پتھر کے دور میں
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید...
حکومت سندھ نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید طریقوں اسکائپ، وائبر اور واٹس ایپ پر 3 ماہ کے لیے پابندی لگادی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے سفارش کی تھی کہ آئی ٹی کے ان ذرایع کو جرائم پیشہ افراد استعمال کررہے ہیں جس کی بناء پر کراچی اور اندرون سندھ ہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن کے حقیقی نتائج برآمد نہیں ہورہے۔ اب وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پی ٹی اے اس درخواست پر فیصلہ کرے گی۔ پی ٹی اے کے ذرایع کا کہنا ہے کہ ایک صوبے میں پابندی ممکن ہے تاہم اس پابندی پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ بین الاقوامی کمپنیوں سے معاہدے کرنے پڑیں گے۔
آئی ٹی ٹیکنالوجی نے دنیا کو محدود کردیا ہے۔ پیغام، دستاویزات یا تصاویر کا جو سفر مہینوں پر محیط ہوتا تھا وہ اب چند سیکنڈوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال آسان ہے۔ یہ 21 ویں صدی کی وہ ایجاد ہے جو انتہائی سستی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سائنس کی ترقی کی بناء پر ظہور پذیر ہوئی ہے۔ عمومی طور پر شہروں میں اور بیرون ملک رابطوں کے لیے پہلے صرف ڈاک کا ذریعہ بنا، پھر ٹیلی فون کا استعمال ہونے سے ابلاغ کا عمل آسان ہوگیا مگر تار سے منسلک پرانا ٹیلی فون کا نظام خاصا مہنگا تھا اور اس نظام کی صلاحیت محدود تھی۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے ٹیلی فون کا ڈیجیٹل نظام مارکیٹ میں آیا۔ اب ٹیلی فون کا نظام انتہائی سستا، آسان اور زیادہ موثر ہوگیا۔ ملک کے دور دراز علاقوں کے علاوہ یورپ، امریکا اور دیگر ممالک سے رابطے میں کوئی مشکل نہیں رہی۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ٹیلی فون موبائل نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ موبائل کمپنیوں نے مارکیٹ کے جدید طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے امیر غریب ہر شخص کے لیے موبائل ٹیلی فون کو لازمی ٹھہرا دیا۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ڈیٹا کی منتقلی نے بہت زیادہ آسانیاں پیدا کردیں۔
اب کمپیوٹر کے ذریعے ای میل نے تحریری پیغامات کو نئی شکل دیدی، پھر ای میل اور دیگر سوفٹ ویئرز پر ریئل ٹائم چیٹنگ نے ہر قسم کے تبادلہ خیال کو یقینی بنایا۔ انگریزی نہ جاننے والے رومن انگریزی میں اپنے خیالات اور جذبات دوسروں تک منتقل کرنے لگے۔ اس کے علاوہ گوگل اور دیگر چند کمپنیوں نے ایسی آن لائن سہولتیں مہیا کیں جن کے ذریعے دنیا کی کسی بھی زبان کو دوسری زبان میں باآسانی پلک جھپکتے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ نے وائس میل اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کرنے والے افراد کی تصاویر بھی اسکرین پر دکھانا شروع کردیں۔ یوں دو افراد اپنی باتوں کے ساتھ ایک دوسرے کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھنے لگے۔ وڈیو کانفرنس اور وڈیو لیکچرز کے ذریعے مذہبی اور سیاسی رہنما ؤں کے علاوہ دنیا بھر کے مایہ ناز اساتذہ اور تحقیق دانوں کے خطاب اور لیکچرز ہزاروں میل دور جمع ہونے والے افراد سنتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نوجوانوں کے اجنبی لوگوں سے رابطے بڑھے۔ تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ پیار و محبت اور شادی بیاہ کے لیے بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کرنا شروع کیا۔ بعض محدود ذہن رکھنے والے مذہبی رہنماؤں کو آئی ٹی ٹیکنالوجی کے استعمال پر اعتراضات شروع ہوئے۔
