کمشنری نظام کی بااختیاری کیوں
کمشنری نظام انگریزوں نے برصغیر میں اپنے اقتدار میں عوام کو اپنا محکوم بلکہ غلام رکھنے کے لیے رائج کیا تھا۔
ملک کے سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس کی تنظیم نے پنجاب میں بیوروکریٹس کی جانب سے اپنی بالادستی اور اعلیٰ پولیس افسروں کے اختیارات محدودکرنے کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایسی کوششوں کے باعث بعض اعلیٰ پولیس افسران کے طویل رخصت پر جانے اور کچھ افسروں کے مستعفی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں اور یہ سب کچھ پولیس میں لائی جانے والی اصلاحات کے نام پر اور صرف دو صوبوں پنجاب اور کے پی کے میں کیا جا رہا ہے، جہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں۔
کمشنری نظام انگریزوں نے برصغیر میں اپنے اقتدار میں عوام کو اپنا محکوم بلکہ غلام رکھنے کے لیے رائج کیا تھا اور کمشنری نظام میں شامل بیوروکریٹس جو انگریز تھے کو گورے دو صدیوں قبل اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے لائے تھے۔
انھی کے ذریعے انگریزوں نے غیر منقسم ہندوستان پر حکومت کی اور دو صدیوں تک برصغیر کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھا اور ان کی طویل حکمرانی قائم رہی۔ انگریزوں کو ہندوستان چھوڑے یوں تو 72 برس گزر چکے ہیں اور انگریزوں کا چھوڑا ہوا ملک ہندوستان اب تین ملکوں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں موجود ہے اور ان ملکوں کے رہنے والے سینئر بزرگ اب بھی انگریز دور کے امن، انصاف اور اچھے کاموں کی تعریفیں کرتے ہیں اور انگریز دور کو آج سے لاکھ درجہ بہتر قرار دیتے ہیں۔
جس میں عوام انگریز حکومت کے غلام تو تھے مگر مطمئن اور خود کو محفوظ تصور کرتے تھے۔ انگریز حکومت نے برصغیر پر حکومت کرنے کے لیے کمشنری نظام میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مقرر کر رکھے تھے جو اپنے اپنے علاقوں میں وسیع و عریض محفوظ سرکاری عمارتوں میں رہتے تھے جن کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار اور دوسرا عملہ مقرر ہوتا تھا اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں بادشاہوں کی طرح رہتے اور انگریز سرکارکا تحفظ کرتے تھے۔ ان بیوروکریٹس کے ماتحت دیگر محکموں کی طرح پولیس بھی ہوتی تھی جو عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے دار اور امن و امان برقرار رکھتی تھی۔ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر تمام سرکاری محکموں کا سربراہ اور نہایت با اختیار ہوتا تھا۔
پاکستان کے قیام کے بعد سفید فام انگریز تو چلے گئے مگر جاتے جاتے ہمیں کالے انگریزوں کے حوالے کر گئے جو پاکستانی بیوروکریٹ کہلاتے ہیں اور 22 گریڈ تک کے اعلیٰ عہدوں پر اسلام آباد میں زیادہ تعینات ہیں جب کہ ہر صوبائی دارالحکومت میں 22 گریڈ یا کہیں 21 گریڈ کے چیف سیکریٹری مقرر ہیں اور ان کی ماتحتی میں بیورو کریٹس کہلانے والے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنروں کے علاوہ ہر محکمے کا سربراہ صوبائی سیکریٹری اور ہر محکمے میں بے شمار مختلف گریڈوں کے افسران عوام پر اسی طرح مسلط ہیں جس طرح انگریز دور میں ہوتے تھے۔
