کراچی کا المیہ پہلا حصہ
ڈھاکہ فال سے قبل ڈھاکہ کے بعد کراچی وہ شہر تھا جہاں سے جمہوری تحریکوں کی ابتدا ہوا کرتی تھی کراچی ۔۔۔
ڈھاکہ فال سے قبل ڈھاکہ کے بعد کراچی وہ شہر تھا جہاں سے جمہوری تحریکوں کی ابتدا ہوا کرتی تھی کراچی کی یہ ادا حکمرانوں کو ناپسند تھی۔
یہ کراچی ہی تھا جس نے ملک کے پہلے فوجی حکمراں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو کامیاب کرایا جب کہ پورے ملک سے انھیں سول اور ملٹری بیوروکریسی اور موقع پرست سیاستدانوں کے ذریعے ہرایا گیا۔ لیکن محترمہ فاطمہ جناح کو دی جانے والی شکست کو اہل کراچی نے پسند نہ کیا اور جنرل ایوب پر اتنا دباؤ آیا کہ انھوں نے اپنے بنائے ہوئے آئین کے مطابق عمل کرنے کے بجائے اپنے ساتھی جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کردیا جنہوں نے ملک کے پہلے دن میں ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کرائے اور اپنی مرضی کے برخلاف نتائج آنے پر مشرقی پاکستان کی منتخب ہونے والی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے فوج کشی کردی اور ملک دولخت ہوگیا۔
1970 کے انتخابات کے مطابق مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کردیا گیا۔ 1970 کے انتخابات میں کراچی کی پندرہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں پیپلز پارٹی نے 8 نشستیں حاصل کیں جب کہ کئی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں پیپلز پارٹی کے اندرونی خلفشار اور گروپ بندی کے باعث پیپلز پارٹی کو نہ مل سکیں اور جمعیت العلماء پاکستان نے سندھ اسمبلی میں 7 نشستیں حاصل کیں۔ کراچی سے 8 نشستیں حاصل کرنے والی ppp نے مہاجر علاقوں سے بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اپنے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو کی تعریفیں کرتے ہوئے ان کو پہلے سندھ کا گورنر اور پھر وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔
ممتاز بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں وفاقی پیپلز پارٹی کو سندھی بولنے والوں کی پارٹی بنانے کی مہم شروع کردی۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے حامی طلباء، وکلاء، صحافیوں، مزدور یونینوں اور اردو بولنے والے پارٹی ورکرز کے خلاف کارروائیاں کیں۔ طلباء کے خلاف ہاکس بے اسکینڈل بنوایا۔ 1972 میں پہلے سائٹ اور پھر لانڈھی کے صنعتی علاقوں میں گولیاں چلوائیں اور پھر سندھی زبان کے لینگویج بل کو سندھ اسمبلی میں پیش کرکے وفاقی شہر کو کراچی نسلی شہر بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اردو بولنے والے کارکنوں کو گرفتار کرایا۔
پارٹی کے 380 دفاتر جو مہاجر بستیوں میں قائم تھے بند کرادیے گئے یا جلا دیے گئے۔ سندھی زبان کے لینگویج بل کے پیش ہونے پرمیڈیا کی احتجاجی خبروں نے کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر میں آگ لگادی اور سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں مقبول پارٹی دیہی سندھ کی پارٹی میں تبدیل ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے پارٹی کے سیکریٹری جنرل جے اے رحیم، معراج محمد خان، سید سعید حسن، عبدالوحید عرشی اور دیگر رہنما غیر موثر ہوگئے۔ اور پیپلز پارٹی کی باگ ڈور موقع پرست اور کرپٹ عناصر کے ہاتھ میں آگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب محسوس کیا کہ ان کا ٹیلینٹڈ کزن ممتاز بھٹو خود کو دس سروں والا سندھی کہلانا زیادہ پسند کر رہا ہے تو اسے ہٹا کر نرم اور شائستہ مزاج غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔
