عمران خان اقوام متحدہ میں
وزیر اعظم عمران خان ماضی کے اپنے ہم منصبوں کے مقابلے میں یکسر مختلف پس منظر رکھتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری میں پاکستان کا امیج قدرے منفی رہا اور دہائیاں گزرنے کے باوجود اس میں بہتری نہیں آئی۔ ہم نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی اور جو برائے نام کوششیں ہوئیں بھی تو وہ بے دلی کے ساتھ کی گئیں۔
پاکستان کے منفی امیج کا تاثر پختہ کرنے میں بھارت نے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ برلن ، پیرس وغیرہ جیسے اہم اور بڑے مغربی شہروں میں قائم بھارت کے ثقافتی مراکز رنگارنگ رقص کی محافل کے ذریعے صرف اپنی ثقافت ہی کو فروغ نہیں دیتے بلکہ بین السطور جنوبی ایشیا میں پاکستان کے ساتھ تنازعات پر اپنے مؤقف کی ترویج بھی کرتے ہیں۔
ان شہروں میں پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات کلچرل اتاشی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، انھیں مقامی زبانوں پر عبور نہیں ہوتا اور نہ ہی انھیں اس کی فکر ہے۔ وہ مقامی سطح پر پاکستان سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط خبروں اور تصورات کو درست کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کا بحران عالمی رائے عامہ تک اپنا موقف پہنچانے میں پاکستان کی ناکامی کی تاریخی مثال ہے۔ اس دور میں غیر ملکیوں، صحافیوں کو مشرقی پاکستان سے نکال دیا گیا، ان صحافیوں کے بھارتی پراپیگنڈے کی جانب جھکاؤ کے حالات ہم نے خود ہی پیدا کیے۔ اسی طرح مشرقی حصے کے حقائق کو مغربی پاکستان کے لوگوں سے چھپایا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں صرف جنگی اور سیاسی شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ پراپیگنڈے کی جنگ میں بھی ہم ناکام رہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کا نکتہ نگاہ واضح کرنے میں ناکامی کی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ قائد اعظم کے سوا پاکستان کے ابتدائی قائدین زیادہ تجربے کار نہیں تھے اور دنیا کے بارے میں ان کا فہم بھی وسیع نہیں تھا۔ ہمارے فوجی حکمرانوں کی دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہنے اور عوام کو اعتماد میں لینے کے اعتبار سے اپنی محدودات تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان سے بھی زیادہ اپنی واہ واہ کرانے کی فکر رہتی تھی۔ دسمبر 1971 میں اقوام متحدہ میں بھٹو کی ناکامی کی اندرونی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انھوں نے آغا شاہی جیسے کہنہ مشق سفارتکار کے مشوروں کو ہوا میں اُڑا دیا تو کس طرح انھیں اقوام متحدہ میں بری طرح ناکامی ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان ماضی کے اپنے ہم منصبوں کے مقابلے میں یکسر مختلف پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ بھٹواور شریف خاندان کی طرح جاگیردار نہیں اس لیے ان کی ویسی محدودات بھی نہیں۔ عمران خان مغرب اور اہل مغرب کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، ان کے انداز فکر اور طرزِ احساس سے واقف ہیں، چوں کہ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور انھوں نے کبھی ''معلوم ذرایع سے زائد'' اثاثے نہیں بنائے اس لیے وہ غریبوں کا درد بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کرشماتی شخصیت اور دردمندی نے صرف پاکستانیوں ہی پر نہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود مختلف ممالک کے مندوبین پر بھی اپنا سحر طاری کر دیا۔