ہر ڈویژن میں کمشنر، ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور چھوٹے شہروں میں جو کہیں تحصیل کہیں سب ڈویژن کہلاتے ہیں وہاں کی سربراہی اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس ہے اور یہ سب کمشنری نظام کا حصہ ہیں۔ ہر ڈویژن میں متعدد اضلاع ہیں جن کا ہیڈ کمشنر ہے اور ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کا مکمل بااختیار سربراہ بلکہ بادشاہ جیسی حیثیت کا حامل رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام سے قبل ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور مختار کار فرسٹ کلاس مجسٹریٹ ہوتے تھے جب کہ کمشنر صرف کمشنر ہوتا تھا جو ڈویژن میں تمام محکموں کا سربراہ ہوتا تھا اور ڈویژن کے دورے اور ڈویژنل سطح کے اجلاس طلب کرتا تھا۔
کمشنر کے مقابلے میں ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرکا رعب ودبدبہ زیادہ ہوتا تھا جو لارڈ صاحب اورکلکٹر بھی کہلایا کرتا تھا۔ ضلع میں ڈپٹی کمشنرکے بعد دوسری اہمیت ایس پی کی ہوتی تھی مگر ایس پی بھی انتظامی طور پر ڈپٹی کمشنرکے ماتحت تھا کیونکہ ڈپٹی کمشنر کو ایس پی کی اے سی آر لکھنے کا بھی اختیار تھا اس لیے ایس پی کی کوشش ہوتی تھی کہ ڈپٹی کمشنر کو ناراض نہ کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع میں ہر محکمے کا سربراہ ہوتا ہے ، اسی لیے ارکان اسمبلی، سیاسی رہنما اور با اثر افراد، وڈیرے مختلف تنظیموں کے رہنماؤں کے نزدیک ڈپٹی کمشنر کی حیثیت ضلع کے بادشاہ کی سی ہوتی ہے اور وہی حکومت کی طرف سے ضلع کا انتظامی سربراہ اور ضلع کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔
اضلاع میں اتنی اہمیت وزیر اعلیٰ اور وزیروں کو نہیں ملتی جتنی ڈپٹی کمشنر کو ملتی ہے اس لیے یہ سب کے سب ڈپٹی کمشنر کی خوشامد اور خوشنودی کے چکر میں رہتے ہیں اور اپنے جائز ناجائز کاموں کے لیے وہ ڈپٹی کمشنر کے محتاج ہوتے ہیں۔ راقم کا اپنے ضلع شکارپور میں تعینات تمام ڈپٹی کمشنروں سے قریبی تعلق اور ان کے ادوار میں ساتھ رہا ہے اور بڑے بڑوں کو ڈپٹی کمشنر کے آگے پیچھے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کی دعوت کرنا ان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوتی تھی۔ ڈپٹی کمشنروں کی کھلی کچہریوں میں صاحب کی خوشامدیں ہی دیکھی ہیں اور عوامی مسائل برائے نام ہی حل ہوتے دیکھے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف ملک کے واحد سربراہ تھے جنھوں نے ملک کے عوام کی کمشنری نظام سے جان چھڑائی تھی اور بڑے بڑے 20 گریڈ تک کے افسران کو عوام کے منتخب ناظمین کے ماتحت کر دیا تھا اور عوام کی کمشنر، ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنروں سے جان چھوٹی تھی مگر نام نہاد جمہوری حکومتوں نے 2008ء میں اقتدار میں آنے کے بعد انگریز دور کا شاہانہ کمشنری نظام بحال کر کے عوام کو دوبارہ ان کی غلامی میں دے دیا تھا۔
ضلع نظام کی ناکامی میں بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی نے اہم کردار ادا کیا تھا جب کہ ضلعی نظام ملک کا بہترین، بااختیار بلدیاتی نظام تھا جو آمر کہلانے والے جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا اور نچلی سطح پر عوام کے منتخب نمایندوں کو ان بیورو کریٹس کا سربراہ بنایا تھا۔ مگر بعد میں بیورو کریسی کے خوشامدیوں اور انگریز دور کی غلامانہ ذہنیت رکھنے والے نام نہاد جمہوریت پسندوں نے کمشنری نظام بحال کر کے اپنے ہی عوام سے دشمنی کا ثبوت دیا۔
ڈپٹی کمشنر اتنے با اختیار ہوتے تھے کہ وہ اپنے سے بڑے گریڈ والے افسروں کا بھی تبادلہ کرا دیا کرتے تھے جب کہ منتخب ناظمین نے ڈی سی اوز کے تبادلے کرائے تھے۔
