جان ایف کینیڈی خیالات کے سفرمیں
کینیڈی نے کہا تھا کہ بحث و مباحثے کے بغیر، تنقید کے بغیر کوئی انتظامیہ اور ملک سروائیو نہیں کر سکتا۔
ISLAMABAD:
معروف امریکی صحافی جان ہیرس نے لکھا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ جان ایف کینیڈی جیسا ہے؟ دوسری طرف سین ہینی ٹی اپنے شو میں ٹرمپ اورکینیڈی کی طرز صدارت میں مماثلت پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ ہینی ٹی نے ایک عجیب تضاد کی نشاندہی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ٹرمپ روزانہ اہل صحافت پر طنزکرتے ان کی تضحیک اورکردارکشی کرتے رہتے ہیں، مگر پس پردہ Behind the scene وہ میڈیا سے مراسم بڑھا چکے ہیں، وہ سینئر رپورٹرز، تجزیہ کاروں، میڈیا ٹائیکونز اور اہم صحافتی حلیفوںسے ملتے اور رابطے میں رہتے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آزاد میڈیا کے بنیادی تصور سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے میڈیا سے انٹر ایکشن کی داستانیں بھی بیان کی گئی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس دوستی اور رابطہ کا سلسلہ جان ایف کینیڈی سے جوڑا جاتا ہے۔
اخبار'' رپورٹر'' نے ٹرمپ کا نام لیے بغیر لکھا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ اس کا بھونکنا اس کے کاٹنے سے زیادہ خطرناک ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ کاٹنے کے موڈ میں نہیں بلکہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کی پیٹھ تھپتھپائے۔ اسے شاباش دے جب کہ نیو یارک ٹائمز کے پیٹر بیکر کا تجزیہ یہ ہے کہ سابق صدر نکسن کے زمانے سے اب تک ٹرمپ بلاشبہ امریکی پریس کے سب سے خوف ناک مخالف ثابت ہوئے ہیں۔
امریکی صحافیوں میںبعض کی رائے ہے کہ ٹرمپ پانچ عشروں پر محیط امریکی صحافتی دورانیے کو تبدیل کر رہے ہیں، واشنگٹن پوسٹ کے سابق ایڈیٹر بنجامن بریڈلی کا شمار امریکا کے شاندار صحافیوںمیں ہوتا تھا۔ وہ کئی نسلوں کے رجحان ساز میڈیا جادو گر بتائے جاتے تھے، ان کی جان ایف کینیڈی سے گہری یاری تھی، وہ صحافتی باب میں ایک پیج پر تھے۔ان کا انتقال2014 میں ہوا۔ ان کی زندگی اور خدمات پر''دی پوسٹ '' کے نام سے ایک فلم بھی بنی۔
بریڈلی نے 1975 میں '' کینیڈی سے گفتگو'' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔لیکن اس کے بیس سال بعد انھوں نے اپنی یاداشت میں لکھا کہ کسی کو پتا نہ چلا کہ ان کی عم زاد میری میئر کے کینیڈی سے قتل سے پہلے خفیہ تعلقات تھے۔ پھر میری کی موت بھی پراسرار انداز میں ہوئی، جس پر بریڈلی نے اس قتل پر یہ موقف اختیارکیاکہ میری کی موت کا دفاع معاصرانہ امریکی کلچر میں کسی طور ممکن نہیں۔
لیکن اس کالم میں ٹرمپ یا امریکی صحافت کا بطور خاص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں، بنیادی سوال امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کے خیالات کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے، کینیڈی بھی تبدیلی کے مظہر تھے۔ مقصد یہی ہے کہ قارئین 60 کی دہائی میں کینیڈی کے سیاسی خیالات اور آزادی صحافت و اظہار کے تصورات سے کچھ آشنا ہوں اور یہ دیکھیں کہ عمران خان کے فلسفۂ تبدیلی اورکینیڈی کے سیاسی خیالات کے دھارے کہاں ملتے ہیںاور ان کی سوچ کیا تھی۔
