اے لیاری تجھے کیا ہوا
آج کل لیاری جن حالات سے گزر رہا ہے انھوں نے نہ صرف لیاری بلکہ پورے شہر کراچی کو لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کا۔۔۔
آج کل لیاری جن حالات سے گزر رہا ہے انھوں نے نہ صرف لیاری بلکہ پورے شہر کراچی کو لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کا فائدہ دہشت گردوں کے سوا کسی کو نہیں ہورہا۔ دراصل شہر میں اس طرح کی خوفناک، دہشت ناک فضا قائم کرکے دہشت گرد ملک کے مختلف شہروں پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور بادی النظر میں یہی ان کی پرتشدد، وحشیانہ کارروائیوں کا ایجنڈا معلوم ہوتا ہے۔ اسی سوچ نے مجھے آج لیاری کے حال و مستقبل کے بارے میں قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ میرا مدعا کچھ یوں ہے۔
جب ہم ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تو کراچی کی ایک نیم ترقی پذیر پرانی کالونی میں آباد ہوئے جو پیر الٰہی بخش کالونی کہلاتی ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس وقت ہمارے محلے میں صرف ہم اور ہمارے پڑوس میں بلوچوں کی بستی تھی جوکہ ''مکرانی پاڑہ'' کے نام سے موسوم تھی بعد میں جیسے جیسے یہ بستی آباد ہونا شروع ہوئی تو اس پاڑے کا نام ''بلوچ پاڑہ'' رکھ دیا گیا۔ کس قدر یگانگت اور ہم آہنگی تھی، بھائی چارہ تھا کہ نہ کوئی ''مہاجر'' تھا نہ کوئی ''بلوچ''۔
بس صرف پیر کالونی کے رہائشی تھے۔ ان کے بڑے اور ہمارے بڑے، ان کے بچے اور ہمارے بچے سب اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ اس ماحول کا تصور بھی آج کے معاشرے میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔ ان ہی کی بستی کی خاتون جو ''دائی'' کا کام کرتی تھی ہمارے محلے کے خاندانوں کی تمام خواتین کے زچگی کے کیسز وہی کیا کرتی تھی۔بہرحال میں نے لیاری کا جو پس منظر بتایا ہے وہ سب میری بھولی بسری یادوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن اب حال کا ''لیاری'' اور اس کے حالات بالکل مختلف اور دگرگوں ہیں ماضی کے لیاری کا تصور ہی مٹ گیا۔ آج کا لیاری، جنگجوؤں، قتل و غارت گری کرنیوالوں، حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور حساس اداروں کا مقابلہ کرنیوالوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی جاسکتی ہے حال کے لیاری کے حالات پرسکون کردے (آمین)
آج کل چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں کراچی کے امن وامان کے مسئلے پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں سماعت کرنے والی بینچ کا کسی فیصلے پر پہنچنے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ عدلیہ مستقل طور پر اس معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت سندھ اور وفاق کو بھی اعلیٰ عدلیہ سے تعاون کرنا چاہیے۔ حقائق کی پردہ پوشی نہ کی جائے تو سب کے حق میں بہتر ہے اس طرح عدالت عالیہ کو بھی اپنے فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔
اور اس لاقانونیت، تشدد پسندی، شر پسندی اور متشدددانہ کارروائیوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔ کمیٹیاں بنانے یا کمیشن تشکیل دینے سے یہ مسئلہ ہونے کا نہیں وہ محض تاخیری حربے تصور کیے جائیں گے۔اس ساری بحث کے علاوہ یہ راز آج تک افشا نہ ہوسکا کہ آخر پرامن اور پرسکون لیاری کی موجودہ حالت زار کا ذمے دار کون ہے۔ کیوں کر اس علاقے کے حالات پرتشدد ہوگئے اور ناقابل برداشت بھی۔ یہ ضرور کوئی سازش معلوم ہوتی ہے جیساکہ سابق وفاقی وزیر داخلہ بھی یہی کہتے تھے کہ کراچی کے اندرونی حالات خراب کرنے میں تیسری قوت ملوث ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے 5 سالہ دور حکومت میں بھی اس تیسرے ہاتھ کو پکڑ نہ سکے اور نہ ہی اس تیسری قوت کا نام و نشان بتا سکے۔
