معاشی روڈ میپ کی طرف پیش قدمی ناگزیر

آئی ایم ایف نے اپنی نئی رپورٹ میں کیا دھماکا خیز اعتراف کیا ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے...

فوٹو: فائل

آئی ایم ایف نے اپنی نئی رپورٹ میں کیا دھماکا خیز اعتراف کیا ہے کہ روپے کی قدر کم ہونے اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے سے پاکستان میں مہنگائی بڑھ جائے گی۔ آیندہ برسوں میں معاشی ترقی کی شرح میں کمی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ رپورٹ کے مطابق مالی اور بیرونی خسارے کو کم کرنے کے اقدامات سے پاکستان کی شرح ترقی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے۔ سیاسی خطرات کے انڈیکس کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دنیا کے بلند ترین شرح والے ممالک میں ہوتا ہے۔ مقامی اور خطے کے عوامل بدستور ترقی کے لیے خطرے کا باعث بنے رہیں گے۔ ایک جگہ ارباب اختیار کو خبر دار کرتے ہوئے کہا گیا کہ خطے میں سیاسی پیشرفت ناکام ہونے سے اصلاحات میں تاخیر ہو گی۔

ملکی معیشت کے شب و روز اور مد و جزر پر گہری نگاہ ڈالنے کے بعد اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی مالیاتی فنڈ کی تازہ ترین رپورٹ پاکستان کے اقتصادی نظام، حکومتی اقدامات کی شروعات، معاشی روڈ میپ اور اقتصادی اصلاحات کے عوام کی زندگیوں پر ممکنہ مثبت اثرات اور سیاسی عملداری کے شعبے میں اب تک کے اقدامات کے حوالے سے ایک انتباہ اور ویک اپ کال ہے۔ اپنے متن کے اعتبار سے ان انکشافات اور پیشگوئیوں میں غور و فکر کا کافی سامان موجود ہے جب کہ اصل سوال یہ ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں ملکی اقتصادی ماہرین کس زاویہ نظر سے اس رپورٹ کا جائزہ لیں گے اور رپورٹ میں اٹھائے جانے والے نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آیندہ معاشی اصلاحات و اقدامات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پیش قدمی کی صورتحال کیا نتائج مرتب کرے گی۔ وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب بھر میں موسم سرما کے دوران تین ماہ تک کے لیے سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی سپلائی بند رہے گی۔

منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر پٹرولیم نے کہا کہ سردیوں میں گیس کی طلب میں اضافہ ہو جاتا ہے، گیس کے بحران کے باعث نومبر، دسمبر، جنوری کے دوران سی این جی اسٹیشنز بند رہیں گے کیونکہ گیس کی فراہمی کے حوالے سے حکومت کی پہلی ترجیح گھریلو صارفین اور پاور سیکٹر ہے، اس کے بعد فرٹیلائزر و دیگر شعبے ہیں، اس کے بعد سی این جی سیکٹر ہے۔ انھوں نے کہا کہ گھریلو صارفین اور پاور سیکٹر کو گیس کی فراہمی کے بعد سی این جی سیکٹر کے لیے گیس نہیں بچے گی جب کہ آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن نے سی این جی سیکٹر کو تین ماہ کے لیے گیس بند کرنے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میںبڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلے گی، گیس کی تقسیم کے نظام کو منصفانہ بنایا جائے۔ وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ احسن اقبال کے مطابق اگر آئی ایم ایف سے قرض نہ لیتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا۔


ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت 8 ارب ڈالر قرض لے کر ہڑپ کر گئی، خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امریکی غلامی سے آزاد ہونے کے خواہشمندوں کو ٹیکس بھی ادا کرنا چاہیے۔ جہاں تک وزراء کے بیانات، حکومت کے معاشی اقدامات اور سماجی و اقتصادی اصلاحات کے فوری نتائج کا تعلق ہے اسے بیان کرنے سے پہلے اس نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ عوامی توقعات کا سمندر موجزن ہے اور ریلیف کے منتظر عوام کی حالت ''عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب'' جیسی ہے، وہ بنیادی اقتصادی و سماجی تبدیلیاں جن کے لیے رائے دہندگان نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیے ہیں ابھی منظر عام پر آنے کو ہیں، حکومتی حلقے اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ابھی حکومت کو آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں، اسے کچھ وقت درکار ہے، دلیل منطقی ہے مگر ہر جمہوری حکومت اور فعال انتظامیہ معاشی روڈ میپ کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ماضی کا منظر نامہ الٹ پلٹ کر دیا جائے، ایسے معاشی کرشمے دکھائے جائیں کہ عوام کی امنگوں کی عکاسی بھی ہو جائے اور قوم میں نئی حکومت کے سماجی اور معاشی اہداف کے حوالے سے امید اور آرزوئوں کی شمعیں روشن ہوں۔