فی البدیہہ تقریر نے بین الاقوامی مندوبین کو متاثر کیا اور وزیر اعظم پاکستان کا مؤقف اور خدشات کو واضح انداز میں اپنے سامعین تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ سادہ الفاظ کے چناؤ نے اظہار کی شدت کو دوچند کر دیا۔ تقریر کے چار نکات میں سب سے پہلے عمران خان نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا تذکرہ کیا، اس کے بعد بین الاقوامی جہت سے پاکستان کی کرپشن کے خلاف جنگ کا تذکرہ کیا، یہ بہت اہم نکات تھے اور سامعین نے پوری توجہ سے انھیں سنا۔ اسلاموفوبیا اور شدت پسندی کا تذکرہ انتہائی جرأت مندانہ انداز میں کیا، اب تک اس خطاب پر ہونیوالے تبصروں میں اس پہلو پر اس موضوع کی اہمیت کے مطابق بات نہیں کی گئی۔ دیگر مواقع پر بھی اس نکتے کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم کی تقریر کا اہم ترین حصہ کشمیر کے حالات سے متعلق تھا جس میں انھوں نے واضح طور پر دنیا کو بتایا کہ یہ تنازعہ دو جوہری قوتوں کے مابین جنگ کا نکتہ آغاز بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے اس صورت حال کا موازنہ کرنے کے لیے 1938اور معاہدہ میونخ کا حوالہ دیا جسے جرمنی میں بہت توجہ حاصل ہوئی۔ جرمن جریدے 'ڈیر شپیگل' نے لکھا کہ عمران خان نے ایک جنگ کو روکنے کی ذمے داری اقوام متحدہ کے کاندھوں پر رکھ دی ہے جس سے ایک بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے کہ یہ عالمی ادارہ اس ذمے داری کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔ اس واضح تنبیہ کی گونج نیویارک میں بھی سنی گئی۔
عالمی میڈیا میں بھی یہ تبصروں کا موضوع بنی اور توقع ہے کہ آیندہ بھی اس صورتحال پر نظر رکھی جائے گی۔ بین الاقومی سطح پر شاید کشمیر کی صورت حال پر پاکستان میں حکومتی و عوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کو مطلوبہ توجہ نہیں دی گئی۔ کشمیر گزشتہ 70 برسوں سے تقسیم ہے اور مودی کی جانب سے بھارتی آئین میں کی گئی ترمیم سے عملاً صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔
یہاں تک کہ پاکستان میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر جیسے پاکستان کے باخبر دوست نے بھی کشمیر کا موازنہ سنکیانگ کے مسلمانوں سے کیا، جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی سفارت کاروں کو اپنا مؤقف دنیا تک پہنچانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے اس مسئلے پر جس دردمندی اور خلوص سے اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھا ہے، لگی بندھی گفتگو کے مقابلے میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کا یہ زیادہ مؤثر انداز ہے۔
کیا وزیر اعظم کی تقریر سے کوئی فرق پڑے گا؟ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے ایوان میں پاکستان کا مؤقف واشگاف انداز میں پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بعد اپنا موقف اس انداز میں ترتیب دینے کا موقعہ ملے گا لیکن کیا یہ ایک تقریر دہائیوں سے قائم ہمارے تاثر اور ہمارے بارے میں عالمی رائے عامہ کو یکسر تبدیل کردے گی؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے عالمی فورمز پر کشمیر کے بارے میں بار بار دہرایا گیا بھارت کا مؤقف دنیا کے ذہنوں سے فوری طور پر محو یا تبدیل نہیں ہو گا۔
