دنیا نے مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر اخلاقی اقدار کو نظر انداز کیا شفقت محمود
نیب خانہ پری کے بجائے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے، شریفوں نے بیورو کریسی میں بھی ن لیگ بنا دی
وطن عزیز کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک اس کے حکمرانوں میں اکثریت ان روایتی سیاست دانوں کی رہی، جو نسل درنسل اقتدار کو اپنی میراث سمجھتے ہیں، جس کا نتیجہ معاشی و معاشرتی تباہی کی صورت میں برآمد ہوا ہے، لیکن ملکی تاریخ میں چند ایسے افراد بھی ہیں، جو اپنی دیانت داری، جمہوریت پسندی اور قابلیت کے ساتھ مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کا دیّا جلائے کھڑے رہے۔ ایسی شخصیات میں ایک نام شفقت محمود کا بھی ہے۔
سینئر سیاست دان، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ شفقت محمود 19 فروری 1950ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی، ہاروڈ یونیورسٹی کیمبرج (1981ء) اور یونیورسٹی آف جنوبی کیلیفورنیا (1987ء) سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ سابق بیوروکریٹ 1973ء سے 1990ء تک مختلف سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔
انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور جوائنٹ سیکرٹری وزیراعظم سیکرٹریٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا، جس کے بعد مارچ 1994ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینئر سیاست دان 1999ء سے 2000ء تک پنجاب میں وزیراطلاعات، ثقافت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ رہے جبکہ نومبر 1996ء سے فروری 1997ء تک نگران حکومت کے دور میں بحیثیت وفاقی وزیر برائے ماحولیات، لوکل گورنمنٹ،خوراک و زراعت کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔
سینیٹ کمیٹی برائے دفاع اور خارجہ امور کا ممبر رہنے کے علاوہ مختلف ادوار میں وہ پاکستان کی طرف سے کئی ممالک میں خصوصی ایلچی بھی رہے۔ 13 دسمبر 2011ء کو شفقت محمود نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں انہیں مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے واحد امیدوار تھے۔
جنہوں نے مسلم لیگ ن کے گڑھ تصور کئے جانے والے شہر لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سینئر سیاست دان نے اپنی عوامی مقبولیت کو ثابت کیا اور لاہور سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ رکن قومی اسمبلی کی قابلیت، صلاحیتوں اور وسیع تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں نہایت اہم وزارت برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ ''ایکسپریس'' نے ملک اور خطہ کی صورت حال، ماضی کی غلطیوں، مستقبل کے چیلنجز کے بارے میں جاننے اور اعلٰی تعلیم کے گرتے معیار کے حوالے سے سینئر سیاست دان و وفاقی وزیر شفقت محمود سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات اور ظلم و جبر پر ہمارے چند قریبی دوست و مسلم ممالک نے خاموشی یا ڈھیلے ڈھالے موقف پر اکتفا کیا، آپ اس پر کیا کہیں گے؟
شفقت محمود: دیکھیں! او آئی سی نے قرارداد پیش کی ہے، ایران، ملائیشیا اور ترکی نے بڑا مضبوط موقف اپنایا ہے۔ یہ جو اتنی طویل جدوجہد ہے، کشمیریوں اور پاکستان کی، یہ جاری ہے، اس کے اندر ہم سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑا کردار خود کشمیریوں کا ہے، جو اس ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہیں، تو دنیا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی، مسئلہ وہاں پر ہوتا ہے۔
جہاں اندرونی جدوجہد نہ ہو۔ تاہم یہ درست ہے کہ ہمیں کافی دیر سے کچھ چیلنجز درپیش ہیں، جن میں دو سب سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں، ایک دنیا کا اخلاقی اقدار پر نہ چلنا، اس کے خلاف ہم نے جدوجہد کرنی ہے کہ ظلم جہاں پر بھی ہو وہ ظلم ہے، وہاں اپنی مجبوریوں یا مفادات کو فوقیت نہیں دینی چاہیے، تو یہ ہمارے لئے چیلنج ہے کہ ہم ساری دنیا کو اس موقف پر لے کر آئیں۔ دوسرا اگر کسی ملک کے بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات ہیں، وہ ضرور رکھیں، لیکن اس کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھائیں۔
ایکسپریس: کیا آپ کے ذہن میں کچھ ایسے خدشات ہیں کہ بھارت ہماری یا دنیا کی کسی بھی کمزوری کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟
شفقت محمود: مجھے پورا یقین ہے کہ بھارت بالکل بھی کامیاب نہیں ہو گا، آپ دیکھیں یہ معاملہ 5 اگست کو شروع ہوا تو آج تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں لیکن بھارت حالات پر کنٹرول (Supress) نہیں پا سکا، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کرفیو اٹھ چکا ہوتا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کرفیو کب تک رہے گا، آخر کار اس کو اٹھانا پڑے گا، لیکن یہ جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔
ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آزاد کشمیر میں ہمارے اقدامات، وہاں اپنی سیاسی جماعتوں کو متعارف کروانے اور ایک باقاعدہ حکومت قائم کر دینے سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آئینی اقدامات کی سہولت فراہم ہوئی؟ اگر stand still agreement کی روح کے مطابق آزاد کشمیر کو جوں کا توں رہنے دیا جاتا اور اسے صرف آزادی کے بیس کیمپ کی حیثیت حاصل رہتی تو بھارت کو بھی مقبوضہ کشمیر میں قدم جمانے کا موقع نہ ملتا؟
شفقت محمود: میرا نہیں خیال ایسا ہے، آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت( Special Status) ہے، جس پر ہم قائم ہیں، دیکھیں! ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو یہ حق ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران منتخب کریں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ صرف ایک سیاست دان نہیں، جو عمومی طور پر روایتی ہوتے ہیں بلکہ ایک نہایت سنجیدہ شخصیت اور دانش ور بھی ہے، تو اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہمیں ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے؟