بڑے ایوانوں کے لیے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی ہمیشہ بلدیاتی نظام کے خلاف رہے اور انھوں نے نچلی سطح پر منتخب بلدیاتی نمایندوں کوکمتر سمجھا اور بیوروکریٹس کی بالاتری کے آگے سر جھکایا جس سے بیورو کریٹس ہی خود کو ملک کا حکمران سمجھتے ہیں اور اپنی بالاتری برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اب بھی یہ کوشش جاری ہے۔
کمشنری نظام انگریزوں نے برصغیر میں اپنے اقتدار میں عوام کو اپنا محکوم بلکہ غلام رکھنے کے لیے رائج کیا تھا اور کمشنری نظام میں شامل بیوروکریٹس جو انگریز تھے کو گورے دو صدیوں قبل اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم رکھنے کے لیے لائے تھے۔
انھی کے ذریعے انگریزوں نے غیر منقسم ہندوستان پر حکومت کی اور دو صدیوں تک برصغیر کے عوام کو اپنا غلام بنائے رکھا اور ان کی طویل حکمرانی قائم رہی۔ انگریزوں کو ہندوستان چھوڑے یوں تو 72 برس گزر چکے ہیں اور انگریزوں کا چھوڑا ہوا ملک ہندوستان اب تین ملکوں بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی صورت میں موجود ہے اور ان ملکوں کے رہنے والے سینئر بزرگ اب بھی انگریز دور کے امن، انصاف اور اچھے کاموں کی تعریفیں کرتے ہیں اور انگریز دور کو آج سے لاکھ درجہ بہتر قرار دیتے ہیں۔
جس میں عوام انگریز حکومت کے غلام تو تھے مگر مطمئن اور خود کو محفوظ تصور کرتے تھے۔ انگریز حکومت نے برصغیر پر حکومت کرنے کے لیے کمشنری نظام میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مقرر کر رکھے تھے جو اپنے اپنے علاقوں میں وسیع و عریض محفوظ سرکاری عمارتوں میں رہتے تھے جن کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں سیکیورٹی اہلکار اور دوسرا عملہ مقرر ہوتا تھا اور وہ اپنے اپنے علاقوں میں بادشاہوں کی طرح رہتے اور انگریز سرکارکا تحفظ کرتے تھے۔ ان بیوروکریٹس کے ماتحت دیگر محکموں کی طرح پولیس بھی ہوتی تھی جو عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمے دار اور امن و امان برقرار رکھتی تھی۔ ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر تمام سرکاری محکموں کا سربراہ اور نہایت با اختیار ہوتا تھا۔
پاکستان کے قیام کے بعد سفید فام انگریز تو چلے گئے مگر جاتے جاتے ہمیں کالے انگریزوں کے حوالے کر گئے جو پاکستانی بیوروکریٹ کہلاتے ہیں اور 22 گریڈ تک کے اعلیٰ عہدوں پر اسلام آباد میں زیادہ تعینات ہیں جب کہ ہر صوبائی دارالحکومت میں 22 گریڈ یا کہیں 21 گریڈ کے چیف سیکریٹری مقرر ہیں اور ان کی ماتحتی میں بیورو کریٹس کہلانے والے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنروں کے علاوہ ہر محکمے کا سربراہ صوبائی سیکریٹری اور ہر محکمے میں بے شمار مختلف گریڈوں کے افسران عوام پر اسی طرح مسلط ہیں جس طرح انگریز دور میں ہوتے تھے۔
ہر ڈویژن میں کمشنر، ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر اور چھوٹے شہروں میں جو کہیں تحصیل کہیں سب ڈویژن کہلاتے ہیں وہاں کی سربراہی اسسٹنٹ کمشنروں کے پاس ہے اور یہ سب کمشنری نظام کا حصہ ہیں۔ ہر ڈویژن میں متعدد اضلاع ہیں جن کا ہیڈ کمشنر ہے اور ہر ضلع کا ڈپٹی کمشنر اپنے ضلع کا مکمل بااختیار سربراہ بلکہ بادشاہ جیسی حیثیت کا حامل رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے ضلعی نظام سے قبل ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ کمشنر سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور مختار کار فرسٹ کلاس مجسٹریٹ ہوتے تھے جب کہ کمشنر صرف کمشنر ہوتا تھا جو ڈویژن میں تمام محکموں کا سربراہ ہوتا تھا اور ڈویژن کے دورے اور ڈویژنل سطح کے اجلاس طلب کرتا تھا۔