غلام مصطفیٰ جتوئی اردو بولنے والے حلقوں میں پارٹی کی مقبولیت واپس نہ لاسکے اور پھر بعض غلطیوں نے 1977 میں چلنے والی PNA کی احتجاجی تحریک کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور پورے ملک سے سب سے موثر احتجاج کراچی نے کیا جس میں طلباء، مزدور یونینیں، وکلاء، تاجر اور صنعتکاروں نے بھرپور حصہ لیا۔ جنرل ضیا نے جب ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تو کراچی شہر جو احتجاج کرنے والوں کا شہر تھا خاموش تماشائی بنا رہا۔یہ خاموشی تاریخ کا ایک راز ہے۔ یہ شہر اس وقت بھی چپ رہا جب جنرل ضیا نے ایک متنازعہ عدالتی فیصلے پر بھٹو کو سر دار چڑھا دیا۔ جس پر ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھوں نے کسی سے کہا تھا کہ اگر کراچی والے میرے ساتھ ہوتے تھے وہ مجھے قید سے چھڑا لیتے۔
کراچی میں موجود جنرل ضیا کی حامی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے کراچی کے نوجوانوں اور شہریوں نے یہ امید لگالی کہ وہ انھیں روزگار فراہم کریں گی اور دیگر ترقیاتی کام کروائیں گی لیکن ان کے رہنما کراچی کے لوگوں کی توقعات پر پورے نہ اتر سکے۔ مہاجروں میں احساس محرومی بڑھنے لگا اور پھر کراچی یونیورسٹی میں APMSO بنی اور پھر اس کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کا وجود عمل میں آیا جس کی قیادت نوجوان رہنما الطاف حسین کے ہاتھ میں تھی۔ مہاجر قومی موومنٹ نے اپنے پہلے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے پورے ملک کی آنکھیں کھول دیں۔ ایوب خان کے مادر ملت فاطمہ جناح کی تحریک کے بعد دوسری مرتبہ اردو بولنے والے نوجوانوں بزرگوں ماؤں اور بہنوں نے جس بھرپور انداز سے شرکت کی وہ ناقابل فراموش ہے۔
کراچی کے ہر گلی کوچوں میں چراغاں کیا گیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے اور پھر 1988 کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی کراچی کے عوام مہاجر قومی موومنٹ کے بے نام امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ مہاجر قومی موومنٹ نے محترمہ بے نظیربھٹو کی قیادت میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا اور وفاقی اور صوبائی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ یہ اتحاد زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور متحدہ قومی موومنٹ پیپلزپارٹی کے اتحاد سے الگ ہوگئی جب کہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے بہت سوچ بچار کے بعد شہری اور دیہی سندھ کے عوام کے لیے 50 نکاتی ایجنڈے پر دستخط بھی کیے تھے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل کچھ وزراء اور عہدیدار بالخصوص اردو بولنے والے رہنما ایم کیو ایم کے اتحاد سے اس وجہ سے خائف تھے کہ انھیں صوبائی اور وفاقی حکومت میں نمایندگی نہ مل سکے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ایک سال آٹھ ماہ بعد کرپشن اور خراب امن وامان کی صورت حال کا جواز بناکر ختم کردی گئی۔ نگراں حکومت نے 1990 میں انتخابات کرائے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابل اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا جس کی قیادت میاں نواز شریف کو سونپی گئی۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم نے اتحاد بنایا لیکن یہ اتحاد گورنر سندھ حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد ٹوٹ گیا اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا جس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
ٹارچر کیمپوں میں لے جایا گیا۔ ایم کیو ایم کے بیشتر رہنما زیر زمین ہوگئے یا بیرون ملک چلے گئے اور آفاق احمد کی قیادت میں MQM کا ایک نیا دھڑا کھڑا ہوگیا جنھیں سیکٹر اور یونٹ آفسوں میں متعین کیا گیا۔ مہاجروں کے مسائل بھلا دیے گئے۔ کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا نعرہ معدوم ہوگیا۔ مہاجر بستیوں میں ایم کیو ایم حقیقی کا راج قائم کردیا گیا جسے رینجرز اور دیگر اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔
