معاشی جمود کا حل نکالنے کی ضرورت
ملکی ترقی کے لیے تمام جمہوری شراکت دار درپیش مسائل اور چیلنجز پر قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔
اطلاعات کے مطابق ملکی معیشت میں جمود کے خاتمہ کے لیے اعلیٰ سطح کی مربوط کوششوں کے نتیجہ خیز ہونے کے عندیے ملے ہیں۔
باخبر ذرایع کے مطابق قومی سلامتی گڈگورننس اور تجارتی حلقوں اور کاروباری برادری کی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے مثبت فال آؤٹ پر معاشی مبصرین کا فیڈ بیک بھی حکومتی حلقوں کے پیش نظر ہے، جس کے نتیجہ میں توقع کی جا رہی ہے کہ ملک میں سیاسی ماحول اور جمہوری عمل مسلمہ سپرٹ کے ساتھ جاری رہے جب کہ امن و امان کی صورتحال اولین ترجیح کے طور پر اقتصادی ایجنڈے پر برقرار رہے۔
وزیراعظم اور ان کے معاشی مشیروں میں اس بات پر مکمل اتفاق رائے پایا گیاکہ معاشی امور پر ہر قسم کے تحفظات کے ازالہ کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے رہیں ، ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت نے معیشت پر ایک صحت مند اوپن ڈائیلاگ کی پالیسی پر خاموشی سے عملدرآمدکے سیاق وسباق میں ایک پیش رفت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے غربت اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کے حالات کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ان افراد کی دست گیری کی جائے جو حکومتی معاشی اصلاحات اور فوری ریلیف کے منتظر ہیں۔
واضح رہے وزیر اعظم نے چین کے دورہ پر روانگی سے قبل اتوار کو اسلام آباد میں احساس سیلانی لنگرکا افتتاح کیا، ادھر پنجاب میں صحت انصاف کارڈ تقسیم کرنے کے موقع پر وفاقی وزیر برائے معاشی امور حماد اظہر نے کہا کہ پاکستانیوں کے11 ارب ڈالر باہر ہیں ، 50 فیصد کو ٹیکس اور ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ظاہر کیا گیا ، باقیوں کے خلاف کارروائی ہوگی ، گزشتہ ایک سال میں 10 ارب ڈالر کا قرض واپس کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ تاجر برادری سے ملاقاتیں مفید رہیں، سب ایک پیج پر تھے، آرمی چیف نے کہا کہ ملکی استحکام خراب نہیں کرنے دیں گے ، معاشی ماہرین کے مطابق گزشتہ دنوں کاروباری برادری کی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں اور معاشی و کاروباری معاملات پر جو مکالمہ ہوا ، اسے تاجر برادری اور حکومت کے مابین اعتماد کے فقدان کے ازالے کی سمت خوش آیند قرار دیا گیا۔ مبصرین کا کہنا تھا ملکی معاشی صورتحال سے متعلق معروضی صورتحال ایک گہرے مطالعہ کی متقاضی ہے اور اس حوالہ سے سیاسی و عسکری قیادت کی پیش قدمی ناگزیر تھی۔
دریں اثناء چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب اب ٹیکسوں سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا ، 2017 سے پہلے کے ٹیکس ریفرنسز واپس لے لیے جائیںگے، نیب کی ایسی کوئی خواہش نہیںکہ سعودی عرب جیسے اختیارات دیے جائیں۔ صرف کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اتوارکو یہاںپریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو آرمی چیف سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ کاروباری طبقے کے کچھ تحفظات بے بنیاد تھے۔
جن کی میں نفی کرتا ہوں۔ بزنس کمیونٹی نے نیب پر تحفظات کا اظہار کیا ، تنقید کرنے والے نے چند دن پہلے خط میں نیب کی تعریفیں کیں۔ نیب مسئلہ نہیں مسائل کا حل ہے، نیب افسرکسی تاجر کو فون کال نہیں کرے گا،کاروباری نمایندوں کی4رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس سے تبادلہ خیال جاری رہے گا۔ معیشت مضبوط ہوگی تو ملک اور دفاع مضبوط ہوگا۔ نیب کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے کاروباری سرگرمیاں یا معیشت متاثر ہو، ادارے ہوں یا انسان خامیاں سب میں ہوتی ہیں۔