کینیڈی کا کہنا تھا کہ ادیب کا سب سے اولین فریضہ خود سے سچا ہونا ہے، وہ واقعات کو فطری انداز میں وقوع پذیر ہونے دے، ادیب اگر اپنے وژن کے مطابق سچائی کی تلاش میں ہے تو وہ قوم کی خدمت کر رہا ہے۔ جان کینڈی کے نزدیک راز داری کا لفظ اپنے مفہوم میں ایک آزاد اور کھلے معاشرے سے متصادم ہے۔ ہم قومی حیثیت میں داخلی اور تاریخی طور پر سیکرٹ سوسائیٹیوں کے خلاف ہیں، سیکرٹ حلف ناموں اور سیکرٹ کارروائیوں کے ناقد۔ ہماری زندگی انڈر اٹیک ہے۔
وہ عناصر جو ہمیں اپنا دشمن بناتے ہیں، ان کی عالمی سطح پر مقبولیت وسعت پذیر ہے۔ کوئی جنگ ہماری سلامتی کے لیے کبھی خطرہ نہیں بن سکتی۔اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ کسی واضح اور موجود خطرہ کو بس دیکھ لیں تو میں یہی کہوں گاکہ وہ خطرہ اس سے پہلے اس سے زیادہ واضح نہیں تھا اور اس کی موجودگی پہلے اتنی حقیقی شکل میں سامنے نہیںآئی تھی۔ ہمیں در اصل ایک بھاری بھرکم اور بے رحمانہ سازش کا بین الاقوامی سطح پر سامنا ہے۔
یہ سازش اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کے لیے بنیادی طور پر خفیہ ذرایع پر انحصار کرتی ہے، یہ جارحیت کے بجائے در اندازی، انتخابات کے بجائے تخریب کاری، آزاد اختیار و چوائس کے بجائے دھونس دھمکیوں، دن کی روشنی میںفوج کے بجائے اندھیری رات میںگوریلا وار کے ذریعے واردات کرتی ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس نے وسیع انسانی، سائنسی اور سیاسی آپریشنز کے وسائل پر قبضہ جما لیا ہے، اس نظام کی غلطیاں دفن کی جاتی ہیں ، ان کی ہیڈ لائنز اخبارات کی زینیت نہیں بنتیں، تیاریوں کو چھپایا جاتا ہے، یہ نظام ایک منظم، مربوط عسکری، سفارتی، سراغ رسانی اور معاشی معاملات کی تکمیل کرتا ہے، اس میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ،کسی رازکے افشا کرنے کی اجازت نہیں۔
کینیڈی نے ایک اور جگہ لکھا کہ کتنا بڑا قومی المیہ ہے اور اس کا تناسب بھی غیر معمولی، میں پوچھتا ہوں امریکا کا مسئلہ کیا ہے؟ وہ ایسا ماحول اور حالات کیوں مہیا کرتا ہے جس میںاس قسم کے اقدامات ہوتے ہیں۔ قوم میں ایک بیماری درآئی ہے۔ سیاسی اختلاف کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور جمہوری طریقے سے اس کا تصفیہ بھی نہیں ہوتا۔
ڈونلڈ جیفریز نے کہا کہ جان ایف کینیڈی کے قتل سے پہلے زیادہ تر امریکیوں نے لفظ ''سازش'' conspiracy کبھی استعمال نہیں کیا۔کینیڈی کا قتل بے بی بومر جنریشن کے لیے ایک قومی واقعہ ہے۔ ہم نے اپنی معصومیت کے نتائج کے حوالہ سے بہت سے کلشئے سن رکھے تھے، حکومتی رہنمائوں پر عوام کی بد اعتمادی بھی اظہر من الشمش تھی جو 22 اکتوبر1963 کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی۔ لیکن اس میں ایک بہت بڑی سچائی بھی چھپی ہوئی تھی۔
