تنقید برائے تنقید
ہم من حیث القوم تنقید برائے تنقید کے زیادہ شائق نظر آتے ہیں۔
تنقید برائے تنقید کرنا اورکیڑے نکالنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے یہ آپ کو بہت سارے مداح بھی عطا کردیتا ہے اور ایک تنقید نگار اوروں کی بہ نسبت ذرا تیزی سے مقبولیت کی منزلیں طے کرتا نظر آتا ہے۔ تنقید اگر برائے تنقید ہو تو کسی گمراہی اور فکری بانجھ پن سے کم نہیں اور اگر تنقید برائے اصلاح ہو تو ایک نعمت اور رحمت کی مانند ہوا کرتی ہے۔
ہم من حیث القوم تنقید برائے تنقید کے زیادہ شائق نظر آتے ہیں اور کہیں بھی، کسی پر بھی،کسی طرح بھی اورکسی وقت بھی تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ یہ ہمارے قومی مشغلوں میں سے ایک پسندیدہ مشغلہ بھی تو ہے نا۔ ہماری تنقید چاہے وہ ادبی اور دانشورانہ سطح کی ہو، فکری فلسفیانہ و عالمانہ سطح کی ہویا پھر عوامی اور انفرادی سطح کی ہو زیادہ تر بلکہ تقریبا تنقید برائے تنقید ہی ہوتی ہے۔ ہمیں بس کسی بھی بات ،کام ، نظریئے، شخص یا ادارے کے بخیئے ادھیڑنے میں اور طعن و تشنیع کے نشتر چلانے میں کچھ زیادہ ہی لطف آتا ہے اور ہم اپنا ذاتی غبار، تناؤ اور گھٹن کو اس طرح نکالنے میں خوشی محسوس کیا کرتے ہیں، لیکن تنقید برائے اصلاح بہت مشکل کام ہے۔
وہ جو کسی مصور کا قصہ ہے نا کہ جس نے اپنے شاگردِ عزیزکو عرصے تک تربیت کے بعد کاملیت کی سند دی اور کہا کہ ایک تصویر بنا کر شہرکے چوک پر رکھ دو اور ایک چٹ لگادوکہ دعوت عام ہے کہ اس تصویر میں کوئی خرابی ہو تو وہاں لال نشان لگا دیں۔
اس نے ایسا ہی کیا اور اگلے روز جب وہ اپنی تصویر اٹھانے گیا تو یہ دیکھ کر تو اس کا دل ہی بیٹھ گیا کہ تصویر لال نشانات سے بھری ہوئی تھی،تصویر اٹھا کر روہانسا استاد کے پاس واپس ہوا اور تصویر شکوہ کناں انداز میں ان کے سامنے رکھ دی وہ مسکرائے اور کہا کہ ان نشانات کو مٹا کر تصویر دوبارہ چوک پر رکھ دو اور اب کے بار چٹ لگا دوکہ کوئی خرابی نظر آئے تو براہ کرم اصلاح کردیں۔اگلے روز جب شاگرد چوک سے اپنی تصویر اٹھانے گیا تو وہ بالکل بے داغ اور نشانات و اصلاحات سے پاک تھی۔ استاد کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ آخری سبق تھا تمھارا کہ تنقید تو ہر ایرا غیرا کرلیتا ہے لیکن اصلاح کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اس سے نہ گھبرانا۔
یہ ساری بالا تمہید وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورے اور اقوام متحدہ میں خطاب کے بارے میں ہونے والی تنقیدوں پر تنقید کرنے کے لیے بہ رضا و رغبت خظاب کے اگلے ہی روز لکھی جارہی ہے اور ان سطور کی اشاعت تک تو نہ جانے کتنے تنقید کے تیر اور بھی چل چکے ہوں گے جب کہ اب تک ایک ہی دن میں کافی پوسٹ مارٹم یار لوگوں نے کر ڈالا ہے۔
بلاشبہ یہ ایک بہترین ، متوازن اور عوامی وملی جذبات کا اظہار کرتی ہوئی فی البدیہہ تقریر تھی اور فن خطابت کی جانکاری رکھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ لکھی ہوئی تقریر کرنے سے کئی گنا زیادہ پر اثر فی البدیہہ تقریر ہوا کرتی ہے کہ وہ اندر کے جذبات کو براہ راست عیاں کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے وہی سب کچھ بڑی سادگی و پرکاری سے دلائل کے ساتھ کہہ دیا جو ہر مسلمان اور پاکستانی کے دلی جذبات ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
