بیٹیوں پر روک ٹوک کے بجائے والدین انہیں ساتھ لے کر چلیں شاکرہ فرحان

شانہ بہ شانہ جدوجہد کی ایک روشن مثال شاکرہ فرحان کا احوال

شانہ بہ شانہ جدوجہد کی ایک روشن مثال شاکرہ فرحان کا احوال۔ فوٹو: فائل

میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے ایسے ہی تو نہیں کہا جاتا۔۔۔ اگر خدانخواستہ دونوں میں سے کوئی ایک پہیا بھی متاثر ہو تو سفر پر اثر پڑے بغیر نہیں رہتا۔

یہ صرف دو افراد کا معاملہ نہیں، بلکہ ان سے جڑی چند نازک کلیوں کے مستقبل کا بھی سوال ہوتا ہے، جو اپنی آیندہ زندگی کے لیے آج بہترین نگہداشت چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر نئے خاندان کی بنیاد رکھنے والے دو افراد جب ایسے کسی عدم توازن کی سی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں، تو دوسرا فریق اس کے خلوص کا ادراک کیے بغیر شکوے شکایات کا سلسلہ دراز کرنے لگتا ہے۔ بہ جائے اس کا ہاتھ تھامنے کے اور اس کی ہمت بندھانے کے، کچھ تلخیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اس کے ساتھ بہت سی جگہوں پر ایسے معاملات بھی ہیں کہ جہاں میاں بیوی میں سے کسی ایک نے دوسرے کے خلوص کا احساس کر کے اپنا کردار ادا کیا، تو اسے سامنے سے ایسی پذیرائی نہیں ملی کہ جو اس کا بنیادی حق تھا، بلکہ الٹا یہ عمل بھی زندگی میں مزید بے سکونی کا باعث بن گیا۔

اس لیے کام یاب اور خوش گوار زندگی کے لیے مرد اور عورت، دونوں کا اپنا کردار بہ حسن وخوبی نبھانا ناگزیر سمجھا جاتا ہے، اور جب زندگی کے کسی موڑ، ایک شریک حیات یہ محسوس کرے کہ اس کا ہم سفر اپنے خلوص، محنت اور جستجو کے باوجود کچھ مشکلات سے دوچار ہے۔۔۔ بوجوہ وہ اپنے معاشی استحکام کے لیے فکر مند ہے، تو وہ نہ صرف اس کے ساتھ ہم قدم ہو جائے، بلکہ شانے سے شانہ ملا کر ایسا کردار ادا کرے کہ کسی کام یاب خاندان کی مثال دینے والے عَش عَش کر اٹھیں۔۔۔ ایسی ہی ایک باہمت مثال شاکرہ فرحان کی ہے، جنہوں نے اپنے شوہر کی پیشہ ورانہ زندگی میں کچھ اتار چڑھائو دیکھے تو انہوں نے اپنے سرتاج کی محض دل جوئی ہی نہیں کی، بلکہ اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ خود کمر کس کے میدان عمل میں آنے کا فیصلہ کیا۔

شاکرہ فرحان کو یوں تو کھانا پکانے کے شوق بچپن سے ہی تھا، پھر ایسا سسرال میسر آیا، جہاں ان کی ساس بھی اس میدان میں کمال رکھتی تھیں۔ ملنے جلنے والوں کے لیے خاطر تواضع اور باقاعدہ طعام کے انتظام کے ساتھ انہوںنے بچوں کی شادی کی تقاریب کے لیے بھی کھانے اپنے ہاتھ سے تیار کیے۔ شاکرا برملا اس کا اعتراف کرتی ہیں کہ سسرال کے اسی ماحول کی وجہ سے ان کے کھانے پکانے کی رغبت بھی چمک اٹھی۔ اس دوران خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ان کی شادی کے پونے 2 سال کے عرصے میں ہی ساس صاحبہ داغ مفارقت دے گئیں اور باورچی خانے کی بھاری ذمہ داری شاکرہ کے کاندھوں پر آگئی، جسے انہوں نے بھرپور طریقے سے نبھایا۔ ساس کی صحبت میں انہوں نے صرف لذت اور معیار کے ہی گُر نہ سیکھے تھے، بلکہ مہمانوں کی تعداد کے حساب سے کھانے کی مقدار کا تعین کرنا بھی بہ خوبی جان لیا تھا۔ ساتھ ہی مختلف پکوانوں کی کلاسیں لے کراپنی مہارت میں اور بھی اضافہ کر لیا تھا۔ اس دوران اساتذہ اس مہارت سے فایدہ اٹھانے کے لیے تحریک دیتے رہے، مگر گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ یہ اقدام خاصا مشکل تھا، بالآخر انہوںنے ہمت پکڑی اور اس میدان میں کود گئیں۔ حلقہ احباب کے لیے اس کام کے آغاز کے بعد بتدریج اسے پھیلانا شروع کیا۔