1993 میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جس کی وجہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے امیدواروں نے بہت تھوڑے تھوڑے ووٹ لے کر کامیابیاں حاصل کیں لیکن صوبائی انتخابات میں ایم کیو ایم نے بائیکاٹ ختم کردیا اور ایک بار پھر وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ دو حصوں میں تقسیم ہونے والی مہاجر قیادت نے مہاجروں کے بنیادی مسائل بھلا دیے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی بھر میں اپنے کونسلرز نامزد کردیے الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے علاقائی ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کے بجائے مالی بدعنوانیاں کرنی شروع کردیں کشمنروں اور ڈپٹی کمشنروں نے کراچی کے امن وامان قائم کرنے کے اقدامات کیے لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔
1993 میں قائم ہونے والی بے نظیربھٹو کی حکومت نے ایم کیو ایم جو متحدہ قومی موومنٹ کا نام بدل چکی تھی کے خلاف ایک اور آپریشن شروع کردیا جس کی سربراہی حکومت کے وفاقی وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کر رہے تھے۔ انھوں نے کراچی سے نوگو ایریاز ختم کرائے، انھوں نے بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو جیل میں ڈالا، ماورائے عدالت قتل کرایا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیربھٹو کے دور میں ان کے 15 ہزار سے زیادہ کارکن قتل کردیے یا غائب کردیے۔
1988 سے لے کر 1999 تک قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں نے ایم کیو ایم سے اتحاد بھی کیا اور اس کے خلاف آپریشنز بھی کیے ایم کیو ایم نے اپنی تنظیم میں بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث کارکنوں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں اور سیکڑوں کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیا لیکن دیگر سیاسی جماعتوں نے ان کے اس اقدام کو کبھی نہ سراہا اور شہر میں ہونے والی ہر واردات کے بارے میں یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ ان کاموں میں ایم کیو ایم ملوث ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کراچی کے معاملات سمجھے بغیر غلط رپورٹیں دیں اور مہاجروں کی نمایندہ جماعت کو دہشت گرد اور پاکستان دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
(جاری ہے)
یہ کراچی ہی تھا جس نے ملک کے پہلے فوجی حکمراں فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو کامیاب کرایا جب کہ پورے ملک سے انھیں سول اور ملٹری بیوروکریسی اور موقع پرست سیاستدانوں کے ذریعے ہرایا گیا۔ لیکن محترمہ فاطمہ جناح کو دی جانے والی شکست کو اہل کراچی نے پسند نہ کیا اور جنرل ایوب پر اتنا دباؤ آیا کہ انھوں نے اپنے بنائے ہوئے آئین کے مطابق عمل کرنے کے بجائے اپنے ساتھی جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کردیا جنہوں نے ملک کے پہلے دن میں ون ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کرائے اور اپنی مرضی کے برخلاف نتائج آنے پر مشرقی پاکستان کی منتخب ہونے والی اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے فوج کشی کردی اور ملک دولخت ہوگیا۔
1970 کے انتخابات کے مطابق مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار منتقل کردیا گیا۔ 1970 کے انتخابات میں کراچی کی پندرہ صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں پیپلز پارٹی نے 8 نشستیں حاصل کیں جب کہ کئی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں پیپلز پارٹی کے اندرونی خلفشار اور گروپ بندی کے باعث پیپلز پارٹی کو نہ مل سکیں اور جمعیت العلماء پاکستان نے سندھ اسمبلی میں 7 نشستیں حاصل کیں۔ کراچی سے 8 نشستیں حاصل کرنے والی ppp نے مہاجر علاقوں سے بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اپنے ٹیلنٹڈ کزن ممتاز علی بھٹو کی تعریفیں کرتے ہوئے ان کو پہلے سندھ کا گورنر اور پھر وزیر اعلیٰ نامزد کردیا۔