صائب طریقے صدرکینیڈی ہمارے اندر کی آئیڈل ازم میں ثبت ہوئے، اوراس نے قوم کی اکثریت کو متاثر کیا، خصوصاً نئی نسل کو۔ اس سے پہلے کسی صدر کے بارے میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ صدر کینیڈی بہت سے صدور سے مختلف تھے، وہ پہلے صدر تھے جنھوں نے تنخواہ وصول نہیں کی، انھوں نے کبھی بھی پیٹرز برگ کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی، وہ پہلے کیتھولک تھے جو اوول آفس میں آ کر بیٹھ گئے۔ وہ بلاشبہ کئی حوالوں سے دیگر صدور سے منفرد تھے، یا انگلینڈ کی طرح کسی شاہی خاندان سے نہ تھے۔
وہ ایک حقیقی وار لیڈر تھے جس نے ایک زخمی شخص کو بچانے کے لیے صرف ایک رنگ دانتوں میں دبا کر اسے لے کر تین میل تک ٹگ کیا اور کنارے پر لائے، اسے ڈوبنے سے بچا لیا جب کہ جاپانیوں نے اس کی جنگی کشتی تباہ کر دی تھی ۔ یہ ایثار اور جوانمردی کا انوکھا واقعہ تھا۔کینیڈی کے بارے میں کہاگیا کہ علم دوست اور دانشور سطح کے صدر تھے۔ اپنی تقریر خود لکھتے اور وہ کمال کی تقریر ہوتی تھی۔
وہ ایک مکمل ادیب تھے جب کہ کسی کو اس بات کی جرات نہ ہوئی کہ کبھی وہ ننگے ڈانس میں ان کی شمولیت پر اصرارکرتے، اور نہ اس نے اس بڑے الّوکی پرستش کی جیسا کہ ہمارے امریکی رہنما موہمیان گلو کیلیفورنیا میں کیاکرتے تھے۔کینیڈی کی موت پر کیون جیمز نے لکھا کہ دنیا میں ایک دیوتا سورج قتل ہو گیا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ اب شاید ہمیں دوسرا سورج طلوع ہوتا ہوا نظر نہ آئے۔ ایک بار کینیڈی نے کہا ، '' اے خدا ، آپ کا سمندر اتنا عظیم اور میری کشتی بہت چھوٹی سی ۔''
جان ایف کینیڈی پر ایک نے کہا کہ قومی سطح سے بلند ہوکر انسانی رفعتوں کی ہمسری کرنا، میں اسی کو ترقی کا نام دیتا ہوں، اور یہ بہت ہی قابل تعریف عمل ہے، اس آدمی کے لیے جو ارتقا پذیر ہو جو محنت کرکے وائٹ ہائوس پہنچا ہو، میرے لیے یہ ناممکن سی بات تھی۔ جیرالڈ لینن نے کہا کہ ہم ہپی Hippi لوگ بہت امن اورکی باتیں کرتے تھے اور جس اچھے آدمی کو ہم نے اپنا چیمپیئن بنایا اسے تشدد اور نفرت نے مار ڈالا۔
کینیڈی نے کہا تھا کہ بحث و مباحثے کے بغیر، تنقید کے بغیر کوئی انتظامیہ اور ملک سروائیو نہیں کر سکتا، اس کے عوام کی بقا ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایتھنز کے قانون دان سولن نے اعلان کیا کہ جو شخص ریاست میں تنازع contrversy سے بچنا کی کوشش کرے وہ مجرم ہے، اسی بنا پر پہلی ترمیم میں ہمارے پریس کو تحفظ دیا گیا۔ اس نے کہا کہ ہم اس بات سے خائف نہیں کہ امریکی عوام کو ناپسندیدہ حقائق سے آشنا کر دیں، غیر ملکی خیالات سے، اجنبی فلسفوں سے اور باہم الجھی ہوئی مسابقانہ اقدار سے۔ ایک قوم جو سچ کی تمیز اور اوپن مارکیٹ سے خوفزدہ ہو، وہ سمجھ لو اپنے عوام سے خوفزدہ ہے۔
