جسٹس فائز عیسٰی بہانے بناکر تحقیقات سے بچنا چاہتے ہیں حکومت کا سپریم کورٹ میں جواب
فائر عیسٰی کے پاس بچاؤ کا واحد راستہ اہلیہ اور بچوں کے ذرائع آمدن ظاہر کرنا ہے، حکومت کا جواب
حکومت نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا ہے کہ جائیدادیں بناتے وقت جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کی آمدن کے ذرائع نہیں تھے اور وہ اس سوال سے بچنے کے لیے حیلے اور بہانے بنا رہے ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی نہیں، صدر مملکت نے ریفرنس دائر کرکے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی، شواہد کے بغیر ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار دینے کی کوئی حیثیت نہیں جب کہ ججز کے خلاف ریفرنس سے عدلیہ کمزور ہوگی نہ اس کے وقار پر حرف آئے گا۔
حکومت نے اپنے جواب میں اعتراض اٹھایا ہے کہ جائیدادیں بناتے وقت جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کی آمدن کے ذرائع نہیں تھے، قانون کے مطابق بے نامی جائیدادوں کو ظاہر کرنا لازمی تھا، سپریم جوڈیشل کونسل جائزہ لے رہی کہ جسٹس فائز عیسی مالی بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوئے یا نہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے جوڈیشل کونسل انکوائری سے بچنا چاہتے ہیں، وہ اصل سوال سے بچنا چاہتے ہیں کہ پیسہ باہر کیسے منتقل کیا گیا، ان کے پاس بچاؤ کا واحد راستہ اہلیہ اور بچوں کے ذرائع آمدن ظاہر کرنا ہے، یہ کہنا کہ قانون کی ہر خلاف ورزی کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف نہیں عدلیہ کا امیج تباہ کرے گا۔
حکومت نے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا اپنے خلاف شکایت کو پراکسی کہنا مفروضے پر مبنی ہے، شکایت کنندہ کے ماضی اور کنڈکٹ کا جائزہ جوڈیشل کونسل قانون کے مطابق لے گی، سپریم جوڈیشل کونسل نے ممبران اپنا آئینی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو آرٹیکل 211 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بدنیتی پر مبنی نہیں، صدر مملکت نے ریفرنس دائر کرکے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کی، شواہد کے بغیر ریفرنس بدنیتی پر مبنی قرار دینے کی کوئی حیثیت نہیں جب کہ ججز کے خلاف ریفرنس سے عدلیہ کمزور ہوگی نہ اس کے وقار پر حرف آئے گا۔
حکومت نے اپنے جواب میں اعتراض اٹھایا ہے کہ جائیدادیں بناتے وقت جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچوں کی آمدن کے ذرائع نہیں تھے، قانون کے مطابق بے نامی جائیدادوں کو ظاہر کرنا لازمی تھا، سپریم جوڈیشل کونسل جائزہ لے رہی کہ جسٹس فائز عیسی مالی بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوئے یا نہیں۔
جواب میں کہا گیا ہے کہ جسٹس فائز عیسٰی مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے جوڈیشل کونسل انکوائری سے بچنا چاہتے ہیں، وہ اصل سوال سے بچنا چاہتے ہیں کہ پیسہ باہر کیسے منتقل کیا گیا، ان کے پاس بچاؤ کا واحد راستہ اہلیہ اور بچوں کے ذرائع آمدن ظاہر کرنا ہے، یہ کہنا کہ قانون کی ہر خلاف ورزی کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف نہیں عدلیہ کا امیج تباہ کرے گا۔
حکومت نے جواب میں یہ بھی کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کا اپنے خلاف شکایت کو پراکسی کہنا مفروضے پر مبنی ہے، شکایت کنندہ کے ماضی اور کنڈکٹ کا جائزہ جوڈیشل کونسل قانون کے مطابق لے گی، سپریم جوڈیشل کونسل نے ممبران اپنا آئینی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جاسکتا، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو آرٹیکل 211 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