ریاض شاہد کی یاد میں
ریاض شاہد و علاؤ الدین کی ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہوگئیں توعلاؤ الدین نے ریاض شاہد کو فلمی دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا
ایک حقیقی ادیب کی یہ خوبی ہوتی ہے، یہ ضرور ہے کہ وہ ادیب نظریاتی بھی ہو، بصورت دیگر نظریات سے عاری لکھنے والا لکھاری محبوب کی دراز زلفوں، لب، رخسار، دراز قامت، پتلی کمرکا ذکر کرتا ہوا ہی نظر آتا ہے۔
البتہ اس کالم میں ہم ذکر کریں گے ایک نظریاتی ادیب، مصنف، فلمی ہدایت کار، اداکار، صحافی بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ایسی شخصیت کا جس کے اندر انسان دوستی کا ایک دریا موجزن تھا۔ ہم ذکر خیر کر رہے ہیں ریاض شاہد کا۔ ریاض شاہد فقط ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ریاض شاہد نام ہے ایک فکر و فلسفے کا، ریاض شاہد جن کا والدین کی جانب سے عطا کردہ نام تھا شیخ ریاض۔ گویا وہ شیخ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
مشاہدے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شیخ برادری فقط اپنی تجارتی سرگرمیوں کو ہی ترجیح دیتی ہے مگر ریاض شاہد چونکہ روایت شکن تھے اسی باعث انھوں نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو انھوں نے صحافت کا انتخاب کیا گو کہ ان کے خاندان کے دیگر افراد قالینوں کی تجارت کرتے تھے۔
ریاض شاہد نے جب صحافتی زندگی کا آغاز کیا تو پاک ٹی ہاؤس لاہور میں بھی اکثر تشریف لے جاتے جہاں ان کی ملاقات نامور ترقی پسند شاعر و ادیب فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ و دیگر سے ہوئی اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ترقی پسند نظریات سے دوری اختیار کرتے جب کہ عبد اللہ ملک جیسے معروف لکھاری سے بھی وہ متعارف ہوچکے تھے۔
چنانچہ ان کے ترقی پسند نظریات کی جھلک ان کی صحافتی دور کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے اپنی صحافتی زندگی کے دوران انھوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس ناول کا نام تھا ''ہزار داستان'' اسی دوران ان کی ملاقات نامور اداکار علاؤ الدین صاحب سے ہوئی۔ یہ بھی ایک کھلے ذہن کے انسان تھے۔
جب ریاض شاہد و علاؤ الدین کی ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہوگئیں تو علاؤ الدین نے ریاض شاہد کو فلمی دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انھیں ہدایت کار جعفر ملک سے متعارف کروادیا۔ چنانچہ جعفر ملک نے ریاض شاہد کو فلم بھروسہ کی کہانی لکھنے کی پیشکش کی۔ ریاض شاہد نے دو شرائط پر فلم بھروسہ کی کہانی لکھنے کی پیشکش قبول کرلی۔اولین میرا نام فلم کے ٹائٹل پر مصنف کے طور پر لکھا جائے گا نہ کہ منشی کے طور پر۔ دوم آپ کا ہیرو جو معاوضہ وصول کرے گا اس کے مساوی میرا معاوضہ ہوگا چنانچہ ہدایت کار جعفر ملک نے ان کی شرائط تسلیم کرلیں اور اس طرح ریاض شاہد نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ فلم ''بھروسہ'' بے حد کامیاب رہی۔ یوں ان کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے وا ہوگئے۔
