فرنیچر و ہوٹل سیکٹر پر 4 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس پر نظر ثانی کا مطالبہ
دونوں شعبے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے، ہزاروں افراد بیروزگار ہو سکتے ہیں، نائب صدر فیڈریشن
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر محمد علی نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے 4 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ سے فرنیچراور ہوٹل انڈسٹری تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی ہے۔
اگر اس فیصلے پر فوری نظرثانی نہیں کی گئی توبڑی تعداد میں چھوٹے بڑے کارخانے اور ہوٹل بند ہو جائیں گے۔ پاکستان فرنیچر مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر علی عنصر گھمن اور ہوٹل ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت نے اگر اس فیصلے پر فوری نظرثانی نہیں کی تو لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔ محمد علی نے کہا کہ فرنیچر کا کاروبار کرنے والوں کو غیر رجسٹر شدہ افراد سے 4 فیصد اور رجسٹرڈ افراد سے 3.5فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کی ہدایت کی گئی ہے جو دکانداروں کو ٹیکس کلکٹر بنانے کے مترادف ہے۔
اگر کاروباری برادری نے ٹیکس جمع کرنا ہے تو ایف بی آر کے اہلکار کیا کریں گے، ہوٹل کی صنعت پہلے ہی 17 فیصدسیلز ٹیکس ادا کر رہی تھی، اب تقریبات پر 10فیصد اضافی ودہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی گاہکوں سے شناختی کارڈ نمبرلینے کی شرط بھی لگا دی گئی ہے جس سے لوگوں نے ہوٹلوں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
ایک طرف ایف بی آر 35 لاکھ افراد کے کوائف کی موجودگی کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری طرف محاصل جمع کرنے میں ناکامی پر اپنا ملبہ کاروباری برادری پر ڈال رہا ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ایس ایم ای سیکٹر کو بند کرنے کے اقدامات کرنے والوں کا نوٹس لے کیونکہ توانائی کی قیمت، روپے کے زوال اور افراط زر کی وجہ سے پہلے ہی کاروبار مشکلات کا شکار ہیں، حکومت برامدات بڑھانے کے لیے غیرروایتی شعبے کو توجہ دے نہ کہ اس کے خاتمے کا سامان کرے۔
اگر اس فیصلے پر فوری نظرثانی نہیں کی گئی توبڑی تعداد میں چھوٹے بڑے کارخانے اور ہوٹل بند ہو جائیں گے۔ پاکستان فرنیچر مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے صدر علی عنصر گھمن اور ہوٹل ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت نے اگر اس فیصلے پر فوری نظرثانی نہیں کی تو لاکھوں افراد کے بیروزگار ہونے کا اندیشہ ہے۔ محمد علی نے کہا کہ فرنیچر کا کاروبار کرنے والوں کو غیر رجسٹر شدہ افراد سے 4 فیصد اور رجسٹرڈ افراد سے 3.5فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کی ہدایت کی گئی ہے جو دکانداروں کو ٹیکس کلکٹر بنانے کے مترادف ہے۔
اگر کاروباری برادری نے ٹیکس جمع کرنا ہے تو ایف بی آر کے اہلکار کیا کریں گے، ہوٹل کی صنعت پہلے ہی 17 فیصدسیلز ٹیکس ادا کر رہی تھی، اب تقریبات پر 10فیصد اضافی ودہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی گاہکوں سے شناختی کارڈ نمبرلینے کی شرط بھی لگا دی گئی ہے جس سے لوگوں نے ہوٹلوں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
ایک طرف ایف بی آر 35 لاکھ افراد کے کوائف کی موجودگی کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری طرف محاصل جمع کرنے میں ناکامی پر اپنا ملبہ کاروباری برادری پر ڈال رہا ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ایس ایم ای سیکٹر کو بند کرنے کے اقدامات کرنے والوں کا نوٹس لے کیونکہ توانائی کی قیمت، روپے کے زوال اور افراط زر کی وجہ سے پہلے ہی کاروبار مشکلات کا شکار ہیں، حکومت برامدات بڑھانے کے لیے غیرروایتی شعبے کو توجہ دے نہ کہ اس کے خاتمے کا سامان کرے۔