مولانا کا آزادی مارچ اور دھرنا ۔ پردہ اٹھنے کو ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس منفرد اسکرپٹ میں قادری صاحب نے ’’ریفارمر‘‘کے روپ میں جو ’’پرفامنس‘‘ دی وہ کمال کی تھی۔
SHABQADAR:
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے کا شور بتدریج بڑھ رہا ہے۔ حکومت وقت اور مقتدر قوتوں کی جانب سے ابھی تک ایسے اشارات نہیں ملے کہ وہ مولانا کی اس سیاسی حکمت عملی کو سنجیدہ سمجھ رہے ہوں۔
عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کو بھی ابتدا میں اس دور کی حکومتوں نے سنجیدہ نہ لیا اور بعد میں انھیں بڑی کٹھن آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی مولانا کی معاونت کو تیار ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اگر 16 اکتوبر کو اس مارچ کو ''جمہوری لائسنس'' دے دیا تو پھر ''دما دم مست قلندر''کی فضا پیدا ہو جائے گی۔
مولانا کی اس مہم جوئی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس پر تبصرہ قبل از وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ آزادی مارچ ملک کی سیاسی تاریخ میں کیا مقام حاصل کرتا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنوں کے نتیجے میں منتخب حکومتوں کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ اب تاریخ کا تلخ حصہ ہیں۔ اجمالی طور پر ان دھرنوں لانگ مارچ اور بعد کے حالات کے نتیجے میں عمران خان کے سر پر وزارت عظمی کا تاج سجا، لیکن علامہ طاہر القادری صاحب کا ''کمبل''ان دھرنوں میں ہی گم ہوگیا۔ بالآخر انھیں سیاست سے ریٹائر ہونا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور دھرنا کیا رنگ لائے گا، اس کا اندازہ بھی چند ہفتوں میں ہوجائے گا۔
ہمارے دانشور اور سیاسی ناقدین اکثر و بیشتر کہا کرتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا اسکرپٹ کہیں اور لکھا جاتا ہے اور جب عمل درآمد ہو جاتا ہے تو ماہرین کہتے ہیں کہ دیکھا سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوا۔ عمومی طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ اسکرپٹ اور اس کے کردار منظر نامہ تبدیل ہونے کے بعد ظاہر ہوتے تھے لیکن عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے اسٹیج پر آ کر پورے عوام کے سامنے بھر پور پر فارمنس دکھائی، ہر روز بلکہ بعض اوقات کو اس اسکرپٹ کے مختلف پارٹ ایک دن میںکئی مرتبہ پیش کیے گئے۔ 23 دسمبر 2012 کو اس ڈرامے کا پارٹ ون مینار پاکستان لاہور میں دکھایا گیا۔ پارٹ ٹو میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ تھا جو کئی اعتبار سے بڑا پر کشش رہا، تمام سفر میں اس ڈرامے کا اسٹیج (قادری صاحب کا کنٹینر) سب کی توجہ کا مرکز رہا۔
تیسرا پارٹ جناح ایونیو پر14اور 15جنوری کی درمیانی رات اس وقت شروع ہوا جب قادری صاحب نے 5 منٹ کے نوٹس پر اپنے کارکنوں کو حرکت کا حکم دیا، یہ پارٹ سنسنی خیزی سے بھر پور تھا ۔ چوتھا پارٹ 15 جنوری 2013 کی صبح ہوا جس میں قادری صاحب نے صدر، وزیر اعظم اور صوبائی حکومتوں کے خاتمے کا اعلان کر کے پارلیمنٹ کی تحلیل کا حکم بھی جاری کیا۔پانچواں پارٹ وزیر اعظم کی گرفتاری کے حکم کی خبر آنے سے شروع ہوا، اس خبر کے ساتھ ہی قادری صاحب نے فلم کا ہاف ٹائم کر دیا۔ تا کہ سامعین، ناظرین اور شائقین ریفریشمنٹ کر سکیں۔ چھٹا پارٹ16 جنوری کا شروع ہوا اور ڈرامے کے اسکرپٹ میں حالات کے مطابق قادری صاحب اور اسکرپٹ کے خالقوں کو تبدیلی کرنی پڑی جس سے اس اسکرپٹ کا One Liner متاثر ہونا شروع ہوا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو تبدیل شدہ اسکرپٹ کے اس پارٹ کی Rehearsal قادری صاحب کو نہ کرائی گئی تھی اور دوسری یہ کہ حزب اختلاف نے کھل کر اسکرپٹ کا مقابلہ کرنے کا اعلان کر دیا۔