کشمیر سے متعلق ہماری مہم کا آغاز تو کامیابی سے ہوا لیکن اس کا تسلسل برقرار رکھنا انتہائی ناگزیر ہے۔ اس کے دنیا بھر میں پھیلے ہمارے سفارت خانوں کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہو گا کیوں کہ آج تک ہمارے سفارت خانوں نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے رسمی کوششیں ہی کی ہیں جو زیادہ تر بے نتیجہ رہیں۔ اپنے پیغام کو مؤثر بنانے کے لیے روایتی انداز کے بجائے زیادہ اثر انگیز حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد متعدد مواقع پر یہ تجویز دی گئی کہ ہمیں اپنے ریٹائرڈ سفیر ان ممالک میں بھیجنے چاہییں جہاں وہ خدمات انجام دے چکے ہیں تا کہ وہ ان ممالک میں اپنے پرانے روابط استعمال کرکے وہاں کشمیر کے حالات (اور اس کے نتیجے میں تصادم کے امکانات) سے متعلق مختلف حلقوں کو آگاہ کریں۔ اس کے لیے ان ممالک کے بااثر صحافیوں، کاروباری شخصیات، سرکاری حکام اور تدریس سے وابستہ افراد سے رابطے کیے جائیں۔ اس کوشش پر زیادہ سے زیادہ ان سابق سفارت کاروں کے سفری اخراجات ہی آئیں گے۔
یہ سفارت کار ان ممالک میں پاکستانی سفارت خانے یا قونصل خانے سے رابطے میں رہیں اور ان سے متعلقہ ملک میں بنیادی معلومات حاصل کریں لیکن ان کی کوششوں کا مکمل انحصار سفارت خانوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس مہم کا محور ان ملکوں کے اہل دانش تک پاکستان کا مؤقف پہنچانا ہو اور اسی سے وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد اس مسئلے پر حاصل ہونے والی دنیا کی توجہ برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ ہمیں بڑے پیمانے پر اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے میں مسائل کا سامنا ہے، یہ کوششیں اس کا بہترین حل ثابت ہوں گی۔شاہ محمود کو یہ تجویز صرف اس لیے نظر انداز نہیں کر دینی چاہیے کہ اسے اکرام سہگل نے پیش کیا اور اسے قبول کرنا ان کی شان کے خلاف ہوگا۔ اچھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کشمیر سے متعلق حقائق سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور اہم بات۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ مودی نے شاید کشمیر میں اپنے اقدامات کے نتائج اور اس پر یقینی شدید رد عمل کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ کیا ہم بھی اس پر غور کررہے ہیں؟
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
پاکستان کے منفی امیج کا تاثر پختہ کرنے میں بھارت نے بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ برلن ، پیرس وغیرہ جیسے اہم اور بڑے مغربی شہروں میں قائم بھارت کے ثقافتی مراکز رنگارنگ رقص کی محافل کے ذریعے صرف اپنی ثقافت ہی کو فروغ نہیں دیتے بلکہ بین السطور جنوبی ایشیا میں پاکستان کے ساتھ تنازعات پر اپنے مؤقف کی ترویج بھی کرتے ہیں۔
ان شہروں میں پاکستانی سفارتخانوں میں تعینات کلچرل اتاشی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، انھیں مقامی زبانوں پر عبور نہیں ہوتا اور نہ ہی انھیں اس کی فکر ہے۔ وہ مقامی سطح پر پاکستان سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط خبروں اور تصورات کو درست کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
1971 میں مشرقی پاکستان کا بحران عالمی رائے عامہ تک اپنا موقف پہنچانے میں پاکستان کی ناکامی کی تاریخی مثال ہے۔ اس دور میں غیر ملکیوں، صحافیوں کو مشرقی پاکستان سے نکال دیا گیا، ان صحافیوں کے بھارتی پراپیگنڈے کی جانب جھکاؤ کے حالات ہم نے خود ہی پیدا کیے۔ اسی طرح مشرقی حصے کے حقائق کو مغربی پاکستان کے لوگوں سے چھپایا گیا۔ مشرقی پاکستان میں ہمیں صرف جنگی اور سیاسی شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ پراپیگنڈے کی جنگ میں بھی ہم ناکام رہے۔
