لولی وڈ بحران کے خاتمے کی اُمید جاگ اٹھی

حالیہ مہینوں میں ریلیز ہونے والی فلموں کے لیے باکس آفس پر اچھا رسپانس ملا ہے

بولی وڈ فلموں کی نمائش سے سینما انڈسٹری کی رونقیں بھی بحال ہوگئیں ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
پاکستان فلم انڈسٹری جس کے کئی سالوں سے جاری بحران کودیکھتے ہوئے کہا جانے لگا تھا کہ شاید اب دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہی نہیں ہوسکے گی۔

پاکستان فلم انڈسٹری کے لوگوں کے رویوں اورکام کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ کسی حد تک درست بھی تھا، دوسری طرف بولی وڈ فلموں کی نمائش سے سینما انڈسٹری کی رونقیں بحال ہوگئیں،فلم بینوں خصوصا فیملیوں نے سینماؤںمیں آنا شروع کردیا،مگر معیاری پاکستانی فلمیں کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھیں۔ فلم ٹریڈ میں بننے والی فلمیں ایک مخصوص طبقہ اور مارکیٹ کے لئے ہی بن رہی تھیں جس سے فلم انڈسٹری کی بحالی دور کی بات معیاری فلم میکنگ کے زمرے میں بھی تذکرہ نہیں کیا جاسکتا ۔فلم انڈسٹری کے ہمدرد ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی اکثریت تو متبادل کاروبار کرنے لگی ، فنکار، رائٹر اور ڈائریکٹر نے ٹی وی انڈسٹری کا رخ کر لیا۔

دوسال قبل کراچی جو ٹی وی پروڈکشنز کا گڑھ بن چکا ہے وہاں کے ٹی وی پروڈکشنز نے فلم میکنگ میں بھی قدم رکھنے کا اعلان کیا، تو اس کا کوئی خاص نوٹس نہ لیا گیا۔ اس کے بارے میں سب کا یہی خیال تھا کہ یہ بیان بازی ہے موجودہ حالات میں بولی وڈ اور ہالی وڈ فلموں کے مقابلے میں فلم بنانے کا رسک کون لے گا؟ ٹی وی کے معروف اداکار ہمایوں سعید نے ''میں ہوں شاہد آفریدی'' اور شمعون عباسی نے ''گدھ '' کے نام سے فلمیں شروع کردیں ۔ ان فلموں کے آن سیٹ ہونے پر تمام افواہیں دم توڑنے لگیں، مگر فلموں کی دوسال عکس بندی اور پوسٹ پروڈکشن کا کام مکمل نہ ہونے پر ایک بار پھر ناامیدی کے بادل چھانے لگے کہ شاید یہ پراجیکٹ پایہ تکمیل پہنچنے سے پہلے ہی ڈبوں میں بند ہوچکے ہیں ۔

سال رواں میں 23اگست کو''میں ہوں شاہد آفریدی'' نمائش کے لئے پیش کردی گئی۔ ندیم ، جاوید شیخ ،ماہ نور بلوچ ، ہمایوں سعید، شفقت چیمہ ، اسماعیل تارا ستاروں سے سجی اس فلم نے باکس آفس پر بولی وڈ کی بلاک بسٹر فلم ''چنائی ایکسپریس'' کے مقابلے میں اچھا بزنس کرکے فلم انڈسٹری سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو حیران کردیا ۔ ''میں ہوں شاہد آفریدی'' جس کا رائٹر ، ڈائریکٹر سمیت زیادہ تر لوگ ٹی وی سے ہی تھے ۔اس سے قبل ٹی وی ماڈل واداکارہ آمنہ شیخ اور محب مرزا کی فلم ''جوش'' سارک فلم ایوارڈ اپنے نام کرچکی تھی۔ ملکی سیاست پر بنائی جانے والی فلم ''چنبیلی'' بھی اپنا اثر دکھا چکی تھی ۔