جب کہ فلم ''نیند'' ان کی دوسری فلم تھی جس کی کہانی انھوں نے لکھی تھی۔ فلم ''نیند'' کی کہانی ان کے ناول ''ہزار داستان'' سے ماخوذ تھی۔ فلم ''نیند'' بھی کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس فلم میں اداکار اسلم پرویز نے ولن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ اس سے قبل وہ مسلسل ہیروکے کردار میں ہی آرہے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے فلم ''شہید'' لکھی جس کی ہدایات خلیل قیصر دے رہے تھے۔ یہ ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی میں مرکزی کردار مسرت نذیر نے ادا کیا جب کہ دیگر اداکاروں میں آغا طالش، علاؤ الدین و ساقی وغیرہ شامل تھے جب کہ روایتی ہیرو و ہیروئن کے طور پر اعجاز درانی و حسنہ بیگم تھے۔
ان سب اداکاروں نے اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔ فلم ''شہید'' کی کامیابی میں اس فلم کے نغمات کا بھی بڑا دخل تھا وہ نغمہ جوکہ نسیم بیگم نے گایا تھا کہ ''اک بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو'' جب کہ دوسرا نغمہ خان صاحب مہدی حسن نے گایا تھا جس کے بول تھے کہ ''نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے'' یہ نغمات دو عظیم انقلابی شعرا کرام کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ اول حبیب جالبؔ ، دوم ، فیض احمد فیضؔ۔ جب کہ فلم ''شہید'' کے دیگر تمام گانے بھی سپر ہٹ ہوئے اور آج بھی ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں جب کہ اب ایک ٹیم تشکیل پا چکی تھی جس میں فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ، خلیل قیصر و ریاض شاہد شریک تھے۔
اب ریاض شاہد نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے فلموں کی ہدایات بھی دینے کا فیصلہ کیا اور فلم ''سسرال'' کی ہدایت کاری کی بطور ہدایت کار ان کی اولین فلم کامیاب ثابت ہوئی اور وہ ایک کامیاب ترین ہدایت کار تسلیم کرلیے گئے جب کہ خلیل قیصر و ریاض شاہد نے ایک اور فلم ''فرنگی'' بنانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ ہدایت خلیل قیصر ومصنف ریاض شاہد کی فلم ''فرنگی'' بھی کامیاب ترین فلم تھی۔
اس فلم کے نغمات جنھوں نے اس فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فیض احمد فیضؔ و حبیب جالبؔ کے تحریر کردہ تھے۔ اس فلم میں سدھیر، بہار بیگم، شمیم آرا، علاؤ الدین، آغا طالش و ساقی کے ساتھ ساتھ نامور ولن مظہر شاہ جلوہ گر ہوئے تھے۔ ریاض شاہد کا فلمی سفر جاری تھا اور انھوں نے ''خاموش رہو، آگ کا دریا'' اور سعادت حسن منٹو کے افسانے ''جھمکے'' سے ماخوذ فلم ''بدنام'' لکھیں۔ ان فلموں کے ساتھ انھوں نے تین پنجابی فلمیں مسٹر اللہ دتہ ، ماجھے دی جٹی اور ''نظام لوہار'' بھی تحریر کیں۔
آخر الذکر فلم میں انھوں نے اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور مسعود رانا کی آواز میں ان پر ایک نغمہ عکس بند کیا گیا۔ اس نغمے کے بول تھے ''پیار کسے نال پاویں نہ کئی رنگاں وچ پھریں' بہروپی روپ دا دھوکھا کھاویں'' نہ خلیل قیصر و ریاض شاہد نے ایک فلم ''زرقا'' بنانے کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا تھا مگر افسوس کہ خلیل قیصر کو کسی نے اچانک قتل کر دیا۔
