کوچۂ سخن
غزل
جسے خود سے جدا رکھا نہیں ہے
وہ میرا ہے مگر میرا نہیں ہے
جسے کھونے کا مجھ کو ڈر ہے اتنا
اسے میں نے ابھی پایا نہیں ہے
نقوش اب ذہن سے مٹنے لگے ہیں
بہت دن سے اسے دیکھا نہیں ہے
سنا ہے پھول اب کھلتے نہیں ہیں
تو کیا کھل کر وہ اب ہنستا نہیں ہے
نگر چھوڑا ہے جب سے اس غزل نے
کوئی شاعر غزل کہتا نہیں ہے
صبیح و خوب رُو چہرے کئی ہیں
مگر کوئی بھی اُس جیسا نہیں ہے
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
چھپ کر رویا جا سکتا ہے
دل بہلایا جا سکتا ہے
آدم زادے عشق کی رہ میں
کام بھی آیا جا سکتا ہے
دن کو گرہن لگ سکتا ہے
دھوپ میں سایہ جا سکتا ہے
عزت ملنا مشکل ہے پر
نام کمایا جا سکتا ہے
ویسے ملنا ناممکن ہے
خواب میں آیا جا سکتا ہے
اس بستی میں چپ رہ کر بھی
شور مچایا جا سکتا ہے
خود سے تیرے چھیڑ کے قصے
جی للچایا جا سکتا ہے
(اسد رضا سحر۔ احمد پور سیال)
۔۔۔
غزل
تیرا رستہ بدلنا دیکھتے ہیں
کہ دریا کا اترنا دیکھتے ہیں
تمہاری آنکھ میرا آئینہ ہے
سو تم میں ہم زمانہ دیکھتے ہیں
پڑاؤ داستاں میں آگیا ہے
کوئی کٹیا، ٹھکانہ دیکھتے ہیں
تمہیں رنجش، ملالِ عشق ہے گر
چلو پھر سوچنا کیا، دیکھتے ہیں
بدن تھر ہے سو وہ غمام فطرت
اسے دریا کرے گا؟ دیکھتے ہیں
(سارا خان۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کیا بنے گا اب استخارے سے
دن گزرتا نہیں گزارے سے
اتنی وحشت سے بھر گیا دریا
خوف آنے لگا کنارے سے
دفعتاً آنکھ جب کھلی اس کی
روشنی گر پڑی ستارے سے
میں بھی محفل میں چپ رہا وہ بھی
بات کرتے رہے اشارے سے
اپنی آنکھیں تو منتظر مہدی
منسلک ہیں تیرے نظارے سے
(منتظر مہدی ہانس۔ کبیروالا)
۔۔۔
غزل
تُو فقط جسم کا سوالی ہے
یہ محبت کی پائے مالی ہے
عشق سائیں ازل سے گونگا ہے
یعنی اک ہاتھ والی تالی ہے
ایسا لگتا ہے میرے کاسے سے
شاعری ختم ہونے والی ہے
ایک تعبیر بھی نہیں پھوٹی
میرے خوابوں پہ خشک سالی ہے
شمس پیتل کا اک کٹورا ہے
چاند چاندی کی ایک تھالی ہے
کیا نیا ہے تمہاری جدت میں
چند الفاظ کی جگالی ہے
کون درویش ہے فہد سائیں؟
کس کا دل خواہشوں سے خالی ہے
(سردار فہد۔ ایبٹ آباد)
۔۔۔
غزل
قسمت کا اپنی اوج پہ تارا نہیں رہا
اس واسطے وہ شخص ہمارا نہیں رہا
مشکل میں چل دیے ہیں سبھی اپنے چھوڑ کر
تنہا ہوں پاس کوئی سہارا نہیں رہا
جھٹکا جو ہاتھ اس نے تو ایسا لگا مجھے
اس کو مرا وجود گوارا نہیں رہا
کیسے تلاش اس کو کروں کائنات میں
ملنے کا جس کے کوئی اشارہ نہیں رہا
دل تھا بتائیں سیف کبھی وقت ایک ساتھ
لیکن کبھی بھی وقت ہمارا نہیں رہا
(سیف الرّحمٰن۔ کوٹ مومن، سرگودھا)
۔۔۔
غزل
جب محبت میں مبتلا نہیں تھا
تب کوئی بھی مرا خدا نہیں تھا
زخم اس وقت بھی تھا دل پہ مرے
پھول جب شاخ پر کھِلا نہیں تھا
جب میں ہر بات اس کی مانتا تھا
دل کسی کو بھی مانتا نہیں تھا
اتفاقاً بچھڑ گئے ورنہ
یہ محبت میں طے ہوا نہیں تھا
اس کو دیکھا نہیں تھا جب میں نے
تب میں خود کو بھی دیکھتا نہیں تھا
اس کی چاہت بھی اس میں شامل تھی
چائے میں صرف ذائقہ نہیں تھا
اس کو نفرت نہیں تھی نفرت سے
زندگی اس کا مسئلہ نہیں تھا
(طارق جاوید۔کبیر والا)
۔۔۔
غزل
مصیبت کی گھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ دوستی ہے اور میں ہوں
مجھے تڑپا رہی ہے وحشتِ جاں
کسی کی دل لگی ہے اور میں ہوں
غضب کی دھوپ میں صحرا نشینی
لبوں پر تشنگی ہے اور میں ہوں
وہاں پر تُو، تمناؤں کی رونق
یہاں پر خامشی ہے اور میں ہوں
مجھے انکار کی عادت تھی سو اب
قفس کی کوٹھڑی ہے اور میں ہوں
عذابِ گمرہی ہے شہر بھر میں
فشارِ آگہی ہے اور میں ہوں
ترے کوچے میں آ بیٹھا ہوں احمد
بدن کی روشنی ہے اور میں ہوں
(احمد حجازی۔ لیاقت پور)
۔۔۔
غزل
چھوڑ کر چل دیے، بِنا پوچھے
جانے والے! تجھے خدا پوچھے
آپ جیسوں سے گفتگو بے سود
حال پوچھے نہ مدعا پوچھے
غیر مانوس راستے، رہزن
آدمی کس سے راستا پوچھے؟
میرے حالات مت بتانا تم
جھوٹ کہنا اگر مِرا پوچھے
راستہ روک کر مِرا آصِف!