جب امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی ہوئی تو القاعدہ نامی تنظیم کا وجود سامنے آیا۔ جن عرب نوجوانوں نے جہازوں کو اغوا کرکے پائلٹ کے فرائض انجام دیے تھے اور اپنے مطلوبہ ہدف پر طیاروں کو ٹکرایا تھا ان کے بارے میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ سب آئی ٹی ٹیکنالوجی کے ماہر تھے۔ القاعدہ کے بارے میں مزید تحقیقات ہوئیں تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ القاعدہ کے اراکین آئی ٹی ٹیکنالوجی کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ان کے نیٹ ورک کی بنیاد بھی آئی ٹی ٹیکنالوجی ہے۔ ایسی ہی صورتحال لندن میں ایک ہی دن میں مختلف مقامات پر ہونے والے بموں کے دھماکوں کی تحقیقاتی رپورٹوں کے بعد سامنے آئی۔ امریکا، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک توڑنے کا طریقہ تلاش کیا۔ دہشت گردوں کے ٹیلی فون سننے، ای میل کی چھان بین کرنے اور ٹینگو، اسکائپ، وائبر وغیرہ پر ہونے والی بات چیت کی اسکیننگ کے لیے بھی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ ملزمان کی تصاویر، نام اور ان کی زندگی کے بارے میں معلومات جمع کرکے انھیں ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا گیا۔ دنیا بھر کے تمام بڑے شہروں کے ایئرپورٹ کو اس ڈیٹا بیس تک رسائی دی گئی۔ رقوم کی منتقلی کے ریکارڈ کے لیے ایک ڈیٹابیس قائم کیا گیا۔ جو بھی شخص کسی ایئرپورٹ پر رپورٹ کرتا اس کے بارے میں معلومات کی ڈیٹابیس سے تصدیق ہوجاتی۔ یوں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے سفر کرنا مشکل ہوگیا۔ اس طریقے سے پاکستان میں چھپے ہوئے القاعدہ کے بہت سے رہنما گرفتار ہوئے۔ اسی طرح القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ ایک سم کے ذریعے لگا۔
پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے میں اب بھی مزاحمت ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ نے آئی ٹی ٹیکنالوجی سے چلنے والے ایک مقامی ٹی وی چینل پر حکومت سندھ کی جانب سے ان پابندیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ موبائل ویب ٹیکنالوجی سے نوجوان نسل میں بے راہ روی پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان کلاس روم میں ایس ایم ایس کرتے ہیں اور کلاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اس پابندی سے صورتحال بہتر ہوگی۔ اس سوچ کے علم برداروں نے یو ٹیوب پر پابندی لگوائی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب سے رسول اﷲﷺ کے خلاف توہین آمیز فلم نشر کی گئی، اس بناء پر یو ٹیوب پر پابندی ہونی چاہیے۔ پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک میں یو ٹیوب پر پابندی عائد نہیں ہے۔ آئی ٹی ماہرین کہتے ہیں کہ یو ٹیوب نئی اطلاعات، معلومات اور تعلیم و تربیت کا محور ہے۔ اس کے ذریعے ہر آدمی اپنی پسند کی فیلڈ کے بارے میں مفید معلومات نہ صرف حاصل کرسکتا ہے بلکہ اپ لوڈ کرکے دیگر افراد تک بھی مفید معلومات منتقل کرسکتا ہے اور یہ معلومات ویڈیوز، ٹیوٹوریل اور ویڈیو لیکچرز کی صورت میں ہوتی ہیں۔
یہ معلومات پاکستان جیسے ملک میں کسی لائبریری میں موجود کتابوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایک طالب علم اپنی ضرورت کی معلومات چند منٹوں میں حاصل کرسکتا ہے۔ کراچی کی میڈیکل کی طالبہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں بھارتی پروفیسروں کے لیکچرز انتہائی آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ ان پروفیسرز کے لیکچرز سے جو معلومات چند منٹوں میں حاصل ہوتی ہے وہ کسی ملک کے پروفیسر کے لیکچر یا درجنوں کتابوں سے ممکن نہیں ہے۔ برطانیہ سے آئی ٹی کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب کی بندش سے ہم اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کی سائٹ کو استعمال کرے۔ کسی مسلمان کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والی سائٹ کو نہیں کھولنا چاہیے مگر دوسری سائٹ سے معلومات حاصل کرکے ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرسکتے ہیں۔ حکومت سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ ای میل، وائبر اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کو اسکین کرنے کی ٹیکنالوجی خفیہ عسکری ایجنسی کے پاس ہیں اور اس ایجنسی کے حکام کی جانب سے عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ نہ ملنے کی بناء پر حکومت سندھ جدید ٹیکنالوجی حاصل نہ کرسکی۔ حکومت سندھ کے پاس پتھروں کے دور میں جانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت ان جدید طریقوں پر پابندی لگا کر دہشت گردوں کے رابطے ختم کردے گی مگر ان کا پتہ چلانے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوجائے گی اور عام آدمی کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔
آئی ٹی ٹیکنالوجی نے دنیا کو محدود کردیا ہے۔ پیغام، دستاویزات یا تصاویر کا جو سفر مہینوں پر محیط ہوتا تھا وہ اب چند سیکنڈوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال آسان ہے۔ یہ 21 ویں صدی کی وہ ایجاد ہے جو انتہائی سستی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سائنس کی ترقی کی بناء پر ظہور پذیر ہوئی ہے۔ عمومی طور پر شہروں میں اور بیرون ملک رابطوں کے لیے پہلے صرف ڈاک کا ذریعہ بنا، پھر ٹیلی فون کا استعمال ہونے سے ابلاغ کا عمل آسان ہوگیا مگر تار سے منسلک پرانا ٹیلی فون کا نظام خاصا مہنگا تھا اور اس نظام کی صلاحیت محدود تھی۔ پھر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی سے ٹیلی فون کا ڈیجیٹل نظام مارکیٹ میں آیا۔ اب ٹیلی فون کا نظام انتہائی سستا، آسان اور زیادہ موثر ہوگیا۔ ملک کے دور دراز علاقوں کے علاوہ یورپ، امریکا اور دیگر ممالک سے رابطے میں کوئی مشکل نہیں رہی۔ نئی صدی کے آغاز کے ساتھ ہی ٹیلی فون موبائل نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ موبائل کمپنیوں نے مارکیٹ کے جدید طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے امیر غریب ہر شخص کے لیے موبائل ٹیلی فون کو لازمی ٹھہرا دیا۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں ڈیٹا کی منتقلی نے بہت زیادہ آسانیاں پیدا کردیں۔
اب کمپیوٹر کے ذریعے ای میل نے تحریری پیغامات کو نئی شکل دیدی، پھر ای میل اور دیگر سوفٹ ویئرز پر ریئل ٹائم چیٹنگ نے ہر قسم کے تبادلہ خیال کو یقینی بنایا۔ انگریزی نہ جاننے والے رومن انگریزی میں اپنے خیالات اور جذبات دوسروں تک منتقل کرنے لگے۔ اس کے علاوہ گوگل اور دیگر چند کمپنیوں نے ایسی آن لائن سہولتیں مہیا کیں جن کے ذریعے دنیا کی کسی بھی زبان کو دوسری زبان میں باآسانی پلک جھپکتے ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ نے وائس میل اور ویڈیو کانفرنس کے ذریعے بات چیت کرنے والے افراد کی تصاویر بھی اسکرین پر دکھانا شروع کردیں۔ یوں دو افراد اپنی باتوں کے ساتھ ایک دوسرے کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھنے لگے۔ وڈیو کانفرنس اور وڈیو لیکچرز کے ذریعے مذہبی اور سیاسی رہنما ؤں کے علاوہ دنیا بھر کے مایہ ناز اساتذہ اور تحقیق دانوں کے خطاب اور لیکچرز ہزاروں میل دور جمع ہونے والے افراد سنتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے نوجوانوں کے اجنبی لوگوں سے رابطے بڑھے۔ تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ پیار و محبت اور شادی بیاہ کے لیے بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کرنا شروع کیا۔ بعض محدود ذہن رکھنے والے مذہبی رہنماؤں کو آئی ٹی ٹیکنالوجی کے استعمال پر اعتراضات شروع ہوئے۔
جب امریکا میں نائن الیون کی دہشت گردی ہوئی تو القاعدہ نامی تنظیم کا وجود سامنے آیا۔ جن عرب نوجوانوں نے جہازوں کو اغوا کرکے پائلٹ کے فرائض انجام دیے تھے اور اپنے مطلوبہ ہدف پر طیاروں کو ٹکرایا تھا ان کے بارے میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ سب آئی ٹی ٹیکنالوجی کے ماہر تھے۔ القاعدہ کے بارے میں مزید تحقیقات ہوئیں تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ القاعدہ کے اراکین آئی ٹی ٹیکنالوجی کو بھرپور طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ان کے نیٹ ورک کی بنیاد بھی آئی ٹی ٹیکنالوجی ہے۔ ایسی ہی صورتحال لندن میں ایک ہی دن میں مختلف مقامات پر ہونے والے بموں کے دھماکوں کی تحقیقاتی رپورٹوں کے بعد سامنے آئی۔ امریکا، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک نے اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی القاعدہ اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک توڑنے کا طریقہ تلاش کیا۔ دہشت گردوں کے ٹیلی فون سننے، ای میل کی چھان بین کرنے اور ٹینگو، اسکائپ، وائبر وغیرہ پر ہونے والی بات چیت کی اسکیننگ کے لیے بھی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے مشتبہ ملزمان کی تصاویر، نام اور ان کی زندگی کے بارے میں معلومات جمع کرکے انھیں ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا گیا۔ دنیا بھر کے تمام بڑے شہروں کے ایئرپورٹ کو اس ڈیٹا بیس تک رسائی دی گئی۔ رقوم کی منتقلی کے ریکارڈ کے لیے ایک ڈیٹابیس قائم کیا گیا۔ جو بھی شخص کسی ایئرپورٹ پر رپورٹ کرتا اس کے بارے میں معلومات کی ڈیٹابیس سے تصدیق ہوجاتی۔ یوں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے سفر کرنا مشکل ہوگیا۔ اس طریقے سے پاکستان میں چھپے ہوئے القاعدہ کے بہت سے رہنما گرفتار ہوئے۔ اسی طرح القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا سراغ ایک سم کے ذریعے لگا۔
پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی کو قبول کرنے میں اب بھی مزاحمت ہوتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سربراہ نے آئی ٹی ٹیکنالوجی سے چلنے والے ایک مقامی ٹی وی چینل پر حکومت سندھ کی جانب سے ان پابندیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ موبائل ویب ٹیکنالوجی سے نوجوان نسل میں بے راہ روی پھیل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نوجوان کلاس روم میں ایس ایم ایس کرتے ہیں اور کلاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ اس پابندی سے صورتحال بہتر ہوگی۔ اس سوچ کے علم برداروں نے یو ٹیوب پر پابندی لگوائی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب سے رسول اﷲﷺ کے خلاف توہین آمیز فلم نشر کی گئی، اس بناء پر یو ٹیوب پر پابندی ہونی چاہیے۔ پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے اسلامی ملک میں یو ٹیوب پر پابندی عائد نہیں ہے۔ آئی ٹی ماہرین کہتے ہیں کہ یو ٹیوب نئی اطلاعات، معلومات اور تعلیم و تربیت کا محور ہے۔ اس کے ذریعے ہر آدمی اپنی پسند کی فیلڈ کے بارے میں مفید معلومات نہ صرف حاصل کرسکتا ہے بلکہ اپ لوڈ کرکے دیگر افراد تک بھی مفید معلومات منتقل کرسکتا ہے اور یہ معلومات ویڈیوز، ٹیوٹوریل اور ویڈیو لیکچرز کی صورت میں ہوتی ہیں۔
یہ معلومات پاکستان جیسے ملک میں کسی لائبریری میں موجود کتابوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایک طالب علم اپنی ضرورت کی معلومات چند منٹوں میں حاصل کرسکتا ہے۔ کراچی کی میڈیکل کی طالبہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل کے شعبے میں بھارتی پروفیسروں کے لیکچرز انتہائی آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ ان پروفیسرز کے لیکچرز سے جو معلومات چند منٹوں میں حاصل ہوتی ہے وہ کسی ملک کے پروفیسر کے لیکچر یا درجنوں کتابوں سے ممکن نہیں ہے۔ برطانیہ سے آئی ٹی کے شعبے میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یو ٹیوب کی بندش سے ہم اپنا ہی نقصان کررہے ہیں۔ ہر شخص کو آزادی ہے کہ وہ اپنی پسند کی سائٹ کو استعمال کرے۔ کسی مسلمان کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والی سائٹ کو نہیں کھولنا چاہیے مگر دوسری سائٹ سے معلومات حاصل کرکے ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرسکتے ہیں۔ حکومت سندھ کی مشیر شرمیلا فاروقی کا کہنا ہے کہ ای میل، وائبر اور دوسری جدید ٹیکنالوجی کو اسکین کرنے کی ٹیکنالوجی خفیہ عسکری ایجنسی کے پاس ہیں اور اس ایجنسی کے حکام کی جانب سے عدم اعتراض کا سرٹیفکیٹ نہ ملنے کی بناء پر حکومت سندھ جدید ٹیکنالوجی حاصل نہ کرسکی۔ حکومت سندھ کے پاس پتھروں کے دور میں جانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت ان جدید طریقوں پر پابندی لگا کر دہشت گردوں کے رابطے ختم کردے گی مگر ان کا پتہ چلانے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوجائے گی اور عام آدمی کے لیے مشکلات بڑھ جائیں گی۔