کینیڈی نے کہا کہ واقعات اپنے طور پر رونما نہیں ہوتے، کرائے جاتے ہیں۔ انھیں رستہ ملتا ہے کہ رونماہو جائیں۔ تبدیلی زندگی کا قانون ہے، وہ لوگ جو ماضی وحال کے چکر میں پڑے رہتے ہیں مستقبل انھیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ (جاری ہے)
معروف امریکی صحافی جان ہیرس نے لکھا کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ جان ایف کینیڈی جیسا ہے؟ دوسری طرف سین ہینی ٹی اپنے شو میں ٹرمپ اورکینیڈی کی طرز صدارت میں مماثلت پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ ہینی ٹی نے ایک عجیب تضاد کی نشاندہی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ٹرمپ روزانہ اہل صحافت پر طنزکرتے ان کی تضحیک اورکردارکشی کرتے رہتے ہیں، مگر پس پردہ Behind the scene وہ میڈیا سے مراسم بڑھا چکے ہیں، وہ سینئر رپورٹرز، تجزیہ کاروں، میڈیا ٹائیکونز اور اہم صحافتی حلیفوںسے ملتے اور رابطے میں رہتے ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آزاد میڈیا کے بنیادی تصور سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے میڈیا سے انٹر ایکشن کی داستانیں بھی بیان کی گئی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اس دوستی اور رابطہ کا سلسلہ جان ایف کینیڈی سے جوڑا جاتا ہے۔
اخبار'' رپورٹر'' نے ٹرمپ کا نام لیے بغیر لکھا کہ مسئلہ یہ نہیں کہ اس کا بھونکنا اس کے کاٹنے سے زیادہ خطرناک ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ کاٹنے کے موڈ میں نہیں بلکہ چاہتا ہے کہ کوئی اس کی پیٹھ تھپتھپائے۔ اسے شاباش دے جب کہ نیو یارک ٹائمز کے پیٹر بیکر کا تجزیہ یہ ہے کہ سابق صدر نکسن کے زمانے سے اب تک ٹرمپ بلاشبہ امریکی پریس کے سب سے خوف ناک مخالف ثابت ہوئے ہیں۔
امریکی صحافیوں میںبعض کی رائے ہے کہ ٹرمپ پانچ عشروں پر محیط امریکی صحافتی دورانیے کو تبدیل کر رہے ہیں، واشنگٹن پوسٹ کے سابق ایڈیٹر بنجامن بریڈلی کا شمار امریکا کے شاندار صحافیوںمیں ہوتا تھا۔ وہ کئی نسلوں کے رجحان ساز میڈیا جادو گر بتائے جاتے تھے، ان کی جان ایف کینیڈی سے گہری یاری تھی، وہ صحافتی باب میں ایک پیج پر تھے۔ان کا انتقال2014 میں ہوا۔ ان کی زندگی اور خدمات پر''دی پوسٹ '' کے نام سے ایک فلم بھی بنی۔
بریڈلی نے 1975 میں '' کینیڈی سے گفتگو'' کے عنوان سے ایک کتاب لکھی۔لیکن اس کے بیس سال بعد انھوں نے اپنی یاداشت میں لکھا کہ کسی کو پتا نہ چلا کہ ان کی عم زاد میری میئر کے کینیڈی سے قتل سے پہلے خفیہ تعلقات تھے۔ پھر میری کی موت بھی پراسرار انداز میں ہوئی، جس پر بریڈلی نے اس قتل پر یہ موقف اختیارکیاکہ میری کی موت کا دفاع معاصرانہ امریکی کلچر میں کسی طور ممکن نہیں۔
لیکن اس کالم میں ٹرمپ یا امریکی صحافت کا بطور خاص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں، بنیادی سوال امریکا کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کے خیالات کا ایک جائزہ پیش کرنا ہے، کینیڈی بھی تبدیلی کے مظہر تھے۔ مقصد یہی ہے کہ قارئین 60 کی دہائی میں کینیڈی کے سیاسی خیالات اور آزادی صحافت و اظہار کے تصورات سے کچھ آشنا ہوں اور یہ دیکھیں کہ عمران خان کے فلسفۂ تبدیلی اورکینیڈی کے سیاسی خیالات کے دھارے کہاں ملتے ہیںاور ان کی سوچ کیا تھی۔