ٹیکس ، ڈالر کی قیمت ، اسٹاک مارکیٹ، معیشت کی مضبوطی میں نیب کا کوئی کردار نہیں ۔ ہمارے ہاں وقتی بحران آیا ہے تو بہتر پالیسیوں سے اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ بحرانوں کا حل یہ نہیں کہ ساری ذمے داری نیب پر ڈال دی جائے۔ صرف نیب کو سیاسی انتقام کا ادارہ کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ نیب کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں، یہ ادارہ ہے۔ تنقید کرنے والوں نے نیب کا قانون پڑھا نہ ہی ہمارا جوڈیشل سسٹم دیکھا۔ جو فیصلے کیے ہیں امید ہے ان کے بعد تاجر برادری کی شکایات ختم ہوجائیںگی، 5ماہ سے تاجروں کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
امید کی جانی چاہیے کہ ملکی معیشت کو ہمہ جہتی بحران اور جمود سے نکالنے کے لیے اداروں میں کثیر جہتی ہم آہنگی کوفروغ دیا جائے گا، اس وقت ضرورت امن و استحکام کی ہے، امن ہوگا تو سرمایہ کاری ہوگی، سیاسی اور سماجی آسودگی جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے، ارباب حکومت اپنی توانائیاں عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی بروقت تکمیل پرخرچ کریں۔
خطے میں ایک بھونچال کی کیفیت ہے، مفادات کی عالمی جنگ نے پاکستان کو ایک نازک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جس میں قومی سلامتی براہ راست ملکی اقتصادی۔سیاسی اور سماجی صورتحال سے جڑی ہوئی ہے، عوام سیاسی افراتفری نہیں چاہتے۔ ملکی ترقی کے لیے تمام جمہوری شراکت دار درپیش مسائل اور چیلنجز پر قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔ یاد رکھیے معیشت وہ واحد فورم ہے جس پر قوم کی سیاسی بصیرت انحصار کرتی ہے۔ معیشت کو بریک تھرو ملا تو دیگرمسائل بھی حل ہو جائیں گے۔
باخبر ذرایع کے مطابق قومی سلامتی گڈگورننس اور تجارتی حلقوں اور کاروباری برادری کی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں کے مثبت فال آؤٹ پر معاشی مبصرین کا فیڈ بیک بھی حکومتی حلقوں کے پیش نظر ہے، جس کے نتیجہ میں توقع کی جا رہی ہے کہ ملک میں سیاسی ماحول اور جمہوری عمل مسلمہ سپرٹ کے ساتھ جاری رہے جب کہ امن و امان کی صورتحال اولین ترجیح کے طور پر اقتصادی ایجنڈے پر برقرار رہے۔
وزیراعظم اور ان کے معاشی مشیروں میں اس بات پر مکمل اتفاق رائے پایا گیاکہ معاشی امور پر ہر قسم کے تحفظات کے ازالہ کے لیے بات چیت کے دروازے کھلے رہیں ، ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت نے معیشت پر ایک صحت مند اوپن ڈائیلاگ کی پالیسی پر خاموشی سے عملدرآمدکے سیاق وسباق میں ایک پیش رفت کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے غربت اور خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کے حالات کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ان افراد کی دست گیری کی جائے جو حکومتی معاشی اصلاحات اور فوری ریلیف کے منتظر ہیں۔