شفقت محمود: ہم ہر طریقہ سے کشمیریوں کی مدد کریں گے، دنیا کا جو بھی فورم ہے، اس پر ان کے لئے آواز اٹھائیں گے، ہم کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے، لیکن ہم جنگ بھی نہیں چاہتے، تاہم یہ اگر ہم تھوپی گئی تو پھر اس کا بھرپور جواب دیں گے، وزیراعظم نے یو این کی جنرل کونسل میں جو خطاب کیا، وہ غور طلب ہے کہ ''اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بظاہر پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور ہمیں کوئی دھونس دی جا سکتی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، ہم آخری حد تک لڑیں گے'' تو اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ہم کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ اچھا جو آپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں، ان پر عملدرآمد کیا جائے، اور ہم اسی کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایکسپریس: پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے یہ کبھی آزاد نہیں رہی، جس کی ایک مثال کبھی افغان وارکے لئے طالبانائزیشن کرنا تو کبھی ان کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرنا ہے، آج جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے تو خارجہ پالیسی کے حوالے سے آپ کیا سوچ رہے ہیں، اسے کیسے منظم اور آزاد بنایا جا رہا ہے؟
شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا موقف نہیں، دوسرا پاکستان کی خارجہ پالیسی ریاست کی خارجہ پالیسی ہے اور جو ریاست کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے، اس میں ریاست کے سارے ادارے شامل ہوتے ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ اور جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہم نے خارجہ پالیسی کی تنہائی کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے، امریکا کے ساتھ ہمارے شدید اختلافات تھے، لیکن اب حالات بہت بہتر ہیں، چین کے ساتھ ہماری دوستی مزید مضبوط ہوئی ہے، ترکی اور ملائیشیا نے آؤٹ آف دا وے جا کر ہمیں سپورٹ کیا، سعودی عرب، یواے ای اور قطر جیسے ممالک نے ہمیں امداد دی ہے۔ تو یوں ہم نے عالمی سطح پر تنہائی کے تاثر کو ختم کر دیا ہے۔ لہذا ہماری اپنی خارجہ پالیسی ہے، جو ہم خود بناتے ہیں اور اس پر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی جاتی۔
ایکسپریس: ایک تاثر یہ ہے کہ برسوں کے تھپیڑوں کے بعد آج ہم امریکا سے جان چھڑوا کر چین اور روس کی طرف جا رہے ہیں، لیکن کہیں چین بھی ہمارے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی تو ثابت نہیں ہو گا؟ دوسرا ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے کہ علاقائی و عالمی سطح پر پاکستان، چین اورروس مل کر کوئی نئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں؟
شفقت محمود: دیکھیں! اس سوال پر مجھے اعتراض ہے، کیوں کہ چین کے بارے میں ہمیں ایسے سوالات نہیں کرنے چاہیں، چین سے ہمارے آج کے تعلقات نہیں ہیں، 60کی دہائی کے اوائل سے دیکھ لیں کہ آج تک کتنی حکومتیں آئی اور گئیں لیکن چین سے دوستی میں کبھی فرق نہیں آیا، لہذا میرا خیال ہے کہ چین کے حوالے سے ایسی تشبیہات دینا درست نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ جو آپ کے بیرونی تعلقات ہوتے ہیں، وہ ''Zero Sum Game'' نہیں ہوتے، یعنی ایک ملک سے اگر آپ کے تعلقات اچھے ہیں تو دوسرے کے ساتھ خود بخود خراب ہو جائیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ چین کے ساتھ تو ہمارے بہت قریبی تعلقات ہے ہی، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکا اور روس سے بھی ہمارے اچھے تعلقات ہوں، لہذا ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم ہر ملک سے اپنے تعلقات بہتر کریں۔ دوسرا جو آپ نے نئی سیاسی حکمت عملی کا پوچھا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔
ایکسپریس: ملکی بہتری کے حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن تاحال اس کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آ رہی۔ آپ کی حکومت کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا، لوگ خصوصاً پی ٹی آئی ورکز و ہمدرد تبدیلی کے ثمرات کے منتظر ہیں، انہیں کیسے تسلی دیں گے؟
شفقت محمود: جو بگاڑ 70سال کا ہے، وہ ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوگا، اسی لئے ہمارا آئین بھی کہتا ہے کہ ہر حکومت 5سال کے لئے ہو گی، لہٰذا ہمارا مینڈیٹ 5 سال کا ہے، پہلا سال مشکل تھا، لیکن اب چیزیں بہتر ہونا شروع ہو گئی ہیں اور 5 سال کے دوران انشاء اللہ تعالی عوام بڑی تبدیلی محسوس کریں گے، لیکن بے صبری نہیں ہونی چاہیے، بہت سارے کام ہے جن پر وقت لگے گا، مثلاً بے شمار تنظیمیں ہیں، جو عرصہ سے سربراہ کے بغیر ہی چلے جا رہی تھیں، جب سربراہ ہی نہیں ہو گا تو بہتری کیسے آئے گی، اب ہم نے یہ سب کام کرنا شروع کر دیئے ہیں، عوام کو جلد تبدیلی محسوس ہو گی۔
کچھ چیزیں جلدی بہتر ہوں گی اور کچھ میں وقت لگے، جیسے معیشت ہے، جس کو بہتر کرنے پر پر وقت لگے گا، اس لئے کہ آپ پر کھربوں روپے کے قرضے ہیں، جن کی ادائیگی اور معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لئے وقت درکار ہے، دیکھیں! گزشتہ سال مشکل تھا، مہنگائی ہوئی، لوگوں کو تکلیف بھی ہوئی اور اب آپ یہ جولائی اور اگست کے جو اعدادوشمار ہیں، ان کے مطابق آپ کے برآمدات بڑھیں اور درآمدات کم ہوئیں، آپ کا بجٹ خسارہ بھی کم ہو رہا ہے، روپیہ مستحکم ہوا ہے۔
ایکسپریس: آپ کے بقول حقیقی لیڈر شپ ملے تو بیوروکریسی من مانی نہیں کرتی، کام کرتی ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق بیورو کریسی موجودہ حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، آپ خود بھی ایک بیوروکریٹ رہے ہیں تو اس پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟
شفقت محمود: میرا نہیں خیال کہ بیوروکریسی کچھ ایسا کر رہی ہے، شریف صاحبان نے ایک بہت بڑا جرم یہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے پسند کے بیوروکریٹس پر مشتمل افراد کی بیوروکریسی میں ن لیگ بنا دی، جس کی وجہ سے بہت سارا بگاڑ پیدا ہو گیا، لیکن ہم ذاتی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھ کر میرٹ پر کام کر رہے ہیں، مجھے کئی لوگ آ کر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے جو فلاں بندہ لگایا ہوا ہے وہ ن لیگ کے بڑا قریب تھا تو میں جواب دیتا ہوں کہ کوئی بات نہیں، اگر وہ اپنا کام درست کرتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن شریف برادران نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے باقاعدہ ایک لکیر کھینچ دی کہ ہمارے ساتھ کون ہے اور مخالف کون، تاہم ہم ایسا نہیں کر رہے، ہمیں اسے ٹھیک کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔
ایکسپریس: وطن عزیز میں سیاست دانوںکی کمزوریوں کے باعث طاقت کا جھکاؤ ہمیشہ ملٹری کی طرف رہا، لیکن آج موجودہ حکومت کی دیانت داری کے بڑے چرچے ہیں تو پھر بھی یہ تاثر ختم تو درکنار کم بھی نہیں ہو رہا، کیوں؟
شفقت محمود: میرا خیال ہے کہ یہ صرف ایک سوچ ہے، اس وقت ہمارے ادارے جتنے متحد ہیں، اتنے شاید پاکستان کی پوری تاریخ میں نہ ہوئے ہوں، سارے فیصلے مل کر ہو رہے ہیں، ریاست کے تمام عناصر مل کر کام کر رہے ہیں۔ عمران خان کی قیادت تسلیم شدہ ہے، جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، پہلے جو بگاڑ ہوا، اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ قیادت جب نااہل ہو اور بدیانت بھی ہو تو پھر کوئی ادارہ اس کی لیڈرشپ نہیں مانے گا، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہماری لیڈر شپ دیانت دار بھی ہے اور اہل بھی ہے، لہٰذا ریاست کے تمام ادارے ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔
ایکسپریس: کرپشن، قرضوں کی ادائیگی، باہر سے پیسہ واپس پاکستان، چوروں لٹیروں سے وصولیاں، یہ سب دعوی جو تحریک انصاف کیا کرتی تھی، آج حکومت میں آکر ان کی کیا حقیقت نکلی، قوم حقیقی نتائج کی منتظر ہے؟
شفقت محمود: حقیقت تو نکلی ہے، لیکن یہ ہم نہیں کر رہے بلکہ نیب کر رہا ہے، بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ نیب صرف لوگوں کو حراست میں نہ لے، ان کے ٹرائل کرکے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے، دوسری طرف آپ یہ دیکھ لیں کہ نواز شریف کو سزا ہوئی ہے اور وہ جیل میں ہے، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ نیب صرف خانہ پری کے لئے کام نہ کرے، جیسے علیم خان اور سبطین خان کے ساتھ کیا کہ بس پکڑ لیا اور دو تین ماہ تک کوئی چارج بھی نہیں لگایا، نیب مضبوط ہاتھ ڈالے اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے۔ تو یوں احتساب کا عمل تو چل رہا ہے۔
ایکسپریس: لیکن سر! کسی قسم کی کوئی وصولی ہو رہی ہے نہ کوئی حتمی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
شفقت محمود: جن لوگوں نے چوریاں اور ڈاکے ڈال کر پیسہ باہر بھیجا ہے، وہ اتنی جلدی تو نہیں واپس کریں گے ناں، بہرحال میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ کچھ لوگ پیسے دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں، تو یہ اچھی بات ہے۔
ایکسپریس: تحریک انصاف نے موروثی اور روایتی سیاست کو دفن کرنے کا نعرہ لگایا لیکن ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں سے کیسے مختلف ہے؟ جبکہ اب یہ جماعت بھی دیگر سیاسی جماعتوں والی قباحتوں کا شکار ہو رہی ہے؟
شفقت محمود: بہت بڑا فرق ہے، تحریک انصاف کی قیادت دیانت دار ہے، ہر لحاظ سے قوم کی ترجمانی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے پاس چوائس ہوتی ہے، وہ بڑے اچھے اور اپنے شعبوں کے ماہرین کو لے کر آئے ہیں، ہاں البتہ کسی پر کریمینل چارجز ہیں، تو انہیں ہم آگے نہیں آنے دیں گے۔
ایکسپریس: 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کا بڑا شور و غلغلہ کیا گیا، اس بار وہی شور آپ کے بارے میں ہے، آپ درست ہیں کہ اپوزیشن؟ اگر آپ تو کیسے؟
شفقت محمود: ہم نے کہا تھا کہ آپ صرف چار حلقے کھول کر دیکھ لیں اور پھر جب یہ کھلے تو ان میں سے تقریباً تین پر دوبارہ الیکشن ہوا، اس سے ہماری بات ثابت ہوئی اور اس بار جو الیکشن ہوا ہے، اس کے دو یا تین ماہ بعد National Democratic Institute کا جو سروے آیا، اس میں 84فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کی دانست میں عام انتخابات شفاف تھے، اب اس کے بعد جتنے سروے آتے رہے، ان میں تحریک انصاف ٹاپ پر رہی، اب کچھ اوپر نیچے ہو رہا ہے، لیکن یہ معمول کی بات ہے۔ اور یہ تمام سروے ہمارے اداروں نے نہیں بلکہ عالمی اداروں نے کئے ہیں، تو اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر کسی کو الیکشن پر تحفظات ہیں تو وہ پٹیشن دائر کرے۔
ایکسپریس: الیکشن ریفارمز کے حوالے سے آپ نے بحیثیت اپوزیشن کچھ کیا نہ آج حکومت میں آکر کچھ کر رہے ہیں تو قوم کو اس سے کیا پیغام مل رہا ہے؟
شفقت محمود: ایسی کوئی بات نہیں، میں خود الیکشن ریفارمز کمیٹی کا ممبر تھا اور میرا خیال ہے کہ ہم نے کم از کم سو سے زائد میٹنگز کیں، جن میں بے شمار چیزیں کی گئیں، کچھ چیزوں پر آخر میں الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہیں کیا، لیکن ہم نے بہت محنت کی، دیکھیں یہ ایک On Going Process ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بڑا ضروری ہے، اس لئے ہم جستجو اور کوشش جاری رکھیں گے۔
ایکسپریس: سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، جس کے ثمرات سے آج تمام ترقی یافتہ ممالک مستفیض ہو چکے ہیں، لیکن ہماری حالت نہایت پتلی ہے، کیا وزارت تعلیم نے سرکاری درس گاہوں میں مروج نصابی کتب کو اپ ڈیٹ کرنے کا کوئی نظام وضع کیا ہے؟
شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی تعلیم کو وہ توجہ نہیں دی، جس کی یہ متقاضی تھی، لیکن جہاں ہم نے توجہ دی، اس میں ہمیںکامیابی ہوئی، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے ایٹم بم بنانا کوئی معمولی بات ہے؟ لیکن ہم نے بنایا، ابھی بھی آپ کا جو ایک ادارہ ہے، جسے Pakistan Institute of Engineering & Applied Sciences کہتے ہیں، وہ دنیا کے ٹاپ اداروں میں شمار ہوتا ہے، وہاں 15سو سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن ہم نے تعلیم پر مجموعی طور پر توجہ نہیں دی، سکول ایجوکیشن اور اساتذہ کی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔
جس سے ہمیں نقصان ہوا، پھر یہ بھی ہوا کہ ہم درست فیصلے بھی نہ کر سکے، مثال کے طور پر کوئی سرکاری ملازم درست کام نہیں کرتا، وہ نااہل ہے تو اس کو ہٹانے کا آسان طریقہ نہیں ہے، جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو باہر جا کر بڑے اچھے طریقے سے اور محنت سے کام کرتے ہیں، وہ سرکاری ملازمت میں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ یہاں جزا و سزا کا نظام بہت عجیب ہے، لیکن اب ہم اس روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً ہم یکساں نظام تعلیم پر کام کر رہے ہیں، جو تمام مدارس اور سکولز چاہے وہ سرکاری ہیں یا پرائیویٹ، سب پر لاگو ہو گا۔
ایکسپریس: یکساں نظام تعلیم کا کام کب تک عملی طور پر نافذ ہو سکے گا؟
شفقت محمود: دیکھیں! یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے، جس پر کام جاری ہے، پرائمری سلیبس کی آؤٹ لائن تو اگلے دو سے تین ماہ میں تیار ہو جائے گی، لیکن پھر اسے تیار کرنا کافی نہیں ہے، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے، جس کے لئے ہمیں صوبوں کے پاس بھی جانا ہو گا تو میرا خیال ہے کہ اگلے سال تک اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔
ایکسپریس: گاہے بگاہے یہ بات سننے میں آتی رہتی ہے کہ ہماری وزارت تعلیم ملک کے تعلیمی نظام کو او لیول کی طرز پر استوار کرنا چاہتی ہے؟
شفقت محمود: او لیول کا ہم سے تعلق نہیں، ہم اپنا نظام بنا رہے ہیں، ہمارا جو نصاب بنے گا وہ دنیا کے کسی نصاب سے کم نہیں ہوگا اور بالآخر پانچ سے سات سال میں ایک وقت آئے گا کہ جب پورے پاکستان میں یکساں قومی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔
ایکسپریس: اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہر ملک اپنے بجٹ کا کم از کم 4 سے 5 فیصد حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کرے، کیوں کہ حقیقی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے اور آج کے تمام خوشحال ممالک ایسا کر رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کر رہے ہیں لیکن ہماری انصافی حکومت نے تو ایچ ای سی کے فنڈز پر 50 فیصد کٹ لگا کر گنگا ہی الٹی بہا دی، ہمارا تعلیمی بجٹ بمشکل 2 فیصد ہے، گزشتہ دنوں تو یہ اطلاعات بھی تھیں کہ کئی یونیورسٹیز فنڈز کی شدید قلت کا شکار ہو چکی ہیں،کیا فرمائیں گے؟
شفقت محمود: حکومت کا جو نظام ہے ناں اس میں آپ ستارے مانگتے ہیں تاکہ آپ کو ایک موم بتی مل جائے، یہ پیسے لینے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ایچ ای سی کو گزشتہ سال 65 ارب ملے تھے، اس برس 59ارب روپے ملے ہیںِ، یوں صرف 6ارب روپے کمی ہوئی ہے اور یہ Inflation کی وجہ سے تھا، پھر یہاں کے پیسے سائنس اینڈ ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی میںگئے ہیں۔ اب ہم یہ بھی اکٹھے کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ کمی بھی جلد پوری کر دی جائے گی۔
ایکسپریس: بعض ماہرین تعلیم کی تجویز ہے کہ سرکاری جامعات کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے تاہم دیگر معاملات حکومت اپنے ہاتھ میں رکھے، اس طرح جامعات شاید مالی لحاظ سے خودکفیل ہو جائیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
شفقت محمود: دیکھیں! آپ سب ادارے تو نہیں کر سکتے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پبلک پرائیویٹ ایک اچھی چیز ہے، اور یہ پہلے سے چل رہی ہے، پنجاب میں تو 5 ہزار سکول این جی اوز کو دے بھی دیئے گئے ہیں۔
ایکسپریس: لیکن سر جامعات کی سطح پر جب یہی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہوتی ہے تو سربراہان ادارہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شفقت محمود: نہیں یہ اور چیز ہے، میرے خیال میں تو یہ غلط بات ہے کہ آپ کی یونیورسٹی سرگودھا میں ہو اور آپ نے کیمپس لاہور میں کھولا ہو، یہ کوئی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ نہیں ہے، لیکن جہاں جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہو سکتی ہے وہاں ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: وطن عزیز کے تعلیمی نظام پر نجی اداروں کی اجارہ داری ہے، جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور غریب والدین اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے اپنا سب کچھ گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، پھر ان غریبوں کی آہ وپکار صرف سپریم کورٹ سنتی ہے اور وہی فیسوں میں کمی لانے کے احکامات جاری کرتی رہتی ہے، لیکن افسوس تو ہمیں حکومت پر ہوتا ہے کہ اس ضمن میں وہ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیںکرتی؟
شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ریاست کی بہت بڑی ناکامی تھی، جس کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کا اتنا وسیع نیٹ ورک بنا، اگر سرکار اپنا فریضہ سرانجام دیتی تو یہ نہ ہوتا۔ اب یہ جو ایلیٹ سکول ہیں، جہاں ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ میرے بچے وہاں پڑھیں، جن کی فیسیں سپریم کورٹ نے پہلے کم کیں اور اب 2017ء کی بیس لائن بنا دی گئی ہے۔ دیکھیں! آپ نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنا ہے، ان کا گلا نہیں دبانا، کیوں کہ بے شمار بچے ان اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ لہذا آپ ان اداروں کو ریگولیٹ ضرور کریں لیکن انہیں اتنا مت دبائیں کہ یہ ادارے بند ہونے لگے، ان اداروں کی کمی پوری کرنے کے لئے ریاست کو ابھی وقت چاہیے، جس کے لئے کوششیں جاری ہیں، رہی بات سپریم کورٹ کے حکم کی تو اس پر ہم عملدرآمد کریں گے۔
ایکسپریس: اردو زبان کے نفاذ پر بھی تو سپریم کورٹ نے احکامات جاری کر رکھے ہیں؟
شفقت محمود: اس ضمن میں کئی چیزیں کرنے والی ہیں، کیوں کہ اس کے نفاذ میں اتنی کامیابی نہیں حاصل ہوئی، جو ہونی چاہیے تھی۔ ابھی ہم جب یکساں نصاب بنا رہے ہیں تو اس میں ہم اردو زبان کو پوری اہمیت دیں گے۔
ایکسپریس: نجی کیا اب تو سرکاری جامعات میں بھی صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ایک ایک سمسٹر کی فیس 50 سے80 تک پہنچ چکی ہے، متوسط طبقہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے کہاں جائے، نوجوان پڑھ نہ پائے تو پھر کیا کریں گے؟
