عراق میں جاری مظاہروں میں شدت
ملک کے متعدد شہروں میں منگل کو اچانک بیروزگاری کی بلند شرح اور شدید بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔
عراق میں حکومت کے خلاف گزشتہ ہفتے سے جاری مظاہروں میں 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ مظاہرین اور پولیس کی جھڑپوں میں شدت آنے کے سبب ہلاکتوں کی تعداد دگنی ہو گئی ہے۔
عراق کے معروف مذہب رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے مظاہرین پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی پر زور دیا ہے کہ مظاہرین کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔
عراق کے وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے کہا تھا کہ مظاہرین کے جائز مطالبات سن لیے گئے ہیں مگراس کے باوجود سیکڑوں کی تعداد میں عراقی شہری جمعے کے روز سڑکوں پر موجود رہے۔ کرفیو اور انٹرنیٹ بندشیں بھی مظاہرین کو جمع ہونے سے روکنے میں ناکام رہیں۔
عادل عبدالمہدی کی کمزور حکومت کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال کے اندر ان مظاہروں کو ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ملک کے متعدد شہروں میں منگل کو اچانک بیروزگاری کی بلند شرح اور شدید بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بغداد میں تین روز سے کرفیو نافذ ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو بغداد میں سیکیورٹی فورسز نے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سیدھی گولیاں چلائیں جس سے شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ صرف جمعے کو کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے۔
میڈیا کے مطابق اب تک 60 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں چھ سکیورٹی اہلکار شامل ہیں جب کہ سیکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ بظاہر مظاہرین میں کوئی منظم قیادت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکا نے پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں عراق کا 12 وں نمبر ہے۔ عراق میں تیل کے ذخائر ہیں مگر اس کی چار کروڑ کی آبادی میں سے 22 فیصد سے زیادہ لوگ دو ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔ ہر چھ میں سے کم از کم ایک گھر کو کسی نہ کسی نوعیت کی خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کی 17 فیصد قابل ملازمت آبادی کو مکمل طور پر کام نہیں ملتا۔
وزیر اعظم نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں کیونکہ ان کی حکومت کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا لہذا وہ سب بے روزگاروں کو فوری طور پر ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتے لیکن حکومت ان کے تمام مسائل حل کر دے گی۔ احتجاجی مظاہرین نے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی اپیل کو مسترد کر دیا اور احتجاج جاری رکھا۔
عراق کے معروف مذہب رہنما آیت اللہ علی سیستانی نے مظاہرین پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی پر زور دیا ہے کہ مظاہرین کے جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔
عراق کے وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے کہا تھا کہ مظاہرین کے جائز مطالبات سن لیے گئے ہیں مگراس کے باوجود سیکڑوں کی تعداد میں عراقی شہری جمعے کے روز سڑکوں پر موجود رہے۔ کرفیو اور انٹرنیٹ بندشیں بھی مظاہرین کو جمع ہونے سے روکنے میں ناکام رہیں۔
عادل عبدالمہدی کی کمزور حکومت کے اقتدار میں آنے کے تقریباً ایک سال کے اندر ان مظاہروں کو ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج کہا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ملک کے متعدد شہروں میں منگل کو اچانک بیروزگاری کی بلند شرح اور شدید بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بغداد میں تین روز سے کرفیو نافذ ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو بھی بلاک کر دیا گیا ہے۔
جمعے کو بغداد میں سیکیورٹی فورسز نے کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں پر سیدھی گولیاں چلائیں جس سے شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔ صرف جمعے کو کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے۔
میڈیا کے مطابق اب تک 60 افراد مارے جاچکے ہیں جن میں چھ سکیورٹی اہلکار شامل ہیں جب کہ سیکڑوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ بظاہر مظاہرین میں کوئی منظم قیادت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ان کی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکا نے پرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ادھر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں عراق کا 12 وں نمبر ہے۔ عراق میں تیل کے ذخائر ہیں مگر اس کی چار کروڑ کی آبادی میں سے 22 فیصد سے زیادہ لوگ دو ڈالر یومیہ سے بھی کم پر گزارا کرتے ہیں۔ ہر چھ میں سے کم از کم ایک گھر کو کسی نہ کسی نوعیت کی خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کی 17 فیصد قابل ملازمت آبادی کو مکمل طور پر کام نہیں ملتا۔
وزیر اعظم نے مظاہرین سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر و تحمل سے کام لیں کیونکہ ان کی حکومت کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا لہذا وہ سب بے روزگاروں کو فوری طور پر ملازمتیں فراہم نہیں کر سکتے لیکن حکومت ان کے تمام مسائل حل کر دے گی۔ احتجاجی مظاہرین نے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کی اپیل کو مسترد کر دیا اور احتجاج جاری رکھا۔