پاکستان کے خلاف جہاد کی وجہ اس کی امریکا سے دوستی اورکافرانہ نظام ہے حکیم اللہ محسود

افغانستان سےامریکی انخلا کے بعد بھی طالبان پراثر نہیں پڑے گا،ہم شریعت کےمطالبے کیلئےکارروائیاں جاری رکھیں گے،حکیم اللہ

حکومت نے مذاکرات میڈیا کے حوالے کر دیئے ہیں لیکن ہم اس طرح مذاکرات نہیں کریں گے،حکیم اللہ محسود فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود نے کہا ہے کہ پاکستان کے خلاف ''جہاد'' کی وجہ اس کی امریکا سے دوستی اور ملک کا ''کافرانہ نظام'' ہے۔

بی بی سی کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں حکیم اللہ محسود کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہونے والے معاہدوں کی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان خود ہے اور اس کے ان کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں کیونکہ پاکستانی حکومت امریکی دباؤ میں ہے، طالبان سنجیدہ مذاکرات کے قائل ہیں اور اگر مذاکرات کی سنجیدہ کوشش ہوئی تو وہ مذاکرات کر سکتے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے مذاکرات کے لیے کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا، مذاکرات کا مروجہ طریقہ ہے کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کا رسمی اعلان اور رسمی طور پر جرگہ بھجواتے، حکومت مروجہ طریقے پر عمل کے بجائے میڈیا کے ذریعے مذاکرات کی کوشش کررہی ہے جو انہیں قبول نہیں ، وہ میڈیا کے ذریعے حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے کیونکہ ہم میڈیا کے ساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ہیں نہ ہی حکومتی شرائط میڈیا سے سننا چاہتے ہیں اور نہ اپنی شرائط میڈیا کو دینا چاہتے ہیں۔ مذاکرات کے لئے اگر کوئی حکومتی جرگہ آیا تو وہ اسے مکمل تحفظ فراہم کریں گے۔


کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر کا کہنا تھا کہ 2014 میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد بھی تحریک طالبان پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ہم شریعت کے نفاذ کے مطالبے پر قائم اور اس کے نفاذ کے لئے کارروائیاں جاری رکھیں گے کیونکہ پاکستان کے خلاف ان کے جہاد کی دو وجوہات ہیں ایک پاکستان کی امریکا سے دوستی، جس کے لئے پاکستان میں کئی علما کو قتل اور مدارس کو تباہ کیا گیا اور دوسرا ملک میں رائج 'کافرانہ نظام' ہے۔

حکیم اللہ محسود کا کہنا تھا کہ انہیں علمائے دین کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل کا علم ہے لیکن جنگ بندی کی صورت میں ڈورن حملے بند ہونے چاہئیں، اگر ڈرون حملے بند ہوجاتے ہیں تو ہم بھی جنگ بندی کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے عوامی مقامات پر ہونے والے دھماکوں میں خفیہ ادارے ملوث ہیں جن کا مقصد عوام کو طالبان سے بدظن کرنا اور انہیں طالبان کے ساتھ تعاون سے روکنا ہے، طالبان نے کبھی بھی عوامی مقامات پر حملے نہیں کئے انہوں نے ماضی میں بھی اس کی تردید کی ہے اور اب بھی وہ ان کی تردید کرتے ہیں لیکن طاغوتی طاقتوں کے زیر اثر افراد اور امریکی دوستوں کو انہوں نے ماضی میں بھی نشانہ بنایا ہے اور آئندہ بھی بنائیں گے۔
Load Next Story