سترہ جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والی شدید بارش اور سردی کی وجہ سے پوری قوم قادری صاحب کے پیروکاروں کے صحت اور زندگی کے لیے پریشان نظر آئی۔ ساتواں پارٹ17تاریخ کو اس وقت شروع ہوا جب قادری صاحب نے شدید بارش کے بعد جھنجھلاہٹ اور ہیجانی کیفیت میں 3 بجے کی آخری مہلت دینے کے ساتھ ساتھ بیک وقت''شہادت'' کے اعلان کا تاثر دیا۔ آٹھواں پارٹ اسلام آباد کو ''کربلائے اسلام آباد'' قرار دیا گیا لیکن بعد ازاں حکومت اور طاہرالقادری ایک ہی جگہ بیٹھ گئے اور مک مکا کیا، گلے ملے اور آیندہ متحد رہنے کا عزم کرتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔
ان دھرنوں سے قادری صاحب کی قادر الکلامی، ذہانت، علمیت اور کرشمہ سازی سامنے آئی، انھوں نے اپنے معتقدین کو جس نظم و ضبط اور ڈسپلن کی تعلیم دی ہے وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور Mesmerism کی بولتی تصویر ہے۔ اس مظاہرے کے شرکاء ایک روبوٹ کی طرح ان کے اشارے پر چل رہے تھے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مظاہرین نے پر امن رہ کر حیران کن داد وصول کی، نامساعد حالات اور موسم کی سختی کو جس طرح جھیلا وہ قابل تحسین اور کسی بھی قوم کے لیے قابل تقلید ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ اگر ہمارے ملک میں سیاسی قائدین کا'' قحط الرجال'' نہ ہوتا تو پاکستانی عوام دنیا کی بہترین منظم اور ڈسپلن قوم بن سکتی ہے اور قادری صاحب کی طرح کے پر عزم فدائین کو اگر تعمیر وطن کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو پاکستان کے کئی مسئلے حل ہو جائیں۔
لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران دہشت گردی اور بد نظمی کا نہ ہونا بھی اس بات کی علامت ہے کہ اگر عوام مستعد اور پر عزم ہوں تو کسی کی مجال نہیں کہ کوئی نقصان پہنچا سکے۔ اگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو اس لانگ مارچ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس منفرد اسکرپٹ میں قادری صاحب نے ''ریفارمر''کے روپ میں جو ''پرفامنس'' دی وہ کمال کی تھی ۔لانگ مارچ کے دوران میڈیا کا کردار بھی قابل تحسین رہا ۔ میڈیا نے دونوں طرف کے نکتہ نظر کو پیش کیا اور کھلے تبصرے کر کے عوام کو ہمہ وقت با خبر رکھا اور سب سے بڑھ کر اچھی بات یہ ہے کہ جمہوریت کا بول بالا رہا ۔
مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ اور دھرنے کا شور بتدریج بڑھ رہا ہے۔ حکومت وقت اور مقتدر قوتوں کی جانب سے ابھی تک ایسے اشارات نہیں ملے کہ وہ مولانا کی اس سیاسی حکمت عملی کو سنجیدہ سمجھ رہے ہوں۔
عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کو بھی ابتدا میں اس دور کی حکومتوں نے سنجیدہ نہ لیا اور بعد میں انھیں بڑی کٹھن آزمائش سے گزرنا پڑا۔ اب تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی بھی مولانا کی معاونت کو تیار ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اگر 16 اکتوبر کو اس مارچ کو ''جمہوری لائسنس'' دے دیا تو پھر ''دما دم مست قلندر''کی فضا پیدا ہو جائے گی۔
مولانا کی اس مہم جوئی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اس پر تبصرہ قبل از وقت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ آزادی مارچ ملک کی سیاسی تاریخ میں کیا مقام حاصل کرتا ہے۔ اس سے پہلے عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے لانگ مارچ اور دھرنوں کے نتیجے میں منتخب حکومتوں کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا وہ اب تاریخ کا تلخ حصہ ہیں۔ اجمالی طور پر ان دھرنوں لانگ مارچ اور بعد کے حالات کے نتیجے میں عمران خان کے سر پر وزارت عظمی کا تاج سجا، لیکن علامہ طاہر القادری صاحب کا ''کمبل''ان دھرنوں میں ہی گم ہوگیا۔ بالآخر انھیں سیاست سے ریٹائر ہونا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور دھرنا کیا رنگ لائے گا، اس کا اندازہ بھی چند ہفتوں میں ہوجائے گا۔
