چپ کی بغاوت ناقابلِ برداشت ہے
ثابت قدمی کے اعتبار سے کشمیر کی جدوجہد بھی کسی تحریک سے پیچھے نہیں رہی۔
آزادی کے لیے جدوجہد کا کوئی ایک راستہ یا فارمولا نہیں ہوتا۔ہر گروہ ، قوم یا نسل اپنی اپنی نفسیات ، محکومی کے تجربے ، غلام بنانے والوں کے ہتھکنڈوں ، اردگرد کے سیاسی رجحانات، جغرافیے اور معروضیت کے اعتبار سے راستے کا انتخاب کرتی ہے۔ضرورت اور تقاضے کے اعتبار سے جدوجہد میںلچک داری اور شدت آتی جاتی رہتی ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ عام لوگ آزادی کے طویل اور خونی سفر سے اکتا یاگھبرا کر چلنا ترک نہ کر دیں۔
افغانوں نے اپنے جغرافیائی حالات کے اعتبار سے ہر دور میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔الجزائر کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے عدم تشدد کی بنیاد پر سول نافرمانی کی راہ لی۔ پھر ہتھیار اٹھائے اور پھر مذاکرات کا راستہ چنا۔تب تک عالمی رائے عامہ بھی منڈیلا کے کاز کی ہمنوا ہو چکی تھی۔برصغیر کے لوگوں نے بغاوت ، سول نافرمانی، بات چیت سمیت آزادی کے سفر میں ہر اس ہتھیار سے کام لیا۔
جس سے منزل آسان ہو سکتی تھی۔مشرقی تیمور کے عوام نے پرتگیزیوں سے آزادی کے بعدانڈونیشیاکے قبضے کو نہ صرف مسلح جدوجہد کے ذریعے چیلنج کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے مقصد کا پرچار چابک دستی سے کرتے رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن اقوامِ متحدہ کو بھی موثر نوٹس لینا پڑا۔مشرقی تیمور کی آزادی اقوامِ متحدہ کی انگلیوں پر گنی جانے والی کامیابیوں میں شمار ہوتی ہے۔
آزادی کی تحریکوں کی ناکامی اور کامیابی کا دار و مدار اس پر بھی ہے کہ مقصد کا چراغ کسی قیمت پر بجھنا نہیں چاہیے اور ایک سے دوسری نسل تک اسی جوش اور ولولے کے ساتھ منتقل ہونا چاہیے۔حتیٰ کہ مقابل تھک جائے، بیزار ہو جائے یا عالمی برادری کے دباؤ کو سہارنے کے قابل نہ رہے یا پھر قبضہ اتنا مہنگا پڑ جائے کہ اس کی جانی و مالی قیمت غاصب کے معاشی وارے میں نہ آئے۔
اس کسوٹی پر سب سے بہتر آزادیِ فلسطین کی تحریک ہے۔بہتر برس سے چوتھی نسل کے ہاتھ میں مشعل ہے اور روشنی پہلے کے مقابلے میں اور بڑھ گئی ہے۔شروع شروع میں فلسطینی تحریک کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔کئی برس تک اس پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگانے کی بھی کوشش ہوئی۔ مگر اب امریکا اور اسرائیل کے سوا کوئی نہیں کہتا کہ فلسطینی ایک آزاد و خودمختار نارمل ریاست کے حقدار نہیں اور اسرائیل غاصب نہیں۔
ثابت قدمی کے اعتبار سے کشمیر کی جدوجہد بھی کسی تحریک سے پیچھے نہیں رہی۔مگر اس جدوجہد کو مطلوبہ نتائج اس لیے میسر نہ آ سکے کہ یہ تحریک وعدوں، وعدہ خلافی ، مسلح جدوجہد اور پھر بظاہر امن کی دلدل میں پھنسی رہی۔البتہ دو ہزار دس کے بعد سے اس تحریک کے ڈی این اے میں جوہری تبدیلی آئی۔نئی نسل پوری طرح سے قائل ہو گئی کہ سودے بازی یا لالی پاپ مزاحمت کا متبادل نہیں بن سکتا۔ اس ذہنی تبدیلی کے نتیجے میں انفرادی کے بجائے اجتماعی سطح پر موت کا خوف کشمیریوں کے دل سے نکل گیا۔
