میں ہوں ڈان
پاکستان میں اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ افیم (Opium) پیدا کی جاتی ہے جس سے ہیروئن بنتی ہے۔ یو این آفس آف ڈرگس اینڈ...
پاکستان میں اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ افیم (Opium) پیدا کی جاتی ہے جس سے ہیروئن بنتی ہے۔ یو این آفس آف ڈرگس اینڈ کرائمز کے مطابق پاکستان میں اتنی وافر مقدار میں افیم پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ پاکستان افغانستان کا 2430 کلومیٹر لمبا بارڈر ہے جہاں بیشتر مقام پر کسی بھی قسم کے قانون کی پاسداری نہیں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان بارڈرز کے آس پاس افیم کے کم از کم ہزار کھیت ہیں اور ہر کھیت میں ساٹھ ہزار سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار پودے لگے ہیں۔
دنیا بھر کی ساری توجہ ان ڈرگس کی پروڈکشن اور پھیلائو روکنے پر ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ہر دوسرے ہفتے کوئی نہ کوئی ایسی خبر ضرور ملتی ہے جس میں یا تو کوئی حاملہ خاتون چالیس پینتالیس پونڈ ہیروئن لے جاتی پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر پکڑی گئی یا پھر یو کے میں کوئی پاکستانی لڑکوں کا گروپ ''رائل میل'' کے ذریعے اسمگلنگ کرتا ہوا پکڑا گیا، پچھلے 35 برسوں سے ہیروئن کی پروڈکشن ختم کرنے کی ساری ہی کوششیں ناکام ہوئی۔ ایک رپورٹ کیمطابق صرف پاکستان میں ہی ہر سال بیس ٹن ہیروئن استعمال کی جاتی ہے۔
آپ نے یقیناً کمپیوٹر وائرس کے بارے میں سنا ہوگا۔ وائرس ایسے کمپیوٹر پروگرام کو کہتے ہیں جو کسی کمپیوٹر کو خراب کردیتا ہے یا ڈیٹا چرا کر وائرس ڈالنے والے شخص کو بھیج دیتا ہے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پہلے بڑے لیول کا پی سی وائرس 1986 میں لاہور میں رہنے والے فاروق علوی نامی لڑکے نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر بنایا تھا جس کے بعد پاکستان ہمیشہ وائرس اور ہیکنگ میں سب سے آگے رہا ہے، انڈیا، ایران اور پاکستان دنیا میں وہ ملک ہیں جہاں سب سے زیادہ ہیکنگ کی جاتی ہے۔
انٹرنیشنل اینٹی پائریسی آرگنائزیشن کیمطابق پاکستان ان ٹاپ فائیو ملکوں میں سے ہے جہاں سب سے زیادہ پائریسی ہوتی ہے۔ مووی، ڈی وی ڈیز، گانے اور سافٹ ویئر ہر چیز پاکستان میں پائریسی کا شکار ہے۔ پچھلے پچیس سال سے پاکستان دنیا کا ایک بڑا حب رہا ہے، جہاں سے پائریسی کی ویڈیو، کیسٹس، سی ڈیز دنیا بھر میں بھیجی جاتی ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں یہ کاروبار چار سو پرسنٹ بڑھ گیا۔ سی ڈیز دنیا بھر کے چھیالیس ملکوں میں باقاعدگی سے بھیجی جاتی ہیں۔
ہیومن ٹریفکنگ یعنی انسانوں کی اسمگلنگ میں بھی پاکستان پیچھے نہیں ہے، عورتوں، مردوں اور بچوںکو غیر قانونی طور سے مزدوری کرنے یا اور کاموں کے لیے بھیجنے کی فہرست میں پاکستان دنیا کے ٹاپ ٹین ملکوں میں آتا ہے۔ افغان مہاجرین، بڑھتی ہوئی غربت اور بڑے حفاظتی نظام کی وجہ سے ہیومن ٹریفکنگ کرنے والوں کی پاکستان میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان سے ساری دنیا میں لوگ اسمگل کیے جارہے ہیں مگر ان کی سب سے زیادہ مقدار مڈل ایسٹ میں ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان بیگانی شادی میں عبداﷲ دیوانہ کی طرح پایا گیا یعنی کرنی کسی کی بھرنی ہماری۔