ظاہر ہے وہ ایسا کیوں کرتے؟ آخر ان کی جان بھی تو خطرے میں تھی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنے طور پر اپنی ذمے داریاں اچھی طریقے سے نبھائیں اور حتی المقدور کوشش کرتے رہے کہ کراچی کے حالات پرسکون ہوجائیں، بالخصوص لیاری کے علاقے کے جس کی وجہ سے پورے شہر کے حالات مخدوش ہوئے اور قابو پانا مشکل ہوگیا۔ ان کی کوششوں کو بہرحال سراہا جانا چاہیے گو کہ ان کی کوششیں رائیگاں گئیں۔
کراچی کے حالات خراب ہونے کی ذمے دار سندھ حکومت بھی ہے کیونکہ جب سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں فوج آپریشن کر رہی تھی تو بہت سے طالبان ان قبائلیوں کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے، ان کو یہاں پناہ دی گئی اور کراچی کے ساحلی علاقے (کلاچی) کے پاس کہیں ان کو کیمپ میں ٹھہرایا گیا۔ اور کہا یہ گیا کہ ان قبائلی اور طالبان کے اس کیمپ کو خاردار باڑ بناکر ان کی آمدورفت کو محدود کردیا گیا ہے اور ان کا شہر میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا اور سیکیورٹی عملہ بھی تعینات کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر سندھ کی دوسری بڑی منتخب جماعت نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی کہ انھیں کراچی کے کسی علاقے میں نہ بسایا جائے۔
یہ شہر میں آجائیں گے (خفیہ رابطوں کے ذریعے) لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ بالآخر ہوا وہی جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کچھ عرصہ خاموشی کے بعد انھوں نے ایک ایک کرکے شہر میں اپنے حامیوں اور رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لینا شروع کردیا اور کئی علاقوں میں پھیل گئے اس طرح انھوں نے حکومت سندھ کے اقدامات کو ناکام بنادیا۔ اب کر بھی کیا سکتے تھے، زہر کا گھونٹ پی ہی لیا ہے تو انتظار کرو۔ اللہ کا حکم کیا ہوتا ہے۔ آر یا پار۔ لیکن قدرت نے ان کو سزا اس صورت میں دی کہ ان ہی قبائلی اور طالبان نے ہاتھ کھول لیے اور دہشت گردی پھیلانے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انھوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کردیا اور حکومت کے دوبدو کھڑے ہوگئے۔ ان کے پاس اتنے جدید ہتھیار تھے اور وہ پورے طریقے سے مسلح تھے۔
جن کا مقابلہ حکومت کے اہلکار اور سیکیورٹی عملے، قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں کرسکے کیونکہ حکومتی اہلکاروں اور سیکیورٹی عملے کے پاس اس معیار کے ہتھیار ہی نہیں تھے کہ مخالفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ بلکہ انھوں نے (شرپسند، تشدد پسند، عناصر) اپنی حکمت عملی ہی بدل ڈالی۔ پہلے پہل وہ بے گناہوں کا قتل عام کر رہے تھے۔
اب دوسری حکمت عملی کے تحت پولیس اہلکاروں اور رینجرز کے اہلکاروں، افسران اور ان کی چوکیوں اور حتیٰ کہ ان کے ہیڈ کوارٹرز پر مسلح حملے کرنا شروع کردیے جس کی وجہ سے پولیس و رینجرز اہلکار شہید ہونے لگے۔ اس طرح پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی مزید ہلاکتوں کو روکنے کے لیے آفت زدہ اور حملہ آوروں کے ٹھکانوں پر جوابی حملے کرنے کے بجائے وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے ''بیک فٹ'' پر چلے گے۔ جس کی وجہ سے لیاری کے عوام کے تحفظ کا راستہ بند کردیا گیا۔
پولیس، رینجرز کے اہلکار لیاری کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو گینگ وار کے کارندے ان پر حملہ کردیتے۔ ایسی صورت حال ہوگئی تو لیاری کے عوام کو ان دہشت گردوں سے چھٹکارہ ملے بھی تو کیسے۔ یہاں تک نوبت آگئی کہ لیاری کے مظلوم عوام اور آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ جن میں کچھی برادری کے لوگ زیادہ تھے۔ بہرحال حکومتی کوششوں سے ان کو نقل مکانی سے روک کر واپسی اپنے گھروں کو لوٹنے کے انتظامات کیے گئے۔ لیکن وہ بارآور ثابت نہ ہوسکے۔
