پاکستان میں اینٹی بائیوٹک کے ازخود استعمال میں ہولناک اضافہ
انسانی صحت کو سنگین مسائل، چند سو میں ٹھیک ہونیوالے مرض کے علاج پر ہزاروں خرچ
پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں کے بے دریغ اور ازخود استعمال سے متعدد جراثیم نے دواؤں کے خلاف مزاحمت اختیار کر لی ہے جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔
پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں کے غلط استعمال اور نامکمل ڈوز سے جراثیم مزید طاقتور ہورہے ہیں جبکہ بیشتر بیکٹیریا اور وائرس اپنی شکل اور ہیئت بھی مسلسل تبدیل کر رہے ہیں۔ سیلف میڈیکشن (Self Medication) سے انسانی صحت کو بھی سنگین طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تپ دق(ٹی بی) کے مرض کے بعد اب ٹائیفائیڈکے مرض میں استعمال کی جانے والی اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال کے خلاف بھی جراثیم نے شدید مزاحمت پیدا کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹائیفائیڈ کے مرض میں اب صرف 2 دوائیں ایسی ہیں جو باقی رہ گئی ہیں، ٹائیفائیڈ کے مریضوں کو بیک وقت اب 2 دوائیں دی جاتی ہیں انھیں طبی زبان میں اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹینٹ انفیکشن کہاجاتا ہے۔
اینٹی بائیوٹک دواکو طب کی دنیا میں ایک انقلابی ایجاد سمجھا جاتا ہے تاہم اس کا زیادہ، غیر ضروری اور غلط استعمال ایسی بیمایوں کا باعث بن رہا ہے جن پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے بلکہ بعض اوقات مرض لاعلاج بھی ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال میں ایک بیماری جو چند سو روپوں میں ٹھیک ہوسکتی تھی، اب اس کے علاج پر کئی ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت 50 ہزار سے زائد غیر ضروری رجسٹرڈ شدہ دوائیں موجود ہیں۔ اتائیوں کی تعداد 6 لاکھ سے زائد، 70 فیصد مریضوں کو اینٹی بائیوٹک دی جاتی ہے، خود سے دوائی کے استعمال کی شرح 50 فیصد، کاؤنٹر پر دی جانے والی دواؤں کی شرح 70 فیصد ہے۔
اس حوالے سے لیاقت نیشنل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان فریدی نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے ایسے بیکٹیریاکی فہرست مرتب کی ہے جن پر دوائیں بے اثر ثابت ہورہی ہیں۔ ان میں سرفہرست (ای کولائی) جیسے جراثیم ہیں جو اسپتال میں داخل کمزور مریضوں کے خون میں جاں لیوا انفیکشن یا نمونیا پھیلا سکتے ہیں۔
سیلف میڈیکیشن (دواؤں کا ازخود استعمال) انتہائی نقصان دہ ہے، اینٹی بائیوٹک کی نامکمل اور غلط ڈوز (خوراک) غلط وقت پر دینے اور مطلوبہ دورانیے سے کم استعمال کی جائے تو اس دوا کا اثر نہیں ہوتا اور دوا کے مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوتے اور اس دوران جراثیم مذکورہ اینٹی بائیوٹک کے خلاف آہستہ آہستہ مزاحمت اختیار کرتے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سلمان فریدی نے بتایا کہ اب جراثیم اپنی شکل تبدیل کر رہے ہیں اور یہ جراثیم پہلے سے زیادہ موثر اور طاقتور ہو رہے ہیں عالمی ادارہ سمیت دنیا بھر میں بیکٹریا کے طاقتور ہونے پر تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک دواؤں کے ازخود غیر ضروری استعمال کو انتہائی مہلک قرار دیا ہے۔ ازخود ضروری اینٹی بائیوٹک دوائیں استعمال کرنے والے افراد میں دواؤں کے خلاف جراثیم اور بیماریوںکی قوت مزاحمت بڑھا لی ہے۔