جنرل (ر) پرویز مشرف اپنی بائیو گرافی میں لکھتے ہیں کہ نائن الیون کے سانحے کے اگلے دن ان کے پاس صدر بش کا فون آیا اور انھوں نے کہاکہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن، پرویز مشرف نے امریکا کو دشمن بنانے سے بہتر اپنی قوم کا دشمن بننا سمجھا اور قوم کو بلی کا بکرا بنا دیا۔ ہم وہ ملک بن گئے جہاں دہشت گرد بنتے ہیں اور آخیر میں بن لادن بھی وہیں سے مل گئے۔ بی بی سی کے سروے کے مطابق دنیا میں سب سے کم پسند کیے جانے والے ملکوں میں ایران کے بعد پاکستان ہے۔
کچھ دن پہلے پاکستان کے سینٹرل بینک کے سربراہ نے ''لیجسلیٹ'' کو بتایا ہے کہ ان کے حساب سے پاکستان سے عام لوگ روزانہ پچیس بلین ڈالرز بغیر ڈکلیئر کیے باہر لے جاتے ہیں۔ یعنی پاکستان بھر کے ایئرپورٹس سے روزانہ ڈالرز آفیشل حد سے کہیں زیادہ باہر جارہے ہیں۔
سینیٹر نسرین جلیل نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ سینٹرل بینک گورنر نے ڈالرز کی بڑھتی اسمگلنگ کو اہم وجہ بتایا ہے پاکستان کے روپے کی گرتی قدر کی۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ پوری کوشش کریںگے اس کو روکنے کی۔
ہنڈی یا حوالہ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں غیر قانونی ہے لیکن پاکستان میں اس کی روک کمزور ہے اور پاکستان کو اپنے روپے کی ویلیو بچانے کے لیے اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کو جلد از جلد نافذ کرنا ہوگا۔
کچھ دن پہلے ڈالر 110 روپے تک پہنچ گیا تھا جس کا قصور وار عام لوگوں کے پیسہ باہر جانے کو قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کا بھی ڈبہ گول ہے، پہلے سال یہاں صرف 70% لوگوں نے اپنی مرضی سے ٹیکس بھرا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان ان ملکوں میں اوپر ہے جہاں سب سے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب ہے۔ لوگ ٹیکس دینا پسند نہیں کرتے لیکن چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ کے دفاتر کام صحیح کریں جو اسی ٹیکس کے پیسے سے چلتے ہیں۔ پاکستان میں امیر ویسے ہی ٹیکس نہیں بھرتے اور غریب مہنگائی کی وجہ سے ٹیکس بھرنا کسی بھی طرح اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے۔ ہمارے یہاں ٹیکس کا یہ حال ہے کہ ایک اسٹڈی کے مطابق پاکستان میں ٹیکس لاء بنانے والوں میں ستر فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے سال ٹیکس سرے سے فائل ہی نہیں کیا۔
پچھلے دس پندرہ سال سے ہمارا رپورٹ کارڈ دنیا کے سامنے اتنا برا رہا ہے کہ چاہے ہم وہ ملک کیوں نہ ہوں جہاں اس وقت تعلیم سب سے زیادہ Rise پر ہے پھر بھی ہم دنیا کے سامنے گلوبل پیس کے لیے ولن ہی بنے رہیں گے۔