کمشنر کے مقابلے میں ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنرکا رعب ودبدبہ زیادہ ہوتا تھا جو لارڈ صاحب اورکلکٹر بھی کہلایا کرتا تھا۔ ضلع میں ڈپٹی کمشنرکے بعد دوسری اہمیت ایس پی کی ہوتی تھی مگر ایس پی بھی انتظامی طور پر ڈپٹی کمشنرکے ماتحت تھا کیونکہ ڈپٹی کمشنر کو ایس پی کی اے سی آر لکھنے کا بھی اختیار تھا اس لیے ایس پی کی کوشش ہوتی تھی کہ ڈپٹی کمشنر کو ناراض نہ کیا جائے۔ ڈپٹی کمشنر ضلع میں ہر محکمے کا سربراہ ہوتا ہے ، اسی لیے ارکان اسمبلی، سیاسی رہنما اور با اثر افراد، وڈیرے مختلف تنظیموں کے رہنماؤں کے نزدیک ڈپٹی کمشنر کی حیثیت ضلع کے بادشاہ کی سی ہوتی ہے اور وہی حکومت کی طرف سے ضلع کا انتظامی سربراہ اور ضلع کے سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔
اضلاع میں اتنی اہمیت وزیر اعلیٰ اور وزیروں کو نہیں ملتی جتنی ڈپٹی کمشنر کو ملتی ہے اس لیے یہ سب کے سب ڈپٹی کمشنر کی خوشامد اور خوشنودی کے چکر میں رہتے ہیں اور اپنے جائز ناجائز کاموں کے لیے وہ ڈپٹی کمشنر کے محتاج ہوتے ہیں۔ راقم کا اپنے ضلع شکارپور میں تعینات تمام ڈپٹی کمشنروں سے قریبی تعلق اور ان کے ادوار میں ساتھ رہا ہے اور بڑے بڑوں کو ڈپٹی کمشنر کے آگے پیچھے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کی دعوت کرنا ان کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہوتی تھی۔ ڈپٹی کمشنروں کی کھلی کچہریوں میں صاحب کی خوشامدیں ہی دیکھی ہیں اور عوامی مسائل برائے نام ہی حل ہوتے دیکھے ہیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف ملک کے واحد سربراہ تھے جنھوں نے ملک کے عوام کی کمشنری نظام سے جان چھڑائی تھی اور بڑے بڑے 20 گریڈ تک کے افسران کو عوام کے منتخب ناظمین کے ماتحت کر دیا تھا اور عوام کی کمشنر، ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنروں سے جان چھوٹی تھی مگر نام نہاد جمہوری حکومتوں نے 2008ء میں اقتدار میں آنے کے بعد انگریز دور کا شاہانہ کمشنری نظام بحال کر کے عوام کو دوبارہ ان کی غلامی میں دے دیا تھا۔
ضلع نظام کی ناکامی میں بیورو کریسی اور ارکان اسمبلی نے اہم کردار ادا کیا تھا جب کہ ضلعی نظام ملک کا بہترین، بااختیار بلدیاتی نظام تھا جو آمر کہلانے والے جنرل پرویز مشرف نے دیا تھا اور نچلی سطح پر عوام کے منتخب نمایندوں کو ان بیورو کریٹس کا سربراہ بنایا تھا۔ مگر بعد میں بیورو کریسی کے خوشامدیوں اور انگریز دور کی غلامانہ ذہنیت رکھنے والے نام نہاد جمہوریت پسندوں نے کمشنری نظام بحال کر کے اپنے ہی عوام سے دشمنی کا ثبوت دیا۔
ڈپٹی کمشنر اتنے با اختیار ہوتے تھے کہ وہ اپنے سے بڑے گریڈ والے افسروں کا بھی تبادلہ کرا دیا کرتے تھے جب کہ منتخب ناظمین نے ڈی سی اوز کے تبادلے کرائے تھے۔
بڑے ایوانوں کے لیے منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی ہمیشہ بلدیاتی نظام کے خلاف رہے اور انھوں نے نچلی سطح پر منتخب بلدیاتی نمایندوں کوکمتر سمجھا اور بیوروکریٹس کی بالاتری کے آگے سر جھکایا جس سے بیورو کریٹس ہی خود کو ملک کا حکمران سمجھتے ہیں اور اپنی بالاتری برقرار رکھنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اب بھی یہ کوشش جاری ہے۔