تو یہ واضح طور پر ایک دل سے نکلی پکار تھی اور اب ایک طرح سے حجت پوری کردی گئی ہے اور خاص طور پر کشمیر کے معاملے پر جس بربریت ، تکبر اور ظلم کا مظاہرہ انڈیا کر رہا ہے اس کے تمام تر نتائج وعواقب کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے اور اب گیند دنیا کی ٹھیکدار بنی ہوئی بڑی طاقتوں خاص طور پر برطانیہ جس کی اس معاملے میں خاص الخاص ذمے داری ہے کہ وہی تقسیم ہند کے اس نامکمل ایجنڈے کا بڑا ذمے دار اور امریکا بہادر کی بنتی ہے جو اپنے تئیں دنیا کا تھانے دار ہے اور بال اب ان کے کورٹ میں ہے۔
میں تبدیلی سرکار کا کوئی زیادہ مداح نہیں ہوں بس پچھلوں سے انھیں اس حوالے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کم ازکم بد نیت اور بے ایمان تو نہیں ہے لیکن عمران خان کی اس چھ سات روزہ مہم میں کی گئی محنت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی کہ بلاشبہ ستر سے زیادہ اپائنٹمنٹس ان چھ سات دنوں میں نپٹائے اور عالمی دنیا کو اسلامو فوبیا کے حوالے سے اور کشمیر کے حوالے سے انڈیا کی مکارانہ کوششوں کو خوب بے نقاب کرکے معاملے کی اصل تصویر اور حقیقت پیش کرنے کی بڑی بھرپورکوشش کی۔
اب آجائیں! دیسی سیاسی اور بزعم خود دانشورانہ تنقید نگاروں پر تو اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ کچھ اس قسم کی ہیں کہ فلاں بات مثلا سی پیک کا ذکر تو کیا ہی نہیں۔ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے سازگار ماحول بن جانے پر تو بات ہی نہیں کی، جو اپنے گھر کے مسئلے حل نہیں کرسکتا وہ دنیا کا مصالحت کنندہ کیا بنے گا، یہ بھی کرنا تھا ، وہ بھی کہنا تھا نا۔اور زیادہ تر یہ سب باتیں وہ کہہ رہے ہیں جنھیں یہ سب کہنے اور کرنے کے بھرپور مواقع ملے تھے لیکن ان معاملات پر وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بس مال پانی بنانے میں لگے رہے۔
تو تنقید سے کیا گھبرانا کہ وہ تو یہ سب کہتے ہی رہیں گے نا کہ ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں کسی کو دال دلیہ چلانا ہے تو کسی کو ابو کے ساتھ ساتھ مال بھی بچانا ہے اورکسی کو اپنی دانشوری کا رعب بھی جمانا ہے۔ ایک حکایت یاد آگئی کہ ایک اللہ کے ولی کی بیگم صاحبہ بہت تیز زبان تھیں اور ان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں کہ بڑی ولی اللہ بنے پھرتے ہو اور یہ اور وہ، ایک دن انھیں جلال آگیا گھر سے باہرگئے اور ہوا میں پروازکرنا شروع کر دی اور بار بار اپنے گھر کے صحن کے اوپر سے پرواز کرتے گزرے کہ زوجہ محترمہ نے بھی دیکھ لیا کہ کوئی اللہ کا بندہ ہوا میں پرواز کر رہا ہے مگر بلندی پر ہونے کی وجہ سے شکل نہ دیکھ پائیں خیر وہ بزرگ جب گھر آئے تو بیگم نے بڑے جوش سے بتایا کہ'' ارے آج تو اللہ کے کوئی ولی ہوا میں اڑ رہے تھے'' تو ان بزرگ نے فرمایا کہ'' اری نیک بخت! وہ میں ہی تو تھا۔'' فورا تیور بدل کر کہنے لگیں '' اچھا وہ تم تھے۔
جبھی کہوں کیوں اتنا ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے تمھیں تو اڑنا بھی نہ آیا'' تو تنقید کرنے والے تو ہر حال میں تنقیدکریں گے لیکن کام کرنے والے کبھی تنقید سے گھبراتے نہیں دیکھے گئے اور وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں بلکہ اس طرح کی بے جا تنقید تو ان کے جوش کو اورسَوا کرتی ہے اور حوصلوں کو اور مہمیزکیاکرتی ہے وہ اکبر الہ بادی نے سر سید کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا کہ '' ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے'' توکام کرنے والوں سے گزارش ہے کہ کام کرتے رہیں اور جان لیں کہ اب منزل بس قریب ہی ہے اور ظلم بربریت اور اسلام دشمنی کے ان اقدامات کا نتیجہ مودی سرکار بھگتے گی اور بڑا ہی برا بھگتے گی کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔
ہم من حیث القوم تنقید برائے تنقید کے زیادہ شائق نظر آتے ہیں اور کہیں بھی، کسی پر بھی،کسی طرح بھی اورکسی وقت بھی تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کیونکہ یہ ہمارے قومی مشغلوں میں سے ایک پسندیدہ مشغلہ بھی تو ہے نا۔ ہماری تنقید چاہے وہ ادبی اور دانشورانہ سطح کی ہو، فکری فلسفیانہ و عالمانہ سطح کی ہویا پھر عوامی اور انفرادی سطح کی ہو زیادہ تر بلکہ تقریبا تنقید برائے تنقید ہی ہوتی ہے۔ ہمیں بس کسی بھی بات ،کام ، نظریئے، شخص یا ادارے کے بخیئے ادھیڑنے میں اور طعن و تشنیع کے نشتر چلانے میں کچھ زیادہ ہی لطف آتا ہے اور ہم اپنا ذاتی غبار، تناؤ اور گھٹن کو اس طرح نکالنے میں خوشی محسوس کیا کرتے ہیں، لیکن تنقید برائے اصلاح بہت مشکل کام ہے۔
وہ جو کسی مصور کا قصہ ہے نا کہ جس نے اپنے شاگردِ عزیزکو عرصے تک تربیت کے بعد کاملیت کی سند دی اور کہا کہ ایک تصویر بنا کر شہرکے چوک پر رکھ دو اور ایک چٹ لگادوکہ دعوت عام ہے کہ اس تصویر میں کوئی خرابی ہو تو وہاں لال نشان لگا دیں۔
اس نے ایسا ہی کیا اور اگلے روز جب وہ اپنی تصویر اٹھانے گیا تو یہ دیکھ کر تو اس کا دل ہی بیٹھ گیا کہ تصویر لال نشانات سے بھری ہوئی تھی،تصویر اٹھا کر روہانسا استاد کے پاس واپس ہوا اور تصویر شکوہ کناں انداز میں ان کے سامنے رکھ دی وہ مسکرائے اور کہا کہ ان نشانات کو مٹا کر تصویر دوبارہ چوک پر رکھ دو اور اب کے بار چٹ لگا دوکہ کوئی خرابی نظر آئے تو براہ کرم اصلاح کردیں۔اگلے روز جب شاگرد چوک سے اپنی تصویر اٹھانے گیا تو وہ بالکل بے داغ اور نشانات و اصلاحات سے پاک تھی۔ استاد کو بتایا تو انھوں نے فرمایا کہ یہ آخری سبق تھا تمھارا کہ تنقید تو ہر ایرا غیرا کرلیتا ہے لیکن اصلاح کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اس سے نہ گھبرانا۔
یہ ساری بالا تمہید وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورے اور اقوام متحدہ میں خطاب کے بارے میں ہونے والی تنقیدوں پر تنقید کرنے کے لیے بہ رضا و رغبت خظاب کے اگلے ہی روز لکھی جارہی ہے اور ان سطور کی اشاعت تک تو نہ جانے کتنے تنقید کے تیر اور بھی چل چکے ہوں گے جب کہ اب تک ایک ہی دن میں کافی پوسٹ مارٹم یار لوگوں نے کر ڈالا ہے۔
بلاشبہ یہ ایک بہترین ، متوازن اور عوامی وملی جذبات کا اظہار کرتی ہوئی فی البدیہہ تقریر تھی اور فن خطابت کی جانکاری رکھنے والے بخوبی واقف ہیں کہ لکھی ہوئی تقریر کرنے سے کئی گنا زیادہ پر اثر فی البدیہہ تقریر ہوا کرتی ہے کہ وہ اندر کے جذبات کو براہ راست عیاں کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے وہی سب کچھ بڑی سادگی و پرکاری سے دلائل کے ساتھ کہہ دیا جو ہر مسلمان اور پاکستانی کے دلی جذبات ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
تو یہ واضح طور پر ایک دل سے نکلی پکار تھی اور اب ایک طرح سے حجت پوری کردی گئی ہے اور خاص طور پر کشمیر کے معاملے پر جس بربریت ، تکبر اور ظلم کا مظاہرہ انڈیا کر رہا ہے اس کے تمام تر نتائج وعواقب کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے اور اب گیند دنیا کی ٹھیکدار بنی ہوئی بڑی طاقتوں خاص طور پر برطانیہ جس کی اس معاملے میں خاص الخاص ذمے داری ہے کہ وہی تقسیم ہند کے اس نامکمل ایجنڈے کا بڑا ذمے دار اور امریکا بہادر کی بنتی ہے جو اپنے تئیں دنیا کا تھانے دار ہے اور بال اب ان کے کورٹ میں ہے۔