کینیڈی کا کہنا تھا کہ ادیب کا سب سے اولین فریضہ خود سے سچا ہونا ہے، وہ واقعات کو فطری انداز میں وقوع پذیر ہونے دے، ادیب اگر اپنے وژن کے مطابق سچائی کی تلاش میں ہے تو وہ قوم کی خدمت کر رہا ہے۔ جان کینڈی کے نزدیک راز داری کا لفظ اپنے مفہوم میں ایک آزاد اور کھلے معاشرے سے متصادم ہے۔ ہم قومی حیثیت میں داخلی اور تاریخی طور پر سیکرٹ سوسائیٹیوں کے خلاف ہیں، سیکرٹ حلف ناموں اور سیکرٹ کارروائیوں کے ناقد۔ ہماری زندگی انڈر اٹیک ہے۔
وہ عناصر جو ہمیں اپنا دشمن بناتے ہیں، ان کی عالمی سطح پر مقبولیت وسعت پذیر ہے۔ کوئی جنگ ہماری سلامتی کے لیے کبھی خطرہ نہیں بن سکتی۔اگر آپ اس انتظار میں ہیں کہ کسی واضح اور موجود خطرہ کو بس دیکھ لیں تو میں یہی کہوں گاکہ وہ خطرہ اس سے پہلے اس سے زیادہ واضح نہیں تھا اور اس کی موجودگی پہلے اتنی حقیقی شکل میں سامنے نہیںآئی تھی۔ ہمیں در اصل ایک بھاری بھرکم اور بے رحمانہ سازش کا بین الاقوامی سطح پر سامنا ہے۔
یہ سازش اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کے لیے بنیادی طور پر خفیہ ذرایع پر انحصار کرتی ہے، یہ جارحیت کے بجائے در اندازی، انتخابات کے بجائے تخریب کاری، آزاد اختیار و چوائس کے بجائے دھونس دھمکیوں، دن کی روشنی میںفوج کے بجائے اندھیری رات میںگوریلا وار کے ذریعے واردات کرتی ہے۔ یہ ایسا نظام ہے جس نے وسیع انسانی، سائنسی اور سیاسی آپریشنز کے وسائل پر قبضہ جما لیا ہے، اس نظام کی غلطیاں دفن کی جاتی ہیں ، ان کی ہیڈ لائنز اخبارات کی زینیت نہیں بنتیں، تیاریوں کو چھپایا جاتا ہے، یہ نظام ایک منظم، مربوط عسکری، سفارتی، سراغ رسانی اور معاشی معاملات کی تکمیل کرتا ہے، اس میں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ،کسی رازکے افشا کرنے کی اجازت نہیں۔
کینیڈی نے ایک اور جگہ لکھا کہ کتنا بڑا قومی المیہ ہے اور اس کا تناسب بھی غیر معمولی، میں پوچھتا ہوں امریکا کا مسئلہ کیا ہے؟ وہ ایسا ماحول اور حالات کیوں مہیا کرتا ہے جس میںاس قسم کے اقدامات ہوتے ہیں۔ قوم میں ایک بیماری درآئی ہے۔ سیاسی اختلاف کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور جمہوری طریقے سے اس کا تصفیہ بھی نہیں ہوتا۔
ڈونلڈ جیفریز نے کہا کہ جان ایف کینیڈی کے قتل سے پہلے زیادہ تر امریکیوں نے لفظ ''سازش'' conspiracy کبھی استعمال نہیں کیا۔کینیڈی کا قتل بے بی بومر جنریشن کے لیے ایک قومی واقعہ ہے۔ ہم نے اپنی معصومیت کے نتائج کے حوالہ سے بہت سے کلشئے سن رکھے تھے، حکومتی رہنمائوں پر عوام کی بد اعتمادی بھی اظہر من الشمش تھی جو 22 اکتوبر1963 کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی۔ لیکن اس میں ایک بہت بڑی سچائی بھی چھپی ہوئی تھی۔
