پولیس افسران چیف جسٹس مقبول باقر حملہ کیس کی تحقیقات مکمل کرنے میں ناکام
اعلیٰ حکام کی ہدایت پرمقدمے کی ازسرنو تحقیقات کی جارہی ہے، مزید مہلت دی جائے، تفتیشی افسر
چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مقبول باقر پر کیے گئے حملے کی تحقیقات پولیس کے اعلیٰ افسران کی غفلت و لاپروائی کے باعث مکمل نہیں ہوسکی۔
تفصیلات کے مطابق ملزمان نے 26جون کو آرام باغ کے قریب ریڈ زون میں جسٹس مقبول باقر کے قافلے پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 2رینجرز اور 7 پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے جبکہ جسٹس مقبول باقر سمیت 12دیگر افرادشدید زخمی ہوگئے تھے ، پولیس نے2 ماہ تک تحقیقات کی اس دوران تھانہ پریڈی کے ایس ایچ او نے ملزم ابوبکر معصوم باﷲ کو مشتبہ حالت میں حراست میں لیا تھا ، دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ وہ جسٹس مقبول باقرسمیت دیگر بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کراسکتا ہے، 17جولائی کو ایس ایچ او محمد فاروق ستی نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ ملزم کی نشاندہی پر سرجانی میں چھاپہ مارا لیکن ملزمان نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ایس ایچ او زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی جوابی فائرنگ سے ماسٹر مائنڈ بشیر احمد لغاری ہلاک اور اس کے بیٹے معاویہ لغاری کو گرفتار کرلیا تھا جبکہ دیگر ملزمان فرار ہوگئے تھے،ملزم ابوبکر نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا،تھانہ آرام باغ نے دونوں ملزمان کو باقاعدہ جسٹس مقبول باقر حملے کیس میں گرفتار کیا اور دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ریمانڈ حاصل کیا ، ملزم ابوبکر باﷲ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا کہ قاری بشیر احمد لغاری کے گھر میں جسٹس مقبول باقر پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور حملے کرنے کیلیے یاسر ، ساجد ،2 اور افراد کے درمیان قرعہ اندازی کی گئی جس میں اس کا نام نکل آیا ،حملے کی تاریخ 26جون مقرر کی گئی تھی اور2 نامعلوم افراد نے بارود فراہم کیا اور بارود موٹر سائیکلوں کے ٹائر میں بھرا، اگلے روز صبح یاسر ، ساجد موسیٰ اس کے ہمراہ تھے انکی ڈیوٹی تھی کہ جسٹس مقبول باقر کے آنے کی اطلاع دے۔
اطلاع ملتے ہی اس نے تعین شدہ جائے وقوع پر دھماکا کردیا تھا اور موقع سے ہم تمام چلے گئے تھے ، پولیس نے چشم دید گواہ سید احسن زیدی کا بھی بیان قلمبند کرایا اور شناخت پریڈ بھی کرائی گئی تھی تمام معاملات مکمل ہونے کے بعد فاضل عدالت نے ملزمان کو جیل بھیج دیا تھا اور تفتیشی افسر کو مقدمے کا چالان جمع کرانیکا حکم دیا تھا ، ستمبر کو پولیس نے تحقیقات مکمل کرنے ملزمان کیخلاف مقدمے کا چالان جمع کرایا تھا اور فاضل عدالت نے چالان منظور کرتے ہوئے مفرور ملزمان رضوان عرف آصف چھوٹو ، عطالرحمن عرف نعیم بخاری ، قاری خلیل ، ساجد ، یاسر اور موسی کی گرفتاری کا حکم دیا تھا اور گرفتار ملزمان کو 12ستمبر کو عدالت میں طلب کیاگیا۔
اس سے قبل مقدمے میں محکمہ قانون نے الیاس خان ایڈووکٹ کو استغاثہ کی معاونت کیلیے اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کردیا تھا لیکن 12 ستمبر کو وکیل سرکار نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ اعلیٰ افسران نے مقدمے کی ارسرنو تحقیقات کرانیکا حکم دیا ہے اور حتمی چالان کو عبوری چالان منظور کرنیکی استدعا کی تھی، فاضل عدالت نے وکیل سرکار کی استدعا منظور کی اسی اثنا مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں درخواست دی اور موقف اختیار کیا کہ چالان میںتاریخ سے متعلق ردوبدل کرنی ہے اور ردوبدل کی اجازت طلب کی فاضل عدالت نے تفتیشی افسر کی بھی درخواست منظور کرکے چالان میں ردوبدل کرنے کی اجازت دی لیکن ایک ماہ گزر چکا ہے افسران کی غفلت لاپروائی کے باعث ازسرنو تحقیقات مکمل ہوسکی اور نہ ہی تفتیشی افسر نے کوئی ردوبدل کرکے کوئی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی منگل کو بھی ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا لیکن فاضل عدالت نے عدالتی کارروائی کیے بغیر سماعت ملتوی کردی۔