یوں نقل مکانی کرنیوالوں کے لیے گھروں کی واپسی کو بھی ناممکن بنادیا گیا۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ صوبے میں حکومت کا کوئی وجود ہے۔ دہشت گردوں کے آگے بے بس دکھائی دینے والی حکومت لیاری کے امن پسند عوام کو کیسے تحفظ دے سکتی ہے۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ لیاری کی بدحالی کو خوشحالی میں نہ بدلنے سے اس دہشت گردی کا اثر پورے شہر پر آگیا۔ اب دیکھیے چیف جسٹس صاحب کراچی کے امن وامان کے مسئلے کا کیا حل نکالتے ہیں۔ لے دے کر بات وہیں پہنچتی ہے کہ جیسے چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے تھے کہ ''ایسا معلوم ہوتا ہے صوبے میں کوئی حکومت نہیں'' یا پھر یہ کہ ''اگر اب عدلیہ کو ہی سارے کام کرنے ہیں تو حکومت کا کیا فائدہ؟''
جب ہم ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تو کراچی کی ایک نیم ترقی پذیر پرانی کالونی میں آباد ہوئے جو پیر الٰہی بخش کالونی کہلاتی ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس وقت ہمارے محلے میں صرف ہم اور ہمارے پڑوس میں بلوچوں کی بستی تھی جوکہ ''مکرانی پاڑہ'' کے نام سے موسوم تھی بعد میں جیسے جیسے یہ بستی آباد ہونا شروع ہوئی تو اس پاڑے کا نام ''بلوچ پاڑہ'' رکھ دیا گیا۔ کس قدر یگانگت اور ہم آہنگی تھی، بھائی چارہ تھا کہ نہ کوئی ''مہاجر'' تھا نہ کوئی ''بلوچ''۔
بس صرف پیر کالونی کے رہائشی تھے۔ ان کے بڑے اور ہمارے بڑے، ان کے بچے اور ہمارے بچے سب اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ اس ماحول کا تصور بھی آج کے معاشرے میں کہیں نظر نہیں آئے گا۔ ان ہی کی بستی کی خاتون جو ''دائی'' کا کام کرتی تھی ہمارے محلے کے خاندانوں کی تمام خواتین کے زچگی کے کیسز وہی کیا کرتی تھی۔بہرحال میں نے لیاری کا جو پس منظر بتایا ہے وہ سب میری بھولی بسری یادوں کا مجموعہ ہے۔ لیکن اب حال کا ''لیاری'' اور اس کے حالات بالکل مختلف اور دگرگوں ہیں ماضی کے لیاری کا تصور ہی مٹ گیا۔ آج کا لیاری، جنگجوؤں، قتل و غارت گری کرنیوالوں، حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور حساس اداروں کا مقابلہ کرنیوالوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی جاسکتی ہے حال کے لیاری کے حالات پرسکون کردے (آمین)
آج کل چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں کراچی کے امن وامان کے مسئلے پر سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سماعت جاری ہے۔ میرا خیال ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں سماعت کرنے والی بینچ کا کسی فیصلے پر پہنچنے کا انتظار کرنا چاہیے ۔ عدلیہ مستقل طور پر اس معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت سندھ اور وفاق کو بھی اعلیٰ عدلیہ سے تعاون کرنا چاہیے۔ حقائق کی پردہ پوشی نہ کی جائے تو سب کے حق میں بہتر ہے اس طرح عدالت عالیہ کو بھی اپنے فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی۔
اور اس لاقانونیت، تشدد پسندی، شر پسندی اور متشدددانہ کارروائیوں سے نمٹا جاسکتا ہے۔ کمیٹیاں بنانے یا کمیشن تشکیل دینے سے یہ مسئلہ ہونے کا نہیں وہ محض تاخیری حربے تصور کیے جائیں گے۔اس ساری بحث کے علاوہ یہ راز آج تک افشا نہ ہوسکا کہ آخر پرامن اور پرسکون لیاری کی موجودہ حالت زار کا ذمے دار کون ہے۔ کیوں کر اس علاقے کے حالات پرتشدد ہوگئے اور ناقابل برداشت بھی۔ یہ ضرور کوئی سازش معلوم ہوتی ہے جیساکہ سابق وفاقی وزیر داخلہ بھی یہی کہتے تھے کہ کراچی کے اندرونی حالات خراب کرنے میں تیسری قوت ملوث ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے 5 سالہ دور حکومت میں بھی اس تیسرے ہاتھ کو پکڑ نہ سکے اور نہ ہی اس تیسری قوت کا نام و نشان بتا سکے۔
ظاہر ہے وہ ایسا کیوں کرتے؟ آخر ان کی جان بھی تو خطرے میں تھی۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنے طور پر اپنی ذمے داریاں اچھی طریقے سے نبھائیں اور حتی المقدور کوشش کرتے رہے کہ کراچی کے حالات پرسکون ہوجائیں، بالخصوص لیاری کے علاقے کے جس کی وجہ سے پورے شہر کے حالات مخدوش ہوئے اور قابو پانا مشکل ہوگیا۔ ان کی کوششوں کو بہرحال سراہا جانا چاہیے گو کہ ان کی کوششیں رائیگاں گئیں۔
