خود اختیار کردہ جلا وطنی کے 62 برس

مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا انھوں نے پہلے دن سے ذکر کیا ہے اور اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

zahedahina@gmail.com

کْٹی صاحب کراچی کی سیاسی اور سماجی زندگی میں اس قدر متحرک اور نمایاں تھے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اچانک چلے جائیں گے۔ دوسرے تمام لوگوں کی طرح ان کی عمرکا ابتدائی حصہ اپنے آبائی علاقے کیرالہ میں گزرا۔ ابتدا سے سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا رہی۔

اس زمانے میں تقسیم ہر باشعور شخص کے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی تھی ۔ اس دورکے متحرک اور سیاسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی طرح بی ایم کٹی برصغیرکے اور اپنے مستقبل کے بارے میں غلطاں وپیچاں تھے۔ پاکستان بنا تو اسی ادھیڑ بن میں وہ بمبئی کے راستے کراچی روانہ ہوگئے۔ اس زمانے میں نوجوانوں کا یہ ایک روزمرہ تھا۔ ان نوجوانوں کا خیال تھا کہ ہندوستان سے پاکستان چلے جانا ایک ایڈونچر ہے اور نوجوانی ہوتی ہی اس لیے ہے کہ ایڈونچرکیا جائے۔

نوجوان کٹی نے بھی اس ایڈونچرکا فیصلہ کیا اور جون 1949 میں جودھ پور سے مونا بائو اورکھوکھرا پار سے گزرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوگئے۔ ایک ایسی سرزمین جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے تھے اورجب کسی نے ان سے پوچھا کہ تم اپنی سر زمین کیرالہ چھوڑ کر یہاں کیوں آگئے تو انھیں جواب دیتے نہیں بنی۔ کسی نے انھیں ''مہاجر'' کہا تو وہ بھی انھیں برا لگا کیونکہ وہ کسی فرقہ وارانہ ظلم یا فساد کے نتیجے میں پاکستان نہیں آئے تھے۔ وہ بلاکسی تردد یہ لکھتے ہیں کہ ہم مہاجر نہیں، رضاکارانہ طور پر آنے والے بھگوڑے تھے۔ ان کا یہ سچ کتاب کے ہر صفحے پر عیاں ہے۔ انھوں نے کتاب کا نام ''اختیاری جلا وطنی کے 62 سال'' اسی حوالے سے رکھا ہے۔

یہاں سے اس شخص کی داستان حیات شروع ہوتی ہے جس نے پاکستانی سیاست کو سیدھی راہ پر چلانے کی اپنی سی کوشش کی۔ رزق حلال کی تلاش میں سرگرداں رہا اورکئی روشن خیال اور سیکولر جماعتوں کے آئین لکھے۔ یہ وہی تھے جن سے بینظیر بھٹو نے خواہش ظاہرکی کہ وہ ان کی پیپلزپارٹی میں شریک ہوجائیں لیکن ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا کیونکہ وہ پی این پی کے ایک اہم عہدے سے وابستہ تھے۔وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکا ذکر بہت تفصیل سے کرتے ہیں اور لکھتے ہیں۔

'' میں نے فوج کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا جولائی 1977 میں تختہ الٹنے کی خبر اس وقت سنی جب میں اپنے آبائی شہر کیرالہ (انڈیا) گیا ہوا تھا۔ یہ خبر سن کر میرے والد جو بھٹو کے گرویدہ تھے پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ تقریباً دو سال بعد 5 اپریل 1979 کو جب میں نے صبح کے ایک اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ ایک رات پہلے ذوالفقار علی بھٹوکو راولپنڈی سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی ہے تو میں بھی اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

27 دسمبر 2007 کو میں اپنے ساتھی ذوالفقار شاہ کے ساتھ کراچی میں اپنے دفتر پائلر واقع گلشن معمار سے واپس گھر آرہا تھا۔ کارکا ریڈیو آن تھا۔ گاڑی پرانی سبزی منڈی کے سامنے رک گئی کیونکہ آگے ٹریفک جام تھی۔ تب ہم نے سسکیاں بھرتی خاتون انائونسر سے یہ اندوہناک خبر سنی کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو ایک بم دھماکے میں قتل کردی گئی ہیں۔ میں سکتے میں آگیا۔ ہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک دوسرے کو تکے جارہے تھے، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہیں کہ پھر اچانک ہمارے آس پاس ایک شور برپا ہوگیا۔ کاروں کے ہارن زور زور سے بجنے لگے۔ لوگ چیخنے پکارنے اور آہیں بھرنے لگے۔ ہم نے اپنے موبائل فون آن کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

