حکومت اور طالبان میں مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کیلئے کوششیں
طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں، گورنر خیبر پختون خوا
QUETTA:
بظاہر تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا انجنیئر شوکت اللہ حکومتی معاملات کے حوالے سے پکچر میں ان نہیں ہیں اور ان کی تبدیلی آج ،کل کی بات ہے۔
تاہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آگے بڑھتے ہوئے معاملات کے بارے میں گورنر کا موقف سننے کے بعد لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور شاید وہ ابھی کچھ عرصہ مزید عہدہ گورنر پر موجود رہیں گے، گورنر خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ ''طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں تاہم بہت سی باتیں اس موقع پر سامنے نہیں لائی جاسکتیں البتہ وقت آنے پر یہ تمام باتیں سامنے لائی جائیں گی ''،ان کی یہ بات درست نظر آرہی ہے کیونکہ کسی نہ کسی سطح پر طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
تاہم اس بات چیت کو مذاکرات نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کے ذریعے مذاکرات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس کام کے لیے علماء، جہادی اور قبائلی مشران کو استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے کہ مذاکراتی عمل کو ایک دم سے شروع کرنا شاید ممکن نہیں اسی لیے پہلے راہ ہموار کی جارہی ہے تاکہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو تو اس میں آسانی رہے اورممکنہ طور پر باقاعدہ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے میں عسکری قیادت کی تبدیلی کے معاملات کا بھی انتظار کیا جا رہا تھا جو اب ہوچکی۔ اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ شاید اب معاملات آگے بڑھیں کیونکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں پشاور دھماکوں کے بعد بھی مذاکرات ہی کی حامی ہیں کیونکہ مذاکرات کی مخالف راہ اپنانے کا کوئی بھی حامی نہیں ہے۔
سب سیاسی پارٹیوں اور گروپوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ پر چلنے کی خواہش کا اظہار تو کیا جا رہا ہے، تاہم طالبان کی جانب سے ملکی آئین کے تحت مذاکرات سے انکار ، طالبان قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی جیسے مذاکرات ان کی راہ میں حائل ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مذاکراتی عمل شروع ہونے میں تاخیر بھی ہو رہی ہے کیونکہ مذاکراتی عمل کا جو بھی حصہ بنے گا اسے بہرکیف آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا جبکہ طالبان قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی جیسے مطالبات بھی فوری طور پر شاید تسلیم نہ ہوسکیں۔
البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ مطالبات تاحال میڈیا کے ذریعے سامنے آرہے ہیں جب دونوں فریق کسی ثالث کے ذریعے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو اس وقت پتا چلے گا کہ فریقین کے مطالبات کیا ہیں اور وہ درحقیقت کیا چاہتے ہیں اور کس حد تک مذاکراتی عمل کو مثبت منطقی انجام تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں جبکہ اس میں یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہوگا کہ ان مذاکرات میں ثالث کے فرائض کون انجام دے گا اور اس کے پاس کتنا اختیار ہوگا کہ فریقین میں سے اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ان کے حوالے سے کیا کاروائی کرسکتا ہے ؟ان سارے معاملات پر ابھی تک دھند چھائی ہوئی ہے۔
تاہم مرکزی حکومت جو عسکری قیادت میں تبدیلیوں کے حوالے سے دم سادھے بیٹھی تھی اب ان معاملات پر فوکس کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھائے گی اور اگر یہ معاملات آگے نہیں بھی بڑھ پاتے تو اس بارے میں مرکزی حکومت جو بھی کرنا چاہتی ہے وہ اپنی اس لائن آف ایکشن پر کام کرسکے گی جس سے موجودہ جمود کی کیفیت کا بہرحال خاتمہ ہو گا۔
چونکہ مرکزی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں تاخیر کی جا رہی تھی اس لیے خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی نے تمام سیاسی جماعتوں کو اے پی سی کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرتے ہوئے ان کے ذریعے ایک مرتبہ مرکزی حکومت کو یاد دلایا ہے کہ مذاکرات کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے اور اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی نے جائنٹ ایکشن کمیٹی کی تشکیل کا کام بھی شروع کردیا ہے جو مذاکرات کے حوالے سے مسلسل حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ یہ سلسلہ آگے بڑھ سکے۔