عالی ادراے صحت کے مطابق، اینٹی بائیوٹک دوائیں مستند ڈاکٹروں کے نسخے کے بغیر فروخت نہیں کی جائیں لیکن ترقی پذیرممالک میں اینٹی بائیوٹک دواؤںکا ازخود اورغیر ضروری استعمال بڑھتا جارہا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق والدین پہلے اینٹی بائیوٹک کو استعمال کرنے سے پہلے اس کی افادیت کے بارے میں معلومات کر لیں۔
پاکستان میں اینٹی بائیوٹک دواؤں کے غلط استعمال اور نامکمل ڈوز سے جراثیم مزید طاقتور ہورہے ہیں جبکہ بیشتر بیکٹیریا اور وائرس اپنی شکل اور ہیئت بھی مسلسل تبدیل کر رہے ہیں۔ سیلف میڈیکشن (Self Medication) سے انسانی صحت کو بھی سنگین طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تپ دق(ٹی بی) کے مرض کے بعد اب ٹائیفائیڈکے مرض میں استعمال کی جانے والی اینٹی بائیوٹک دواؤں کے استعمال کے خلاف بھی جراثیم نے شدید مزاحمت پیدا کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹائیفائیڈ کے مرض میں اب صرف 2 دوائیں ایسی ہیں جو باقی رہ گئی ہیں، ٹائیفائیڈ کے مریضوں کو بیک وقت اب 2 دوائیں دی جاتی ہیں انھیں طبی زبان میں اینٹی مائیکروبائیل ریزسٹینٹ انفیکشن کہاجاتا ہے۔
اینٹی بائیوٹک دواکو طب کی دنیا میں ایک انقلابی ایجاد سمجھا جاتا ہے تاہم اس کا زیادہ، غیر ضروری اور غلط استعمال ایسی بیمایوں کا باعث بن رہا ہے جن پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے بلکہ بعض اوقات مرض لاعلاج بھی ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال میں ایک بیماری جو چند سو روپوں میں ٹھیک ہوسکتی تھی، اب اس کے علاج پر کئی ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت 50 ہزار سے زائد غیر ضروری رجسٹرڈ شدہ دوائیں موجود ہیں۔ اتائیوں کی تعداد 6 لاکھ سے زائد، 70 فیصد مریضوں کو اینٹی بائیوٹک دی جاتی ہے، خود سے دوائی کے استعمال کی شرح 50 فیصد، کاؤنٹر پر دی جانے والی دواؤں کی شرح 70 فیصد ہے۔
اس حوالے سے لیاقت نیشنل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان فریدی نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایا کہ عالمی ادارہ صحت نے ایسے بیکٹیریاکی فہرست مرتب کی ہے جن پر دوائیں بے اثر ثابت ہورہی ہیں۔ ان میں سرفہرست (ای کولائی) جیسے جراثیم ہیں جو اسپتال میں داخل کمزور مریضوں کے خون میں جاں لیوا انفیکشن یا نمونیا پھیلا سکتے ہیں۔
سیلف میڈیکیشن (دواؤں کا ازخود استعمال) انتہائی نقصان دہ ہے، اینٹی بائیوٹک کی نامکمل اور غلط ڈوز (خوراک) غلط وقت پر دینے اور مطلوبہ دورانیے سے کم استعمال کی جائے تو اس دوا کا اثر نہیں ہوتا اور دوا کے مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوتے اور اس دوران جراثیم مذکورہ اینٹی بائیوٹک کے خلاف آہستہ آہستہ مزاحمت اختیار کرتے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر سلمان فریدی نے بتایا کہ اب جراثیم اپنی شکل تبدیل کر رہے ہیں اور یہ جراثیم پہلے سے زیادہ موثر اور طاقتور ہو رہے ہیں عالمی ادارہ سمیت دنیا بھر میں بیکٹریا کے طاقتور ہونے پر تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اینٹی بائیوٹک دواؤں کے ازخود غیر ضروری استعمال کو انتہائی مہلک قرار دیا ہے۔ ازخود ضروری اینٹی بائیوٹک دوائیں استعمال کرنے والے افراد میں دواؤں کے خلاف جراثیم اور بیماریوںکی قوت مزاحمت بڑھا لی ہے۔
عالی ادراے صحت کے مطابق، اینٹی بائیوٹک دوائیں مستند ڈاکٹروں کے نسخے کے بغیر فروخت نہیں کی جائیں لیکن ترقی پذیرممالک میں اینٹی بائیوٹک دواؤںکا ازخود اورغیر ضروری استعمال بڑھتا جارہا ہے۔طبی ماہرین کے مطابق والدین پہلے اینٹی بائیوٹک کو استعمال کرنے سے پہلے اس کی افادیت کے بارے میں معلومات کر لیں۔