کچھ وقفے کے بعد کالیں آنا شروع ہوئیں، پہلی کال میرے کیرالہ کے صحافی دوست وجے موہن کی تھی۔ جو دہلی میں ملیالی زبان کے اخبار ''منورما'' کا بیورو چیف تھا۔ میں اس سے اس بات کے سوا کچھ نہیں کہہ پایا کہ ہم سڑک کے بیچ عوام کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی بسوں سے نکل کر مرد، خواتین اور بچے ہر طرف جنونی کیفیت میں بھاگ رہے تھے۔ پھر ایک دوسری کال کویت سے میری چھوٹی بہن پاتھمو (ٖفاطمہ) کی تھی۔ ایک انڈین شہری ہونے کے باوجود وہ بے نظیر بھٹوکی بڑی مداح تھی اور اسے اپنا رول ماڈل گردانتی تھی۔ اس کے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سسکیوں میں کہنے لگی۔ '' میں بے نظیر بھٹو کو ایک ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے ایک ٹی وی چینل پر دیکھ رہی تھی۔کس قدرخوبصورت خاتون ، کیسی پر اثر تقریر اور تم پاکستانی لوگ کتنے ظالم ہو۔ تم نے اسے قتل کرڈالا۔'' اور پھر فون منقطع ہوگیا۔


جب ہم بے چارگی کی صورت حال لیے گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے تو میری سوچ بی بی سے 70 کلفٹن میں جولائی 1978 کی ملاقات کی طرف مڑگئی۔ مجھے یاد ہے کہ بے نظیر بھٹو نے ایم آر ڈی کی مرکزی کمیٹی کو 71کلفٹن میں عشائیہ دیا تو وہ چل کر میرے پاس آئیں اور میری ان سے 1978 میں ہونے والی ملاقات کی یاد دہانی کراتے ہوئے مجھے دی گئی کچھ دستاویزات کا ذکر کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب فتح یاب علی خان نے اپنے گھر میں تمام مخالف سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو استقبالیہ دعوت دی تو بی بی بھی اس دعوت میں تشریف لائی تھیں اور مہمانوں کی پہلی صف میں جلوہ گر تھیں۔ میں ان سے پچھلی لائن میں بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پھر ایک پراسرار سا سوال مجھ سے اچانک کر ڈالا۔

مسٹرکٹی! آپ میرے ساتھ کیوں نہیں مل جاتے؟'' میں اس سوال سے گھبرا کر سوال کر بیٹھا۔ ''بی بی آپ کا کیا مطلب ہے میں سمجھا نہیں؟ '' اور انھوں نے وضاحت کی۔ ''آپ میرے پریس سیکریٹری کیوں نہیں بن جاتے؟'' میں نے یاد دلایا کہ میں پاکستان نیشنل پارٹی کا بانی رکن اور عہدیدار بھی ہوں اور بی بی نے اس کے جواب میں ایک اور سوال کر ڈالا۔ ''اب آپ جیسے کہنہ مشق ایکٹوسٹ کے لیے بزنجو صاحب کے بعد پی این پی میں کیا رہ گیا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ ہم سے آ ملیں۔'' میں خاموش رہا۔

ہم چار گھنٹوں سے زائد عرصے کے بعد ٹریفک کے اس ہجوم سے گاڑی سمیت نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ گرو مندر پہنچ کرمعلوم ہوا کہ میرے اپارٹمنٹ کی طرف جانے والی سڑک کو پولیس نے بند کر رکھا ہے۔ کیونکہ تیز و تند احتجاجی جلوس نے پورے علاقے کو گھیر لیا ہے۔ ہم نے متبادل روٹ سے گلشن معمار کا رخ کرنا چاہا لیکن ہر طرف ایسی ہی صورتحال تھی۔ ہمارا ڈرائیور رحمان حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے جلتی گلیوں اور چوراہوں سے گاڑی گزار کر صبح تک پائلر لے آیا۔ آپ خواہ کچھ بھی کہیں لیکن بے نظیر کی تمام تر خامیوں اور ناکامیوں کے باوجود بے نظیر بھٹو اپنے معیار کی واحد سیاستدان تھی ۔ اسے لاکھوں لوگ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں یاد رکھیں گے۔ کچھ اس انفرادی حیثیت کے لحاظ سے بھی کہ وہ مسلم دنیا کی سب سے پہلی خاتون تھیں جو سربراہ مملکت بنیں۔ نہ صرف ایک بار بلکہ دو بار... اور اگر اسے یوں بہیمانہ انداز میں ہلاک نہ کیا جاتا تو شاید تیسری بار بھی وہ وزیر اعظم منتخب ہوتیں۔''