ریاض شاہد کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا مگر انھوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلم ''زرقا'' کی، گوکہ تھوڑی تاخیر سے ''زرقا'' پاکستان کی اولین ڈائمنڈ جوبلی فلم ثابت ہوئی اور ہماری فلم انڈسٹری میں ''زرقا'' کو کلاسک فلم کا درجہ حاصل ہے۔ فلم ''زرقا'' کے تمام شعبے لاجواب تھے۔ اس فلم کے لازوال گیت حبیب جالبؔ نے تحریرکیے تھے کل 32 فلمیں لکھنے والے ریاض شاہد نے ایک اور فلم کی منصوبہ بندی کا آغاز کیا اور یہ فلم ''امن'' تھی جو کہ بھارتی جارحیت و کشمیریوں کی جدوجہد پر مبنی تھی۔ ''امن'' فلم میں ریاض شاہد نے گویا عصر حاضر کے حالات و واقعات بیان کیے تھے۔
''امن'' فلم آج کے دور کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی باعث ہم نے اس مضمون کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ حقیقی ادیب کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ آٹھ سے دس فلموں کی ہدایات دینے والے ریاض شاہد کی زندگی میں پردہ سیمیں پر آنے والی فلم امن ، ''یہ امن'' کے نام سے پیش کی جانے والی آخری فلم ثابت ہوئی۔ ''یہ امن'' 1971ء میں ریلیز ہوئی جب کہ فلم ''بہشت'' کی تکمیل کے دوران ریاض شاہد کا خون کے کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال ہو گیا۔ فلم ''بہشت'' بعدازاں حسن طارق نے مکمل کی۔
اپنی 13 سالہ فلمی زندگی میں ریاض شاہد نے مختلف شعبوں میں 11 نگار ایوارڈ حاصل کیے جب کہ ان کی تحریرکردہ ایک فلم ''حیدر علی'' ان کی وفات کے چھ برس بعد ریلیز ہوئی۔ یکم اکتوبر 1972ء کو وفات پانے والے ریاض شاہد نے پروین الیگزینڈر عرف عام نیلو بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد نیلو بیگم کا نام عابدہ تجویز ہوا۔ ان کے تین بچے بیٹی زرقا، بیٹا سروش و اداکار شان ہیں۔ گوکہ یکم اکتوبر 2019ء کو ریاض شاہد کی 47 ویں برسی منائی گئی مگر ان کا ترقی پسند سامراج دشمن انقلابی نظریہ زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گا جب کہ سرمایہ داری و سامراجی نظام قائم ہے۔
البتہ اس کالم میں ہم ذکر کریں گے ایک نظریاتی ادیب، مصنف، فلمی ہدایت کار، اداکار، صحافی بلکہ اس سے بڑھ کر ایک ایسی شخصیت کا جس کے اندر انسان دوستی کا ایک دریا موجزن تھا۔ ہم ذکر خیر کر رہے ہیں ریاض شاہد کا۔ ریاض شاہد فقط ایک انسان کا نام نہیں بلکہ ریاض شاہد نام ہے ایک فکر و فلسفے کا، ریاض شاہد جن کا والدین کی جانب سے عطا کردہ نام تھا شیخ ریاض۔ گویا وہ شیخ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
مشاہدے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ شیخ برادری فقط اپنی تجارتی سرگرمیوں کو ہی ترجیح دیتی ہے مگر ریاض شاہد چونکہ روایت شکن تھے اسی باعث انھوں نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا تو انھوں نے صحافت کا انتخاب کیا گو کہ ان کے خاندان کے دیگر افراد قالینوں کی تجارت کرتے تھے۔
ریاض شاہد نے جب صحافتی زندگی کا آغاز کیا تو پاک ٹی ہاؤس لاہور میں بھی اکثر تشریف لے جاتے جہاں ان کی ملاقات نامور ترقی پسند شاعر و ادیب فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ و دیگر سے ہوئی اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ترقی پسند نظریات سے دوری اختیار کرتے جب کہ عبد اللہ ملک جیسے معروف لکھاری سے بھی وہ متعارف ہوچکے تھے۔