ممتاز بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں وفاقی پیپلز پارٹی کو سندھی بولنے والوں کی پارٹی بنانے کی مہم شروع کردی۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے حامی طلباء، وکلاء، صحافیوں، مزدور یونینوں اور اردو بولنے والے پارٹی ورکرز کے خلاف کارروائیاں کیں۔ طلباء کے خلاف ہاکس بے اسکینڈل بنوایا۔ 1972 میں پہلے سائٹ اور پھر لانڈھی کے صنعتی علاقوں میں گولیاں چلوائیں اور پھر سندھی زبان کے لینگویج بل کو سندھ اسمبلی میں پیش کرکے وفاقی شہر کو کراچی نسلی شہر بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اردو بولنے والے کارکنوں کو گرفتار کرایا۔
پارٹی کے 380 دفاتر جو مہاجر بستیوں میں قائم تھے بند کرادیے گئے یا جلا دیے گئے۔ سندھی زبان کے لینگویج بل کے پیش ہونے پرمیڈیا کی احتجاجی خبروں نے کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر میں آگ لگادی اور سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں مقبول پارٹی دیہی سندھ کی پارٹی میں تبدیل ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے پارٹی کے سیکریٹری جنرل جے اے رحیم، معراج محمد خان، سید سعید حسن، عبدالوحید عرشی اور دیگر رہنما غیر موثر ہوگئے۔ اور پیپلز پارٹی کی باگ ڈور موقع پرست اور کرپٹ عناصر کے ہاتھ میں آگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب محسوس کیا کہ ان کا ٹیلینٹڈ کزن ممتاز بھٹو خود کو دس سروں والا سندھی کہلانا زیادہ پسند کر رہا ہے تو اسے ہٹا کر نرم اور شائستہ مزاج غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔
غلام مصطفیٰ جتوئی اردو بولنے والے حلقوں میں پارٹی کی مقبولیت واپس نہ لاسکے اور پھر بعض غلطیوں نے 1977 میں چلنے والی PNA کی احتجاجی تحریک کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور پورے ملک سے سب سے موثر احتجاج کراچی نے کیا جس میں طلباء، مزدور یونینیں، وکلاء، تاجر اور صنعتکاروں نے بھرپور حصہ لیا۔ جنرل ضیا نے جب ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹا تو کراچی شہر جو احتجاج کرنے والوں کا شہر تھا خاموش تماشائی بنا رہا۔یہ خاموشی تاریخ کا ایک راز ہے۔ یہ شہر اس وقت بھی چپ رہا جب جنرل ضیا نے ایک متنازعہ عدالتی فیصلے پر بھٹو کو سر دار چڑھا دیا۔ جس پر ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھوں نے کسی سے کہا تھا کہ اگر کراچی والے میرے ساتھ ہوتے تھے وہ مجھے قید سے چھڑا لیتے۔
کراچی میں موجود جنرل ضیا کی حامی مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سے کراچی کے نوجوانوں اور شہریوں نے یہ امید لگالی کہ وہ انھیں روزگار فراہم کریں گی اور دیگر ترقیاتی کام کروائیں گی لیکن ان کے رہنما کراچی کے لوگوں کی توقعات پر پورے نہ اتر سکے۔ مہاجروں میں احساس محرومی بڑھنے لگا اور پھر کراچی یونیورسٹی میں APMSO بنی اور پھر اس کے بعد مہاجر قومی موومنٹ کا وجود عمل میں آیا جس کی قیادت نوجوان رہنما الطاف حسین کے ہاتھ میں تھی۔ مہاجر قومی موومنٹ نے اپنے پہلے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے پورے ملک کی آنکھیں کھول دیں۔ ایوب خان کے مادر ملت فاطمہ جناح کی تحریک کے بعد دوسری مرتبہ اردو بولنے والے نوجوانوں بزرگوں ماؤں اور بہنوں نے جس بھرپور انداز سے شرکت کی وہ ناقابل فراموش ہے۔
کراچی کے ہر گلی کوچوں میں چراغاں کیا گیا جس کی مثال ملنا مشکل ہے اور پھر 1988 کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بھی کراچی کے عوام مہاجر قومی موومنٹ کے بے نام امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ مہاجر قومی موومنٹ نے محترمہ بے نظیربھٹو کی قیادت میں اکثریت حاصل کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی سے اتحاد کیا اور وفاقی اور صوبائی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔ یہ اتحاد زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور متحدہ قومی موومنٹ پیپلزپارٹی کے