بھارت سے کچھ اچھے کے توقع کی رہی سہی امید بھی پانچ اگست کو پوری طرح سے دفن ہو گئی اور کیا بھارت نواز کیا بھارت دشمن ہر کشمیری کے ذہن سے خوش امیدی کا آخری کھٹکا بھی نکل گیا۔اب جدوجہد بھارت یا پاکستان کے ساتھ رہنے کے سوال پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم کشمیریوں کی بقا کی ہے۔اسی لیے بیرونِ ملک کشمیری پہلے سے زیادہ شرح صدر کے ساتھ برسلز، لندن، واشنگٹن اور نیویارک میں لابنگ کی اہمیت کے قائل ہو چلے ہیں اور بین الاقوامی فیصلہ سازوں سے پہلے کے مقابلے میں کہیں مربوط رابطوں میں ہیں۔
کشمیریوں کو بین الاقوامی حمایت کا دائرہ بڑھانے کی ہمیشہ ہی ضرورت رہی ہے لیکن اب وہ ایک ایسا تشہیری و رابطہ کار ڈھانچہ بنا رہے ہیں جس کا تکیہ کسی ایک یا دو ممالک کے مفادات یا خارجہ پالیسی پر نہ ہو۔
پانچ اگست کے بعد دوسری جوہری تبدیلی یہ آئی ہے کہ کشمیریوں نے پچھلے ستر دن میں ہر نکڑ پر کھڑے مسلح سپاہی کو ہدف بنانے کے بجائے اپنے غصے اور صدمے کو لاتعلقی کی شکل دے دی ہے۔شروع کے ڈیڑھ ماہ تو قابض انتظامیہ چاہ رہی تھی کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن رہے۔تاکہ لوگ اس سے تنگ آ کر نئی صورتحال سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
لیکن اب کشمیریوں نے اسی لاک ڈاؤن کو خود قابض انتظامیہ پر الٹ دیا ہے۔یعنی اسکول کھلے ہوئے ہیں مگر بچے گھر پر ہیں۔انتظامیہ نے اسکول کی بس مالکان کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ خالی بسیں دوڑاتے رہیں تاکہ کم ازکم سڑک پر یہ دکھائی دے کہ اسکولی بسیں آ رہی ہیں جا رہی ہیں۔سڑکوں پر سویلین گاڑیاں لانے پر بظاہر کوئی پابندی نہیں مگر ہر سو قدم پر چیک پوسٹ ہونے کے سبب لوگ خوامخواہ کا سفر کرنے سے کترا رہے ہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ کھول دی گئی ہے مگر کوئی ٹرانسپورٹر جموں اور سری نگر کے درمیان خالی بسیں کیوں چلائے؟
حالات نارمل دکھانے کے لیے سیاحوں پر سے پابندی اٹھا لی گئی ہے۔مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ کشمیر میں سیاحت کا سیزن ستمبر میں ختم ہو جاتا ہے۔لہٰذا جھیل ڈل کے نو سو شکارے اور وادی کے تیرہ سو ہوٹل اگلے سیزن تک خالی ہی رہیںگے۔بازاروںمیں سوائے پھل، سبزی، گوشت، کریانے اور ادویات کی دوکانوں کے کوئی دوکان کم ہی کھلتی ہے اور یہ دکانیں بھی صبح یا شام میں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کھولی جاتی ہیں۔یہ پابندیاں کسی جہادی تنظیم یا بھارتی انتظامیہ نے نہیں لگائی بلکہ کشمیریوں نے خود پر لگا لی ہیں۔
مزاحمت کا یہ نیا روپ بھارت کے لیے خاصا پریشان کن ہے۔کیونکہ احتجاجی مظاہروں ، مسلح تصادم ، پتھراو ، آنسو گیس اور پیلٹ گنز کے استعمال کی تصاویر میڈیا پر دکھا کے کہا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کو سرحد پار سے ورغلایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ سکوت جسے بھارت شروع کے دو ماہ کشمیریوں کی رضامندی کے طور پر دنیا میں بیچتارہا، اب وہی سکوت بھارت کو نفسیاتی طور پر ڈسنے لگا ہے۔