شاہ رخ خان کی فلم ''ڈان'' میں وہ جب بھی کسی محفل میں جاتے تو لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، آج پاکستان کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم دنیا کے لیے وہ ''ڈان'' ہوچکے ہیں جس سے بچ کر ہر ملک رہنا چاہتا ہے۔ پرائم منسٹر چین سے بزنس کی بات کرتے ہیں لیکن آج ہمارے چینی دوست اغوا کے ڈر سے پاکستان آنے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان آج آنے والا کل نہ ہو۔ یہ کمی ''آج'' ہی ختم ہوجائے اور ہمارا ''کل'' بہتر ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کو کل میں احساس دلا پائیں کہ ڈان بدل کر وہ ہیرو بن چکا ہے جو دنیا کو کئی فائدے پہنچا رہا ہے۔
دنیا بھر کی ساری توجہ ان ڈرگس کی پروڈکشن اور پھیلائو روکنے پر ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ہر دوسرے ہفتے کوئی نہ کوئی ایسی خبر ضرور ملتی ہے جس میں یا تو کوئی حاملہ خاتون چالیس پینتالیس پونڈ ہیروئن لے جاتی پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر پکڑی گئی یا پھر یو کے میں کوئی پاکستانی لڑکوں کا گروپ ''رائل میل'' کے ذریعے اسمگلنگ کرتا ہوا پکڑا گیا، پچھلے 35 برسوں سے ہیروئن کی پروڈکشن ختم کرنے کی ساری ہی کوششیں ناکام ہوئی۔ ایک رپورٹ کیمطابق صرف پاکستان میں ہی ہر سال بیس ٹن ہیروئن استعمال کی جاتی ہے۔
آپ نے یقیناً کمپیوٹر وائرس کے بارے میں سنا ہوگا۔ وائرس ایسے کمپیوٹر پروگرام کو کہتے ہیں جو کسی کمپیوٹر کو خراب کردیتا ہے یا ڈیٹا چرا کر وائرس ڈالنے والے شخص کو بھیج دیتا ہے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پہلے بڑے لیول کا پی سی وائرس 1986 میں لاہور میں رہنے والے فاروق علوی نامی لڑکے نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر بنایا تھا جس کے بعد پاکستان ہمیشہ وائرس اور ہیکنگ میں سب سے آگے رہا ہے، انڈیا، ایران اور پاکستان دنیا میں وہ ملک ہیں جہاں سب سے زیادہ ہیکنگ کی جاتی ہے۔
انٹرنیشنل اینٹی پائریسی آرگنائزیشن کیمطابق پاکستان ان ٹاپ فائیو ملکوں میں سے ہے جہاں سب سے زیادہ پائریسی ہوتی ہے۔ مووی، ڈی وی ڈیز، گانے اور سافٹ ویئر ہر چیز پاکستان میں پائریسی کا شکار ہے۔ پچھلے پچیس سال سے پاکستان دنیا کا ایک بڑا حب رہا ہے، جہاں سے پائریسی کی ویڈیو، کیسٹس، سی ڈیز دنیا بھر میں بھیجی جاتی ہیں۔ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں یہ کاروبار چار سو پرسنٹ بڑھ گیا۔ سی ڈیز دنیا بھر کے چھیالیس ملکوں میں باقاعدگی سے بھیجی جاتی ہیں۔
ہیومن ٹریفکنگ یعنی انسانوں کی اسمگلنگ میں بھی پاکستان پیچھے نہیں ہے، عورتوں، مردوں اور بچوںکو غیر قانونی طور سے مزدوری کرنے یا اور کاموں کے لیے بھیجنے کی فہرست میں پاکستان دنیا کے ٹاپ ٹین ملکوں میں آتا ہے۔ افغان مہاجرین، بڑھتی ہوئی غربت اور بڑے حفاظتی نظام کی وجہ سے ہیومن ٹریفکنگ کرنے والوں کی پاکستان میں دلچسپی بڑھتی جارہی ہے۔ پاکستان سے ساری دنیا میں لوگ اسمگل کیے جارہے ہیں مگر ان کی سب سے زیادہ مقدار مڈل ایسٹ میں ہے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان بیگانی شادی میں عبداﷲ دیوانہ کی طرح پایا گیا یعنی کرنی کسی کی بھرنی ہماری۔