ایک درویش آپ کا پوچھے
(آصف خان۔ بنوں)
۔۔۔
غزل
چراغ ایسے ہواؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
فقیر جیسے سراؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
لگا کے مہر کو اک صبح کے تعاقب میں
یہ چاند تارے خلاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
ابھی شجر تو مکمل کٹا نہیں ہے نا
تنے کی ادھ موئی چھاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
یہ کیا کہا تمھیں کرنی ہے سیر جنت کی!
تو ماں کے پاس ہی پائوں میں بیٹھ جاتے ہیں
بہار رُت میں تو ہم پر بہار آئی نہیں
ذرا سی دیر خزاؤں میں بیٹھ جاتے ہیں
(سید مزمل شاہ۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
ترس اپنے چاہنے والوں پہ کچھ کھایا کرو
دیکھ کر ہم کو ستم گر یوں نہ اترایا کرو
ہم ازل سے سر پھرے ہیں ناصحِ دوراں سنو
ہم نہ سمجھیں گے تری باتیں، نہ سمجھایا کرو
ہم تو ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں دل، اے جانِ جاں
بات تب ہوگی کسی زاہد کو بہکایا کرو
یہ محبت، چاہتیں، یہ دل لگی اور شاعری
چاہنے والوں کا ہدیہ ہیں نہ ٹھکرایا کرو
کون سنتا ہے جہاں میں نرم لہجوں کو عقیل
انگلی کانوں میں رکھو اور خوب چلّایا کرو
(عقیل نواز۔ اسکردو، بلتستان)
۔۔۔
غزل
ہم محبت کا تماشا نہیں ہونے دیں گے
اس تعلق کا یوں چرچا نہیں ہونے دیں گے
مسکراہٹ رہے ہر وقت ترے چہرے پر
ہم پریشاں ترا چہرہ نہیں ہونے دیں گے
سرزنِش کوئی کرے تیری ہمارے ہوتے
جی نہیں، ہم کبھی ایسا نہیں ہونے دیں گے
ہم گلابوں کی مہک دیں گے تری زلفوں کو
ہم تری زلفوں کو روکھا نہیں ہونے دیں گے
ان کی چُوڑی کو ہی اعجاز یہ حق ہے حاصل
اور ہم کچھ بھی انوکھا نہیں ہونے دیں گے
(اعجاز کشمیری۔ چین)
۔۔۔
غزل
ضروری تو نہیں پلکوں پہ ہر دم دکھ سجا رکھو
ابھی تو زندگی باقی ہے کچھ آنسو بچا رکھو
کسی دن لوٹ آئے گا، تمھاری یاد آئی تو
ابھی کچھ دن گزرنے دو، ابھی تم حوصلہ رکھو
سنو، رستہ کٹھن ہے، دور منزل ہے بہت لیکن
مجھے کافی ہے تم خود کو جو مصروفِ دُعا رکھو
یہاں دل توڑنا ہے معمول ہے، یا مشغلہ کہہ لو!
تمھیں کس نے کہا تھا ہم سے امیدِ وفا رکھو؟
محبت کو نباہنے کا سلیقہ چاہیے سدرہ
اُسے ہر حال میں چاہو، اُسے اپنا بنا رکھو
(سدرہ ایاز۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
اپنوں پہ بھی رہا نہ مجھے اعتبار اب
مطلب پرست بن گیا قرب و جوار اب
اپنے مفاد کے لیے کرتے ہیں بات چیت
کرتے ہیں بات بات پہ وہ کاروبار اب
انسان کی نہیں کوئی قیمت یہاں، میاں
کرسی سے کررہے ہیں یہاں لوگ پیار اب
بعدِ نماز دیتے ہیں اوروں کو بددعا
نکلے ہیں ایسے ایسے عبادت گزار اب
جو لوگ دوسروں پہ اٹھاتے ہیں انگلیاں
ہونے لگا ہے میرا بھی ان میں شمار اب
(علی محمد علوی۔ اسکردو)