حکومت پر پالیسی ریٹ میں کمی کیلیے دباؤ میں اضافہ
کسی حکومت نے توازن ادائیگی کے اہم مسئلے کے دیرپا حل پر کوئی توجہ نہیں دی
ISLAMABAD:
مالی سال 2019-20 کی ابتدائی سہ ماہی ختم ہونے کے ساتھ ہی معاشی استحکام کے لیے کیے گئے ' اقدامات' کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سب سے واضح اثر افراط زر کی بلند شرح ہے جو 11.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ بڑھبا کر 13.25فیصد کردیا ہے اور مثبت حقیقی شرح سود برقرار رکھنے کے ارادے کی وجہ سے افراط زر کی شرح 10-11 کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ سرمائے کی اڑان کے سدباب اور غیرملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے مثبت حقیقی شرح سود پر توجہ بڑھ گئی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں بلند پالیسی ریٹ پر تنقید کی جارہی ہے اور اسے نیچے لانے پر بحث ہورہی ہے۔ اس بحث کی وجہ سے معیشت کو درپیش سب سے اہم مشکل، توازن ادائیگی پر دباؤ سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
مالی سال 2019-20 کی ابتدائی سہ ماہی ختم ہونے کے ساتھ ہی معاشی استحکام کے لیے کیے گئے ' اقدامات' کے نتائج ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سب سے واضح اثر افراط زر کی بلند شرح ہے جو 11.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ بڑھبا کر 13.25فیصد کردیا ہے اور مثبت حقیقی شرح سود برقرار رکھنے کے ارادے کی وجہ سے افراط زر کی شرح 10-11 کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ سرمائے کی اڑان کے سدباب اور غیرملکی سرمایہ کاری کے حصول کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے مثبت حقیقی شرح سود پر توجہ بڑھ گئی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں بلند پالیسی ریٹ پر تنقید کی جارہی ہے اور اسے نیچے لانے پر بحث ہورہی ہے۔ اس بحث کی وجہ سے معیشت کو درپیش سب سے اہم مشکل، توازن ادائیگی پر دباؤ سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