لندن میں سات روز

وہاں پاکستان تو کیا پوری اسلامی دنیا سے متعلق ایک بھی کردار موجود نہیں تھا۔

Amjadislam@gmail.com

لندن کے ہیتھرو ایئرپورٹ پر یوں تو ہر چیز قاعدے سے ہے اور اس کا شمار دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں میں ہوتا ہے مگر طویل پروازوں کے بعد یہاں کی امیگریشن کی لائنوںمیں کھڑا ہونا اپنی جگہ پر ایک امتحان ہے کہ متعلقہ عملے کی مستعدی کے باوجود نکلتے نکلتے کم از کم ایک گھنٹہ تو لگ ہی جاتا ہے۔

سو اس بار بھی ایسا ہی ہوا، دونوں ساتھی یعنی انور مسعود اور رحمن فارس بھی الگ الگ پروازوں پر آ رہے تھے، اس لیے یہ ایک ایک قدم کر کے گھسیٹنا اور بھی بڑا لگا، یہ اور بات ہے کہ میزبانوں کی محبت بھری آنکھیں اس تھکن اور تھکاوٹ کو بہت جلد ختم کر دیتی ہیں۔

عزیزی وقار، انتظامیہ اور راجہ قیوم ذاتی محبت سے چشم براہ تھے۔ معلوم ہوا کہ انور مسعود ایک دن قبل امریکا سے براہ راست لندن پہنچ چکے ہیں اور اب ایئرپورٹ اور سلاؤ کے بیچ ہالی ڈے ان ہوٹل میں میرا انتظار کر رہے ہیں مگر وقار کو علم نہیں تھا کہ انھیں آج صبح اسی ہوٹل کی ایک نزدیکی برانچ میں شفٹ کر دیا گیا ہے جہاں ہم سب کو مل کر آیندہ سات دن گزارنے تھے جب کہ اس کے ساتھ ایکسپریس کا لاحقہ بھی لگتا تھا اور یہ دو تین موٹرویز کے نواح میں واقع تھا۔

بھارت سے آنے والے نوجوان شاعر عمران پرتاب گڑھی کا نام تو میں نے سن رکھا تھا اور یہ بھی سنا تھا کہ اس وقت وہ بھارت میں سب سے زیادہ مقبول اور سنا جانے والا شاعر ہے مگر ابھی تک اس کا کلام پڑھنے یا سننے کا موقع نہیں ملا تھا۔ منتظمین نے بتایا کہ اس کی مزاحمتی اور جوشیلی نظمیں یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر بے حد مقبول ہیں اور مودی کے بھارت میں مسلمان نام کے ساتھ رہنے کے باوجود وہ کشمیر اور فلسطین سمیت ظلم کے ہر مظہر کے خلاف کھل کر بولتا ہے اور بڑے بڑے مجمعوں کو اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔

اس تعارف کے پیش نظر اس کی جو صورت ذہن میں بنتی تھی اس کے برخلاف وہ ایک خوش رو' تعلیم یافتہ' مہذب اور زندہ دل نوجوان نکلا اور سارے سفر کے دوران اس کے یہ اوصاف مزید کھلتے چلے گئے جہاں تک رحمن فارس کا تعلق ہے تو وہ بھی اس وقت پاکستانی شاعروں کی جدید نسل کا ایک انتہائی مقبول اور باصلاحیت شاعر ہے۔


ابھی حال ہی میں اس کا پہلا شعری مجموعہ ''عشق بخیر'' کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔ اتفاق سے اس کا گزشتہ پندرہ برس کا شعری سفر نہ صرف میرے سامنے ہوا ہے اور ذاتی طور پر وہ مجھے بے حد عزیز بھی ہے اور مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کہ وہ تمام تر جدید مضامین کے باوجود زبان و بیان اور کلاسیکی شاعری کا بہت ذہین اوراچھا طالب علم بھی ہے اگرچہ اسے پاکستان کی بیوروکریسی میں شامل ہوئے بھی دس بارہ برس ہو چکے ہیں مگر اس کے چہرے پر ابھی بھی بچوں والی حیرت اور معصومیت برقرار ہے، ان دونوں نوجوانوں نے میرا اور بالخصوص انور مسعود کا خیال رکھا، وہ ایک بہت خوشگوار احساس اور تجربہ تھا جس کی وجہ سے یہ سفر مزید پر لطف اور آسان ہو گیا۔

جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں بتایا تھا کہ یہ مشاعراتی دورہ اپنی بنیاد میں یو کے آئی ایم کے ایک فنڈ ریزنگ پروگرام کا حصہ ہے۔ یہ تنظیم 1962 میں قائم ہوئی تھی اور اس کا کام اور کارنامے ایسے ہیں کہ انھیں چند لفظوں میں سمونا ممکن ہی نہیں، اس وقت بھی اس کے موجودہ سربراہ ریاض ولی صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ میرپور آزاد کشمیر میں زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے پہنچے ہوئے ہیں۔