جنرل (ر) پرویز مشرف اپنی بائیو گرافی میں لکھتے ہیں کہ نائن الیون کے سانحے کے اگلے دن ان کے پاس صدر بش کا فون آیا اور انھوں نے کہاکہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن، پرویز مشرف نے امریکا کو دشمن بنانے سے بہتر اپنی قوم کا دشمن بننا سمجھا اور قوم کو بلی کا بکرا بنا دیا۔ ہم وہ ملک بن گئے جہاں دہشت گرد بنتے ہیں اور آخیر میں بن لادن بھی وہیں سے مل گئے۔ بی بی سی کے سروے کے مطابق دنیا میں سب سے کم پسند کیے جانے والے ملکوں میں ایران کے بعد پاکستان ہے۔
کچھ دن پہلے پاکستان کے سینٹرل بینک کے سربراہ نے ''لیجسلیٹ'' کو بتایا ہے کہ ان کے حساب سے پاکستان سے عام لوگ روزانہ پچیس بلین ڈالرز بغیر ڈکلیئر کیے باہر لے جاتے ہیں۔ یعنی پاکستان بھر کے ایئرپورٹس سے روزانہ ڈالرز آفیشل حد سے کہیں زیادہ باہر جارہے ہیں۔
سینیٹر نسرین جلیل نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاہے کہ سینٹرل بینک گورنر نے ڈالرز کی بڑھتی اسمگلنگ کو اہم وجہ بتایا ہے پاکستان کے روپے کی گرتی قدر کی۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ پوری کوشش کریںگے اس کو روکنے کی۔
ہنڈی یا حوالہ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں غیر قانونی ہے لیکن پاکستان میں اس کی روک کمزور ہے اور پاکستان کو اپنے روپے کی ویلیو بچانے کے لیے اینٹی منی لانڈرنگ کے قانون کو جلد از جلد نافذ کرنا ہوگا۔
کچھ دن پہلے ڈالر 110 روپے تک پہنچ گیا تھا جس کا قصور وار عام لوگوں کے پیسہ باہر جانے کو قرار دیا جارہا ہے۔
پاکستان میں ٹیکس کا بھی ڈبہ گول ہے، پہلے سال یہاں صرف 70% لوگوں نے اپنی مرضی سے ٹیکس بھرا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مطابق پاکستان ان ملکوں میں اوپر ہے جہاں سب سے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب ہے۔ لوگ ٹیکس دینا پسند نہیں کرتے لیکن چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ کے دفاتر کام صحیح کریں جو اسی ٹیکس کے پیسے سے چلتے ہیں۔ پاکستان میں امیر ویسے ہی ٹیکس نہیں بھرتے اور غریب مہنگائی کی وجہ سے ٹیکس بھرنا کسی بھی طرح اپنی ذمے داری نہیں سمجھتے۔ ہمارے یہاں ٹیکس کا یہ حال ہے کہ ایک اسٹڈی کے مطابق پاکستان میں ٹیکس لاء بنانے والوں میں ستر فیصد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے پچھلے سال ٹیکس سرے سے فائل ہی نہیں کیا۔
پچھلے دس پندرہ سال سے ہمارا رپورٹ کارڈ دنیا کے سامنے اتنا برا رہا ہے کہ چاہے ہم وہ ملک کیوں نہ ہوں جہاں اس وقت تعلیم سب سے زیادہ Rise پر ہے پھر بھی ہم دنیا کے سامنے گلوبل پیس کے لیے ولن ہی بنے رہیں گے۔
شاہ رخ خان کی فلم ''ڈان'' میں وہ جب بھی کسی محفل میں جاتے تو لوگ ڈر کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں، آج پاکستان کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم دنیا کے لیے وہ ''ڈان'' ہوچکے ہیں جس سے بچ کر ہر ملک رہنا چاہتا ہے۔ پرائم منسٹر چین سے بزنس کی بات کرتے ہیں لیکن آج ہمارے چینی دوست اغوا کے ڈر سے پاکستان آنے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان آج آنے والا کل نہ ہو۔ یہ کمی ''آج'' ہی ختم ہوجائے اور ہمارا ''کل'' بہتر ہو۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کو کل میں احساس دلا پائیں کہ ڈان بدل کر وہ ہیرو بن چکا ہے جو دنیا کو کئی فائدے پہنچا رہا ہے۔