کراچی کے حالات خراب ہونے کی ذمے دار سندھ حکومت بھی ہے کیونکہ جب سوات اور دیگر قبائلی علاقوں میں فوج آپریشن کر رہی تھی تو بہت سے طالبان ان قبائلیوں کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے، ان کو یہاں پناہ دی گئی اور کراچی کے ساحلی علاقے (کلاچی) کے پاس کہیں ان کو کیمپ میں ٹھہرایا گیا۔ اور کہا یہ گیا کہ ان قبائلی اور طالبان کے اس کیمپ کو خاردار باڑ بناکر ان کی آمدورفت کو محدود کردیا گیا ہے اور ان کا شہر میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا اور سیکیورٹی عملہ بھی تعینات کردیا گیا ہے۔ اس موقع پر سندھ کی دوسری بڑی منتخب جماعت نے اس اقدام کی مخالفت کی تھی کہ انھیں کراچی کے کسی علاقے میں نہ بسایا جائے۔
یہ شہر میں آجائیں گے (خفیہ رابطوں کے ذریعے) لیکن ان کی بات نہیں مانی گئی۔ بالآخر ہوا وہی جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کچھ عرصہ خاموشی کے بعد انھوں نے ایک ایک کرکے شہر میں اپنے حامیوں اور رشتے داروں کے گھروں میں پناہ لینا شروع کردیا اور کئی علاقوں میں پھیل گئے اس طرح انھوں نے حکومت سندھ کے اقدامات کو ناکام بنادیا۔ اب کر بھی کیا سکتے تھے، زہر کا گھونٹ پی ہی لیا ہے تو انتظار کرو۔ اللہ کا حکم کیا ہوتا ہے۔ آر یا پار۔ لیکن قدرت نے ان کو سزا اس صورت میں دی کہ ان ہی قبائلی اور طالبان نے ہاتھ کھول لیے اور دہشت گردی پھیلانے لگے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انھوں نے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کردیا اور حکومت کے دوبدو کھڑے ہوگئے۔ ان کے پاس اتنے جدید ہتھیار تھے اور وہ پورے طریقے سے مسلح تھے۔
جن کا مقابلہ حکومت کے اہلکار اور سیکیورٹی عملے، قانون نافذ کرنے والے ادارے نہیں کرسکے کیونکہ حکومتی اہلکاروں اور سیکیورٹی عملے کے پاس اس معیار کے ہتھیار ہی نہیں تھے کہ مخالفوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ بلکہ انھوں نے (شرپسند، تشدد پسند، عناصر) اپنی حکمت عملی ہی بدل ڈالی۔ پہلے پہل وہ بے گناہوں کا قتل عام کر رہے تھے۔
اب دوسری حکمت عملی کے تحت پولیس اہلکاروں اور رینجرز کے اہلکاروں، افسران اور ان کی چوکیوں اور حتیٰ کہ ان کے ہیڈ کوارٹرز پر مسلح حملے کرنا شروع کردیے جس کی وجہ سے پولیس و رینجرز اہلکار شہید ہونے لگے۔ اس طرح پولیس اور رینجرز اہلکاروں کی مزید ہلاکتوں کو روکنے کے لیے آفت زدہ اور حملہ آوروں کے ٹھکانوں پر جوابی حملے کرنے کے بجائے وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے ''بیک فٹ'' پر چلے گے۔ جس کی وجہ سے لیاری کے عوام کے تحفظ کا راستہ بند کردیا گیا۔
پولیس، رینجرز کے اہلکار لیاری کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو گینگ وار کے کارندے ان پر حملہ کردیتے۔ ایسی صورت حال ہوگئی تو لیاری کے عوام کو ان دہشت گردوں سے چھٹکارہ ملے بھی تو کیسے۔ یہاں تک نوبت آگئی کہ لیاری کے مظلوم عوام اور آبادی کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ جن میں کچھی برادری کے لوگ زیادہ تھے۔ بہرحال حکومتی کوششوں سے ان کو نقل مکانی سے روک کر واپسی اپنے گھروں کو لوٹنے کے انتظامات کیے گئے۔ لیکن وہ بارآور ثابت نہ ہوسکے۔
یوں نقل مکانی کرنیوالوں کے لیے گھروں کی واپسی کو بھی ناممکن بنادیا گیا۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ صوبے میں حکومت کا کوئی وجود ہے۔ دہشت گردوں کے آگے بے بس دکھائی دینے والی حکومت لیاری کے امن پسند عوام کو کیسے تحفظ دے سکتی ہے۔ بہت افسوس کا مقام ہے کہ لیاری کی بدحالی کو خوشحالی میں نہ بدلنے سے اس دہشت گردی کا اثر پورے شہر پر آگیا۔ اب دیکھیے چیف جسٹس صاحب کراچی کے امن وامان کے مسئلے کا کیا حل نکالتے ہیں۔ لے دے کر بات وہیں پہنچتی ہے کہ جیسے چیف جسٹس صاحب نے ریمارکس دیے تھے کہ ''ایسا معلوم ہوتا ہے صوبے میں کوئی حکومت نہیں'' یا پھر یہ کہ ''اگر اب عدلیہ کو ہی سارے کام کرنے ہیں تو حکومت کا کیا فائدہ؟''