عالمی سطح پر پاکستان کا نکتہ نگاہ واضح کرنے میں ناکامی کی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں۔ قائد اعظم کے سوا پاکستان کے ابتدائی قائدین زیادہ تجربے کار نہیں تھے اور دنیا کے بارے میں ان کا فہم بھی وسیع نہیں تھا۔ ہمارے فوجی حکمرانوں کی دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہنے اور عوام کو اعتماد میں لینے کے اعتبار سے اپنی محدودات تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان سے بھی زیادہ اپنی واہ واہ کرانے کی فکر رہتی تھی۔ دسمبر 1971 میں اقوام متحدہ میں بھٹو کی ناکامی کی اندرونی کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انھوں نے آغا شاہی جیسے کہنہ مشق سفارتکار کے مشوروں کو ہوا میں اُڑا دیا تو کس طرح انھیں اقوام متحدہ میں بری طرح ناکامی ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان ماضی کے اپنے ہم منصبوں کے مقابلے میں یکسر مختلف پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ بھٹواور شریف خاندان کی طرح جاگیردار نہیں اس لیے ان کی ویسی محدودات بھی نہیں۔ عمران خان مغرب اور اہل مغرب کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، ان کے انداز فکر اور طرزِ احساس سے واقف ہیں، چوں کہ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور انھوں نے کبھی ''معلوم ذرایع سے زائد'' اثاثے نہیں بنائے اس لیے وہ غریبوں کا درد بھی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کرشماتی شخصیت اور دردمندی نے صرف پاکستانیوں ہی پر نہیں، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود مختلف ممالک کے مندوبین پر بھی اپنا سحر طاری کر دیا۔
فی البدیہہ تقریر نے بین الاقوامی مندوبین کو متاثر کیا اور وزیر اعظم پاکستان کا مؤقف اور خدشات کو واضح انداز میں اپنے سامعین تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ سادہ الفاظ کے چناؤ نے اظہار کی شدت کو دوچند کر دیا۔ تقریر کے چار نکات میں سب سے پہلے عمران خان نے ماحولیاتی تبدیلیوں کا تذکرہ کیا، اس کے بعد بین الاقوامی جہت سے پاکستان کی کرپشن کے خلاف جنگ کا تذکرہ کیا، یہ بہت اہم نکات تھے اور سامعین نے پوری توجہ سے انھیں سنا۔ اسلاموفوبیا اور شدت پسندی کا تذکرہ انتہائی جرأت مندانہ انداز میں کیا، اب تک اس خطاب پر ہونیوالے تبصروں میں اس پہلو پر اس موضوع کی اہمیت کے مطابق بات نہیں کی گئی۔ دیگر مواقع پر بھی اس نکتے کو اجاگر کیا جانا چاہیے۔
وزیر اعظم کی تقریر کا اہم ترین حصہ کشمیر کے حالات سے متعلق تھا جس میں انھوں نے واضح طور پر دنیا کو بتایا کہ یہ تنازعہ دو جوہری قوتوں کے مابین جنگ کا نکتہ آغاز بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے اس صورت حال کا موازنہ کرنے کے لیے 1938اور معاہدہ میونخ کا حوالہ دیا جسے جرمنی میں بہت توجہ حاصل ہوئی۔ جرمن جریدے 'ڈیر شپیگل' نے لکھا کہ عمران خان نے ایک جنگ کو روکنے کی ذمے داری اقوام متحدہ کے کاندھوں پر رکھ دی ہے جس سے ایک بڑا سوال پیدا ہوگیا ہے کہ یہ عالمی ادارہ اس ذمے داری کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔ اس واضح تنبیہ کی گونج نیویارک میں بھی سنی گئی۔
عالمی میڈیا میں بھی یہ تبصروں کا موضوع بنی اور توقع ہے کہ آیندہ بھی اس صورتحال پر نظر رکھی جائے گی۔ بین الاقومی سطح پر شاید کشمیر کی صورت حال پر پاکستان میں حکومتی و عوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کو مطلوبہ توجہ نہیں دی گئی۔ کشمیر گزشتہ 70 برسوں سے تقسیم ہے اور مودی کی جانب سے بھارتی آئین میں کی گئی ترمیم سے عملاً صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔
یہاں تک کہ پاکستان میں سابق امریکی سفیر کیمرون منٹر جیسے پاکستان کے باخبر دوست نے بھی کشمیر کا موازنہ سنکیانگ کے مسلمانوں سے کیا، جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی سفارت کاروں کو اپنا مؤقف دنیا تک پہنچانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم نے اس مسئلے پر جس دردمندی اور خلوص سے اپنا مؤقف دنیا کے سامنے رکھا ہے، لگی بندھی گفتگو کے مقابلے میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کا یہ زیادہ مؤثر انداز ہے۔
کیا وزیر اعظم کی تقریر سے کوئی فرق پڑے گا؟ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ وہ اقوام متحدہ کے ایوان میں پاکستان کا مؤقف واشگاف انداز میں پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ اگرچہ ہمیں اس کے بعد اپنا موقف اس انداز میں ترتیب دینے کا موقعہ ملے گا لیکن کیا یہ ایک تقریر دہائیوں سے قائم ہمارے تاثر اور ہمارے بارے میں عالمی رائے عامہ کو یکسر تبدیل کردے گی؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برسوں سے عالمی فورمز پر کشمیر کے بارے میں بار بار دہرایا گیا بھارت کا مؤقف دنیا کے ذہنوں سے فوری طور پر محو یا تبدیل نہیں ہو گا۔
کشمیر سے متعلق ہماری مہم کا آغاز تو کامیابی سے ہوا لیکن اس کا تسلسل برقرار رکھنا انتہائی ناگزیر ہے۔ اس کے دنیا بھر میں پھیلے ہمارے سفارت خانوں کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہو گا کیوں کہ آج تک ہمارے سفارت خانوں نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے رسمی کوششیں ہی کی ہیں جو زیادہ تر بے نتیجہ رہیں۔ اپنے پیغام کو مؤثر بنانے کے لیے روایتی انداز کے بجائے زیادہ اثر انگیز حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد متعدد مواقع پر یہ تجویز دی گئی کہ ہمیں اپنے ریٹائرڈ سفیر ان ممالک میں بھیجنے چاہییں جہاں وہ خدمات انجام دے چکے ہیں تا کہ وہ ان ممالک میں اپنے پرانے روابط استعمال کرکے وہاں کشمیر کے حالات (اور اس کے نتیجے میں تصادم کے امکانات) سے متعلق مختلف حلقوں کو آگاہ کریں۔ اس کے لیے ان ممالک کے بااثر صحافیوں، کاروباری شخصیات، سرکاری حکام اور تدریس سے وابستہ افراد سے رابطے کیے جائیں۔ اس کوشش پر زیادہ سے زیادہ ان سابق سفارت کاروں کے سفری اخراجات ہی آئیں گے۔
یہ سفارت کار ان ممالک میں پاکستانی سفارت خانے یا قونصل خانے سے رابطے میں رہیں اور ان سے متعلقہ ملک میں بنیادی معلومات حاصل کریں لیکن ان کی کوششوں کا مکمل انحصار سفارت خانوں پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس مہم کا محور ان ملکوں کے اہل دانش تک پاکستان کا مؤقف پہنچانا ہو اور اسی سے وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد اس مسئلے پر حاصل ہونے والی دنیا کی توجہ برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ ہمیں بڑے پیمانے پر اپنا پیغام دنیا تک پہنچانے میں مسائل کا سامنا ہے، یہ کوششیں اس کا بہترین حل ثابت ہوں گی۔شاہ محمود کو یہ تجویز صرف اس لیے نظر انداز نہیں کر دینی چاہیے کہ اسے اکرام سہگل نے پیش کیا اور اسے قبول کرنا ان کی شان کے خلاف ہوگا۔ اچھی خاصی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کشمیر سے متعلق حقائق سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔
ایک اور اہم بات۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں کہا کہ مودی نے شاید کشمیر میں اپنے اقدامات کے نتائج اور اس پر یقینی شدید رد عمل کے بارے میں سوچا ہی نہیں۔ کیا ہم بھی اس پر غور کررہے ہیں؟
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)