چنانچہ ان کے ترقی پسند نظریات کی جھلک ان کی صحافتی دور کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے اپنی صحافتی زندگی کے دوران انھوں نے ایک ناول بھی تحریر کیا۔ اس ناول کا نام تھا ''ہزار داستان'' اسی دوران ان کی ملاقات نامور اداکار علاؤ الدین صاحب سے ہوئی۔ یہ بھی ایک کھلے ذہن کے انسان تھے۔
جب ریاض شاہد و علاؤ الدین کی ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہوگئیں تو علاؤ الدین نے ریاض شاہد کو فلمی دنیا میں لانے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلے میں انھیں ہدایت کار جعفر ملک سے متعارف کروادیا۔ چنانچہ جعفر ملک نے ریاض شاہد کو فلم بھروسہ کی کہانی لکھنے کی پیشکش کی۔ ریاض شاہد نے دو شرائط پر فلم بھروسہ کی کہانی لکھنے کی پیشکش قبول کرلی۔اولین میرا نام فلم کے ٹائٹل پر مصنف کے طور پر لکھا جائے گا نہ کہ منشی کے طور پر۔ دوم آپ کا ہیرو جو معاوضہ وصول کرے گا اس کے مساوی میرا معاوضہ ہوگا چنانچہ ہدایت کار جعفر ملک نے ان کی شرائط تسلیم کرلیں اور اس طرح ریاض شاہد نے فلمی دنیا میں قدم رکھا۔ فلم ''بھروسہ'' بے حد کامیاب رہی۔ یوں ان کے لیے فلم انڈسٹری کے دروازے وا ہوگئے۔
جب کہ فلم ''نیند'' ان کی دوسری فلم تھی جس کی کہانی انھوں نے لکھی تھی۔ فلم ''نیند'' کی کہانی ان کے ناول ''ہزار داستان'' سے ماخوذ تھی۔ فلم ''نیند'' بھی کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ اس فلم میں اداکار اسلم پرویز نے ولن کا کردار ادا کیا تھا جب کہ اس سے قبل وہ مسلسل ہیروکے کردار میں ہی آرہے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے فلم ''شہید'' لکھی جس کی ہدایات خلیل قیصر دے رہے تھے۔ یہ ایک یادگار فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم کی کامیابی میں مرکزی کردار مسرت نذیر نے ادا کیا جب کہ دیگر اداکاروں میں آغا طالش، علاؤ الدین و ساقی وغیرہ شامل تھے جب کہ روایتی ہیرو و ہیروئن کے طور پر اعجاز درانی و حسنہ بیگم تھے۔
ان سب اداکاروں نے اپنی اداکاری کے خوب جوہر دکھائے۔ فلم ''شہید'' کی کامیابی میں اس فلم کے نغمات کا بھی بڑا دخل تھا وہ نغمہ جوکہ نسیم بیگم نے گایا تھا کہ ''اک بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو'' جب کہ دوسرا نغمہ خان صاحب مہدی حسن نے گایا تھا جس کے بول تھے کہ ''نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے'' یہ نغمات دو عظیم انقلابی شعرا کرام کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ اول حبیب جالبؔ ، دوم ، فیض احمد فیضؔ۔ جب کہ فلم ''شہید'' کے دیگر تمام گانے بھی سپر ہٹ ہوئے اور آج بھی ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں جب کہ اب ایک ٹیم تشکیل پا چکی تھی جس میں فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ، خلیل قیصر و ریاض شاہد شریک تھے۔
اب ریاض شاہد نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے فلموں کی ہدایات بھی دینے کا فیصلہ کیا اور فلم ''سسرال'' کی ہدایت کاری کی بطور ہدایت کار ان کی اولین فلم کامیاب ثابت ہوئی اور وہ ایک کامیاب ترین ہدایت کار تسلیم کرلیے گئے جب کہ خلیل قیصر و ریاض شاہد نے ایک اور فلم ''فرنگی'' بنانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ ہدایت خلیل قیصر ومصنف ریاض شاہد کی فلم ''فرنگی'' بھی کامیاب ترین فلم تھی۔