جماعت اسلامی کی اے پی سی اس اعتبار سے تو کامیاب تھی کہ جماعت ،صوبہ کی سیاسی قیادت کو ایک میز پر اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ امر انتہائی مایوس کن تھا کہ اس اے پی سی میں نہ تو مرکزمیں حکمران جماعت مسلم لیگ(ن)شریک ہوئی اور نہ ہی صوبہ کی حکمران پارٹی تحریک انصاف کے کسی رہنما نے اس میں شرکت کی ،مسلم لیگ(ن)کا موقف یہ رہا کہ انھیں اے پی سی میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی تو وہ بن بلائے کیسے شریک ہوتے ؟جبکہ جماعت اسلامی اس بارے میں موقف رکھتی ہے کہ مسلم لیگ(ن)کے رہنماؤں نے اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا ۔
جس کے بعد انہوں نے جواب دینا تھا کہ وہ اے پی سی میں شرکت کر رہے ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے نہ تو جواب دیا اور نہ ہی اے پی سی میں شرکت کی اور تحریک انصاف کا معاملہ یہ ہے کہ پارٹی کے کچھ عہدیدار اسی روز اور اسی وقت منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شریک تھے اور کچھ دیگر مصروفیات میں مصروف، جس کے باعث پی ٹی آئی کی اے پی سی میں غیر حاضری لگ گئی جس کی وجہ کوئی بھی ہو تاہم اسے اتحادی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات کے تناظر ہی میں دیکھاجا رہا ہے اور کچھ حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ اے پی سی صوبائی حکومت نے بلانے کا اعلان کر رکھا تھا جسے جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ اور تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ مشورے کے بغیر بلایا اس لیے تحریک انصاف اس اے پی سی کا حصہ نہیں بنی، البتہ پی ٹی آئی اس جائنٹ ایکشن کمیٹی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوگئی ہے جو اے پی سی کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی جس میں سرفہرست حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل شروع کرانا ہے اور چونکہ اس جائنٹ ایکشن کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوں گے اس لیے اگر گنجائش ہو تو وہ مذاکراتی عمل میں سہولت پیدا کرنے کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں ۔
تحریک انصاف کا قومی وطن پارٹی کے ساتھ صدارتی الیکشن کے موقع پر بھی اختلاف کھل کر سامنے آیا تھا اور عمران خان کی جانب سے طالبان کے لیے دفتر کھولنے کے معاملہ پر بھی آفتاب شیر پاؤ نے اس موقف سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کی اے پی سی میں عدم شرکت بھی اتحادیوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے اصل مسلہ پی ٹی آئی کو بیوروکریسی کی جانب سے درپیش ہے کیونکہ بیوروکریسی اور صوبائی حکومت کی آپس میں بن نہیں پا رہی یہی وجہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے دو پولیس چیف رخصت ہوچکے ہیں اور تیسرا کوئی آنے کے لیے تیا رنہیں ،آئی جی پی کا بھی تبادلہ کیا جا چکا ہے اور اب چیف سیکرٹری جنھیں پلکوں پر بٹھا کر مرکز سے اس مسند تک لایا گیا تھا ان کے بھی اب وزیراعلیٰ سے اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہے جس کی ایک وجہ وزیراعلیٰ کی جانب سے چیف سیکرٹری کو بائی پاس کرتے ہوئے محکموں کو فائلیں براہ راست انھیں ارسال کرنے کے احکامات جاری کرنا بھی بتائی جا رہی ہے تاہم اس کی اصل وجہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ کی ایگزیکٹو اتھارٹی کی وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کومنتقلی کے لیے بیوروکریسی سے اختیارات کابینہ کو منتقل کرنے کا معاملہ بھی ہے جس کے لیے بیوروکریسی بہرکیف تیار نہیں۔
اوراے این پی نے پارٹی میں اپنی جگہ انتہائی اہمیت رکھنے والے رہنما اعظم خان ہوتی کو، اسفندیارولی خان کو پارٹی معاملات سے کنارہ کش ہوجانے کا مشورہ دینے کی پاداش میں پارٹی سے نکال باہرکیا ہے کیونکہ ان کے اس اقدام کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی قراردیا گیا ہے، حالانکہ کچھ واقفان حال اس سارے عمل کو سکرپٹیڈقراردے رہے ہیں جس کا مقصد اے این پی کی قیادت کے لیے پارٹی کے اندر موجود مخالفتوں کو ختم کرنے کے علاوہ پارٹی قیادت کی بھاگ دوڑ سنبھالے رکھنے کی راہ ہموار کرنا بھی بتایا جا رہا ہے۔
تاہم اس سارے عمل کا خود اعظم خان ہوتی کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کو یہ فائدہ ہوگا کہ اب وہ سہولت کے ساتھ اے این پی کے صوبائی صدر منتخب ہوجائیں گے جس کے تحت افراسیاب خٹک کو بھی سائیڈ لائن کرنا آسان ہوجائے گا جن کے لیے مزید پارٹی کمان اپنے ہاتھوں میں رکھنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوچکا ہے ۔
