’’جناح اسپتال میں منہ کے کینسر کے سالانہ 3 ہزار مریض آتے ہیں‘‘
سیکڑوں مریض تاخیر سے اسپتال آنے پر انتقال کرجاتے ہیں،چھالیہ اور دیگرخطرناک اشیاکھانے سے نوجوان گریزکریں
کراچی میں منہ کے کینسر میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا جب کہ منہ کے کینسر میں مبتلا تین ہزار مریض سالانہ جناح اسپتال لائے جارہے ہیں۔
جناح اسپتال کراچی کے کینسر وارڈ کے انچارج ڈاکٹر غلام حیدر کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انکے پاس چھ ہزار مریض سالانہ اسپتال آتے ہیں جن میں سے پچیس سو سے تین ہزار مریض منہ کے کینسر کے ہوتے ہیں اور ان مریضوں میں سے دس فیصد مریض ہومیوپیتھک اور دیگر علاج کروانے کے بعد علاج کے لیے اسپتال آتے ہیں جن کا مرض کی نوعیت بڑھ جانے کی وجہ سے جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ انتقال کر جاتے ہیں۔
مردوں اور خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان بھی بڑی تعداد میں گٹکا کھانے کی وجہ سے منہ کے کینسر میں مبتلا ہورہے ہیں، 20 سے 40 عمر کے افراد زیادہ متاثر ہوکر آرہے ہیں، علاج کا طریقہ کار بتاتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اسکا علاج بہت مہنگا ہوتا ہے، پہلے مرحلے میں سرجری، ریڈئیشن کے بعد کیموتھراپی کا عمل ہوتا ہے تین چار مہینے علاج جاری رہتا ہے۔
ڈنگی سے زیادہ خطرناک صورتحال منہ کے کینسر کی ہے، منہ کے کینسر کا علاج اور ٹیسٹ مہنگا ہونے کے باوجود مریض کے بچنے کے چانسز دس سے پندرہ فیصد ہوتے ہیں، اس مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتے ہوئے کیسز کی تعداد میں کمی آسکے۔
آنکولوجسٹ ڈاکٹر خلیل مہر کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر (چھاتی کے سرطان) کے بعد منہ کا کینسر دوسرا بڑا مرض ہے جو بدقسمتی سے پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
جناح اسپتال کراچی کے کینسر وارڈ کے انچارج ڈاکٹر غلام حیدر کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انکے پاس چھ ہزار مریض سالانہ اسپتال آتے ہیں جن میں سے پچیس سو سے تین ہزار مریض منہ کے کینسر کے ہوتے ہیں اور ان مریضوں میں سے دس فیصد مریض ہومیوپیتھک اور دیگر علاج کروانے کے بعد علاج کے لیے اسپتال آتے ہیں جن کا مرض کی نوعیت بڑھ جانے کی وجہ سے جان بچانا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ انتقال کر جاتے ہیں۔
مردوں اور خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان بھی بڑی تعداد میں گٹکا کھانے کی وجہ سے منہ کے کینسر میں مبتلا ہورہے ہیں، 20 سے 40 عمر کے افراد زیادہ متاثر ہوکر آرہے ہیں، علاج کا طریقہ کار بتاتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اسکا علاج بہت مہنگا ہوتا ہے، پہلے مرحلے میں سرجری، ریڈئیشن کے بعد کیموتھراپی کا عمل ہوتا ہے تین چار مہینے علاج جاری رہتا ہے۔
ڈنگی سے زیادہ خطرناک صورتحال منہ کے کینسر کی ہے، منہ کے کینسر کا علاج اور ٹیسٹ مہنگا ہونے کے باوجود مریض کے بچنے کے چانسز دس سے پندرہ فیصد ہوتے ہیں، اس مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتے ہوئے کیسز کی تعداد میں کمی آسکے۔
آنکولوجسٹ ڈاکٹر خلیل مہر کا ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں بریسٹ کینسر (چھاتی کے سرطان) کے بعد منہ کا کینسر دوسرا بڑا مرض ہے جو بدقسمتی سے پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