اس فلم کے نغمات جنھوں نے اس فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فیض احمد فیضؔ و حبیب جالبؔ کے تحریر کردہ تھے۔ اس فلم میں سدھیر، بہار بیگم، شمیم آرا، علاؤ الدین، آغا طالش و ساقی کے ساتھ ساتھ نامور ولن مظہر شاہ جلوہ گر ہوئے تھے۔ ریاض شاہد کا فلمی سفر جاری تھا اور انھوں نے ''خاموش رہو، آگ کا دریا'' اور سعادت حسن منٹو کے افسانے ''جھمکے'' سے ماخوذ فلم ''بدنام'' لکھیں۔ ان فلموں کے ساتھ انھوں نے تین پنجابی فلمیں مسٹر اللہ دتہ ، ماجھے دی جٹی اور ''نظام لوہار'' بھی تحریر کیں۔
آخر الذکر فلم میں انھوں نے اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے اور مسعود رانا کی آواز میں ان پر ایک نغمہ عکس بند کیا گیا۔ اس نغمے کے بول تھے ''پیار کسے نال پاویں نہ کئی رنگاں وچ پھریں' بہروپی روپ دا دھوکھا کھاویں'' نہ خلیل قیصر و ریاض شاہد نے ایک فلم ''زرقا'' بنانے کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا تھا مگر افسوس کہ خلیل قیصر کو کسی نے اچانک قتل کر دیا۔
ریاض شاہد کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا مگر انھوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلم ''زرقا'' کی، گوکہ تھوڑی تاخیر سے ''زرقا'' پاکستان کی اولین ڈائمنڈ جوبلی فلم ثابت ہوئی اور ہماری فلم انڈسٹری میں ''زرقا'' کو کلاسک فلم کا درجہ حاصل ہے۔ فلم ''زرقا'' کے تمام شعبے لاجواب تھے۔ اس فلم کے لازوال گیت حبیب جالبؔ نے تحریرکیے تھے کل 32 فلمیں لکھنے والے ریاض شاہد نے ایک اور فلم کی منصوبہ بندی کا آغاز کیا اور یہ فلم ''امن'' تھی جو کہ بھارتی جارحیت و کشمیریوں کی جدوجہد پر مبنی تھی۔ ''امن'' فلم میں ریاض شاہد نے گویا عصر حاضر کے حالات و واقعات بیان کیے تھے۔
''امن'' فلم آج کے دور کی بھرپور عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اسی باعث ہم نے اس مضمون کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ حقیقی ادیب کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہوا کہ آٹھ سے دس فلموں کی ہدایات دینے والے ریاض شاہد کی زندگی میں پردہ سیمیں پر آنے والی فلم امن ، ''یہ امن'' کے نام سے پیش کی جانے والی آخری فلم ثابت ہوئی۔ ''یہ امن'' 1971ء میں ریلیز ہوئی جب کہ فلم ''بہشت'' کی تکمیل کے دوران ریاض شاہد کا خون کے کینسر میں مبتلا ہونے کے باعث انتقال ہو گیا۔ فلم ''بہشت'' بعدازاں حسن طارق نے مکمل کی۔
اپنی 13 سالہ فلمی زندگی میں ریاض شاہد نے مختلف شعبوں میں 11 نگار ایوارڈ حاصل کیے جب کہ ان کی تحریرکردہ ایک فلم ''حیدر علی'' ان کی وفات کے چھ برس بعد ریلیز ہوئی۔ یکم اکتوبر 1972ء کو وفات پانے والے ریاض شاہد نے پروین الیگزینڈر عرف عام نیلو بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد نیلو بیگم کا نام عابدہ تجویز ہوا۔ ان کے تین بچے بیٹی زرقا، بیٹا سروش و اداکار شان ہیں۔ گوکہ یکم اکتوبر 2019ء کو ریاض شاہد کی 47 ویں برسی منائی گئی مگر ان کا ترقی پسند سامراج دشمن انقلابی نظریہ زندہ ہے اور اس وقت تک زندہ رہے گا جب کہ سرمایہ داری و سامراجی نظام قائم ہے۔