واضح رہے وزیر اعظم نے چین کے دورہ پر روانگی سے قبل اتوار کو اسلام آباد میں احساس سیلانی لنگرکا افتتاح کیا، ادھر پنجاب میں صحت انصاف کارڈ تقسیم کرنے کے موقع پر وفاقی وزیر برائے معاشی امور حماد اظہر نے کہا کہ پاکستانیوں کے11 ارب ڈالر باہر ہیں ، 50 فیصد کو ٹیکس اور ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ظاہر کیا گیا ، باقیوں کے خلاف کارروائی ہوگی ، گزشتہ ایک سال میں 10 ارب ڈالر کا قرض واپس کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ تاجر برادری سے ملاقاتیں مفید رہیں، سب ایک پیج پر تھے، آرمی چیف نے کہا کہ ملکی استحکام خراب نہیں کرنے دیں گے ، معاشی ماہرین کے مطابق گزشتہ دنوں کاروباری برادری کی وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقاتوں اور معاشی و کاروباری معاملات پر جو مکالمہ ہوا ، اسے تاجر برادری اور حکومت کے مابین اعتماد کے فقدان کے ازالے کی سمت خوش آیند قرار دیا گیا۔ مبصرین کا کہنا تھا ملکی معاشی صورتحال سے متعلق معروضی صورتحال ایک گہرے مطالعہ کی متقاضی ہے اور اس حوالہ سے سیاسی و عسکری قیادت کی پیش قدمی ناگزیر تھی۔
دریں اثناء چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب اب ٹیکسوں سے متعلق معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا ، 2017 سے پہلے کے ٹیکس ریفرنسز واپس لے لیے جائیںگے، نیب کی ایسی کوئی خواہش نہیںکہ سعودی عرب جیسے اختیارات دیے جائیں۔ صرف کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اتوارکو یہاںپریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو آرمی چیف سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ کاروباری طبقے کے کچھ تحفظات بے بنیاد تھے۔
جن کی میں نفی کرتا ہوں۔ بزنس کمیونٹی نے نیب پر تحفظات کا اظہار کیا ، تنقید کرنے والے نے چند دن پہلے خط میں نیب کی تعریفیں کیں۔ نیب مسئلہ نہیں مسائل کا حل ہے، نیب افسرکسی تاجر کو فون کال نہیں کرے گا،کاروباری نمایندوں کی4رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جس سے تبادلہ خیال جاری رہے گا۔ معیشت مضبوط ہوگی تو ملک اور دفاع مضبوط ہوگا۔ نیب کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے کاروباری سرگرمیاں یا معیشت متاثر ہو، ادارے ہوں یا انسان خامیاں سب میں ہوتی ہیں۔
ٹیکس ، ڈالر کی قیمت ، اسٹاک مارکیٹ، معیشت کی مضبوطی میں نیب کا کوئی کردار نہیں ۔ ہمارے ہاں وقتی بحران آیا ہے تو بہتر پالیسیوں سے اس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ بحرانوں کا حل یہ نہیں کہ ساری ذمے داری نیب پر ڈال دی جائے۔ صرف نیب کو سیاسی انتقام کا ادارہ کہنے سے بات نہیں بنے گی۔ نیب کسی سیاسی جماعت کا نام نہیں، یہ ادارہ ہے۔ تنقید کرنے والوں نے نیب کا قانون پڑھا نہ ہی ہمارا جوڈیشل سسٹم دیکھا۔ جو فیصلے کیے ہیں امید ہے ان کے بعد تاجر برادری کی شکایات ختم ہوجائیںگی، 5ماہ سے تاجروں کی ایک بھی شکایت موصول نہیں ہوئی۔
امید کی جانی چاہیے کہ ملکی معیشت کو ہمہ جہتی بحران اور جمود سے نکالنے کے لیے اداروں میں کثیر جہتی ہم آہنگی کوفروغ دیا جائے گا، اس وقت ضرورت امن و استحکام کی ہے، امن ہوگا تو سرمایہ کاری ہوگی، سیاسی اور سماجی آسودگی جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے، ارباب حکومت اپنی توانائیاں عوام کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی بروقت تکمیل پرخرچ کریں۔
خطے میں ایک بھونچال کی کیفیت ہے، مفادات کی عالمی جنگ نے پاکستان کو ایک نازک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے جس میں قومی سلامتی براہ راست ملکی اقتصادی۔سیاسی اور سماجی صورتحال سے جڑی ہوئی ہے، عوام سیاسی افراتفری نہیں چاہتے۔ ملکی ترقی کے لیے تمام جمہوری شراکت دار درپیش مسائل اور چیلنجز پر قومی اتفاق رائے پیدا کریں۔ یاد رکھیے معیشت وہ واحد فورم ہے جس پر قوم کی سیاسی بصیرت انحصار کرتی ہے۔ معیشت کو بریک تھرو ملا تو دیگرمسائل بھی حل ہو جائیں گے۔