اتحاد سے الگ ہوگئی جب کہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے بہت سوچ بچار کے بعد شہری اور دیہی سندھ کے عوام کے لیے 50 نکاتی ایجنڈے پر دستخط بھی کیے تھے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل کچھ وزراء اور عہدیدار بالخصوص اردو بولنے والے رہنما ایم کیو ایم کے اتحاد سے اس وجہ سے خائف تھے کہ انھیں صوبائی اور وفاقی حکومت میں نمایندگی نہ مل سکے گی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت ایک سال آٹھ ماہ بعد کرپشن اور خراب امن وامان کی صورت حال کا جواز بناکر ختم کردی گئی۔ نگراں حکومت نے 1990 میں انتخابات کرائے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابل اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا جس کی قیادت میاں نواز شریف کو سونپی گئی۔ میاں نواز شریف کی حکومت کے ساتھ ایم کیو ایم نے اتحاد بنایا لیکن یہ اتحاد گورنر سندھ حکیم محمد سعید کے قتل کے بعد ٹوٹ گیا اور ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا جس میں ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔
ٹارچر کیمپوں میں لے جایا گیا۔ ایم کیو ایم کے بیشتر رہنما زیر زمین ہوگئے یا بیرون ملک چلے گئے اور آفاق احمد کی قیادت میں MQM کا ایک نیا دھڑا کھڑا ہوگیا جنھیں سیکٹر اور یونٹ آفسوں میں متعین کیا گیا۔ مہاجروں کے مسائل بھلا دیے گئے۔ کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا نعرہ معدوم ہوگیا۔ مہاجر بستیوں میں ایم کیو ایم حقیقی کا راج قائم کردیا گیا جسے رینجرز اور دیگر اداروں کی سرپرستی حاصل تھی۔
1993 میں ایک بار پھر انتخابات ہوئے ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جس کی وجہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی کے امیدواروں نے بہت تھوڑے تھوڑے ووٹ لے کر کامیابیاں حاصل کیں لیکن صوبائی انتخابات میں ایم کیو ایم نے بائیکاٹ ختم کردیا اور ایک بار پھر وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی۔ دو حصوں میں تقسیم ہونے والی مہاجر قیادت نے مہاجروں کے بنیادی مسائل بھلا دیے۔ پیپلز پارٹی نے کراچی بھر میں اپنے کونسلرز نامزد کردیے الزام لگایا جاتا ہے کہ انھوں نے علاقائی ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کے بجائے مالی بدعنوانیاں کرنی شروع کردیں کشمنروں اور ڈپٹی کمشنروں نے کراچی کے امن وامان قائم کرنے کے اقدامات کیے لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔
1993 میں قائم ہونے والی بے نظیربھٹو کی حکومت نے ایم کیو ایم جو متحدہ قومی موومنٹ کا نام بدل چکی تھی کے خلاف ایک اور آپریشن شروع کردیا جس کی سربراہی حکومت کے وفاقی وزیر داخلہ جنرل نصیر اللہ بابر کر رہے تھے۔ انھوں نے کراچی سے نوگو ایریاز ختم کرائے، انھوں نے بھی ایم کیو ایم کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو جیل میں ڈالا، ماورائے عدالت قتل کرایا۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیربھٹو کے دور میں ان کے 15 ہزار سے زیادہ کارکن قتل کردیے یا غائب کردیے۔
1988 سے لے کر 1999 تک قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں نے ایم کیو ایم سے اتحاد بھی کیا اور اس کے خلاف آپریشنز بھی کیے ایم کیو ایم نے اپنی تنظیم میں بھتہ خوری ٹارگٹ کلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث کارکنوں کے خلاف کارروائیاں بھی کیں اور سیکڑوں کارکنوں کو پارٹی سے نکال دیا لیکن دیگر سیاسی جماعتوں نے ان کے اس اقدام کو کبھی نہ سراہا اور شہر میں ہونے والی ہر واردات کے بارے میں یہ الزام لگایا جاتا رہا کہ ان کاموں میں ایم کیو ایم ملوث ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کراچی کے معاملات سمجھے بغیر غلط رپورٹیں دیں اور مہاجروں کی نمایندہ جماعت کو دہشت گرد اور پاکستان دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
(جاری ہے)