سلام استاد

اساتذہ کسی بھی قوم کے معماروں کو تیار کرنے کی بھاری ذمے داری کے ساتھ کام کر رہے ہیں

ہر سال 5 اکتوبر کو اساتذہ کرام کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ISLAMABAD:
ہر سال 5 اکتوبر کو اساتذہ کرام کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی منایا گیا، اور دنیا میں ہونے والی تقریبات کے ساتھ پاکستان میں بھی اس حوالے سے تقریبات منعقد ہوئیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی میں منعقد ہونے والی تقریب بعنوان ''سلام استاد'' میں راقم کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس تقریب کی خاص بات، بڑی تعداد میں اس میں شریک اساتذہ کرام کی تھی، جو کراچی کے تقریباً ہر کونے سے مدعو کیے گئے تھے۔ ساتھ ہی اس میں اساتذہ کرام اور تعلیم و تریبت کے شعبے میں کام کرنے والے افراد کو اعزازات سے نوازنا تھا۔

استادوں کا عالمی دن منانے کا آغاز 1994 میں، یونیسکو اور عالمی ادارہ برائے مزدور کی ''دستخطی برائے اساتذہ کے کردار اور گزارشات 1966'' کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ان گزارشات کا مقصد اساتذہ کے مقام، ان کے کام کرنے کے حوالے سے حالات، اور ان کے رہنما اصولوں کو بیان کرنا ہے۔

''عالمی دن برائے اساتذہ'' کا مقصد اس بات پر توجہ دلانا بھی ہے کہ اساتذہ کے کام کی تعریف، اساتذہ کے کام میں بہتری، تعلیم کے شعبے میں موجود مواقع، اور اساتذہ کو درپیش مسائل کا اندازہ بھی لگایا جاسکے۔

بچے کو اس دنیا میں لانے کا کام تو والدین ضرور کرتے ہیں لیکن والدین کے ساتھ اس بچے کو کسی بھی معاشرے کا ایک بہتر انسان بنانے میں اساتذہ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اور یہ استاد ہی ہوتا ہے جو کسی بچے میں ایک عالم، ایک مفتی، ایک طبیب، ایک انجینئر، ایک سائنسدان اور ایک بہترین انسان دیکھ لیتا ہے اور اسے اس کی منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔

استاد بلاشبہ ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو اپنا وقت، وسائل، ہمت اور طاقت کسی اور انسان کی بہتری کےلیے مختص کردیتا ہے، اور اگر ایک استاد کو قابل شاگرد مل جائے تو وہ اسے اس دنیا کا بادشاہ بنادیتا ہے۔

سکندراعظم کی مثال تاریخ میں زندہ جاوید ہے۔ سکندراعظم کے الفاظ اپنے استاد محترم ارسطو کےلیے آج تک تاریخ کی کتابوں میں یوں ملتے ہیں ''اگر سکندر رہے گا، اس دنیا میں تو، ایک بھی ارسطو تیار نہیں ہوگا۔ اور اگر ارسطو رہا، اس دنیا میں تو، ہزاروں سکندر تیار ہوں گے۔''


یقیناً اس تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں استاد کا کردار اب صرف درسگاہ تک محدود نہیں رہا، اور اس دور کے تقاضوں کے مطابق استاد کا کرداراب مزید ہمہ جہت ہوگیا ہے۔ استاد کو اب نہ صرف بچے کو اس دنیا سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا پڑرہا ہے، بلکہ بچے کو اپنے آپ سے بھی نبرد آزما ہونے کےلیے، اس کو صلاحیتیں، علم اور عمل بھی سکھانا پڑ رہا ہے۔ اس گلوبل ولیج میں اساتذہ کا کردار اب مختلف طرح کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

اگر آپ ایک استاد ہیں تو آپ بچے یا بچی کے بیک وقت دوست بھی ہیں، ایک ماں بھی ہیں، ایک باپ بھی، ایک سہیلی بھی ہیں، ایک بھائی بھی ہیں، ایک بہن بھی، اور ایک ایسا فرد بھی ہیں جس سے وہ کسی بھی وقت، کسی بھی طرح کی بات نہ صرف شیئر کرسکتا ہے، بلکہ اسے اس بات کی یقین دہانی بھی ہے کہ اسے ایک بہتر رائے، مشورہ اور گائیڈ لائن بھی ملے گی۔

ہم نے پاکستان میں اساتذہ کے کئی منفی کردار بھی دیکھے ہیں، لیکن اگر آپ مجموعی طور پر بات کریں تو اس وقت پاکستان کا استاد خود بھی کئی طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہورہا ہے، اور اس میں بدلتی ہوئی صلاحیتیوں، حکومتی اقدامات، بچوں کی بڑھتی ہوئی تعلیمی سرگرمیوں، گھر، اسکول اور گھرانے کا توازن، اور کلاس رومز میں بڑھتی ہوئی ذمے داریاں شامل ہیں۔

حکومتی اداروں اور تعلیمی اداروں کے سربراہان پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اساتذہ کرام کو ایک ایسا بہتر ماحول مہیا کریں جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بچے کے کردار، اور ذہن سازی پر لگاسکے اور ساتھ ہی بچوں کو کلاس رومز میں پڑھائے جانے والے مضامین کے علاوہ بھی ان کی شخصیت کی آبیاری میں کردار ادا کرنے والے موضوعات کے ساتھ ان پر کام کرسکے۔

اساتذہ کسی بھی قوم کے معماروں کو تیار کرنے کی بھاری ذمے داری کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ آئیے ان تمام اساتذہ کرام کو ''سلام'' پیش کریں جو اپنے کام کو بخوبی انجام دے رہے ہیں اور اگر آپ خود وہ ایک شخصیت ہیں تو میں آپ کو کہوں گا ''سلام استاد''۔

اللہ میرا، آپ کا، تمام استادوں کا، اور اس ملک کا حامی و ناصر رہے، آمین۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story