بظاہر تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا انجنیئر شوکت اللہ حکومتی معاملات کے حوالے سے پکچر میں ان نہیں ہیں اور ان کی تبدیلی آج ،کل کی بات ہے۔
تاہم طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آگے بڑھتے ہوئے معاملات کے بارے میں گورنر کا موقف سننے کے بعد لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے اور شاید وہ ابھی کچھ عرصہ مزید عہدہ گورنر پر موجود رہیں گے، گورنر خیبرپختونخوا کا کہنا ہے کہ ''طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں تاہم بہت سی باتیں اس موقع پر سامنے نہیں لائی جاسکتیں البتہ وقت آنے پر یہ تمام باتیں سامنے لائی جائیں گی ''،ان کی یہ بات درست نظر آرہی ہے کیونکہ کسی نہ کسی سطح پر طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
تاہم اس بات چیت کو مذاکرات نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کے ذریعے مذاکرات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس کام کے لیے علماء، جہادی اور قبائلی مشران کو استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے کہ مذاکراتی عمل کو ایک دم سے شروع کرنا شاید ممکن نہیں اسی لیے پہلے راہ ہموار کی جارہی ہے تاکہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو تو اس میں آسانی رہے اورممکنہ طور پر باقاعدہ بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے میں عسکری قیادت کی تبدیلی کے معاملات کا بھی انتظار کیا جا رہا تھا جو اب ہوچکی۔ اس لیے لگ یہی رہا ہے کہ شاید اب معاملات آگے بڑھیں کیونکہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں پشاور دھماکوں کے بعد بھی مذاکرات ہی کی حامی ہیں کیونکہ مذاکرات کی مخالف راہ اپنانے کا کوئی بھی حامی نہیں ہے۔
سب سیاسی پارٹیوں اور گروپوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ پر چلنے کی خواہش کا اظہار تو کیا جا رہا ہے، تاہم طالبان کی جانب سے ملکی آئین کے تحت مذاکرات سے انکار ، طالبان قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی جیسے مذاکرات ان کی راہ میں حائل ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ مذاکراتی عمل شروع ہونے میں تاخیر بھی ہو رہی ہے کیونکہ مذاکراتی عمل کا جو بھی حصہ بنے گا اسے بہرکیف آئین پاکستان کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑے گا جبکہ طالبان قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی جیسے مطالبات بھی فوری طور پر شاید تسلیم نہ ہوسکیں۔
البتہ یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ مطالبات تاحال میڈیا کے ذریعے سامنے آرہے ہیں جب دونوں فریق کسی ثالث کے ذریعے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو اس وقت پتا چلے گا کہ فریقین کے مطالبات کیا ہیں اور وہ درحقیقت کیا چاہتے ہیں اور کس حد تک مذاکراتی عمل کو مثبت منطقی انجام تک پہنچانے کے خواہش مند ہیں جبکہ اس میں یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہوگا کہ ان مذاکرات میں ثالث کے فرائض کون انجام دے گا اور اس کے پاس کتنا اختیار ہوگا کہ فریقین میں سے اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ ان کے حوالے سے کیا کاروائی کرسکتا ہے ؟ان سارے معاملات پر ابھی تک دھند چھائی ہوئی ہے۔
تاہم مرکزی حکومت جو عسکری قیادت میں تبدیلیوں کے حوالے سے دم سادھے بیٹھی تھی اب ان معاملات پر فوکس کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھائے گی اور اگر یہ معاملات آگے نہیں بھی بڑھ پاتے تو اس بارے میں مرکزی حکومت جو بھی کرنا چاہتی ہے وہ اپنی اس لائن آف ایکشن پر کام کرسکے گی جس سے موجودہ جمود کی کیفیت کا بہرحال خاتمہ ہو گا۔
چونکہ مرکزی حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے میں تاخیر کی جا رہی تھی اس لیے خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی نے تمام سیاسی جماعتوں کو اے پی سی کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کرتے ہوئے ان کے ذریعے ایک مرتبہ مرکزی حکومت کو یاد دلایا ہے کہ مذاکرات کا عمل فوری طور پر شروع کیا جائے اور اس مقصد کے لیے جماعت اسلامی نے جائنٹ ایکشن کمیٹی کی تشکیل کا کام بھی شروع کردیا ہے جو مذاکرات کے حوالے سے مسلسل حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ یہ سلسلہ آگے بڑھ سکے۔