اب بھارت چاہتا ہے کہ کشمیری سب بھول بھال کر ایک نارمل زندگی شروع کر دیں۔مگر کشمیری اس کے لیے ہرگز تیار نہیں۔بھارتی انتظامیہ اس مزاحمتی سکوت سے کتنی پریشان ہے۔اس کا اندازہ پچھلے ہفتے اخبارات میں پورے صفحے کے اس سرکاری اشتہار سے ہو سکتا ہے۔
'' کاروبار بند رکھنے کا فائدہ کسے ہے؟ کیا ہم انتہا پسندی کے آگے جھک جائیں؟ذرا سوچیے۔پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے ؟ ستر سال سے کشمیریوں کو گمراہ کر کے انھیں تشدد اور دہشت گردی کے چنگل میں پھنسا کے رکھا گیا۔
علیحدگی پسندوں نے اپنے بچوں کو تو بیرونِ ملک پڑھنے بھیجا مگر یہاں کے بچوں کو پتھراؤ اور ہڑتالوں پر لگائے رکھا۔آج ہم چوراہے پر کھڑے ہیں۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کیا ہم خوف و دہشت کے یرغمال بنے رہیں اور چند پوسٹروں اور دھمکیوں سے ڈرتے رہیں۔کیا کاروبار بند رکھ کے، روزی نہ کما کر، اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھ کے ہم خود پر کشمیر کی ترقی کے دروازے بند نہیں کر رہے؟ یہ ہمارا گھر ہے۔آخر ہم کیوں کسی سے ڈریں ؟ منجانب حکومت ِ جموں و کشمیر''۔
بھارتی انتظامیہ نے حالات نارمل دکھانے کے لیے چوبیس اکتوبر کو بلاک ڈویلپمنٹ کونسل کے انتخابات کا بھی اعلان کیا ہے۔لیکن بی جے پی اور جنتا دل یونائیٹڈ کے علاوہ کوئی بھی جماعت اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی۔ حتیٰ کہ کانگریس نے بھی بائیکاٹ کر دیا ہے۔
جموں کی ہندو اکثریت پانچ اگست کے اعلان سے خوش تھی۔مگر اس خوشی میں وہ یہ بھول گئے کہ ان کا پچاس فیصد لین دین وادی سے جڑا ہوا ہے اور وادی میں کاروبار سو فیصد ٹھپ ہے۔چنانچہ اب وہاں کے تاجر چیخ رہے ہیں کہ پانچ اگست کو کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے اگر بھارتی حکومت نے وادی کی ایک آنکھ نکال دی تو ہماری تو دونوں آنکھیں چلی گئیں۔اس پر ہم پر یہ دباؤ بھی مسلسل ہے کہ جموں کے لوگوں کو نئے حالات میں خوش نظر آنا ہے۔
گجر اور بکروال برادری کے رہنماؤں نے بھی بھارتی حکومت کی یہ دلیل مسترد کر دی ہے کہ نئے کشمیر میں ان کے لیے اسمبلی کی نمایندگی اور ملازمتوں میں کوٹہ مختص کیا جا رہا ہے۔برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی پہلے بھی بغیر کوٹے کے ٹھیک تھی اور نئے اقدامات سے اس میں کوئی سدھار نہیں آئے گا۔بلکہ ہم نے اگر نئے کوٹے کی حمایت کی تو باقی کشمیری ہمیں غدار سمجھیں گے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اگر انتظار کر رہی ہے کہ ایک بار پابندیاں ہٹ جائیں تو کشمیری سیلاب کے ریلے کی طرح نکلیں گے اور سب بہا کے لے جائیں گے۔تو سمجھ لیجیے کہ ہر دس کشمیریوں پر ایک فوجی کے تناسب سے نو لاکھ قابض فوج کی موجودگی میں فوری طور پر تو ایسا نہیں ہونے والا۔مگر مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی، اب وہ ایک چپ بائیکاٹ اور لاتعلقی کے روپ میں آگے بڑھ رہی ہے اور حکومتِ بھارت کے پاس اس کے توڑ کے لیے فی الحال کوئی ہتھیار نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