خواتین کے پیشہ ورانہ امور کے تعلق سے بعض اوقات ہمارے ہاں گھر بیٹھے معاشی جدوجہد کرنے والی خواتین کو کچھ کم تر سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے بہتر سے بہتر معیار زندگی کے لیے سرگرم شاکرہ کا کہنا ہے کہ گھر میں بیٹھ کر کام کرنے میں آخر کیا مضائقہ ہے۔ جو عورتیں گھر سے نکل کر کام کرتی ہیں، مقصد تو ان کا بھی حصول معاش ہی ہوتا ہے۔ میں بھی اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے مصروف ہوں، اللہ مجھے اپنے مقصد میں کام یاب کرے۔ جہاں تک بات ہے لوگوں کی باتوں کی تو میں نے اپنی استقامت اور بالخصوص اپنے شوہر کی حوصلہ افزائی سے ایسی باتوں کا مقابلہ کیا۔ جب آپ ان باتوں کی پروا کیے بغیر آگے بڑھتے ہیں تو پھر باتیں کرنے والے بھی آپ کی کام یابی کے معترف بھی ہو جاتے ہیں۔ میں بھی پہلے ایک خاتون خانہ ہوں۔ گھرداری، بچے اور یہ کام بہ یک وقت سنبھالنا ایک مشکل امر ہے، اس لیے کسی عورت کے لیے اپنی مضبوطی کے بعد گھر والوں کی مدد بہت ضروری ہوتی ہے۔

شاکرہ بہ خوبی جانتی ہیں، کہ بہت سی کام یاب چیزیں بھی وقت کی خراب ترتیب و تنظیم کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ان کے معمولات لگ بھگ 12 گھنٹے پر محیط ہیں۔ درمیان میں بڑے صاحبزادے کے اسکول سے آنے کے بعد کچھ وقت انہیں دیتی ہیں۔ بعض اوقات فجر کے بعد سے ہی مصروف ہونا پڑتا ہے۔ شاکرہ کہتی ہیں کہ میں کام سے کبھی نہیں بھاگتی۔ میں جتنی محنت کر سکتی ہوں، اپنے اس کام کے لیے کر رہی ہوں۔