شفقت محمود: یونیورسٹی ایجوکیشن کوئی حق نہیں ہے، لیکن اس کے لئے ہمیںکوشش یہ کرنی چاہیے کہ جو قابل بچے ہیں وہ پیسے کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جائیں، جس کے لئے ہمیں سکالر شپس کا ایک بڑا نظام بنانا چاہیے، اسی لئے ہم سکالرشپس میں 5 ارب روپے مزید ڈال رہے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ جو چارجز ادا کر سکتے ہیں، انہیں دینے بھی چاہئیں اور ساری دنیا میں یہ نظام ہے کہ جو افورڈ نہیں کر سکتے انہیں سکالرشپس دیئے جائیں، لیکن ہمارا کیا نظام ہے کہ امیر ہو یا غریب کا بچہ، وہ ایک ہی فیس دے رہا ہے، جو درست نہیں، اسے ٹھیک کیا جائے گا۔
سینئر سیاست دان، کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ شفقت محمود 19 فروری 1950ء میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1970ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے سائیکالوجی، ہاروڈ یونیورسٹی کیمبرج (1981ء) اور یونیورسٹی آف جنوبی کیلیفورنیا (1987ء) سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ سابق بیوروکریٹ 1973ء سے 1990ء تک مختلف سرکاری عہدوں پر تعینات رہے۔
انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور جوائنٹ سیکرٹری وزیراعظم سیکرٹریٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1990ء میں سرکاری ملازمت سے مستعفی ہو کر انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا، جس کے بعد مارچ 1994ء میں وہ پہلی بار سینیٹر منتخب ہوئے۔ سینئر سیاست دان 1999ء سے 2000ء تک پنجاب میں وزیراطلاعات، ثقافت، ماحولیات، ٹرانسپورٹ رہے جبکہ نومبر 1996ء سے فروری 1997ء تک نگران حکومت کے دور میں بحیثیت وفاقی وزیر برائے ماحولیات، لوکل گورنمنٹ،خوراک و زراعت کی ذمہ داریاں ادا کر چکے ہیں۔
سینیٹ کمیٹی برائے دفاع اور خارجہ امور کا ممبر رہنے کے علاوہ مختلف ادوار میں وہ پاکستان کی طرف سے کئی ممالک میں خصوصی ایلچی بھی رہے۔ 13 دسمبر 2011ء کو شفقت محمود نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی، جہاں انہیں مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کے واحد امیدوار تھے۔
جنہوں نے مسلم لیگ ن کے گڑھ تصور کئے جانے والے شہر لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست جیتی۔ 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک بار پھر سینئر سیاست دان نے اپنی عوامی مقبولیت کو ثابت کیا اور لاہور سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ رکن قومی اسمبلی کی قابلیت، صلاحیتوں اور وسیع تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں نہایت اہم وزارت برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔ ''ایکسپریس'' نے ملک اور خطہ کی صورت حال، ماضی کی غلطیوں، مستقبل کے چیلنجز کے بارے میں جاننے اور اعلٰی تعلیم کے گرتے معیار کے حوالے سے سینئر سیاست دان و وفاقی وزیر شفقت محمود سے ایک نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔
ایکسپریس: مقبوضہ وادی کشمیر میں بھارت کے حالیہ اقدامات اور ظلم و جبر پر ہمارے چند قریبی دوست و مسلم ممالک نے خاموشی یا ڈھیلے ڈھالے موقف پر اکتفا کیا، آپ اس پر کیا کہیں گے؟
شفقت محمود: دیکھیں! او آئی سی نے قرارداد پیش کی ہے، ایران، ملائیشیا اور ترکی نے بڑا مضبوط موقف اپنایا ہے۔ یہ جو اتنی طویل جدوجہد ہے، کشمیریوں اور پاکستان کی، یہ جاری ہے، اس کے اندر ہم سب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں اور اس میں سب سے بڑا کردار خود کشمیریوں کا ہے، جو اس ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہیں، تو دنیا اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی، مسئلہ وہاں پر ہوتا ہے۔
جہاں اندرونی جدوجہد نہ ہو۔ تاہم یہ درست ہے کہ ہمیں کافی دیر سے کچھ چیلنجز درپیش ہیں، جن میں دو سب سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے ہیں، ایک دنیا کا اخلاقی اقدار پر نہ چلنا، اس کے خلاف ہم نے جدوجہد کرنی ہے کہ ظلم جہاں پر بھی ہو وہ ظلم ہے، وہاں اپنی مجبوریوں یا مفادات کو فوقیت نہیں دینی چاہیے، تو یہ ہمارے لئے چیلنج ہے کہ ہم ساری دنیا کو اس موقف پر لے کر آئیں۔ دوسرا اگر کسی ملک کے بھارت کے ساتھ تجارتی مفادات ہیں، وہ ضرور رکھیں، لیکن اس کے ساتھ ظلم کے خلاف آواز بھی اٹھائیں۔
ایکسپریس: کیا آپ کے ذہن میں کچھ ایسے خدشات ہیں کہ بھارت ہماری یا دنیا کی کسی بھی کمزوری کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے؟
شفقت محمود: مجھے پورا یقین ہے کہ بھارت بالکل بھی کامیاب نہیں ہو گا، آپ دیکھیں یہ معاملہ 5 اگست کو شروع ہوا تو آج تقریباً دو ماہ ہو چکے ہیں لیکن بھارت حالات پر کنٹرول (Supress) نہیں پا سکا، کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو کرفیو اٹھ چکا ہوتا، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کرفیو کب تک رہے گا، آخر کار اس کو اٹھانا پڑے گا، لیکن یہ جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔
ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ آزاد کشمیر میں ہمارے اقدامات، وہاں اپنی سیاسی جماعتوں کو متعارف کروانے اور ایک باقاعدہ حکومت قائم کر دینے سے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں آئینی اقدامات کی سہولت فراہم ہوئی؟ اگر stand still agreement کی روح کے مطابق آزاد کشمیر کو جوں کا توں رہنے دیا جاتا اور اسے صرف آزادی کے بیس کیمپ کی حیثیت حاصل رہتی تو بھارت کو بھی مقبوضہ کشمیر میں قدم جمانے کا موقع نہ ملتا؟
شفقت محمود: میرا نہیں خیال ایسا ہے، آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت( Special Status) ہے، جس پر ہم قائم ہیں، دیکھیں! ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو یہ حق ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنے حکمران منتخب کریں اور ایسا ہی ہوتا ہے۔
ایکسپریس: آپ صرف ایک سیاست دان نہیں، جو عمومی طور پر روایتی ہوتے ہیں بلکہ ایک نہایت سنجیدہ شخصیت اور دانش ور بھی ہے، تو اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ہمیں ایسا کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو جائے؟