جماعت اسلامی کی اے پی سی اس اعتبار سے تو کامیاب تھی کہ جماعت ،صوبہ کی سیاسی قیادت کو ایک میز پر اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ امر انتہائی مایوس کن تھا کہ اس اے پی سی میں نہ تو مرکزمیں حکمران جماعت مسلم لیگ(ن)شریک ہوئی اور نہ ہی صوبہ کی حکمران پارٹی تحریک انصاف کے کسی رہنما نے اس میں شرکت کی ،مسلم لیگ(ن)کا موقف یہ رہا کہ انھیں اے پی سی میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی تو وہ بن بلائے کیسے شریک ہوتے ؟جبکہ جماعت اسلامی اس بارے میں موقف رکھتی ہے کہ مسلم لیگ(ن)کے رہنماؤں نے اپنی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت مانگا تھا ۔
جس کے بعد انہوں نے جواب دینا تھا کہ وہ اے پی سی میں شرکت کر رہے ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے نہ تو جواب دیا اور نہ ہی اے پی سی میں شرکت کی اور تحریک انصاف کا معاملہ یہ ہے کہ پارٹی کے کچھ عہدیدار اسی روز اور اسی وقت منعقد ہونے والے صوبائی کابینہ کے اجلاس میں شریک تھے اور کچھ دیگر مصروفیات میں مصروف، جس کے باعث پی ٹی آئی کی اے پی سی میں غیر حاضری لگ گئی جس کی وجہ کوئی بھی ہو تاہم اسے اتحادی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات کے تناظر ہی میں دیکھاجا رہا ہے اور کچھ حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ اے پی سی صوبائی حکومت نے بلانے کا اعلان کر رکھا تھا جسے جماعت اسلامی نے وزیراعلیٰ اور تحریک انصاف کی قیادت کے ساتھ مشورے کے بغیر بلایا اس لیے تحریک انصاف اس اے پی سی کا حصہ نہیں بنی، البتہ پی ٹی آئی اس جائنٹ ایکشن کمیٹی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوگئی ہے جو اے پی سی کی سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی جس میں سرفہرست حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل شروع کرانا ہے اور چونکہ اس جائنٹ ایکشن کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شریک ہوں گے اس لیے اگر گنجائش ہو تو وہ مذاکراتی عمل میں سہولت پیدا کرنے کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں ۔
تحریک انصاف کا قومی وطن پارٹی کے ساتھ صدارتی الیکشن کے موقع پر بھی اختلاف کھل کر سامنے آیا تھا اور عمران خان کی جانب سے طالبان کے لیے دفتر کھولنے کے معاملہ پر بھی آفتاب شیر پاؤ نے اس موقف سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کی اے پی سی میں عدم شرکت بھی اتحادیوں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے فقدان کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے اصل مسلہ پی ٹی آئی کو بیوروکریسی کی جانب سے درپیش ہے کیونکہ بیوروکریسی اور صوبائی حکومت کی آپس میں بن نہیں پا رہی یہی وجہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے دو پولیس چیف رخصت ہوچکے ہیں اور تیسرا کوئی آنے کے لیے تیا رنہیں ،آئی جی پی کا بھی تبادلہ کیا جا چکا ہے اور اب چیف سیکرٹری جنھیں پلکوں پر بٹھا کر مرکز سے اس مسند تک لایا گیا تھا ان کے بھی اب وزیراعلیٰ سے اختلافات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہے جس کی ایک وجہ وزیراعلیٰ کی جانب سے چیف سیکرٹری کو بائی پاس کرتے ہوئے محکموں کو فائلیں براہ راست انھیں ارسال کرنے کے احکامات جاری کرنا بھی بتائی جا رہی ہے تاہم اس کی اصل وجہ اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبہ کی ایگزیکٹو اتھارٹی کی وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کومنتقلی کے لیے بیوروکریسی سے اختیارات کابینہ کو منتقل کرنے کا معاملہ بھی ہے جس کے لیے بیوروکریسی بہرکیف تیار نہیں۔
اوراے این پی نے پارٹی میں اپنی جگہ انتہائی اہمیت رکھنے والے رہنما اعظم خان ہوتی کو، اسفندیارولی خان کو پارٹی معاملات سے کنارہ کش ہوجانے کا مشورہ دینے کی پاداش میں پارٹی سے نکال باہرکیا ہے کیونکہ ان کے اس اقدام کو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی قراردیا گیا ہے، حالانکہ کچھ واقفان حال اس سارے عمل کو سکرپٹیڈقراردے رہے ہیں جس کا مقصد اے این پی کی قیادت کے لیے پارٹی کے اندر موجود مخالفتوں کو ختم کرنے کے علاوہ پارٹی قیادت کی بھاگ دوڑ سنبھالے رکھنے کی راہ ہموار کرنا بھی بتایا جا رہا ہے۔
تاہم اس سارے عمل کا خود اعظم خان ہوتی کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کو یہ فائدہ ہوگا کہ اب وہ سہولت کے ساتھ اے این پی کے صوبائی صدر منتخب ہوجائیں گے جس کے تحت افراسیاب خٹک کو بھی سائیڈ لائن کرنا آسان ہوجائے گا جن کے لیے مزید پارٹی کمان اپنے ہاتھوں میں رکھنا ناممکن کی حد تک مشکل ہوچکا ہے ۔