افغانوں نے اپنے جغرافیائی حالات کے اعتبار سے ہر دور میں مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور کامیاب بھی ہوئے۔الجزائر کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے عدم تشدد کی بنیاد پر سول نافرمانی کی راہ لی۔ پھر ہتھیار اٹھائے اور پھر مذاکرات کا راستہ چنا۔تب تک عالمی رائے عامہ بھی منڈیلا کے کاز کی ہمنوا ہو چکی تھی۔برصغیر کے لوگوں نے بغاوت ، سول نافرمانی، بات چیت سمیت آزادی کے سفر میں ہر اس ہتھیار سے کام لیا۔
جس سے منزل آسان ہو سکتی تھی۔مشرقی تیمور کے عوام نے پرتگیزیوں سے آزادی کے بعدانڈونیشیاکے قبضے کو نہ صرف مسلح جدوجہد کے ذریعے چیلنج کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے مقصد کا پرچار چابک دستی سے کرتے رہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن اقوامِ متحدہ کو بھی موثر نوٹس لینا پڑا۔مشرقی تیمور کی آزادی اقوامِ متحدہ کی انگلیوں پر گنی جانے والی کامیابیوں میں شمار ہوتی ہے۔
آزادی کی تحریکوں کی ناکامی اور کامیابی کا دار و مدار اس پر بھی ہے کہ مقصد کا چراغ کسی قیمت پر بجھنا نہیں چاہیے اور ایک سے دوسری نسل تک اسی جوش اور ولولے کے ساتھ منتقل ہونا چاہیے۔حتیٰ کہ مقابل تھک جائے، بیزار ہو جائے یا عالمی برادری کے دباؤ کو سہارنے کے قابل نہ رہے یا پھر قبضہ اتنا مہنگا پڑ جائے کہ اس کی جانی و مالی قیمت غاصب کے معاشی وارے میں نہ آئے۔
اس کسوٹی پر سب سے بہتر آزادیِ فلسطین کی تحریک ہے۔بہتر برس سے چوتھی نسل کے ہاتھ میں مشعل ہے اور روشنی پہلے کے مقابلے میں اور بڑھ گئی ہے۔شروع شروع میں فلسطینی تحریک کو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا تھا۔کئی برس تک اس پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگانے کی بھی کوشش ہوئی۔ مگر اب امریکا اور اسرائیل کے سوا کوئی نہیں کہتا کہ فلسطینی ایک آزاد و خودمختار نارمل ریاست کے حقدار نہیں اور اسرائیل غاصب نہیں۔
ثابت قدمی کے اعتبار سے کشمیر کی جدوجہد بھی کسی تحریک سے پیچھے نہیں رہی۔مگر اس جدوجہد کو مطلوبہ نتائج اس لیے میسر نہ آ سکے کہ یہ تحریک وعدوں، وعدہ خلافی ، مسلح جدوجہد اور پھر بظاہر امن کی دلدل میں پھنسی رہی۔البتہ دو ہزار دس کے بعد سے اس تحریک کے ڈی این اے میں جوہری تبدیلی آئی۔نئی نسل پوری طرح سے قائل ہو گئی کہ سودے بازی یا لالی پاپ مزاحمت کا متبادل نہیں بن سکتا۔ اس ذہنی تبدیلی کے نتیجے میں انفرادی کے بجائے اجتماعی سطح پر موت کا خوف کشمیریوں کے دل سے نکل گیا۔