ٹی وی میں دیکھ کر بنائے جانے والے فرائیڈ سینڈوچ، شاکرہ کی زندگی کی پہلی ڈش تھی، جس کی بے انتہا خوشی تھی۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔ کھانا پکانا سیکھا تو انہیں نہاری بہت مشکل لگی۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ اس میں لال کے بہ جائے سفید آٹا ڈالا جائے تو اس کی رنگت پر فرق پڑتا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے مشکل تجربے کا ذکر کرتے ہوئے شاکرہ بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ 300 افراد کے لیے کھانا تیار کرنے کے دوران گیس کی کمی نے ساری محنت دائو پر لگا دی تھی، تاہم اللہ نے مدد کی اور بعد میں ان کے اس کھانے کی بھی تعریف کی گئی۔ اس تجربے سے انہوں نے کسی بھی ہنگامی صورت حال کے لیے ہمہ وقت چوکنا رہنے کا سبق لیا۔ اسی طرح ایک بار آرڈر کا فون سنتے ہوئے ہنڈیا جلنے کے واقعے نے بھی انہیں خاصا پریشان کیا۔ گھریلو ذمہ داریوں کے باعث ابھی تک زیادہ سے زیادہ 300 افراد کا ہی کھانا تیار کیا ہے۔ کھانا پکوانے والوں کو اندازہ نہیں ہوتا کہ مہمانوں کی تعداد اور کھانوں کی نوعیت کے اعتبار سے کھانے کی کتنی مقدار کافی رہے گی، شاکرہ ایسے لوگوں کی مشکل حل کرنے میں بھی ملکہ رکھتی ہیں۔ ساتھ ہی صارفین کی شکایات بھی خندہ پیشانی سے قبول کر کے اس کے ازالے کی کوشش کرتی ہیں۔

شاکرہ کا کہنا ہے کہ پکانے والا کبھی اپنے کھانے کے معیار پر قانع نہیں ہوتا، وہ بہتر سے بہتر نتائج چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے کھانے کی نمک مرچ کبھی خود نہیں چکھی، پھر انہیں یہ اعتماد بھی ہے کہ ان کے اجزا بالکل نپے تلے ہیں۔ انہیں انواع اقسام کے دیسی، ولایتی اور روایتی ہر طرح کے کھانے پکانے میں مہارت حاصل ہے۔ ان کی اپنی اختراع ''جیلی پینو بریڈ'' ہے جو خاصی پسند کی گئی۔ شاکرہ اپنے کھانوں میں کم مسالے استعمال کرنے کی قائل ہیں۔ ان کے خاص پکوان میں چکن پائی، کیٹر پلربریڈ، کورنیٹو وغیرہ زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ ان کا دعوا ہے کہ ان کے تیار کردہ کیک کا ایک ہفتے بعد بھی تازہ پن پوری طرح برقرار رہتا ہے۔ کھانے میں انہیں شروع سے پیزا بہت مرغوب ہے۔ حال ہی میں کیک کی نت نئی تراکیب سے بھی بہت متاثر ہوئیں۔ کیک کی کچھ اقسام نہایت نزاکت سے تیار کرنا پڑتی ہیں، کیوں کہ کراچی کی پر نم آب وہوا میں اس کی تیاری کے لیے ائیرکنڈیشنڈ کمرہ ضروری ہے۔ فوری طور پر دیے جانے والے آرڈر کے بھی نرخ عام ہی رکھے ہیں۔ سب سے جلد بریانی 45 منٹ میں تیار کر لیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شوربے والے کھانوں کا پہلے معلوم چلنا بہتر رہتا ہے، کیوں کہ پاکستانی کھانوں کے اجزا ملحوظ رکھنا آسان نہیں۔ کئی بار فرصت نہ ہونے کے باعث لوگوں کو منع بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت گھر داری کے ساتھ کیٹرنگ کے کام پر ہی پوری طرح مرکوز ہیں۔ مستقبل کے لیے ایک کیفے کا منصوبہ رکھتی ہیں۔


شاکرہ کا کہنا ہے کہ جو بھی لڑکیاں کام کرنا چاہتی ہیں، ان کے والدین کو چاہیے کہ وہ ان پر روک ٹوک لگانے کے بہ جائے، انہیں ساتھ ساتھ لے کر چلیں۔ اپنی حدود بے شک ضرور رکھیں، لیکن ان بچیوں کا ساتھ دیں۔ اپنی کام یابی کا سہرا دوسروں کے سر رکھتے ہوئے شاکرہ جہاں اہل خانہ اور اپنی استاد شیریں انور کی معترف ہیں وہیں گھر میں کام کرنے والے خادمین کی محنت اور ساتھ کو بھی کھل کر سراہتی ہیں، جو ان کی مصروفیات غیر معمولی ہونے کی صورت میں ان کے گھر کے دیگر کاموں کے ساتھ گھر کا کھانا بھی بناتے ہیں۔