کٹی صاحب سیکولر خیالات رکھنے والے افراد اور جماعتوں سے وابستہ رہے اور عمر بھر ان کی یہی کوشش رہی کہ وہ برصغیرکو پاک ہند امن کے راستے پر چلائیں۔ وہ قاہرہ میں ہیں جب انھیں نیلسن منڈیلا کی قاہرہ آمد اور ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کی اطلاع ملتی ہے۔ تو بچوں کی طرح اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ انھیں چند لمحے کے لیے ان سے مصافحے کا موقع ملا۔ پھر یہ بھی لکھتے ہیں کہ میں نے گویا منڈیلا سے نہیں بلکہ تاریخ سے ہاتھ ملایا تھا۔

مشرقی پاکستان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا انھوں نے پہلے دن سے ذکر کیا ہے اور اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسے پڑھیے تو سمجھ میں آتا ہے کہ پاکستان دو لخت کیوں ہوا اور اس میں مغربی پاکستان کے جاگیرداروں، سرکاری افسروں اور فوجی بیوروکریسی کا کیا ہاتھ تھا۔ وہ اپنی بات بے دھڑک کہتے تھے۔

کٹی صاحب ون یونٹ کے ڈرامے کے بارے میں بھی تفصیل سے لکھتے ہیں۔ وہ کامریڈ حسن ناصر کی گرفتاری اور پھر ان کے قتل کا قصہ لکھتے ہیں جس کو خود کشی کا رنگ دیا گیا۔

وہ اپنی قیدکے بارے میں لکھتے ہیں، پھر یہ بھی کہ ان کی بیگم برجیس ان سے ملنے آتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ ایک نرم دل ، مہربان شخص جو اپنے گھر والوں کے عشق میں سرشار ہے لیکن عشق بشر اس کا دامن کھینچتا ہے اور یہی عشق اسے کبھی پاک ہند امن دوستی میں گرفتار رکھتا ہے اور کبھی وہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ دیدی نرملا دیش پانڈے سے ان کی محبت اور عقیدت کا احساس کتاب کے آغاز سے انجام تک ساتھ چلتا ہے۔ وہ کتاب کی ابتدا میں ان کانام لیتے ہیں اور پھر آخری برسوں میں کرامت کے ساتھ مل کر ان کی وصیت کے مطابق دیدی کی راکھ دریائے سندھ میں بہانے جاتے ہیں۔

1930 میں کیرالہ میں پیدا ہونے والا بچہ آخری سانس تک ایک سچا انسان اور لوگوں سے محبت کرنے والا بائیں بازو کا رہنما رہتا ہے۔ جسے اس بات پر اصرار ہے کہ وہ ''رہنما'' نہیں ''سیاسی کارکن'' ہے۔ ایسے کھرے اور نادر روزگار لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔ کٹی صاحب خاموشی کو گناہ جانتے تھے، اسی لیے پاکستان میں ہونے والی ہر ناانصافی کے خلاف انھوں نے آواز بلند کی۔ وہ بہ ظاہر یہاں کے نہ تھے لیکن یہاں کے لوگوں کے حقوق کے لیے ان سے زیادہ بھلا کس نے آواز بلند کی۔ کوئی انھیں ''مہاجر'' کہے تو وہ جھنجھلا جاتے تھے۔ بات بھی سچ ہے، ان سے زیادہ فرزند زمین کون ہوسکتا تھا جس نے اپنی زندگی پاکستان کے عام انسانوں کے حقوق کے لیے اپنا عیش و آرام تج دیا۔ ان کے جگری دوست کرامت اور ان کے بیٹے جاویدکٹی کو ان کا پُرسہ۔
Load Next Story