پچھلے ہفتہ سینماؤں کی زینت بننے والی فلم ''زندہ بھاگ'' کو مقامی کمیٹی نے پاکستان کی طرف سے آسکر ایوارڈ کے لئے نامزد کیا ہے۔ ان پاکستانی فلموں کی کامیابی کو دیکھ کر لگ رہا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو نئی زندگی مل رہی ہے۔ 'چنبیلی'، 'زندہ بھاگ' اور 'میں ہوں شاہد آفریدی' کی باکس آفس پر پسندیدگی کے بعد اس رائے کو مزید تقویت ملتی ہے۔اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے 'میں ہوں شاہد آفریدی' کے روح رواں ہمایوں سعید دو نئی فلمیں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اس کے لئے پہلی فلم کے رائٹر سے ہی سکرپٹ لکھوا رہے ہیں ۔ اداکار سعود جو پچھلے کافی عرصہ سے اپنی اہلیہ کے ساتھ ٹی وی پروڈکشن کر رہے ہیں ان کی طرف سے بھی جلد فلم شروع کرنے کا اعلان متوقع ہے ۔




ان کے علاوہ، یاسر نواز، برکت صدیقی، عبداللہ کادوانی، قیصر خان نظامانی اور دیگر اداکار اور ڈائریکٹر بھی نئی فلموں کے لئے کام کا آغاز کرچکے ہیں۔ قیصر خان نظامانی تو بیرون ملک جا کر فلمیں بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اس کے لئے وہ امریکا کا دورہ بھی کرچکے ہیں ۔ ادھر شمعون عباسی کی فلم ''گدھ'' زیبا بختیار کی 'آپریشن021'، تنویر جمال کی 'اب پیامبر نہیں آئیں گے' شان کی ''سایہ ذوالجلال'' اور بلال لاشاری کی فلم 'وار' تکمیل کے مراحل مکمل کرچکی ہیں۔ ان فلموں کے سوشل میڈیا پر ٹریلر کو بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔ خاص طور پر بلال لاشاری کی ''وار'' اس وقت ہاٹ کیک بنی ہوئی ہے جس کے ٹریلر نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ہے۔

اس فلم میں شان، شمعون عباسی ، علی عظمت ، عائشہ خان ، میشا شفیع نمایاں کردار کر رہے ہیں جس کی عکس بندی پاکستان کے علاوہ استنبول اور روم میں کی گئی ہے۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ وارنر برادرز کے اشتراک سے بنائی گئی ہے ۔اس فلم کو عیدالاضحی پر نمائش کے لئے پیش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔اس حوالے سے سینما آنرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ضوریز لاشاری نے کہا کہ پاکستانی فلموں کی باکس آفس پر کامیابی سے ایک بات واضح ہوگئی کہ فلم بین اچھی اور معیاری فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ہمارے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹر اگر اس طرح کی فلمیں بنائیں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ ہرقسم کا تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں۔ نئے ٹیلنٹ کی کامیابیوں نے پاکستان فلم انڈسٹری کے مردہ جسم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے ۔

جب لوگ ہم سے کسی پاکستانی فلم کے بارے میں پوچھتے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے۔انہوں نے ''میں ہوں شاہد آفریدی '' کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس فلم کو اتنا اچھا رسپانس ملا کہ ایک ہفتہ بعد دوبارہ نمائش کرنا پڑی۔ ان دنوں لوگ ''وار'' کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ یہ کب نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔فلمساز قیصر ثناء اللہ خان نے کہا کہ نئی پاکستانی فلموں کی باکس آفس پر کامیابی حوصلہ افزا ہے اور اس سے بہت سی نئی فلمیں شروع ہوگئی ہیں ۔

یہ بات درست ہے کہ بحران صرف باتوں سے نہیں عملی طور پر کچھ کرنے سے ہی ختم ہوگا۔ اسی لئے فلمسازی کے میدان میں آگیا۔''باڈی گارڈ'' ، ''ڈرٹی گرل'' اور اب ''ضدی پختون '' بنائی ہے جو عیدالاضحی پر نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔ ہمارے ہاں پچھلے ایک عرصہ سے بیان بازی ہی کی گئی ،ہم نے وقت کے ساتھ فلم میکنگ میں آنے والی جدت کو نہیں اپنایا اور نہ ہی ہم نے کوئی نئی کھیپ تیار کی جو آگے چل کر فلم انڈسٹری کے معاملات کو سنبھال سکے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی ساری زندگیاں فلم انڈسٹری میں کام کرتے گزار دیں ان کی بجائے ٹی وی انڈسٹری والوں نے ہمت دکھائی اور مرد میدان کہلانے کے حقدار ہوگئے ہیں۔فلم آج بھی مقبول اور تفریح کا سستا ترین ذریعہ ہے مگر ہمارے ہاں اس کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ بہرحال نئے ٹیلنٹ کی فلموں کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے پاکستان فلم انڈسٹری کا دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
Load Next Story