شفقت محمود: ہم ہر طریقہ سے کشمیریوں کی مدد کریں گے، دنیا کا جو بھی فورم ہے، اس پر ان کے لئے آواز اٹھائیں گے، ہم کوئی کمی نہیں چھوڑیں گے، لیکن ہم جنگ بھی نہیں چاہتے، تاہم یہ اگر ہم تھوپی گئی تو پھر اس کا بھرپور جواب دیں گے، وزیراعظم نے یو این کی جنرل کونسل میں جو خطاب کیا، وہ غور طلب ہے کہ ''اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بظاہر پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور ہمیں کوئی دھونس دی جا سکتی ہے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے، ہم آخری حد تک لڑیں گے'' تو اس لئے میرا خیال ہے کہ ہم کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ہم کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ اچھا جو آپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی ہے تو اس کا سیدھا سا جواب اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں، ان پر عملدرآمد کیا جائے، اور ہم اسی کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایکسپریس: پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں عمومی طور پر یہ کہا جاتا ہے یہ کبھی آزاد نہیں رہی، جس کی ایک مثال کبھی افغان وارکے لئے طالبانائزیشن کرنا تو کبھی ان کے خاتمے کے عزم کا اظہار کرنا ہے، آج جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہو چکی ہے تو خارجہ پالیسی کے حوالے سے آپ کیا سوچ رہے ہیں، اسے کیسے منظم اور آزاد بنایا جا رہا ہے؟
شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میرا موقف نہیں، دوسرا پاکستان کی خارجہ پالیسی ریاست کی خارجہ پالیسی ہے اور جو ریاست کی خارجہ پالیسی ہوتی ہے، اس میں ریاست کے سارے ادارے شامل ہوتے ہیں اور ایسا صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہوتا ہے۔ اور جب سے ہماری حکومت آئی ہے ہم نے خارجہ پالیسی کی تنہائی کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے، امریکا کے ساتھ ہمارے شدید اختلافات تھے، لیکن اب حالات بہت بہتر ہیں، چین کے ساتھ ہماری دوستی مزید مضبوط ہوئی ہے، ترکی اور ملائیشیا نے آؤٹ آف دا وے جا کر ہمیں سپورٹ کیا، سعودی عرب، یواے ای اور قطر جیسے ممالک نے ہمیں امداد دی ہے۔ تو یوں ہم نے عالمی سطح پر تنہائی کے تاثر کو ختم کر دیا ہے۔ لہذا ہماری اپنی خارجہ پالیسی ہے، جو ہم خود بناتے ہیں اور اس پر کسی سے ڈکٹیشن نہیں لی جاتی۔
ایکسپریس: ایک تاثر یہ ہے کہ برسوں کے تھپیڑوں کے بعد آج ہم امریکا سے جان چھڑوا کر چین اور روس کی طرف جا رہے ہیں، لیکن کہیں چین بھی ہمارے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی تو ثابت نہیں ہو گا؟ دوسرا ان اطلاعات میں کتنی صداقت ہے کہ علاقائی و عالمی سطح پر پاکستان، چین اورروس مل کر کوئی نئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں؟
شفقت محمود: دیکھیں! اس سوال پر مجھے اعتراض ہے، کیوں کہ چین کے بارے میں ہمیں ایسے سوالات نہیں کرنے چاہیں، چین سے ہمارے آج کے تعلقات نہیں ہیں، 60کی دہائی کے اوائل سے دیکھ لیں کہ آج تک کتنی حکومتیں آئی اور گئیں لیکن چین سے دوستی میں کبھی فرق نہیں آیا، لہذا میرا خیال ہے کہ چین کے حوالے سے ایسی تشبیہات دینا درست نہیں، دوسری بات یہ ہے کہ جو آپ کے بیرونی تعلقات ہوتے ہیں، وہ ''Zero Sum Game'' نہیں ہوتے، یعنی ایک ملک سے اگر آپ کے تعلقات اچھے ہیں تو دوسرے کے ساتھ خود بخود خراب ہو جائیں، ہم نے کوشش کی ہے کہ چین کے ساتھ تو ہمارے بہت قریبی تعلقات ہے ہی، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ امریکا اور روس سے بھی ہمارے اچھے تعلقات ہوں، لہذا ہم نے کوشش کی ہے کہ ہم ہر ملک سے اپنے تعلقات بہتر کریں۔ دوسرا جو آپ نے نئی سیاسی حکمت عملی کا پوچھا ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔
ایکسپریس: ملکی بہتری کے حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن تاحال اس کی کوئی عملی شکل سامنے نہیں آ رہی۔ آپ کی حکومت کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا، لوگ خصوصاً پی ٹی آئی ورکز و ہمدرد تبدیلی کے ثمرات کے منتظر ہیں، انہیں کیسے تسلی دیں گے؟
شفقت محمود: جو بگاڑ 70سال کا ہے، وہ ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوگا، اسی لئے ہمارا آئین بھی کہتا ہے کہ ہر حکومت 5سال کے لئے ہو گی، لہٰذا ہمارا مینڈیٹ 5 سال کا ہے، پہلا سال مشکل تھا، لیکن اب چیزیں بہتر ہونا شروع ہو گئی ہیں اور 5 سال کے دوران انشاء اللہ تعالی عوام بڑی تبدیلی محسوس کریں گے، لیکن بے صبری نہیں ہونی چاہیے، بہت سارے کام ہے جن پر وقت لگے گا، مثلاً بے شمار تنظیمیں ہیں، جو عرصہ سے سربراہ کے بغیر ہی چلے جا رہی تھیں، جب سربراہ ہی نہیں ہو گا تو بہتری کیسے آئے گی، اب ہم نے یہ سب کام کرنا شروع کر دیئے ہیں، عوام کو جلد تبدیلی محسوس ہو گی۔
کچھ چیزیں جلدی بہتر ہوں گی اور کچھ میں وقت لگے، جیسے معیشت ہے، جس کو بہتر کرنے پر پر وقت لگے گا، اس لئے کہ آپ پر کھربوں روپے کے قرضے ہیں، جن کی ادائیگی اور معیشت کو درست سمت پر گامزن کرنے کے لئے وقت درکار ہے، دیکھیں! گزشتہ سال مشکل تھا، مہنگائی ہوئی، لوگوں کو تکلیف بھی ہوئی اور اب آپ یہ جولائی اور اگست کے جو اعدادوشمار ہیں، ان کے مطابق آپ کے برآمدات بڑھیں اور درآمدات کم ہوئیں، آپ کا بجٹ خسارہ بھی کم ہو رہا ہے، روپیہ مستحکم ہوا ہے۔
ایکسپریس: آپ کے بقول حقیقی لیڈر شپ ملے تو بیوروکریسی من مانی نہیں کرتی، کام کرتی ہے، لیکن اطلاعات کے مطابق بیورو کریسی موجودہ حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے، آپ خود بھی ایک بیوروکریٹ رہے ہیں تو اس پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟
شفقت محمود: میرا نہیں خیال کہ بیوروکریسی کچھ ایسا کر رہی ہے، شریف صاحبان نے ایک بہت بڑا جرم یہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے پسند کے بیوروکریٹس پر مشتمل افراد کی بیوروکریسی میں ن لیگ بنا دی، جس کی وجہ سے بہت سارا بگاڑ پیدا ہو گیا، لیکن ہم ذاتی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھ کر میرٹ پر کام کر رہے ہیں، مجھے کئی لوگ آ کر یہ کہتے ہیں کہ آپ نے جو فلاں بندہ لگایا ہوا ہے وہ ن لیگ کے بڑا قریب تھا تو میں جواب دیتا ہوں کہ کوئی بات نہیں، اگر وہ اپنا کام درست کرتا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں، لیکن شریف برادران نے ایسا نہیں کیا، انہوں نے باقاعدہ ایک لکیر کھینچ دی کہ ہمارے ساتھ کون ہے اور مخالف کون، تاہم ہم ایسا نہیں کر رہے، ہمیں اسے ٹھیک کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔
ایکسپریس: وطن عزیز میں سیاست دانوںکی کمزوریوں کے باعث طاقت کا جھکاؤ ہمیشہ ملٹری کی طرف رہا، لیکن آج موجودہ حکومت کی دیانت داری کے بڑے چرچے ہیں تو پھر بھی یہ تاثر ختم تو درکنار کم بھی نہیں ہو رہا، کیوں؟
شفقت محمود: میرا خیال ہے کہ یہ صرف ایک سوچ ہے، اس وقت ہمارے ادارے جتنے متحد ہیں، اتنے شاید پاکستان کی پوری تاریخ میں نہ ہوئے ہوں، سارے فیصلے مل کر ہو رہے ہیں، ریاست کے تمام عناصر مل کر کام کر رہے ہیں۔ عمران خان کی قیادت تسلیم شدہ ہے، جس پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، پہلے جو بگاڑ ہوا، اس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ قیادت جب نااہل ہو اور بدیانت بھی ہو تو پھر کوئی ادارہ اس کی لیڈرشپ نہیں مانے گا، لیکن اللہ کے فضل و کرم سے ہماری لیڈر شپ دیانت دار بھی ہے اور اہل بھی ہے، لہٰذا ریاست کے تمام ادارے ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔
ایکسپریس: کرپشن، قرضوں کی ادائیگی، باہر سے پیسہ واپس پاکستان، چوروں لٹیروں سے وصولیاں، یہ سب دعوی جو تحریک انصاف کیا کرتی تھی، آج حکومت میں آکر ان کی کیا حقیقت نکلی، قوم حقیقی نتائج کی منتظر ہے؟
شفقت محمود: حقیقت تو نکلی ہے، لیکن یہ ہم نہیں کر رہے بلکہ نیب کر رہا ہے، بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ نیب صرف لوگوں کو حراست میں نہ لے، ان کے ٹرائل کرکے انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے، دوسری طرف آپ یہ دیکھ لیں کہ نواز شریف کو سزا ہوئی ہے اور وہ جیل میں ہے، ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ نیب صرف خانہ پری کے لئے کام نہ کرے، جیسے علیم خان اور سبطین خان کے ساتھ کیا کہ بس پکڑ لیا اور دو تین ماہ تک کوئی چارج بھی نہیں لگایا، نیب مضبوط ہاتھ ڈالے اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے۔ تو یوں احتساب کا عمل تو چل رہا ہے۔
ایکسپریس: لیکن سر! کسی قسم کی کوئی وصولی ہو رہی ہے نہ کوئی حتمی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔
شفقت محمود: جن لوگوں نے چوریاں اور ڈاکے ڈال کر پیسہ باہر بھیجا ہے، وہ اتنی جلدی تو نہیں واپس کریں گے ناں، بہرحال میں نے اخبار میں پڑھا ہے کہ کچھ لوگ پیسے دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں، تو یہ اچھی بات ہے۔
ایکسپریس: تحریک انصاف نے موروثی اور روایتی سیاست کو دفن کرنے کا نعرہ لگایا لیکن ہم آپ سے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی دیگر سیاسی جماعتوں سے کیسے مختلف ہے؟ جبکہ اب یہ جماعت بھی دیگر سیاسی جماعتوں والی قباحتوں کا شکار ہو رہی ہے؟
شفقت محمود: بہت بڑا فرق ہے، تحریک انصاف کی قیادت دیانت دار ہے، ہر لحاظ سے قوم کی ترجمانی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم کے پاس چوائس ہوتی ہے، وہ بڑے اچھے اور اپنے شعبوں کے ماہرین کو لے کر آئے ہیں، ہاں البتہ کسی پر کریمینل چارجز ہیں، تو انہیں ہم آگے نہیں آنے دیں گے۔
ایکسپریس: 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کا بڑا شور و غلغلہ کیا گیا، اس بار وہی شور آپ کے بارے میں ہے، آپ درست ہیں کہ اپوزیشن؟ اگر آپ تو کیسے؟
شفقت محمود: ہم نے کہا تھا کہ آپ صرف چار حلقے کھول کر دیکھ لیں اور پھر جب یہ کھلے تو ان میں سے تقریباً تین پر دوبارہ الیکشن ہوا، اس سے ہماری بات ثابت ہوئی اور اس بار جو الیکشن ہوا ہے، اس کے دو یا تین ماہ بعد National Democratic Institute کا جو سروے آیا، اس میں 84فیصد لوگوں نے کہا کہ ان کی دانست میں عام انتخابات شفاف تھے، اب اس کے بعد جتنے سروے آتے رہے، ان میں تحریک انصاف ٹاپ پر رہی، اب کچھ اوپر نیچے ہو رہا ہے، لیکن یہ معمول کی بات ہے۔ اور یہ تمام سروے ہمارے اداروں نے نہیں بلکہ عالمی اداروں نے کئے ہیں، تو اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر کسی کو الیکشن پر تحفظات ہیں تو وہ پٹیشن دائر کرے۔
ایکسپریس: الیکشن ریفارمز کے حوالے سے آپ نے بحیثیت اپوزیشن کچھ کیا نہ آج حکومت میں آکر کچھ کر رہے ہیں تو قوم کو اس سے کیا پیغام مل رہا ہے؟
شفقت محمود: ایسی کوئی بات نہیں، میں خود الیکشن ریفارمز کمیٹی کا ممبر تھا اور میرا خیال ہے کہ ہم نے کم از کم سو سے زائد میٹنگز کیں، جن میں بے شمار چیزیں کی گئیں، کچھ چیزوں پر آخر میں الیکشن کمیشن نے عملدرآمد نہیں کیا، لیکن ہم نے بہت محنت کی، دیکھیں یہ ایک On Going Process ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بڑا ضروری ہے، اس لئے ہم جستجو اور کوشش جاری رکھیں گے۔
ایکسپریس: سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، جس کے ثمرات سے آج تمام ترقی یافتہ ممالک مستفیض ہو چکے ہیں، لیکن ہماری حالت نہایت پتلی ہے، کیا وزارت تعلیم نے سرکاری درس گاہوں میں مروج نصابی کتب کو اپ ڈیٹ کرنے کا کوئی نظام وضع کیا ہے؟
شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی تعلیم کو وہ توجہ نہیں دی، جس کی یہ متقاضی تھی، لیکن جہاں ہم نے توجہ دی، اس میں ہمیںکامیابی ہوئی، اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے لئے ایٹم بم بنانا کوئی معمولی بات ہے؟ لیکن ہم نے بنایا، ابھی بھی آپ کا جو ایک ادارہ ہے، جسے Pakistan Institute of Engineering & Applied Sciences کہتے ہیں، وہ دنیا کے ٹاپ اداروں میں شمار ہوتا ہے، وہاں 15سو سے زائد طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں، لیکن ہم نے تعلیم پر مجموعی طور پر توجہ نہیں دی، سکول ایجوکیشن اور اساتذہ کی تربیت پر توجہ نہیں دی گئی۔
جس سے ہمیں نقصان ہوا، پھر یہ بھی ہوا کہ ہم درست فیصلے بھی نہ کر سکے، مثال کے طور پر کوئی سرکاری ملازم درست کام نہیں کرتا، وہ نااہل ہے تو اس کو ہٹانے کا آسان طریقہ نہیں ہے، جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو باہر جا کر بڑے اچھے طریقے سے اور محنت سے کام کرتے ہیں، وہ سرکاری ملازمت میں کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ یہاں جزا و سزا کا نظام بہت عجیب ہے، لیکن اب ہم اس روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مثلاً ہم یکساں نظام تعلیم پر کام کر رہے ہیں، جو تمام مدارس اور سکولز چاہے وہ سرکاری ہیں یا پرائیویٹ، سب پر لاگو ہو گا۔