بھارت سے کچھ اچھے کے توقع کی رہی سہی امید بھی پانچ اگست کو پوری طرح سے دفن ہو گئی اور کیا بھارت نواز کیا بھارت دشمن ہر کشمیری کے ذہن سے خوش امیدی کا آخری کھٹکا بھی نکل گیا۔اب جدوجہد بھارت یا پاکستان کے ساتھ رہنے کے سوال پر نہیں بلکہ بحیثیت قوم کشمیریوں کی بقا کی ہے۔اسی لیے بیرونِ ملک کشمیری پہلے سے زیادہ شرح صدر کے ساتھ برسلز، لندن، واشنگٹن اور نیویارک میں لابنگ کی اہمیت کے قائل ہو چلے ہیں اور بین الاقوامی فیصلہ سازوں سے پہلے کے مقابلے میں کہیں مربوط رابطوں میں ہیں۔
کشمیریوں کو بین الاقوامی حمایت کا دائرہ بڑھانے کی ہمیشہ ہی ضرورت رہی ہے لیکن اب وہ ایک ایسا تشہیری و رابطہ کار ڈھانچہ بنا رہے ہیں جس کا تکیہ کسی ایک یا دو ممالک کے مفادات یا خارجہ پالیسی پر نہ ہو۔
پانچ اگست کے بعد دوسری جوہری تبدیلی یہ آئی ہے کہ کشمیریوں نے پچھلے ستر دن میں ہر نکڑ پر کھڑے مسلح سپاہی کو ہدف بنانے کے بجائے اپنے غصے اور صدمے کو لاتعلقی کی شکل دے دی ہے۔شروع کے ڈیڑھ ماہ تو قابض انتظامیہ چاہ رہی تھی کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن رہے۔تاکہ لوگ اس سے تنگ آ کر نئی صورتحال سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔
لیکن اب کشمیریوں نے اسی لاک ڈاؤن کو خود قابض انتظامیہ پر الٹ دیا ہے۔یعنی اسکول کھلے ہوئے ہیں مگر بچے گھر پر ہیں۔انتظامیہ نے اسکول کی بس مالکان کو پابند کر رکھا ہے کہ وہ خالی بسیں دوڑاتے رہیں تاکہ کم ازکم سڑک پر یہ دکھائی دے کہ اسکولی بسیں آ رہی ہیں جا رہی ہیں۔سڑکوں پر سویلین گاڑیاں لانے پر بظاہر کوئی پابندی نہیں مگر ہر سو قدم پر چیک پوسٹ ہونے کے سبب لوگ خوامخواہ کا سفر کرنے سے کترا رہے ہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ کھول دی گئی ہے مگر کوئی ٹرانسپورٹر جموں اور سری نگر کے درمیان خالی بسیں کیوں چلائے؟
حالات نارمل دکھانے کے لیے سیاحوں پر سے پابندی اٹھا لی گئی ہے۔مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ کشمیر میں سیاحت کا سیزن ستمبر میں ختم ہو جاتا ہے۔لہٰذا جھیل ڈل کے نو سو شکارے اور وادی کے تیرہ سو ہوٹل اگلے سیزن تک خالی ہی رہیںگے۔بازاروںمیں سوائے پھل، سبزی، گوشت، کریانے اور ادویات کی دوکانوں کے کوئی دوکان کم ہی کھلتی ہے اور یہ دکانیں بھی صبح یا شام میں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کھولی جاتی ہیں۔یہ پابندیاں کسی جہادی تنظیم یا بھارتی انتظامیہ نے نہیں لگائی بلکہ کشمیریوں نے خود پر لگا لی ہیں۔
مزاحمت کا یہ نیا روپ بھارت کے لیے خاصا پریشان کن ہے۔کیونکہ احتجاجی مظاہروں ، مسلح تصادم ، پتھراو ، آنسو گیس اور پیلٹ گنز کے استعمال کی تصاویر میڈیا پر دکھا کے کہا جا سکتا ہے کہ کشمیریوں کو سرحد پار سے ورغلایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ سکوت جسے بھارت شروع کے دو ماہ کشمیریوں کی رضامندی کے طور پر دنیا میں بیچتارہا، اب وہی سکوت بھارت کو نفسیاتی طور پر ڈسنے لگا ہے۔
