پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے کی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقلی خواب بننے لگی

صوبے بھر میں 500 روایتی بھٹوں کو ہی زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جاسکا ہے

ایک بھٹے کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لئے ایک کروڑ روپے اخراجات آتے ہیں فوٹو: ایکسپریس

حکومت کا پنجاب میں اینٹوں کے بھٹوں کوزگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کا خواب ابھی تک پورانہیں ہوسکا ہےاور صوبے بھر میں ابھی تک 500 روایتی بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جاسکا ہے۔

پنجاب حکومت نے 2017 میں پنجاب میں روایتی اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ پرمنتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور2018 کے آخرتک کی ڈیڈلائن دی گئی تھی تاہم ابھی تک صرف 500 بھٹے ہی اس ٹیکنالوجی پرمنتقل کئے جاسکے ہیں۔پھولنگرکے قریب کئی برسوں سے روایتی بھٹہ چلانے والے راناعبدالجبارنے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اپنا بھٹہ زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا ہے۔اس عمل میں میں ان کا 15 سے 20 لاکھ روپے خرچہ آیا ہے کیونکہ ان کے پاس بجلی کا کنکشن پہلے سے ہی موجودتھا اوربھٹہ بھی بناہواتھا۔انہیں بس پنکھا اور بلورخریدنا پڑاہے ۔ زگ زیگ ٹیکنالوجی سے بھٹے سے نکلنے والادھواں سفیدہوگیا ہے جس میں کاربن نہیں ہوتا جبکہ اینٹ کی کوالٹی اورپروڈکشن میں بہتری آئی ہے۔ پہلے روزانہ 20 سے 25 ہزاراینٹ تیارہوتی تھی تاہم اب 45 سے 50 ہزاراینٹ تیارہورہی ہے جبکہ اول اینٹوں کی شرح بھی 60، 70 فیصد سے بڑھ کر 90 فیصدتک پہنچ گئی ہے، زگ زیگ ٹیکنالوجی کی وجہ سے کوئلہ اورفیول کے اخراجات میں بھی 30 فیصدتک کمی آئی ہے۔

آل پاکستان بھٹہ مالکان ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل مہرعبدالحق نے ایکسپریس کوبتایا کہ آج بھی تمام بھٹہ مالکان اپنے بھٹوں کا زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے کو تیارہیں اوریہ عمل بتدریج جاری ہے لیکن یہ کام راتوں رات مکمل نہیں ہوسکتاہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں اینٹیں بنانے والاتیسرابڑاملک ہے۔ پاکستان میں تقریبا 19 ہزار جب کہ پنجاب میں 11 ہزار اینٹوں کے بھٹے ہیں ۔ایک بھٹے کوزگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے میں دوسے تین ماہ کا عرصہ لگتا ہے اب اگر تمام 11 ہزار بھٹوں کو منتقل کیا جائے اس میں 3 سے 4 سال لگ سکتے ہیں۔

مہرعبدالحق نے کہا کہ روایتی بھٹے کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے، ہم نے نیپال میں اس ٹیکنالوجی کا مشاہدہ کیاہے، جوکہ ہمارے راویتی طریقہ کارسے کافی ملتا جلتا ہے۔ مجموعی طور پر ایک بھٹے کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے لئے ایک کروڑ روپے اخراجات آتے ہیں۔اب اتنی خطیررقم ہربھٹہ مالک کے پاس نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کوتجاویزدی ہیں کہ بھٹہ مالکان کو زگ زیگ ٹیکنالوجی کے لئے سبسڈی دی جائے اورآسان طریقہ کارکےتحت قرض دیئے جائیں۔

اسی طرح کوئلہ مافیاکوکنٹرول کیاجائے توایک ماہ 4 ہزار روپے فی ٹن کوئلہ دیتا ہے تواگلے ماہ اس کی قیمت 6 ہزارہوجاتی ہے۔ اینٹوں کے بھٹے کے کاروبار سے جڑے راناسبحان کہتے ہیں روایتی بھٹے کو زگ زیگ پرمنتقل ہونے سے اینٹوں کی پروڈکشن بڑھ جائیگی، کم عرصے میں زیادہ اینٹیں تیارہوں گی، اس ٹیکنالوجی سےکچی اینٹیں تیارکرنیوالی لیبرکم نہیں ہوگی بلکہ زیادہ لیبر درکارہوگی جس کا ہمیں پہلے ہی فقدان ہے۔ ہمارے پاس اینٹیں تیارکرنے کے لئے لیبرنہیں ہے۔ اس وجہ سے بھی زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل نہیں ہواجارہاہے۔