میں تبدیلی سرکار کا کوئی زیادہ مداح نہیں ہوں بس پچھلوں سے انھیں اس حوالے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کم ازکم بد نیت اور بے ایمان تو نہیں ہے لیکن عمران خان کی اس چھ سات روزہ مہم میں کی گئی محنت کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی کہ بلاشبہ ستر سے زیادہ اپائنٹمنٹس ان چھ سات دنوں میں نپٹائے اور عالمی دنیا کو اسلامو فوبیا کے حوالے سے اور کشمیر کے حوالے سے انڈیا کی مکارانہ کوششوں کو خوب بے نقاب کرکے معاملے کی اصل تصویر اور حقیقت پیش کرنے کی بڑی بھرپورکوشش کی۔
اب آجائیں! دیسی سیاسی اور بزعم خود دانشورانہ تنقید نگاروں پر تو اب تک جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ کچھ اس قسم کی ہیں کہ فلاں بات مثلا سی پیک کا ذکر تو کیا ہی نہیں۔ پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے سازگار ماحول بن جانے پر تو بات ہی نہیں کی، جو اپنے گھر کے مسئلے حل نہیں کرسکتا وہ دنیا کا مصالحت کنندہ کیا بنے گا، یہ بھی کرنا تھا ، وہ بھی کہنا تھا نا۔اور زیادہ تر یہ سب باتیں وہ کہہ رہے ہیں جنھیں یہ سب کہنے اور کرنے کے بھرپور مواقع ملے تھے لیکن ان معاملات پر وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بس مال پانی بنانے میں لگے رہے۔
تو تنقید سے کیا گھبرانا کہ وہ تو یہ سب کہتے ہی رہیں گے نا کہ ان کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں کسی کو دال دلیہ چلانا ہے تو کسی کو ابو کے ساتھ ساتھ مال بھی بچانا ہے اورکسی کو اپنی دانشوری کا رعب بھی جمانا ہے۔ ایک حکایت یاد آگئی کہ ایک اللہ کے ولی کی بیگم صاحبہ بہت تیز زبان تھیں اور ان پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں کہ بڑی ولی اللہ بنے پھرتے ہو اور یہ اور وہ، ایک دن انھیں جلال آگیا گھر سے باہرگئے اور ہوا میں پروازکرنا شروع کر دی اور بار بار اپنے گھر کے صحن کے اوپر سے پرواز کرتے گزرے کہ زوجہ محترمہ نے بھی دیکھ لیا کہ کوئی اللہ کا بندہ ہوا میں پرواز کر رہا ہے مگر بلندی پر ہونے کی وجہ سے شکل نہ دیکھ پائیں خیر وہ بزرگ جب گھر آئے تو بیگم نے بڑے جوش سے بتایا کہ'' ارے آج تو اللہ کے کوئی ولی ہوا میں اڑ رہے تھے'' تو ان بزرگ نے فرمایا کہ'' اری نیک بخت! وہ میں ہی تو تھا۔'' فورا تیور بدل کر کہنے لگیں '' اچھا وہ تم تھے۔
جبھی کہوں کیوں اتنا ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے تمھیں تو اڑنا بھی نہ آیا'' تو تنقید کرنے والے تو ہر حال میں تنقیدکریں گے لیکن کام کرنے والے کبھی تنقید سے گھبراتے نہیں دیکھے گئے اور وہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں بلکہ اس طرح کی بے جا تنقید تو ان کے جوش کو اورسَوا کرتی ہے اور حوصلوں کو اور مہمیزکیاکرتی ہے وہ اکبر الہ بادی نے سر سید کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا کہ '' ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے'' توکام کرنے والوں سے گزارش ہے کہ کام کرتے رہیں اور جان لیں کہ اب منزل بس قریب ہی ہے اور ظلم بربریت اور اسلام دشمنی کے ان اقدامات کا نتیجہ مودی سرکار بھگتے گی اور بڑا ہی برا بھگتے گی کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