اب لازم ہے کہ ملک میں مروجہ طبقاتی نظام کا دی اینڈ ہو جائے، ''کہیں دیپ جلے کہیں دل'' والی دردناک معاشی صورتحال ختم ہونی چاہیے۔ روز افزوں مہنگائی، غربت، لوڈ شیڈنگ اور امن و امان کی اندوہناکی کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ بلاشبہ دہشت گردی کے خاتمہ اور اقتصادی بحالی کے لیے حکومت کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہے، ایک چومکھی لڑائی کا سماں ہے، مگر سماجی اضطراب عروج پر ہے، طالبان کی سرکشی کا سلسلہ جاری ہے۔ ملکی معاشرہ شدید نفسیاتی، ذہنی اور اعصابی تنائو کا شکار ہے، ایسے بہیمانہ جرائم کا ارتکاب ہو رہا ہے کہ دل دہل جاتے ہیں، اس یاسیت، بے یقینی اور خوف و ہراس کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے ٹھوس معاشی اقدامات کا دور رس نتائج پر منتج ہونا ناگزیر ہے، معیشت مستحکم ہونے کا مطلب جمہوری عمل اور سیاسی نظام کی مضبوطی ہے، معاشی افق پر عوامی اطمینان اور آسودگی نظر آ جائے تو ملکی جمہوری نظام کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا اور اگر معاشی صورتحال ڈانواں ڈول رہی تو آئی ایم ایف کی رپورٹ انجام کار لمحہ فکریہ کا درجہ پائے گی۔ معیشت کو بہرحال سیاسی استحکام کا رہبر و رہنما تسلیم کیا جانا چاہیے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ابتدائی طور پر توانائی' انفرااسٹرکچر ' روزگار اور ہائوسنگ سمیت گورننس کے چار کلیدی شعبہ جات میں حکومت کی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے ''پرفارمنس ڈلیوری یونٹ'' کے قیام کی خواہاں ہے۔ انھوں نے یہ بات منگل کو وزیر اعظم ہائوس میں برطانیہ کے خصوصی نمایندے سرمائیکل باربر کے ساتھ ملاقات میں کہی۔ وزیر اعظم نے اس امر کو اجاگر کیا کہ اسلوب حکمرانی' استعداد کار' خدمات کی فراہمی کے کلیدی شعبہ جات میں برطانیہ' ملائشیا جیسے ممالک کی بہترین پالیسیوں پر مبنی موثر نظام کے شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں، پاکستان اسی طرح کے موثر نظام کو اپنانا چاہتا ہے جس سے حکومت کے پالیسی فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے وزیر خزانہ اسحاق ڈار عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گئے جہاں دنیا بھر کے اقتصادی ماہرین اکٹھے ہو رہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قمرزمان کائرہ کا یہ شکوہ بھی دلچسپ ہے کہ موجودہ حکمراں پاکستان کے عوام کے نہیں لگتا ہے وہ آئی ایم ایف کے نمایندے ہیں۔

ادھر آئی ایم ایف کی رپورٹ میں امریکی شٹ ڈائون کی بازگشت بھی سنائی دی، رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کی قرضہ لینے کی حد میں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں عالمی معیشت کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔ امریکی معاشی بحران کی وجہ سے عالمی کساد بازاری بدترین صورتحال اختیار کر لے گی۔ ادھر صدر اوباما کا کہنا ہے کہ امریکا خود ساختہ بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا، شٹ ڈائون سے امریکی تشخص کو خطرات لاحق ہیں۔ دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو یہی صورتحال ہر اس ملک کی معیشت کے منظر نامہ میں ابھر سکتی ہے جس میں عوامی سہولتوں پر توجہ نہیں دی جاتی، یوں بھی خود ساختہ بحرانوں کے حوالے سے پاکستانی سیاست کی سخت جانی اور نرالی انفرادیت کا چرچا ہمیشہ رہا ہے جب کہ عوام نے ہر ظلم، ہر زیادتی اور محرومی پر اف تک نہیں کی، صرف اس لیے کہ جمہوریت کو موقع دیا جائے۔ اب بھی حکمرانوں کے لیے معاشی ترجیحات اور قومی سلامتی کے امور میں توازن اور عوامی خواہشات اور ان کو درپیش مسائل کے حل کی سمت پیش رفت کی جائے، غربت کا خاتمہ ہو، بجلی، گیس اور سی این جی کی فراہمی میں باقاعدگی لائی جائے۔
Load Next Story