بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں کی بازگشت
یہ بارہ اکتوبر 1984 کا ذکر ہے۔ صبح سحری کے پونے تین بجے تھے۔ اچانک برطانیہ کے ...
SUKKUR:
یہ بارہ اکتوبر 1984 کا ذکر ہے۔ صبح سحری کے پونے تین بجے تھے۔ اچانک برطانیہ کے معروف ''گرینڈ برائٹن ہوٹل'' میں ایک زبردست دھماکا ہوا۔ اس وقت برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر بھی اسی ہوٹل میں مقیم نیند کے مزے لے رہی تھیں۔ مذکورہ ہوٹل میں کنزروٹیو پارٹی کی دوروزہ کانفرنس ہورہی تھی۔ مقتدر پارٹی کے کئی وابستگان اور ممبر آف پارلیمنٹ بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ دھماکے میں مسز تھیچر کی جان تو بچ گئی لیکن اس نے ایک رکن پارلیمنٹ اور تین دیگر نمایاں سیاستدانوں کی جانیں لے لیں۔ دھماکے کے فوراً بعد برطانیہ کی مخالف سیاسی و مسلح تنظیم IRA(آئرش ری پبلکن آرمی) کی طرف سے وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو ایک پیغام ملا: ''آج تو آپ بچ گئیں لیکن خوش بختی ہمیشہ آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔''آ ہنی اعصاب کی مالک وزیراعظم نے یہ پیغام پڑھا اور صبح ہوتے ہی معمول کے کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کو ایسا لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن خاتون آہن مسز تھیچر نے اپنی خفیہ سرکاری ایجنسی M16کے اہلکاروں کو ''آئی آر اے'' سے ملاقاتیں کرنے اور امن کا راستہ نکالنے سے منع نہ کیا۔
سوال یہ ہے کہ بھارت بلوچستان میں جس طرح مسلسل مداخلت کررہا ہے اور بعض بلوچ مسلح تنظیموں کو جس خفیہ طریقے سے پاکستان کے خلاف مبینہ طور پر استعمال کررہا ہے، اس کے باوجود کیا بھارت سے امن مذاکرات جاری رہنے چاہئیں؟ پاکستان کو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہنا چاہیے ؟ پانچ اکتوبر 2013 کے تمام پاکستانی اخبارات پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جناب جلیل عباس جیلانی کے اس بیان سے چنگھاڑ رہے تھے: ''بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت من موہن سنگھ کو دے دیے۔۔۔۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ ہر فورم پراٹھائیں گے۔۔۔۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت جنھیں دینا تھے، دے دیے''۔ صرف ایک انگریزی اخبار نے سیکریٹری خارجہ جیلانی صاحب کا بیان محتاط الفاظ میں یوں شایع کیا : Balochistan Proof Shared With India سیکریٹری خارجہ نے سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی میں شرکت کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے بارے میں ہم نے متعلقہ لوگوں سے معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔
انھوں نے نہ تو یہ بتایا کہ یہ ''متعلقہ لوگ'' کون ہیں اور نہ ہی انھوں نے کسی غیر ملکی طاقت کا نام لیا لیکن سب نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ بھارت ہی ہے جو بلوچستان میں مداخلت کرکے پاکستان کے لیے بھاری مسائل پیدا کررہا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم جناب نواز شریف نے بھی ستمبر 2013 کے آخری ہفتے نیویارک میں بیان دیا تھا کہ بلوچستان میں بھارت مداخلت کررہا ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا جب ایک روز قبل بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کے دوران یہ الزام عائد کیا تھا کہ ''پاکستان دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ '' بھارتی ڈھٹائی کا کوئی جواب تو آنا چاہیے تھا؛ چنانچہ نواز شریف کو لب کشائی کرنا پڑی۔
پچھلے دس برسوں میں بلوچستان میں خونریزی اور اینٹی اسٹیٹ سانحات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جب سے افغانستان میں امریکا نے اپنے پاؤں جمائے ہیں، بلوچستان کے حالات مزید دگرگوں ہوئے ہیں۔ راز دانوں کا کہنا ہے کہ بھارت بڑی چالاکی سے افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت بھی کررہا ہے اور ان ناراض بلوچ نوجوانوں کو تھپکی بھی دے رہا ہے جو کچھ عرصہ سے پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان میں پناہ گیر ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر امریکا اور افغانستان کی رضا شامل نہ ہوتو بھارت کبھی بلوچستان میں یہ شر انگیز کردار ادا نہیں کرسکتا ۔ پاکستان اسی لیے بجا طور پر عالمی فورموں میں بار بار اپنی تشویش کا اظہار کررہا ہے کہ 2014میں جب امریکی و نیٹو فوجیں افغانستان سے نکلیں تو بھارت کا بھی وہاں سے مکمل طور پر بوریا بستر گول کیا جانا چاہیے۔ بھارت کس عیاری کے ساتھ بلوچستان میں مداخلت کررہاہے، اس بارے میں ایک اہم شہادت پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جناب ریاض محمد خان نے بھی اپنی تازہ ترین تصنیف (Afghanistan & Pakistan: Conflict) میں بھی دی ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''پاکستان کوعرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ انڈین انٹیلی جنس ایجنسی (RAW) بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کو ہتھیار بھی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان نے افغانستان اور افغان حکمرانوں پر جتنے احسانات کیے ہیں، افغانستان کے لیے بھارت کی امداد اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں لیکن معلوم نہیں بھارت کی ڈپلومیسی میں کیا جادو ہے کہ 2001 سے افغانستان میں آنے والا ہر حکمران طبقہ بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتا چلا آرہا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت کے ایماء پر افغانستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی پاکستان کے خلاف بڑے ہی دل آزار بیانات جاری کیے لیکن پاکستان نے صبر کا دامن نہ چھوڑا مگر حقیقت طشت از بام ہوکر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے معروف سیاستدان جناب اختر مینگل بھی اقرار اور اعتراف کرتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات بگاڑنے میں غیر ملکی طاقتوں اور غیر ممالک (افغانستان و بھارت؟) کا براہ راست ہاتھ ہے۔ آٹھ جولائی 2013 کو مینگل صاحب نے ''ایکسپریس ٹربیون'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ملکی طاقتوں اور پاکستان کے بعض ہمسایہ ممالک کے ڈیتھ اسکواڈز نے بلوچستان میں خونریزی اور انارکی کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اختر مینگل صاحب جب ''پاکستان کے بعض ہمسایہ ممالک'' کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد بھارت کے سوا کوئی اور ملک نہیں ہوسکتا۔
اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلتیں جھوٹ کا پلندہ اور محض بھارت کے خلاف پاکستانی پروپیگنڈہ ہے تو پھر پاکستان اور پاکستان کے عوام بھارت سے استفسار کرتے ہیں کہ ایران اور افغانستان میں بلوچستان کی سرحدوں سے ملنے والے شہروں میں، بھارت کے 26قونصل خانے کیا کررہے ہیں؟ بھارت کے پاس اس کا قطعی کوئی جواب نہیں۔ اب یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ امریکا و مغربی ممالک میں وہ ناراض بلوچ نوجوان جنہوں نے وہاں سیاسی پناہ حاصل کررکھی ہے، انھیں بھارت بھرپور امداد فراہم کررہا ہے تاکہ بلوچستان میں شورش کو مسلسل ہوا ملتی رہے۔ اعتراف کی بلی کسی نہ کسی شکل میں تھیلے سے باہر آہی جاتی ہے۔ پاکستان کی بھی سیاسی و فوجی قیادت کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر، جہاں بھی ممکن ہوسکے، بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت سامنے لائے۔ عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کے دروازوں پر دستک بھی دے اور بھارت کی شر انگیزیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کو بھی بریف کرے۔ اس سلسلے میں امریکا و مغربی ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کو تن آسانیاں چھوڑنا ہوں گی اور انھیں بھارت کے خلاف مقا می الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں تگ و تاز کو تیز اور مؤثر کرنا ہوگا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے متعلقہ افسروں کو وطن عزیز کے اخبار نویسوں کا اعتماد بھی حاصل کرنا چاہیے تاکہ بھارت کا میڈیا کے محاذ پر گھیراؤ کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر جب جولائی 2009 کو شرم الشیخ میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہورہی تھی تو یہ بات مبینہ طور پر سامنے آئی تھی کہ ہمارے سیکریٹری خارجہ جناب سلمان بشیر نے اپنے بھارتی ہم منصب (شِو شنکر مینن) سے مبینہ طور پر کہا تھا : ''آپ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے سے باز آجائیں وگرنہ میں دنیا بھر کے سامنے بھارت کے تین ''اجمل قصابوں'' کو ننگا کردوں گا''۔ لیکن بدقسمتی سے سلمان بشیر ایسا نہ کرسکے۔ اسی سے شہ پاکر تو بھارتی وزارت خارجہ چیلنج کرتے ہوئے سنائی دیتی ہے کہ اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پاکستان کے پاس ہیں تو سامنے کیوں نہیں لائے جاتے؟ 25فروری 2012کو بھارتی اخبار''دی ہندو'' کی اسلام آباد میں متعینہ نمایندہ انیتا جوشوا نے طنزیہ لکھا تھا کہ اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں کے ثبوت ہیں تو پاکستان سامنے کیوںنہیں لاتا؟ کہا جاتا ہے کہ سابق حکومت کے وزیرداخلہ رحمن ملک نے بھارت کے سامنے دوبار ایسے کئی ثبوت سامنے رکھے تھے لیکن نہ جانے کیوں اور کن بلند مقاصد کے تحت پاکستانی اخبار نویسوں کو ان ثبوتوں کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ اب یہ فریضہ سلمان بشیر کی جگہ عباس جیلانی کو اور رحمن ملک کی جگہ چوہدری نثار علی خان کو انجام دینا چاہیے۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مصر کے شرم الشیخ میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جو مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی، اس میں مسٹر سنگھ نے تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت واپسی پر مَیں اپنے ساتھیوں سے بلوچستان میں (پاکستان کی طرف سے ) بھارتی مداخلت کے الزامات کے بارے میں ضرور بات کروں گا لیکن ڈاکٹر سنگھ نے جونہی بھارت میں قدم رکھے، اپوزیشن کے خوف سے شرم الشیخ میں دیے گئے اپنے بیان سے مُکر گئے اور ہم سب جانتے ہیں کہ بنیا مکرنے میں ہمیشہ لاثانی رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان میں ہر بھارتی مداخلت کو ننگا کرکے قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ بھارت کی محبت میں مرے جانے والے بعض پاکستانی دانشوروں کے آنکھ میں بھی شرم کا پانی ظاہر ہو۔ ہمیں حیرت اس امر کی بھی ہے کہ پاکستانی سیکریٹری خارجہ جناب عباس جیلانی جب بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا ذکر کرتے ہیں تو واضح طور پر ملک کا نام لیتے ہوئے وہ گھونگھٹ نکالنے پر خود کو مجبور کیوں محسوس کرتے ہیں؟
یہ بارہ اکتوبر 1984 کا ذکر ہے۔ صبح سحری کے پونے تین بجے تھے۔ اچانک برطانیہ کے معروف ''گرینڈ برائٹن ہوٹل'' میں ایک زبردست دھماکا ہوا۔ اس وقت برطانوی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر بھی اسی ہوٹل میں مقیم نیند کے مزے لے رہی تھیں۔ مذکورہ ہوٹل میں کنزروٹیو پارٹی کی دوروزہ کانفرنس ہورہی تھی۔ مقتدر پارٹی کے کئی وابستگان اور ممبر آف پارلیمنٹ بھی اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ دھماکے میں مسز تھیچر کی جان تو بچ گئی لیکن اس نے ایک رکن پارلیمنٹ اور تین دیگر نمایاں سیاستدانوں کی جانیں لے لیں۔ دھماکے کے فوراً بعد برطانیہ کی مخالف سیاسی و مسلح تنظیم IRA(آئرش ری پبلکن آرمی) کی طرف سے وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کو ایک پیغام ملا: ''آج تو آپ بچ گئیں لیکن خوش بختی ہمیشہ آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔''آ ہنی اعصاب کی مالک وزیراعظم نے یہ پیغام پڑھا اور صبح ہوتے ہی معمول کے کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ ان کے قریبی ساتھیوں کو ایسا لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن خاتون آہن مسز تھیچر نے اپنی خفیہ سرکاری ایجنسی M16کے اہلکاروں کو ''آئی آر اے'' سے ملاقاتیں کرنے اور امن کا راستہ نکالنے سے منع نہ کیا۔
