خوش نصیب لوگ

وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اﷲ علم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اﷲ علم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ (فوٹو : ایکسپریس )

اکرم آج اسکول سے پہلی بار بھاگا تھا۔ وہ اسکول کے قریب واقع پارک میں جاکر بیٹھ گیا۔ وہ دل ہی دل میں خوف زدہ بھی تھا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا؟ یہ سوچ کر وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور جب اسکول کی چھٹی کا وقت ہوا تو گھر کی طرف چل پڑا۔

رات کو بستر پر لیٹا تو سوچ رہا تھا کہ اب وہ کبھی اسکول نہیں جائے گا مگر صبح اسے پھر اسکول جانا پڑا۔
اکرم پڑھنے لکھنے کا چور تھا۔ اس کے سب بہن بھائی پڑھتے تھے۔ اس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ اس کا کوئی دوست بھی نہ تھا جو اس کی پڑھائی میں مدد کرسکتا، اسے سمجھاتا کہ اس طرح وقت ضایع کرنا اچھی بات نہیں ہے۔

روزانہ اسکول سے غیرحاضر رہنا اب اکرم کا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن اسے پارک میں بیٹھے کافی دیر ہوگئی تو اس کا دل گھبرانے لگا۔ وہ باہر آکر گیٹ پر کھڑا ہوگیا۔ اسے کھڑے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ کندھے پر دبائو محسوس ہوا۔ اس نے خوف سے پلٹ کر دیکھا تو پارک کا چوکیدار کھڑا تھا۔ اس نے سُکھ کی سانس لی۔

چوکیدار بولا؛ ''مَیں روزانہ تمہیں یہاں دیکھتا ہوں۔ تم یونیفارم میں ہوتے ہو، کیا اسکول سے بھاگ کر آتے ہو؟''
''ہاں۔'' اکرم نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔


''کیوں؟'' اس نے سوال کیا۔
''مَیں پڑھنا نہیں چاہتا، میرے والدین مجھے زبردستی اسکول بھیج دیتے ہیں تو مَیں اسکول جانے کی بجائے یہاں آجاتا ہوں۔'' اکرم نے جواب دیا۔
''تم اپنا وقت ضایع کررہے ہو۔ ایسا نہ ہوکہ کل تمہیں پچھتانا پڑے۔'' چوکیدار نے کہا۔

''کیا مطلب؟'' اکرم نے سوال کیا۔
''کبھی میں بھی تمہاری طرح بچہ تھا۔ میرے والدین کا بھی خواب تھا کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں مگر مَیں ایسا نہ کرسکا۔ مَیں بھی اسکول جانے کی بجائے گلیوں میں کھیلتا رہتا۔ وقت گزرتا رہا اور میں جوان ہوگیا۔ چوںکہ تعلیم یافتہ نہ تھا اس لیے اچھی جگہ نوکری نہ ملی اور اب چوکیداری کررہا ہوں۔ تمہیں دیکھا تو سوچاکہ مجھے تو کسی نے نہ روکا مگر تم میری بات مانو اور تعلیم پر توجہ دو۔ ایسا نہ ہوکہ میرے والدین کی طرح تمہارے والدین کے خواب بھی بکھر جائیں۔

وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں اﷲ علم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جائو اور علم حاصل کرکے ان خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوجائو۔ '' چوکیدار نے کہا۔
''آپ کا بے حد شکریہ، آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ میں آپ کی باتوں پر عمل کروںگا اور ضرور علم حاصل کروںگا۔'' وہ نئے عزم اور ارادے کے ساتھ گھر کی طرف چل دیا۔ گھر پہنچا تو امی انتظار کررہی تھیں۔ انہوں نے اسے دیکھ کر کہا؛ ''میرا بیٹا! اسکول سے تھک کر آیا ہے۔ جلدی سے منہ ہاتھ دھوکر کھانا کھالو۔''

اکرم دل میں اپنی حرکت پر بے حد شرمندہ تھا۔ اس نے عزم کیا کہ وہ آیندہ ذوق وشوق اور محنت سے علم حاصل کرے گا۔ وہ چوکیدار کا بھی شُکرگزار تھا جس نے اسے سیدھا اور سچا راستہ دکھایا۔
Load Next Story