زگ زیگ طریقہ کارکے تحت بھٹےمیں جلائے جانیوالے کوئلے کو جلانے کا عمل تیزکردیاجاتا ہے اس مقصد کے لئے پنکھے یعنی بلوراستعمال کیے جاتے ہیں۔ کچی اینٹیں سیدھی لگانے کی بجائے زگ زیگ طریقے سے لگائی جاتی ہیں جس سے کوئلے کا دھواں سیدھا نکلنے کی بجائے زگ زیگ طریقے سے خارج ہوتا ہے اس عمل کے دوران دھویں میں شامل کاربن اندرہی رہ جاتا ہے اورسفید دھواں ہوا کے تیزدباؤ کے ساتھ خارج ہوتا ہے جس سے فضائی آلودگی میں نمایاں کمی آتی ہے۔

دوسری طرف آل پاکستان بھٹہ ایسوسی ایشن مالکان نے اکتوبرمیں بھٹے بندکرنے کی حکومتی تجویزکومسترد کردیا ہے، سیکرٹری جنرل مہرعبدالحق کاکہنا ہے کہ ابھی اسموگ کا عمل شروع نہیں ہواہے، اکتوبرمیں بارشوں کا امکان ہے جیسے ہی اسموگ کا سلسلہ شروع ہوگا ہم رضاکارانہ طورپربھٹے خود بند کردیں گے۔ انہوں نے کہا بھٹے بند ہونے سے صرف ایک انڈسٹری متاثرنہیں ہوتی ہے بلکہ کئی شعبے متاثرہوتے ہیں۔ انہوں نے تجویزدی کہ اگرحکومت ہمیں سبسڈی اورتکنیکی معاونت مہیا کرے تو اسموگ سیزن کے دوران بھٹوں کی بڑی تعداد کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کیاجاسکتا ہے۔

دوسری طرف بعض بھٹہ مالکان کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پرکئی تحفظات بھی ہیں۔ ایک بھٹہ مالک نے بتایا کہ ہردوماہ بعد ان کا بلور خراب ہوجاتا ہے، ایک بلور کی قیمت 5 سے 6 لاکھ روپے تک ہے جبکہ زگ زیگ عمل کے دوران کئی اینٹیں کچی رہ جاتی ہیں لیکن ماہرین کاکہنا ہے کہ غلط تکینک کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، اگربلورکی تنصیب تکنیکی ماہرین کی معاونت سے کی جائے اوراینٹیں بھی اسی طریقے سے لگائی جائیں تواس سے نقصان نہیں ہوگا۔

ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات پنجاب نسیم الرحمان اس حوالے سے کہتے ہیں کہ بھٹہ مالکان کوقرض دینے کے حوالے سے اسٹیٹ بینک احکامات جاری کرچکا ہے دی بینک آف پنجاب بھٹہ مالکان کو 6 فیصدانٹرسٹ ریٹ پرآسان طریقے سے قرض دیگا۔ دوسری بات ہے فنی مہارت مہیا کرنے کی توبھٹوں پرجومزدورکام کرتے ہیں ان کو صرف لیکچردینے سے تربیت نہیں دی جاسکتی ہے۔ زگ زیگ طریقے سے کچی اینٹوں کو بھٹے میں کس طرح رکھنا ہے، پنکھوں کی تنصیب کس طرح کی جانی ہے یہ کام عملی مشق کے بغیر ممکن نہیں ہے اورانڈسٹری ڈیپارٹمنٹ یہ کام کرنہیں سکتا، اس کے لئے ہم نے بھٹہ مالکان کو یہ تجویزدی تھی کہ جن بھٹوں کو ٹیکنالوجی پر منتقل کیاگیا ہے وہاں جاکراس ٹیکنالوجی کے ماہرین مزدوروں کوتربیت دیں گے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کی جو ڈیڈلائن تھی اس کوہم آئندہ سال تک کے لئے بڑھانے جارہے ہیں تاہم اس حوالے سے ابھی حتمی تاریخ فائنل نہیں ہوسکی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ 11 ہزاربھٹوں کو اس ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔

بھٹہ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پنجاب میں 11 ہزار اینٹوں کے بھٹے ہیں ان کوزگ زیگ ٹیکنالوجی پرمنتقل کرنے میں 3 سے 4 سال کا عرصہ درکارہے۔ اینٹوں کے روایتی بھٹوں کی زگ زیگ ٹیکنالوجی میں منتقلی کی بڑی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی اورلیبرکی کمی ہے۔
Load Next Story