سوال یہ ہے کہ بھارت بلوچستان میں جس طرح مسلسل مداخلت کررہا ہے اور بعض بلوچ مسلح تنظیموں کو جس خفیہ طریقے سے پاکستان کے خلاف مبینہ طور پر استعمال کررہا ہے، اس کے باوجود کیا بھارت سے امن مذاکرات جاری رہنے چاہئیں؟ پاکستان کو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہنا چاہیے ؟ پانچ اکتوبر 2013 کے تمام پاکستانی اخبارات پاکستان کے سیکریٹری خارجہ جناب جلیل عباس جیلانی کے اس بیان سے چنگھاڑ رہے تھے: ''بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت من موہن سنگھ کو دے دیے۔۔۔۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا معاملہ ہر فورم پراٹھائیں گے۔۔۔۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت جنھیں دینا تھے، دے دیے''۔ صرف ایک انگریزی اخبار نے سیکریٹری خارجہ جیلانی صاحب کا بیان محتاط الفاظ میں یوں شایع کیا : Balochistan Proof Shared With India سیکریٹری خارجہ نے سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی میں شرکت کے بعد اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کے بارے میں ہم نے متعلقہ لوگوں سے معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔
انھوں نے نہ تو یہ بتایا کہ یہ ''متعلقہ لوگ'' کون ہیں اور نہ ہی انھوں نے کسی غیر ملکی طاقت کا نام لیا لیکن سب نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ یہ بھارت ہی ہے جو بلوچستان میں مداخلت کرکے پاکستان کے لیے بھاری مسائل پیدا کررہا ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم جناب نواز شریف نے بھی ستمبر 2013 کے آخری ہفتے نیویارک میں بیان دیا تھا کہ بلوچستان میں بھارت مداخلت کررہا ہے۔ یہ بیان اس وقت آیا جب ایک روز قبل بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے امریکی صدر بارک اوباما سے ملاقات کے دوران یہ الزام عائد کیا تھا کہ ''پاکستان دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ '' بھارتی ڈھٹائی کا کوئی جواب تو آنا چاہیے تھا؛ چنانچہ نواز شریف کو لب کشائی کرنا پڑی۔
پچھلے دس برسوں میں بلوچستان میں خونریزی اور اینٹی اسٹیٹ سانحات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ جب سے افغانستان میں امریکا نے اپنے پاؤں جمائے ہیں، بلوچستان کے حالات مزید دگرگوں ہوئے ہیں۔ راز دانوں کا کہنا ہے کہ بھارت بڑی چالاکی سے افغانستان کے راستے بلوچستان میں مداخلت بھی کررہا ہے اور ان ناراض بلوچ نوجوانوں کو تھپکی بھی دے رہا ہے جو کچھ عرصہ سے پاکستان سے فرار ہوکر افغانستان میں پناہ گیر ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ اگر امریکا اور افغانستان کی رضا شامل نہ ہوتو بھارت کبھی بلوچستان میں یہ شر انگیز کردار ادا نہیں کرسکتا ۔ پاکستان اسی لیے بجا طور پر عالمی فورموں میں بار بار اپنی تشویش کا اظہار کررہا ہے کہ 2014میں جب امریکی و نیٹو فوجیں افغانستان سے نکلیں تو بھارت کا بھی وہاں سے مکمل طور پر بوریا بستر گول کیا جانا چاہیے۔ بھارت کس عیاری کے ساتھ بلوچستان میں مداخلت کررہاہے، اس بارے میں ایک اہم شہادت پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ جناب ریاض محمد خان نے بھی اپنی تازہ ترین تصنیف (Afghanistan & Pakistan: Conflict) میں بھی دی ہے۔
وہ لکھتے ہیں ''پاکستان کوعرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ انڈین انٹیلی جنس ایجنسی (RAW) بلوچ علیحدگی پسند عناصر کی سرپرستی کرتے ہوئے ان کو ہتھیار بھی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان نے افغانستان اور افغان حکمرانوں پر جتنے احسانات کیے ہیں، افغانستان کے لیے بھارت کی امداد اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں لیکن معلوم نہیں بھارت کی ڈپلومیسی میں کیا جادو ہے کہ 2001 سے افغانستان میں آنے والا ہر حکمران طبقہ بھارت کی طرف جھکاؤ رکھتا چلا آرہا ہے۔ حتیٰ کہ بھارت کے ایماء پر افغانستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف نے بھی پاکستان کے خلاف بڑے ہی دل آزار بیانات جاری کیے لیکن پاکستان نے صبر کا دامن نہ چھوڑا مگر حقیقت طشت از بام ہوکر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے معروف سیاستدان جناب اختر مینگل بھی اقرار اور اعتراف کرتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات بگاڑنے میں غیر ملکی طاقتوں اور غیر ممالک (افغانستان و بھارت؟) کا براہ راست ہاتھ ہے۔ آٹھ جولائی 2013 کو مینگل صاحب نے ''ایکسپریس ٹربیون'' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ملکی طاقتوں اور پاکستان کے بعض ہمسایہ ممالک کے ڈیتھ اسکواڈز نے بلوچستان میں خونریزی اور انارکی کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اختر مینگل صاحب جب ''پاکستان کے بعض ہمسایہ ممالک'' کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد بھارت کے سوا کوئی اور ملک نہیں ہوسکتا۔
اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلتیں جھوٹ کا پلندہ اور محض بھارت کے خلاف پاکستانی پروپیگنڈہ ہے تو پھر پاکستان اور پاکستان کے عوام بھارت سے استفسار کرتے ہیں کہ ایران اور افغانستان میں بلوچستان کی سرحدوں سے ملنے والے شہروں میں، بھارت کے 26قونصل خانے کیا کررہے ہیں؟ بھارت کے پاس اس کا قطعی کوئی جواب نہیں۔ اب یہ بات بھی اظہر من الشمس ہوچکی ہے کہ امریکا و مغربی ممالک میں وہ ناراض بلوچ نوجوان جنہوں نے وہاں سیاسی پناہ حاصل کررکھی ہے، انھیں بھارت بھرپور امداد فراہم کررہا ہے تاکہ بلوچستان میں شورش کو مسلسل ہوا ملتی رہے۔ اعتراف کی بلی کسی نہ کسی شکل میں تھیلے سے باہر آہی جاتی ہے۔ پاکستان کی بھی سیاسی و فوجی قیادت کو چاہیے کہ وہ عالمی سطح پر، جہاں بھی ممکن ہوسکے، بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت سامنے لائے۔ عالمی عدالت اور اقوام متحدہ کے دروازوں پر دستک بھی دے اور بھارت کی شر انگیزیوں کے بارے میں مغربی میڈیا کو بھی بریف کرے۔ اس سلسلے میں امریکا و مغربی ممالک میں تعینات پاکستانی سفیروں کو تن آسانیاں چھوڑنا ہوں گی اور انھیں بھارت کے خلاف مقا می الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں تگ و تاز کو تیز اور مؤثر کرنا ہوگا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے متعلقہ افسروں کو وطن عزیز کے اخبار نویسوں کا اعتماد بھی حاصل کرنا چاہیے تاکہ بھارت کا میڈیا کے محاذ پر گھیراؤ کیا جاسکے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ مثال کے طور پر جب جولائی 2009 کو شرم الشیخ میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی ملاقات ہورہی تھی تو یہ بات مبینہ طور پر سامنے آئی تھی کہ ہمارے سیکریٹری خارجہ جناب سلمان بشیر نے اپنے بھارتی ہم منصب (شِو شنکر مینن) سے مبینہ طور پر کہا تھا : ''آپ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے سے باز آجائیں وگرنہ میں دنیا بھر کے سامنے بھارت کے تین ''اجمل قصابوں'' کو ننگا کردوں گا''۔ لیکن بدقسمتی سے سلمان بشیر ایسا نہ کرسکے۔ اسی سے شہ پاکر تو بھارتی وزارت خارجہ چیلنج کرتے ہوئے سنائی دیتی ہے کہ اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پاکستان کے پاس ہیں تو سامنے کیوں نہیں لائے جاتے؟ 25فروری 2012کو بھارتی اخبار''دی ہندو'' کی اسلام آباد میں متعینہ نمایندہ انیتا جوشوا نے طنزیہ لکھا تھا کہ اگر بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں کے ثبوت ہیں تو پاکستان سامنے کیوںنہیں لاتا؟ کہا جاتا ہے کہ سابق حکومت کے وزیرداخلہ رحمن ملک نے بھارت کے سامنے دوبار ایسے کئی ثبوت سامنے رکھے تھے لیکن نہ جانے کیوں اور کن بلند مقاصد کے تحت پاکستانی اخبار نویسوں کو ان ثبوتوں کی ہوا تک نہ لگنے دی گئی۔ اب یہ فریضہ سلمان بشیر کی جگہ عباس جیلانی کو اور رحمن ملک کی جگہ چوہدری نثار علی خان کو انجام دینا چاہیے۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ مصر کے شرم الشیخ میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے جو مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی، اس میں مسٹر سنگھ نے تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت واپسی پر مَیں اپنے ساتھیوں سے بلوچستان میں (پاکستان کی طرف سے ) بھارتی مداخلت کے الزامات کے بارے میں ضرور بات کروں گا لیکن ڈاکٹر سنگھ نے جونہی بھارت میں قدم رکھے، اپوزیشن کے خوف سے شرم الشیخ میں دیے گئے اپنے بیان سے مُکر گئے اور ہم سب جانتے ہیں کہ بنیا مکرنے میں ہمیشہ لاثانی رہا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بلوچستان میں ہر بھارتی مداخلت کو ننگا کرکے قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ بھارت کی محبت میں مرے جانے والے بعض پاکستانی دانشوروں کے آنکھ میں بھی شرم کا پانی ظاہر ہو۔ ہمیں حیرت اس امر کی بھی ہے کہ پاکستانی سیکریٹری خارجہ جناب عباس جیلانی جب بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت کا ذکر کرتے ہیں تو واضح طور پر ملک کا نام لیتے ہوئے وہ گھونگھٹ نکالنے پر خود کو مجبور کیوں محسوس کرتے ہیں؟