دردِ دل کے واسطے …

اکیسویں صدی نے جہاں زندگی کو سہل اور پرآسائش بنایا، وہیں وہ حقیقی جذبے ہم سے چھین لیے جو انسانیت کی معراج تھے

سسکتی انسانیت کو سہارا دینے کی کوشش کیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صدیاں بیت گئیں گردشِ لیل و نہار جاری ہے، زمین اپنے مدار کے گرد گھوم رہی ہے، مشرق کے دروازے سے روز سورج طلوع ہوتا ہے اور دنیا کو اپنی کرنوں سے منور کرتا مغرب کے پردے کی آڑ میں چھپ جاتا ہے، رات میں چاند کی روپہلی کرنیں مزاج کو فرحت دیتی ہیں تو ستارے اپنی جھلمل کی جوت جگاتے ہیں۔ سب کچھ یکساں چل رہا ہے لیکن کافی کچھ ہے جو تغیر پذیر ہے۔ بہت کچھ بدل چکا ہے، انسان، مزاج، اقدار اور ایسے جوہر نایاب جنھیں نہیں بدلنا چاہیے تھا لیکن ؎
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

ابتدائے زندگی میں انسان کی ترجیحات مختلف تھیں، جینا اور جینے کی تگ و دو کرنا، پیٹ بھرنے کےلیے غذا کی جستجو تو تن ڈھانپنے کی فکر۔ زندگی بہت سادہ مگر کٹھن تھی۔ وقت گزرا، اقدار بدلیں، تہذیب نے جنم لیا، جنگل کی زندگی کا خاتمہ ہوا اور بستیاں بسائی جانے لگیں۔ وحشی تمدن نے شرافت کا لبادہ اوڑھ لیا، لوگ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ معاشرے کی تکمیل کے ساتھ جینے کے رنگ و ڈھنگ بھی بدلنے لگے۔ میل جول و روابط کے پیمانے تشکیل پائے۔ گردشِ ایام نے کئی ادوار دیکھے۔ سیلاب، زلزلے، جنگیں، جہاں صرف تباہی و بربادی تھی۔ جہاں دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والے خون کی ندیاں بہاتے تھے، وحشت و بربریت جن کا خاصہ تھی، اور پھر سلامتی رکھنے والا مذہب دنیا میں ابھرا، یوں انسانیت سے بھرپور ایک معاشرہ سامنے آیا۔

وہ معاشرہ جو محبت و خلوص سے گُندھا تھا، جہاں کے لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک تھے، کسی کی تکلیف پر خود پریشان ہوجاتے اور اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے۔ جہاں نگاہوں میں حیا کا گوہر نایاب تھا، تو سینے میں محبت سے معمور حساس دل۔ جو خود بے شک بھوکے ہوں لیکن پڑوسیوں کو بھوکا نہ سونے دیتے تھے۔ لیکن آج حقیقت حال کا جائزہ لیں تو یہ سب ایک سُہانا خواب محسوس ہوتا ہے۔

کہاں ہیں وہ حیا کی رفعتیں، وہ خلوص کی ساعتیں؟ ایک افراتفری کا عالم ہے، خودغرضی و بے حسی نے انسان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ اُس خوب صورت معاشرے کو ہم پیچھے کہیں دور چھوڑ آئے ہیں۔

ٹیکنالوجی اور ایجادات سے بھرپور اکیسویں صدی، جس کا شدت سے انتظار کیا گیا، ان خوبیوں سے محروم ہے۔ اس پُرفتن دور میں یہ عظیم جذبے زوال پذیر ہیں۔ کل تک جو دوسروں کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے تھے آج محض ایک تماش بین کی حیثیت سے نظارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بِنا مانگے محتاج کی مدد کرنے والے آج سوالی کو جھڑک دیا کرتے ہیں، ان کے دل رحم و مروت سے عاری ہوچکے ہیں۔


اکیسویں صدی نے جہاں زندگی کو سہل اور پرآسائش بنایا، وہیں وہ حقیقی جذبے ہم سے چھین لیے جو انسانیت کی معراج تھے۔ انسان کی پیدائش کے بارے میں ایک عظیم شاعر کیا خوب کہہ گئے کہ؎

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اور یہی درد دل آج ناپید ہوتا جارہا ہے۔ جگہ جگہ انسانیت سسک رہی ہے اور انسانیت کے علم بردار آنکھوں پر خودغرضی کی پٹی باندھے بے حسی کے مظاہرے میں مصروف بہ عمل ہیں۔

ہم ایک اسلامی معاشرے کے پروردہ ہیں، اس دین کے پیروکار ہیں جو سلامتی کا علم بردار ہے، جہاں سب کو مساوی حقوق میسر ہیں، جس نے محبت و رواداری کا سبق دیا ہے، جہاں حقوق العباد کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، لیکن افراتفری، انتشار، خودغرضی اور کشاکش روزگار نے ہمیں اس فرض کی ادائیگی سے بہت دور کردیا ہے۔

اشرف المخلوقات کہلانے والا انسان کہیں ان جذبوں کو کھو کر انسانیت کے درجے سے نہ گر جائے؟ ان جذبوں کی موت انسان کو اس کے خاتمے کی جانب گامزن کررہی ہے۔ آج ان جذبوں کو پھر سے جگانے کی اشد ضرورت ہے۔ بطور مسلمان ہم پر حقوق العباد فرض کردیے گئے، اور اس فرض کی بجاآوری ہم پر لازم ہے۔ اپنے ارد گرد موجود ضرورت مندوں پر توجہ دیں۔ کہیں آپ کے آس پاس، آپ کے پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں؟ کوئی ضرورت مند کسی مسیحا کا انتظار تو نہیں کررہا؟ آپ کا سہارا اسے زندگی کے مایوس کن اندھیروں سے نکال سکتا ہے۔ سسکتی انسانیت کو سہارا دینے کی کوشش کیجئے، لاچاروں کی دادرسی کیجئے۔ خدا کے بندوں کا حق ادا کرنے کی اپنی بساط بھر ہر ممکن کوشش کیجئے۔ انسانی جذبوں سے بھرپور ایک خوبصورت معاشرہ اپنی تعمیر نو کا منتظر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story