صائب طریقے صدرکینیڈی ہمارے اندر کی آئیڈل ازم میں ثبت ہوئے، اوراس نے قوم کی اکثریت کو متاثر کیا، خصوصاً نئی نسل کو۔ اس سے پہلے کسی صدر کے بارے میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ صدر کینیڈی بہت سے صدور سے مختلف تھے، وہ پہلے صدر تھے جنھوں نے تنخواہ وصول نہیں کی، انھوں نے کبھی بھی پیٹرز برگ کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی، وہ پہلے کیتھولک تھے جو اوول آفس میں آ کر بیٹھ گئے۔ وہ بلاشبہ کئی حوالوں سے دیگر صدور سے منفرد تھے، یا انگلینڈ کی طرح کسی شاہی خاندان سے نہ تھے۔
وہ ایک حقیقی وار لیڈر تھے جس نے ایک زخمی شخص کو بچانے کے لیے صرف ایک رنگ دانتوں میں دبا کر اسے لے کر تین میل تک ٹگ کیا اور کنارے پر لائے، اسے ڈوبنے سے بچا لیا جب کہ جاپانیوں نے اس کی جنگی کشتی تباہ کر دی تھی ۔ یہ ایثار اور جوانمردی کا انوکھا واقعہ تھا۔کینیڈی کے بارے میں کہاگیا کہ علم دوست اور دانشور سطح کے صدر تھے۔ اپنی تقریر خود لکھتے اور وہ کمال کی تقریر ہوتی تھی۔
وہ ایک مکمل ادیب تھے جب کہ کسی کو اس بات کی جرات نہ ہوئی کہ کبھی وہ ننگے ڈانس میں ان کی شمولیت پر اصرارکرتے، اور نہ اس نے اس بڑے الّوکی پرستش کی جیسا کہ ہمارے امریکی رہنما موہمیان گلو کیلیفورنیا میں کیاکرتے تھے۔کینیڈی کی موت پر کیون جیمز نے لکھا کہ دنیا میں ایک دیوتا سورج قتل ہو گیا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ اب شاید ہمیں دوسرا سورج طلوع ہوتا ہوا نظر نہ آئے۔ ایک بار کینیڈی نے کہا ، '' اے خدا ، آپ کا سمندر اتنا عظیم اور میری کشتی بہت چھوٹی سی ۔''
جان ایف کینیڈی پر ایک نے کہا کہ قومی سطح سے بلند ہوکر انسانی رفعتوں کی ہمسری کرنا، میں اسی کو ترقی کا نام دیتا ہوں، اور یہ بہت ہی قابل تعریف عمل ہے، اس آدمی کے لیے جو ارتقا پذیر ہو جو محنت کرکے وائٹ ہائوس پہنچا ہو، میرے لیے یہ ناممکن سی بات تھی۔ جیرالڈ لینن نے کہا کہ ہم ہپی Hippi لوگ بہت امن اورکی باتیں کرتے تھے اور جس اچھے آدمی کو ہم نے اپنا چیمپیئن بنایا اسے تشدد اور نفرت نے مار ڈالا۔
کینیڈی نے کہا تھا کہ بحث و مباحثے کے بغیر، تنقید کے بغیر کوئی انتظامیہ اور ملک سروائیو نہیں کر سکتا، اس کے عوام کی بقا ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ ایتھنز کے قانون دان سولن نے اعلان کیا کہ جو شخص ریاست میں تنازع contrversy سے بچنا کی کوشش کرے وہ مجرم ہے، اسی بنا پر پہلی ترمیم میں ہمارے پریس کو تحفظ دیا گیا۔ اس نے کہا کہ ہم اس بات سے خائف نہیں کہ امریکی عوام کو ناپسندیدہ حقائق سے آشنا کر دیں، غیر ملکی خیالات سے، اجنبی فلسفوں سے اور باہم الجھی ہوئی مسابقانہ اقدار سے۔ ایک قوم جو سچ کی تمیز اور اوپن مارکیٹ سے خوفزدہ ہو، وہ سمجھ لو اپنے عوام سے خوفزدہ ہے۔
کینیڈی نے کہا کہ واقعات اپنے طور پر رونما نہیں ہوتے، کرائے جاتے ہیں۔ انھیں رستہ ملتا ہے کہ رونماہو جائیں۔ تبدیلی زندگی کا قانون ہے، وہ لوگ جو ماضی وحال کے چکر میں پڑے رہتے ہیں مستقبل انھیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ (جاری ہے)