے لیکن یہ غریب اور ضعیف افراد اور بیوائیں اس حقیقت سے شاید بے خبر ہیں کہ ان کے خون پسینے کی کمائی کی قدر کو کس بے دردی سے کم کیا جارہا ہے۔
جی ہاں، حال ہی میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں زبردست اضافہ ہونے کے بعد غریب لوگوں کی بچت کی رقم کی قدر میں بڑے پیمانے پرکی کمی ہوچکی ہے اور اگر بالفرض ڈالر کی قیمت اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو چار پانچ سال میں لوگوں کی بینکوں میں پڑی بچت کی رقم کی قدر خاصی کم ہوجائے گی۔ 2009 میں ڈالر کی قیمت 80 روپے تھی لہذا 2009 سے لیکر 2013 تک مجموعی طورپر ڈالرکی قیمت میں بیس سے پچیس روپے اضافہ ہوچکا ہے اور اب یہ 80 سے 110 روپے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آخری سطور کی اشاعت تک ڈالر کی قیمت خرید 107.5 اور قیمت فروخت 107.50 تھی لیکن اس مہینے کے آخری عشرے میں تو ڈالر 110 تک پہنچ گیا تھا۔
حقیقت میں ڈالر کی قیمت میں اضافے سے سب سے زیادہ نقصان پاکستانی روپوں میں بچت کرنے والے عوام کو ہوتا ہے چاہے وہ اس سے لاعلم ہوں یا اس کے بارے میں جانتے ہوں۔ اس کے علاوہ پاکستانی روپوں میں بچت کرنیوالوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں جن رئیسوں نے بینکوں میں ڈالر کی صورت میں رقم جمع کرارکھی ہے، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ بیٹھے بٹھائے ان کی رقم کی پاکستانی روپے میں مالیت کو پر لگ جاتے ہیں جو فی الحال لگ چکے ہیں۔
غریب غربا کی شامت یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ وہ کمر کس رکھیں۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد پاکستان میں مہنگائی کی زبردست لہر آنے والی ہے۔مہنگائی کی اس لہر سے زیادہ تر غریب لوگ ہی متاثر ہوں گے۔امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافہ مہنگائی کی اس لہر کی وجہ بنے گا۔ معاشی ماہرین اور اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اچانک ریکارڈ اضافے سے کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوگا۔یہ اضافہ کیسے ہوگا ، یہ ہم آگے بیان کریں گے۔
ان سطور کی اشاعت تک آخری اطلاعات کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے مارکیٹ میں سراسیمگی پھیل گئی تھی اور سٹاک ایکسچینج کریش کرچکی تھی۔ڈالر کی قیمت اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے یعنی ایک ڈالر کی قیمت لگ بھگ107 پاکستانی روپوں کے برابر ہوچکی ہے۔معاشی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈالرکی قیمت میں اس ریکارڈ اضافے کے نتیجے میں مستقبل قریب میں پاکستانی روپیہ مزید دباؤ میں آئے گا۔ اس وقت ڈالر کی اوپن مارکیٹ میں قیمت لگ بھگ 107.5روپے ہے جبکہ انٹر بینک ریٹ 105.5 روپے ہے۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ڈالر جو کبھی پیسوں کے حساب سے اوپر جاتا تھا ، اس کی قیمت میں صرف چند ماہ کے دوران چھ سے سات روپے اضافہ سب کو حیران و پریشان کر گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے 5جون 2013 کو اقتدار سنبھالا تو اس وقت ڈالر کی قیمت سو روپے تھی لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت اوپر جاتی رہی اور اب اس وقت پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر قائم ہے۔ڈالر کی قدر میں اضافے کے حوالے سے کئی قسم کے نکتہ نظر پیش کیے جارہے ہیں۔کچھ کاخیال ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور اس کے لیے ڈالر کی قیمت میں اضافہ کرنے کا وعدہ کرلیا جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ روپیہ ''قیاس آرایؤں'' کی وجہ سے نیچے گیا۔
دوسری جانب وزارت خزانہ نے بھی روپے کی قدر میں کمی کی ذمہ داری قیاس آرائیوں پر عائد کی۔ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے میں ڈالر کی قیمت مستحکم ہوجائے گی کیونکہ حکومت نے مختلف پرائیویٹ بینکوں سے 625 ملین ڈالر قرضہ حاصل کرنے کے پروپوزل کو حتمی شکل دیدی ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جائے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف وجوہات کے باعث روپیہ بدستور دباؤ کا شکار رہے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے پاکستانی روپیہ بدستور دباؤ میں رہے گا۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت شدت کے ساتھ ڈالر کی ''خدمت'' میں لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔انہوں نے مطلع کیا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کہا گیا ہے کہ وہ انٹربینک مارکیٹ سے غیرملکی زرمبادلہ خریدے جبکہ سٹیٹ بینک پہلے ہی گذشتہ دو ماہ جولائی اور اگست کے دوران 125 ملین ڈالر خرید چکا ہے۔
ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ مارکیٹ سے محدود پیمانے پر ڈالرکی خریداری سے ایکسچینج مارکیٹ عدم استحکام کا شکار ہوگئی ہے اور روپیہ اپنی قدر کھو بیٹھا ہے۔ان کے بقول اب پرائیویٹ کمرشل بینکوں سے سوا چھ سو ملین ڈالر کی خریداری کی تجویز سے مارکیٹ بے چینی میں مبتلا ہے۔
