لاپتہ افراد کیس یہ دہشت کا نتیجہ ہے کہ ہر زباں خاموش ہے سپریم کورٹ

حساس ادارے لاپتہ افرادکیساتھ جوکررہے ہیں آنکھیں بندنہیں کرسکتے، ہرمقدمے میں ان اداروں کاتعلق نکل آتا ہے،جسٹس انورظہیر

مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں دکھاواہیں،کارکردگی صفرہے،سپریم کورٹ۔ فوٹو: فائل

KARACHI:
سپریم کورٹ نے لاپتہ افرادکیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کی کارکردگی پرعدم اطمینان کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ یہ ٹیمیں محض دکھاوے کے طور پربنائی گئی ہیں۔

ان کی کارکردگی صفر ہے، لوگوں کو اس قدر خوفزدہ کیا گیا ہے کہ کوئی عدالت میں گواہی دینے کیلیے تیار نہیں، ہر کیس میں حساس اداروں کاتعلق نکل آتا ہے، لاپتہ افرادکے ساتھ جوکچھ حساس ادارے کررہے ہیں اس پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔ یہ ریمارکس انھوں نے پیرکو لاپتہ افرادکے مقدمے کی سماعت کے دوران اس وقت دیے جب ایک بازیاب شخص نے بتایا کہ وہ اپنی مرضی سے گیا تھا اورکسی نے نہیں اٹھایا۔ فاضل جج نے کہاکہ یہ دہشت کانتیجہ ہے کہ ہر زبان خاموش ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں فل بینچ نے ان مقدمات کی سماعت کی۔

سجاد حسن کیس میں آمنہ مسعود جنجوعہ نے بتایا کہ بازیاب ہونے والے محمد حنیف نے بیان دیا کہ اس نے سجادکو حراستی مرکز میں دیکھا ہے۔ ملتان کے عاشق حسین کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ کراچی سے لاپتہ ہوا ہے۔ عدالت نے لاپتہ عبدالوہاب کے معاملے میں تھانہ فیروز والا کے سابق ایس ایچ اوکو دستاویزات سمیت طلب کرلیا ہے ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے بتایا کہ عتیق الرحمٰن اور عبدالوہاب کو پٹرول پمپ سے اٹھایا گیا، پٹرول پمپ میں پنکچر اور ٹک شاپ والوں کے بیان کے مطابق پولیس وردی میں ملبوس افراد نے اٹھایا جبکہ اس حوالے سے پولیس کا روزنامچہ خاموش ہے۔




ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب فیصل ملک نے کہاکہ پنکچر اور ٹک شاپ والوں کے بیانات لیے گئے ہیں جن کے مطابق 2 افرادکو اٹھایا گیا تھا جن میں سے ایک کچھ عرصے بعد واپس آ گیا۔ جب واپس آنے والے عتیق الرحمن سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ وہ مرضی سے گیا تھا اورکسی نے نہیں اٹھایا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ واپسی کے بعد ایسابیان دے کہ کسی نے نہیں اٹھایا،لوگوں کے دلوں میں اتنی دہشت ڈال دی جاتی ہے کہ وہ گواہی نہ دے سکیں،عدالت جھوٹا بیان دینے والے افراد کیخلاف کارروائی کا حق رکھتی ہے۔

آن لائن کے مطابق جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا لاپتہ افرادکے ساتھ جوکچھ ہوا آنکھیں بند نہیں کرسکتے، پولیس نے بھی آنکھیں بندکررکھی ہیں، جو ادارہ چاہتا ہے مرضی سے ان کے تھانے کی حدود میں کارروائی کرکے غائب ہوجاتا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ لاپتہ افرادکی بازیابی کے بارے میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کی کارکردگی صفر ہے، وہ محض دکھاوے کے طور پر بنائی گئی ہیں۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہر مقدمے میں حساس اداروںکا تعلق نکل آتا ہے، لاپتہ افرادکے ساتھ جوکچھ حساس ادارے کررہے ہیں اس پر آنکھیں بند نہیں کرسکتے، بہتر ہوگا جس ادارے کے پاس جو بھی لوگ ہیں ان کے بارے میں قانونی طور پرکارروائی کی جائے۔ بعض مقدمات میں ٹھوس شواہد ہیں تاہم لاپتہ افرادکا نہ ملنا ایک المیہ ہے۔
Load Next Story