اب بھارت چاہتا ہے کہ کشمیری سب بھول بھال کر ایک نارمل زندگی شروع کر دیں۔مگر کشمیری اس کے لیے ہرگز تیار نہیں۔بھارتی انتظامیہ اس مزاحمتی سکوت سے کتنی پریشان ہے۔اس کا اندازہ پچھلے ہفتے اخبارات میں پورے صفحے کے اس سرکاری اشتہار سے ہو سکتا ہے۔
'' کاروبار بند رکھنے کا فائدہ کسے ہے؟ کیا ہم انتہا پسندی کے آگے جھک جائیں؟ذرا سوچیے۔پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنے کا فائدہ کسے پہنچ رہا ہے ؟ ستر سال سے کشمیریوں کو گمراہ کر کے انھیں تشدد اور دہشت گردی کے چنگل میں پھنسا کے رکھا گیا۔
علیحدگی پسندوں نے اپنے بچوں کو تو بیرونِ ملک پڑھنے بھیجا مگر یہاں کے بچوں کو پتھراؤ اور ہڑتالوں پر لگائے رکھا۔آج ہم چوراہے پر کھڑے ہیں۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ کیا ہم خوف و دہشت کے یرغمال بنے رہیں اور چند پوسٹروں اور دھمکیوں سے ڈرتے رہیں۔کیا کاروبار بند رکھ کے، روزی نہ کما کر، اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں سے دور رکھ کے ہم خود پر کشمیر کی ترقی کے دروازے بند نہیں کر رہے؟ یہ ہمارا گھر ہے۔آخر ہم کیوں کسی سے ڈریں ؟ منجانب حکومت ِ جموں و کشمیر''۔
بھارتی انتظامیہ نے حالات نارمل دکھانے کے لیے چوبیس اکتوبر کو بلاک ڈویلپمنٹ کونسل کے انتخابات کا بھی اعلان کیا ہے۔لیکن بی جے پی اور جنتا دل یونائیٹڈ کے علاوہ کوئی بھی جماعت اس الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی۔ حتیٰ کہ کانگریس نے بھی بائیکاٹ کر دیا ہے۔
جموں کی ہندو اکثریت پانچ اگست کے اعلان سے خوش تھی۔مگر اس خوشی میں وہ یہ بھول گئے کہ ان کا پچاس فیصد لین دین وادی سے جڑا ہوا ہے اور وادی میں کاروبار سو فیصد ٹھپ ہے۔چنانچہ اب وہاں کے تاجر چیخ رہے ہیں کہ پانچ اگست کو کشمیر کی خود مختاری ختم کر کے اگر بھارتی حکومت نے وادی کی ایک آنکھ نکال دی تو ہماری تو دونوں آنکھیں چلی گئیں۔اس پر ہم پر یہ دباؤ بھی مسلسل ہے کہ جموں کے لوگوں کو نئے حالات میں خوش نظر آنا ہے۔
گجر اور بکروال برادری کے رہنماؤں نے بھی بھارتی حکومت کی یہ دلیل مسترد کر دی ہے کہ نئے کشمیر میں ان کے لیے اسمبلی کی نمایندگی اور ملازمتوں میں کوٹہ مختص کیا جا رہا ہے۔برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی پہلے بھی بغیر کوٹے کے ٹھیک تھی اور نئے اقدامات سے اس میں کوئی سدھار نہیں آئے گا۔بلکہ ہم نے اگر نئے کوٹے کی حمایت کی تو باقی کشمیری ہمیں غدار سمجھیں گے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اگر انتظار کر رہی ہے کہ ایک بار پابندیاں ہٹ جائیں تو کشمیری سیلاب کے ریلے کی طرح نکلیں گے اور سب بہا کے لے جائیں گے۔تو سمجھ لیجیے کہ ہر دس کشمیریوں پر ایک فوجی کے تناسب سے نو لاکھ قابض فوج کی موجودگی میں فوری طور پر تو ایسا نہیں ہونے والا۔مگر مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی، اب وہ ایک چپ بائیکاٹ اور لاتعلقی کے روپ میں آگے بڑھ رہی ہے اور حکومتِ بھارت کے پاس اس کے توڑ کے لیے فی الحال کوئی ہتھیار نہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)