متعدد معاشی ماہرین کاکہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بینکوں سے سوا چھ سو ملین ڈالر خریدنے سے پاکستانی روپے کو عارضی طورپر تو ریلیف ملے گا تاہم خلا بہت زیادہ ہے اور بڑے ان فلو سے ہی پُر ہوسکتا ہے۔بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ حکومت کے آئی ایم ایف سے hidden agreement کا نتیجہ ہے۔اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں مثال کے طورپر ڈالر کے مقابلے میں سونے میں سرمایہ کاری اور حج سیزن وغیرہ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں سٹیٹ بنک نے اوپن مارکیٹ میں مداخلت کرکے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کیا تاکہ اس کی ڈیمانڈ میں کمی آئے تاہم اب سٹیٹ بنک خاموش تماشائی بن گیا ہے۔ان کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف نے سٹیٹ بنک کو اوپن مارکیٹ سے دور رہنے کے لیے کہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کو روکنے کے لیے کوئی مختصر مدتی حل موجود نہیں۔جب برآمدات کے مقابلے میں درآمدات بڑھیں گی تو روپیہ دباؤ میں رہے گا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ متبادل اقدامات کرکے درآمدات کو کنٹرول کیا جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ پیپلزپارٹی کی سابقہ حکومت پر ہر جانب سے تنقید کے تیر برسائے جاتے تھے اور آج بھی اسے بیڈ گورننس اور کرپشن کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن دلچسپ بات ہے کہ اسی پیپلزپارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے بھرپور دباؤ کے باوجود ڈالر کی قیمت بڑھانے سے انکار کردیا تھا۔
اس سلسلے میں حکومت کا موقف تھا کہ ایسا کرنے سے ملک کی پہلے سے بیمار معیشت مزید متاثر ہوگی۔اس کے علاوہ ادائیگیو ںمیں عدم توازن اور تجارتی خسارہ بھی ازخود بڑھ جائے گا۔اب موجودہ حکومت نے ڈالر کی قیمت میں جس طرح زبردست اضافہ کیا ہے، اس کے نتائج کیا ہوں گے، ہر قسم کی اشیاء کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ ہوگا۔امپورٹ بل کس طرح بڑھے گا، اس کا آنے والا وقت میں پتہ چلے گا۔
ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائیکیوں بڑھتی ہے؟
پاکستان کے غریب عوام کے لیے یہ بری خبر ہے کہ اب وہ مزید مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ پاکستان بے شمار اشیا ئے خورد نوش اور ان اشیاء کی پروڈکشن میں استعمال ہونے والی ضروری اشیاء بیرون ملک سے درآمد کرتا ہے ۔ یوں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد یہ اشیاء مزید مہنگے داموں ملیں گی لیکن پروڈیوسرز اور مینو فیکچررز کو اس سے شاید کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اپنے امپورٹ بل یا اپنی اشیاء کی تیاری پر بڑھنے والی لاگت کا بوجھ عوام کی جانب منتقل کردیں گے۔
مثال کے طور پر پاکستانی عوام اپنے ہر کھانے میں گھی یا کوکنگ آئل کا استعمال کرتے ہیں۔یہ گھی اور کوکنگ آئل پام آئل سے تیار ہوتا ہے جو بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔اب یہ پام آئل مزید مہنگا ملے گا جس کی وجہ سے مینوفیکچررز کو گھی اور خوردنی تیل کی قیمت میں اضافہ کرنا ہوگا جو صارفین یا اینڈ یوزر ادا کریں گے۔اس طرح ڈالر کی قیمت میں اضافے سے پٹرول کا درآمدی بل بھی بڑھ جائے گا۔پٹرول کی قیمت بڑھنے سے ہر پاکستانی کو پتہ ہے کہ کیا ہوتا ہے۔گاڑیوں کے کرائے بڑھ جائیں گے۔
اشیائے خورد ونوش اور دیگر چیزوں کی قیمتیں بھی اس بہانے بڑھائی جائیں گی کہ ان کو گاڑیوں کے ذریعے ہی پورے ملک کو سپلائی کیا جاتا ہے۔بجلی بھی مہنگی ہوجائے گی کیونکہ یہ بھی درآمدی ایندھن سے تیار ہوتی ہے۔موٹرسائیکل کی ٹینکی مڈل کلاس کے خون پسینے کی مزید کمائی اپنے پیٹ میں بھرنے لگے گی۔زرعی ادویات اور کھادیں بھی بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں چنانچہ جب یہ اشیاء مہنگی ملیں گی تو کاشتکار اپنی فصل کی قیمت بڑھادے گا۔پھل بھی مزید مہنگے ہوجائیں گے ۔
اس طرح خاکم بدہن اگر پاکستان میں گندم کی فصل اچھی نہیں ہوتی اور گندم بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑتی ہے تو ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے یہ بھی مہنگی ملے گی۔اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گندم کی قیمت میں اضافہ کرتی ہے یا عوام کے لیے سبسڈی دیتی ہے۔
اس طرح کارخانہ دار اور فیکٹری مالکان اپنی فیکٹریوں کارخانوں کے لیے جو مشینری و پرزے وغیرہ درآمد کرتے ہیں ، وہ بھی مہنگے ملیں گے اور یوں ان فیکٹریوں سے تیار ہونے والی اشیاء کی قیمت بڑھا کر اس خسارے کو پورا کیا جائے گا اور صارفین کو ان فیکٹریوں کی اشیا مہنگی ملیں گے۔آسان الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ امپورٹ کی جانے والی ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ان کو تو یقیناً بہت فائدہ ہوگا جن کی تجوریوں میں ڈالراور دیگر غیرملکی کرنسیاں بھری ہوئی ہیں لیکن مہنگائی کی چکی عوام کا مقدر بنے گی۔