سوانحی خاکہ

شاکرہ فرحان یکم جنوری 1981ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ پانچ بہنوں اور ایک بھائی میں ان کا نمبر چوتھا ہے۔ دو بہنیں ملک سے باہر ہیں، جن میں سے ایک ڈاکٹر ہیں۔ شاکرہ نے پریمیر کالج ناظم آباد سے بی کام کیا۔ اس کے بعد تقریباً پانچ برس اسکول میں تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ گھر میں کھانے کے ذایقے کے ساتھ اس کی غذائیت پر بھی خاص طور پر دھیان دیا جاتا تھا۔ اس ماحول نے ان کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کیا۔ گھر میں ابو کھانے کی کتابیں لاتے، جس میں دیکھ کر کھانے تیار کرتیں۔ شاعری میں پروین شاکر اور احمد فراز کو پڑھا۔ شادی کے بعد گھر، بچے اور اس کام کی مصروفیت کی وجہ سے مطالعے کی فرصت نہیں ملتی۔ دو بیٹوں سات سالہ واعظ اور ڈھائی سالہ زیان کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔ بڑا بیٹا...زیادہ حساس ہے، جسے بھرپور توجہ دینا پڑتی ہے۔ فرصت کے لمحات میںگھومنا پھرنا اور لوگوں سے ملنا پسند ہے۔ آج کل کی خبروں کی آگہی سے کتراتی ہیں۔ مسقبل میں انگریزی میں ایم اے کرنے کی خواہش ہے۔

سپنے سچ کرنے کے لیے۔۔۔!

سسرال کی دہلیز پر قدم رکھنے والی ہر لڑکی کی آنکھوںمیں اپنی آنے والی زندگی کے لیے ڈھیروں سپنے سجے ہوتے ہیں، لیکن اکثر ان سپنوں کے سچ ہونے کے بیچ بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات حائل ہو جاتی ہیں۔ جس پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لڑکی کے شکوے بڑھتے جاتے ہیں۔ ایسی بہت سی لڑکیاں یہ کہتی نظر آتی ہیں کہ میں تو اس گھر میں اتنے ارمان لے کر آئی تھی، مگر میری ایک خواہش بھی اس نئی زندگی میں آسودہ نہ ہو سکی۔ اس حوالے سے جب شاکرہ سے دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ''لڑکیاں اپنی نئی زندگی کے سپنے سچ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بھی بروئے کار لائیں۔'' عام خواتین کے لیے شاکرہ کا پیغام ہے کہ کوئی کام مشکل نہیں، بس عزم وہمت سے اس کام کی داغ بیل ڈالنی چاہیے۔ پھر آہستہ آہستہ سب چیزیں آسان ہوتی چلی جاتی ہیں۔



نصف بہتر کا ساتھ

اپنی جدوجہد سے اپنے سماجی منصب اور بہتر زندگی کے لیے کمربستہ شاکرہ نے صرف فکر کرنے کے بہ جائے اپنی محنت سے معاش کے سمندر میں کام یابی سے چبو چلانے شروع کیے، تو ان کے شوہر فرحان صدیقی نے بھی ان کا ساتھ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور حقیقی معنوں میں قدر دانی کی۔ اب شاکرہ باورچی خانے میں ہوتی ہیں، تو گھر سے باہر کے تمام معاملات ان کے شوہر دیکھتے ہیں۔ آرڈر لانے، لے جانے سے حساب کتاب اور اشیائے خورونوش لانے کے تمام امور ان کے سپرد ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل فون اور دیگر برقی آلات کے اپنے چھوٹے سے کام کو دیکھنے کے ساتھ وہ شاکرہ کی مصروفیت میں بچوں کو بھی سنبھالتے ہیں۔ کبھی باورچی خانے میں ان کی مدد کی ضرورت پڑ جائے تو بھی کبھی ہاتھ بٹانے میں پیچھے نہیں رہتے۔
Load Next Story