تفصیلات کے مطابق ملزمان نے 26جون کو آرام باغ کے قریب ریڈ زون میں جسٹس مقبول باقر کے قافلے پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں 2رینجرز اور 7 پولیس اہلکار شہید ہوئے تھے جبکہ جسٹس مقبول باقر سمیت 12دیگر افرادشدید زخمی ہوگئے تھے ، پولیس نے2 ماہ تک تحقیقات کی اس دوران تھانہ پریڈی کے ایس ایچ او نے ملزم ابوبکر معصوم باﷲ کو مشتبہ حالت میں حراست میں لیا تھا ، دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ وہ جسٹس مقبول باقرسمیت دیگر بم دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کراسکتا ہے، 17جولائی کو ایس ایچ او محمد فاروق ستی نے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ ملزم کی نشاندہی پر سرجانی میں چھاپہ مارا لیکن ملزمان نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ایس ایچ او زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس کی جوابی فائرنگ سے ماسٹر مائنڈ بشیر احمد لغاری ہلاک اور اس کے بیٹے معاویہ لغاری کو گرفتار کرلیا تھا جبکہ دیگر ملزمان فرار ہوگئے تھے،ملزم ابوبکر نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا،تھانہ آرام باغ نے دونوں ملزمان کو باقاعدہ جسٹس مقبول باقر حملے کیس میں گرفتار کیا اور دہشت گردی کی خصوصی عدالت سے ریمانڈ حاصل کیا ، ملزم ابوبکر باﷲ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا کہ قاری بشیر احمد لغاری کے گھر میں جسٹس مقبول باقر پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی اور حملے کرنے کیلیے یاسر ، ساجد ،2 اور افراد کے درمیان قرعہ اندازی کی گئی جس میں اس کا نام نکل آیا ،حملے کی تاریخ 26جون مقرر کی گئی تھی اور2 نامعلوم افراد نے بارود فراہم کیا اور بارود موٹر سائیکلوں کے ٹائر میں بھرا، اگلے روز صبح یاسر ، ساجد موسیٰ اس کے ہمراہ تھے انکی ڈیوٹی تھی کہ جسٹس مقبول باقر کے آنے کی اطلاع دے۔
اطلاع ملتے ہی اس نے تعین شدہ جائے وقوع پر دھماکا کردیا تھا اور موقع سے ہم تمام چلے گئے تھے ، پولیس نے چشم دید گواہ سید احسن زیدی کا بھی بیان قلمبند کرایا اور شناخت پریڈ بھی کرائی گئی تھی تمام معاملات مکمل ہونے کے بعد فاضل عدالت نے ملزمان کو جیل بھیج دیا تھا اور تفتیشی افسر کو مقدمے کا چالان جمع کرانیکا حکم دیا تھا ، ستمبر کو پولیس نے تحقیقات مکمل کرنے ملزمان کیخلاف مقدمے کا چالان جمع کرایا تھا اور فاضل عدالت نے چالان منظور کرتے ہوئے مفرور ملزمان رضوان عرف آصف چھوٹو ، عطالرحمن عرف نعیم بخاری ، قاری خلیل ، ساجد ، یاسر اور موسی کی گرفتاری کا حکم دیا تھا اور گرفتار ملزمان کو 12ستمبر کو عدالت میں طلب کیاگیا۔
اس سے قبل مقدمے میں محکمہ قانون نے الیاس خان ایڈووکٹ کو استغاثہ کی معاونت کیلیے اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کردیا تھا لیکن 12 ستمبر کو وکیل سرکار نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کیا کہ اعلیٰ افسران نے مقدمے کی ارسرنو تحقیقات کرانیکا حکم دیا ہے اور حتمی چالان کو عبوری چالان منظور کرنیکی استدعا کی تھی، فاضل عدالت نے وکیل سرکار کی استدعا منظور کی اسی اثنا مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں درخواست دی اور موقف اختیار کیا کہ چالان میںتاریخ سے متعلق ردوبدل کرنی ہے اور ردوبدل کی اجازت طلب کی فاضل عدالت نے تفتیشی افسر کی بھی درخواست منظور کرکے چالان میں ردوبدل کرنے کی اجازت دی لیکن ایک ماہ گزر چکا ہے افسران کی غفلت لاپروائی کے باعث ازسرنو تحقیقات مکمل ہوسکی اور نہ ہی تفتیشی افسر نے کوئی ردوبدل کرکے کوئی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی منگل کو بھی ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا لیکن فاضل عدالت نے عدالتی کارروائی کیے بغیر سماعت ملتوی کردی۔