ہمارے دانشور اور سیاسی ناقدین اکثر و بیشتر کہا کرتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا اسکرپٹ کہیں اور لکھا جاتا ہے اور جب عمل درآمد ہو جاتا ہے تو ماہرین کہتے ہیں کہ دیکھا سب کچھ اسکرپٹ کے مطابق ہوا۔ عمومی طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ اسکرپٹ اور اس کے کردار منظر نامہ تبدیل ہونے کے بعد ظاہر ہوتے تھے لیکن عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے اسٹیج پر آ کر پورے عوام کے سامنے بھر پور پر فارمنس دکھائی، ہر روز بلکہ بعض اوقات کو اس اسکرپٹ کے مختلف پارٹ ایک دن میںکئی مرتبہ پیش کیے گئے۔ 23 دسمبر 2012 کو اس ڈرامے کا پارٹ ون مینار پاکستان لاہور میں دکھایا گیا۔ پارٹ ٹو میں لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ تھا جو کئی اعتبار سے بڑا پر کشش رہا، تمام سفر میں اس ڈرامے کا اسٹیج (قادری صاحب کا کنٹینر) سب کی توجہ کا مرکز رہا۔
تیسرا پارٹ جناح ایونیو پر14اور 15جنوری کی درمیانی رات اس وقت شروع ہوا جب قادری صاحب نے 5 منٹ کے نوٹس پر اپنے کارکنوں کو حرکت کا حکم دیا، یہ پارٹ سنسنی خیزی سے بھر پور تھا ۔ چوتھا پارٹ 15 جنوری 2013 کی صبح ہوا جس میں قادری صاحب نے صدر، وزیر اعظم اور صوبائی حکومتوں کے خاتمے کا اعلان کر کے پارلیمنٹ کی تحلیل کا حکم بھی جاری کیا۔پانچواں پارٹ وزیر اعظم کی گرفتاری کے حکم کی خبر آنے سے شروع ہوا، اس خبر کے ساتھ ہی قادری صاحب نے فلم کا ہاف ٹائم کر دیا۔ تا کہ سامعین، ناظرین اور شائقین ریفریشمنٹ کر سکیں۔ چھٹا پارٹ16 جنوری کا شروع ہوا اور ڈرامے کے اسکرپٹ میں حالات کے مطابق قادری صاحب اور اسکرپٹ کے خالقوں کو تبدیلی کرنی پڑی جس سے اس اسکرپٹ کا One Liner متاثر ہونا شروع ہوا ۔ اس کی دو وجوہات تھیں ایک تو تبدیل شدہ اسکرپٹ کے اس پارٹ کی Rehearsal قادری صاحب کو نہ کرائی گئی تھی اور دوسری یہ کہ حزب اختلاف نے کھل کر اسکرپٹ کا مقابلہ کرنے کا اعلان کر دیا۔
سترہ جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والی شدید بارش اور سردی کی وجہ سے پوری قوم قادری صاحب کے پیروکاروں کے صحت اور زندگی کے لیے پریشان نظر آئی۔ ساتواں پارٹ17تاریخ کو اس وقت شروع ہوا جب قادری صاحب نے شدید بارش کے بعد جھنجھلاہٹ اور ہیجانی کیفیت میں 3 بجے کی آخری مہلت دینے کے ساتھ ساتھ بیک وقت''شہادت'' کے اعلان کا تاثر دیا۔ آٹھواں پارٹ اسلام آباد کو ''کربلائے اسلام آباد'' قرار دیا گیا لیکن بعد ازاں حکومت اور طاہرالقادری ایک ہی جگہ بیٹھ گئے اور مک مکا کیا، گلے ملے اور آیندہ متحد رہنے کا عزم کرتے ہوئے گھروں کو روانہ ہوئے۔
ان دھرنوں سے قادری صاحب کی قادر الکلامی، ذہانت، علمیت اور کرشمہ سازی سامنے آئی، انھوں نے اپنے معتقدین کو جس نظم و ضبط اور ڈسپلن کی تعلیم دی ہے وہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں اور Mesmerism کی بولتی تصویر ہے۔ اس مظاہرے کے شرکاء ایک روبوٹ کی طرح ان کے اشارے پر چل رہے تھے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان مظاہرین نے پر امن رہ کر حیران کن داد وصول کی، نامساعد حالات اور موسم کی سختی کو جس طرح جھیلا وہ قابل تحسین اور کسی بھی قوم کے لیے قابل تقلید ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ اگر ہمارے ملک میں سیاسی قائدین کا'' قحط الرجال'' نہ ہوتا تو پاکستانی عوام دنیا کی بہترین منظم اور ڈسپلن قوم بن سکتی ہے اور قادری صاحب کی طرح کے پر عزم فدائین کو اگر تعمیر وطن کے کاموں میں استعمال کیا جائے تو پاکستان کے کئی مسئلے حل ہو جائیں۔
لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران دہشت گردی اور بد نظمی کا نہ ہونا بھی اس بات کی علامت ہے کہ اگر عوام مستعد اور پر عزم ہوں تو کسی کی مجال نہیں کہ کوئی نقصان پہنچا سکے۔ اگر غیر جانب داری سے دیکھا جائے تو اس لانگ مارچ نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اس منفرد اسکرپٹ میں قادری صاحب نے ''ریفارمر''کے روپ میں جو ''پرفامنس'' دی وہ کمال کی تھی ۔لانگ مارچ کے دوران میڈیا کا کردار بھی قابل تحسین رہا ۔ میڈیا نے دونوں طرف کے نکتہ نظر کو پیش کیا اور کھلے تبصرے کر کے عوام کو ہمہ وقت با خبر رکھا اور سب سے بڑھ کر اچھی بات یہ ہے کہ جمہوریت کا بول بالا رہا ۔