اس اسلامک مشن کی شاخیں اور اس کے زیرانتظام چلنے اور بننے والی مسجدیں سارے برطانیہ میں پھلی ہوئی ہیں، اس کے بیشتر کارندے رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور میں پہلے بھی ان کی مستعدی کے کمالات ''الخدمت'' اور ''غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ'' کے اشتراک سے منعقد کیے جانے والے پروگراموں میں دیکھ چکا تھا، معلوم ہوا کہ اس بار یہ اپنے طور پر مشاعروں کی وساطت سے فنڈریزنگ کر رہے ہیں اور اس کے لیے لندن اور اس کے نواح (ملٹن کینز) میں تین مشاعروں کے بعد برمنگھم' بریڈ فورڈ اور نیلسن میں تین مزید پروگراموں کا انتظام کیا گیا ہے جو چار، پانچ ،چھ اکتوبر اور اس کے بعد گیارہ، بارہ اور تیرہ اکتوبر کو منعقد ہوں گے کہ یہ دن جمعہ، ہفتہ اور اتوار بنتے ہیں اور انھی دنوں میں لوگوں کو آسانی سے اکٹھا بھی کیا جا سکتا ہے کہ پورے مغرب میں ویک اینڈز کے علاوہ لوگ اس لیے بھی جمع نہیں ہو پاتے کہ وہاں کام کے دنوں یعنی (Working days) کا مطلب سچ مچ ''کام کے دن'' ہی ہوتا ہے۔

لندن کے پروگراموں کے لیے ہماری دیکھ بھال اور آمدورفت کی ذمے داری برادر عزیز سہیل ضرار خلش کے اور اگلے تین مشاعروں کے لیے عزیزی شعیب تابانی کے سپرد تھی اور ان دونوں نوجوانوں نے اپنے فرض کو اس احسن طریقے سے نبھایا کہ جی خوش ہو گیا۔ مہمانوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا اور اسے بروقت اور خوش دلی سے پیش کرنا ایک ایسا وصف تھا جس سے یہ دونوں نوجوان مکمل طور پر بہرہ مند تھے۔

مشاعروں کے پہلے دور کے خاتمے پر ہمارے پاس چار دن تھے جن کے دوران مادام تساؤ کے مومی عجائب گھر اور لندن آئی کی سیر کے علاوہ اسلام ٹی وی میں ڈیڑھ گھنٹے پر محیط لائیو مشاعرے کے علاوہ برادرم احسان شاہد کی بزم سخن کی استقبالیہ تقریب اور بہت ہی عزیز دوست ساجد خان کے ال خیمہ نامی نئے اور شاندار ریستوران میں عربی اور پاکستانی کھانوں کے امتزاج پر مشتمل پر لطف ڈنر بھی شامل تھا جس کی اضافی خوبی یہ تھی کہ یہاں بھارت سے آئے ہوئے عزیز دوست اور بہت عمدہ لکھاری جاوید صدیقی' ان کی بیگم' بی بی سی کی سابقہ پروڈیوسر' برطانیہ کے اہم سرکاری ایوارڈ کی حامل اور برطانوی نیوی کی فی الوقت اعزازی کمانڈر دردانہ انصاری اور برادرم ڈاکٹر جاوید شیخ ان کے کرکٹر داماد یاسر عرفات اور عزیزی راشد عدیل ہاشمی سمیت بہت سے نئے اور پرانے احباب سے بھی ملاقات ہو گئی اور یوں یہ شام ایک یاد گار شام بن گئی۔

مادام تساؤ کے مومی عجائب گھر سے پہلا تعارف 1989 میں ہوا تھا، اس وقت میری بیگم اور عزیز دوست مکرم جاوید سید اور اس کی اطالوی بیگم بھی ساتھ تھے۔ اس کے بعد کے بارہ تیرہ لندنی دوروں میں بھی تین چار بار وہاں جانا ہوا سو اب بظاہر اس یاترا کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی مگر ہوا یوں کہ عزیزی عمران پرتاب گڑھی کا یہ پہلا دورہ لندن تھا سو اس کے لیے لندن کی اس اہم پہچان کو دیکھنا ایک اہم واقعہ تھا، یہ تو مجھے معلوم تھا کہ وہاں کے بیشتر مجسمے وقت کے ساتھ ساتھ بدل دیے جاتے ہیں سو اس بار بھی کئی نئے اضافوں سے ملاقات ہوئی مگر ایک بات بے حد تکلیف دہ تھی کہ وہاں پاکستان تو کیا پوری اسلامی دنیا سے متعلق ایک بھی کردار موجود نہیں تھا، اب اسے انگریز کا تعصب کہیے یا ہماری ناکردہ کاری مگر یہ صورت حال ہرگز خوشگوار نہیں تھی جب کہ بھارت کے ایکٹروں' سیاستدانوں اور کھلاڑیوں کے مجسمے خاصی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اسی لمحہ فکریہ پر اس کالم کو ختم کرتے ہیں۔
Load Next Story