گاڑی کی آواز سن کر اس کی خرابی بتا سکتی ہوں کار مکینک عظمیٰ نواز

عظمی نواز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں دنیا پور سے تعلق رکھتی ہیں۔

عظمی نواز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں دنیا پور سے تعلق رکھتی ہیں۔ فوٹو: فائل

MELBOURNE:
عظمیٰ نواز پاکستان کی پہلی کار مکینک خاتون ہیں، انہوں نے ثابت کیا ہے کہ کٹھن میدانوں میں بھی لڑکیاں خود کو منوا سکتی ہیں اور وہ بھی اپنی مثبت سوچ کی بنا پر غربت کو بھی ہرا سکتی ہیں۔

بس ہر کام کے ہمت اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ سادہ سے ماحول میں پلنے والی عظمیٰ منفرد صلاحتوں کی حامل ہیں۔ اس کے والد ایک کسان ہیں۔ اس نے نہ صرف تعلیم بلکہ پروفیشن کے علاوہ گھریلو امور بھی سر انجام دی ہیں۔ ان کے والدین انہیں اس شعبے میں نہیں لانا چاہتے تھے، کیوں کہ یہ معاشرے میں لڑکیوں کے لیے رجحانات کے برعکس تھا، دوسری بات یہ کہ اگر ایک لڑکی یہ کام کرتی نہ صرف اسے، بلکہ اس کے خاندان کو بھی عجیب عجیب باتوں کا سامنا کرنا پڑتا، مگر بیٹی کے شوق اور حوصلے پر انہوں نے ہامی بھر لی۔

پاکستان میں انجن کی مرمت کا کام ان کاموں میں شامل تھا، جسے خاص طور پر مردوں سے ہی جوڑا جاتا تھا۔ اس کام کو آج سے پہلے کسی لڑکی نے نہیں کیا۔ عظمی نواز پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں دنیا پور سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس کام میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیوں کہ شروع میں لوگ انہیں دیکھ کر بہت حیرت کا اظہار کرتے تھے، مگر آہستہ آہستہ ان کی اس کام میں مہارت دیکھ کر لوگ ان کے کام کے معترف ہونے لگے۔

گھریلو حالا ت اور مشکلات کے باوجود انہوں نے خود کو اس کام میں منوایا، جو ان سے پہلے کسی لڑکی نے نہیں کیا۔ پاکستان میں ایک لڑکی کا بھاری انجنوں کا کام کرنا ہی ہی ایک عجیب بات تھی۔ ان کی تعلیم سے لے کر ملتان کی آٹو ریپئر ورک شاپ میں کام کرنے تک، انہیں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر انسان ہمت کرے، تو کیا نہیں ہو سکتا۔ 24 سال کی عمر میں عظمیٰ نے خود کو ماہر موٹر مکینک ثابت کیا۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر کاری گروں کا کہنا ہے کہ وہ بالکل مردوں کی طرح کام کرتی ہیں، یہ کسی طور پر بھی ہم سے کم نہیں۔ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں جتنی بھی ترقی ہو جائے، مگر ابھی بھی کئی شعبے ایسے ہیں، جو مردوں کے لیے مخصوص سمجھے جاتے ہیں، مگر اس لڑکی نے ثابت کیا ہے کہ لڑکیاں چاہیں تو کوئی بھی کام کر سکتی ہیں۔


عظمیٰ کا کہنا ہے انہیں اس راستے میں بہت سی مشکلات پیش آئیں، مگر انہوں نے ان سب کا مقابلہ بہادری سے کیا اور اپنے والدین کے لیے فخر بنیں اور یہ لڑکیاں کسی سے کم نہیں انہیں بھی آگے آنا چاہیے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علم کو حاصل کر کے اور بڑھانا ہے۔

ہم میں سے بہت سی عورتیں برے حالات سے مقابلہ کرنے کے بجائے ہمت ہار جاتی ہیں، کیوں کہ ہمیں لگتا ہیں کہ ہم مردوں کے مقابلے میں کم زور ہیں، لیکن ایسا نہیں عورتوں میں میں محنت اور کام کی صلاحیت ہے۔

عظمیٰ کے لیے یہ کام ایک چیلینج تھا، جسے انہوں نے شدید مالی مشکلات کے باوجود پورا کیا۔ ان کا کہناہے ان کی تعلیم ان کے وظائف سے پوری ہوئی اور کبھی کبھی وظائف بھی کم پڑتے تو انہیں پیٹ کاٹ کر بھی گزارا کرنا پڑتا، مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہوں نے تمام پاکستانی خواتین کے لیے ہمت حوصلے اور حالات سے لڑنے کی ایک مثال قائم کی ہے۔

عام طور پر پاکستان میں لڑکیوں کو کیرئر بنانے کے بہ جائے گاؤں میں واجبی تعلیم کے بعد شادی کا رجحان ہے، مگر انہوں نے نہ صرف ایک سال کے اندر اپنا نام بنایا، بلکہ اس کام میں ترقی بھی کی۔ انہوں نے اس گیراج میں انتہائی محنت اور لگن سے کام کیا۔ وہ نہایت مہارت سے گاڑی کو مشین سے اوپر اٹھانے سے لے کر اسے ٹھیک کرنے تک بالکل مردوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ گاڑی کی آواز سن کر اس کی خرابی بتا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں سے متعلقہ ہر خرابی دور کر سکتی ہیں۔

عظمیٰ کا کام اور مہارت پاکستانی خواتین کے لیے ایک پیغام ہے کہ مخصوص شعبوں کے علاوہ دوسرے شعبوں میں کام کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اس کام میں عزت پائی ہے، بلکہ خواتین کو بھی ایک نئی سوچ اور نیا راستہ دکھایا ہے۔
Load Next Story