ایکسپریس: یکساں نظام تعلیم کا کام کب تک عملی طور پر نافذ ہو سکے گا؟
شفقت محمود: دیکھیں! یہ ایک سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے، جس پر کام جاری ہے، پرائمری سلیبس کی آؤٹ لائن تو اگلے دو سے تین ماہ میں تیار ہو جائے گی، لیکن پھر اسے تیار کرنا کافی نہیں ہے، اس پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے، جس کے لئے ہمیں صوبوں کے پاس بھی جانا ہو گا تو میرا خیال ہے کہ اگلے سال تک اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔
ایکسپریس: گاہے بگاہے یہ بات سننے میں آتی رہتی ہے کہ ہماری وزارت تعلیم ملک کے تعلیمی نظام کو او لیول کی طرز پر استوار کرنا چاہتی ہے؟
شفقت محمود: او لیول کا ہم سے تعلق نہیں، ہم اپنا نظام بنا رہے ہیں، ہمارا جو نصاب بنے گا وہ دنیا کے کسی نصاب سے کم نہیں ہوگا اور بالآخر پانچ سے سات سال میں ایک وقت آئے گا کہ جب پورے پاکستان میں یکساں قومی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔
ایکسپریس: اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہر ملک اپنے بجٹ کا کم از کم 4 سے 5 فیصد حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کرے، کیوں کہ حقیقی ترقی کا راز اسی میں مضمر ہے اور آج کے تمام خوشحال ممالک ایسا کر رہے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کر رہے ہیں لیکن ہماری انصافی حکومت نے تو ایچ ای سی کے فنڈز پر 50 فیصد کٹ لگا کر گنگا ہی الٹی بہا دی، ہمارا تعلیمی بجٹ بمشکل 2 فیصد ہے، گزشتہ دنوں تو یہ اطلاعات بھی تھیں کہ کئی یونیورسٹیز فنڈز کی شدید قلت کا شکار ہو چکی ہیں،کیا فرمائیں گے؟
شفقت محمود: حکومت کا جو نظام ہے ناں اس میں آپ ستارے مانگتے ہیں تاکہ آپ کو ایک موم بتی مل جائے، یہ پیسے لینے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے، ایچ ای سی کو گزشتہ سال 65 ارب ملے تھے، اس برس 59ارب روپے ملے ہیںِ، یوں صرف 6ارب روپے کمی ہوئی ہے اور یہ Inflation کی وجہ سے تھا، پھر یہاں کے پیسے سائنس اینڈ ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی میںگئے ہیں۔ اب ہم یہ بھی اکٹھے کر رہے ہیں اور انشاء اللہ یہ کمی بھی جلد پوری کر دی جائے گی۔
ایکسپریس: بعض ماہرین تعلیم کی تجویز ہے کہ سرکاری جامعات کا انتظام نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے تاہم دیگر معاملات حکومت اپنے ہاتھ میں رکھے، اس طرح جامعات شاید مالی لحاظ سے خودکفیل ہو جائیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
شفقت محمود: دیکھیں! آپ سب ادارے تو نہیں کر سکتے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پبلک پرائیویٹ ایک اچھی چیز ہے، اور یہ پہلے سے چل رہی ہے، پنجاب میں تو 5 ہزار سکول این جی اوز کو دے بھی دیئے گئے ہیں۔
ایکسپریس: لیکن سر جامعات کی سطح پر جب یہی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہوتی ہے تو سربراہان ادارہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شفقت محمود: نہیں یہ اور چیز ہے، میرے خیال میں تو یہ غلط بات ہے کہ آپ کی یونیورسٹی سرگودھا میں ہو اور آپ نے کیمپس لاہور میں کھولا ہو، یہ کوئی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ نہیں ہے، لیکن جہاں جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ہو سکتی ہے وہاں ہونی چاہیے۔
ایکسپریس: وطن عزیز کے تعلیمی نظام پر نجی اداروں کی اجارہ داری ہے، جس کے سامنے حکومتیں بھی بے بس دکھائی دیتی ہیں، نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں آسمان کو چھو رہی ہیں، اور غریب والدین اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کے لئے اپنا سب کچھ گروی رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، پھر ان غریبوں کی آہ وپکار صرف سپریم کورٹ سنتی ہے اور وہی فیسوں میں کمی لانے کے احکامات جاری کرتی رہتی ہے، لیکن افسوس تو ہمیں حکومت پر ہوتا ہے کہ اس ضمن میں وہ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیںکرتی؟
شفقت محمود: پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ریاست کی بہت بڑی ناکامی تھی، جس کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کا اتنا وسیع نیٹ ورک بنا، اگر سرکار اپنا فریضہ سرانجام دیتی تو یہ نہ ہوتا۔ اب یہ جو ایلیٹ سکول ہیں، جہاں ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ میرے بچے وہاں پڑھیں، جن کی فیسیں سپریم کورٹ نے پہلے کم کیں اور اب 2017ء کی بیس لائن بنا دی گئی ہے۔ دیکھیں! آپ نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو ریگولیٹ کرنا ہے، ان کا گلا نہیں دبانا، کیوں کہ بے شمار بچے ان اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ لہذا آپ ان اداروں کو ریگولیٹ ضرور کریں لیکن انہیں اتنا مت دبائیں کہ یہ ادارے بند ہونے لگے، ان اداروں کی کمی پوری کرنے کے لئے ریاست کو ابھی وقت چاہیے، جس کے لئے کوششیں جاری ہیں، رہی بات سپریم کورٹ کے حکم کی تو اس پر ہم عملدرآمد کریں گے۔
ایکسپریس: اردو زبان کے نفاذ پر بھی تو سپریم کورٹ نے احکامات جاری کر رکھے ہیں؟
شفقت محمود: اس ضمن میں کئی چیزیں کرنے والی ہیں، کیوں کہ اس کے نفاذ میں اتنی کامیابی نہیں حاصل ہوئی، جو ہونی چاہیے تھی۔ ابھی ہم جب یکساں نصاب بنا رہے ہیں تو اس میں ہم اردو زبان کو پوری اہمیت دیں گے۔
ایکسپریس: نجی کیا اب تو سرکاری جامعات میں بھی صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ایک ایک سمسٹر کی فیس 50 سے80 تک پہنچ چکی ہے، متوسط طبقہ اپنے بچوں کو پڑھانے کے لئے کہاں جائے، نوجوان پڑھ نہ پائے تو پھر کیا کریں گے؟
شفقت محمود: یونیورسٹی ایجوکیشن کوئی حق نہیں ہے، لیکن اس کے لئے ہمیںکوشش یہ کرنی چاہیے کہ جو قابل بچے ہیں وہ پیسے کی وجہ سے پیچھے نہ رہ جائیں، جس کے لئے ہمیں سکالر شپس کا ایک بڑا نظام بنانا چاہیے، اسی لئے ہم سکالرشپس میں 5 ارب روپے مزید ڈال رہے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ جو چارجز ادا کر سکتے ہیں، انہیں دینے بھی چاہئیں اور ساری دنیا میں یہ نظام ہے کہ جو افورڈ نہیں کر سکتے انہیں سکالرشپس دیئے جائیں، لیکن ہمارا کیا نظام ہے کہ امیر ہو یا غریب کا بچہ، وہ ایک ہی فیس دے رہا ہے، جو درست نہیں، اسے ٹھیک کیا جائے گا۔