بے اولاد خواتین بھی برابر کی انسان ہیں۔۔۔

اولاد سے محرومی پر ہَتک بے شمار زندگیوں کو اجیرن کر رہی ہے

اولاد سے محرومی پر ہَتک بے شمار زندگیوں کو اجیرن کر رہی ہے۔ فوٹو: فائل

بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں عورت کی حیثیت کسی خریدی گئی جنس کی طرح ہے، جس پر ایک مرد مکمل اجارہ داری رکھتا ہے، شاید یہ سوچ صدیوں سے چلی آ رہی ہے، اس ملکیتی حیثیت نے عورت کے سماجی حیثیت کا تعین اور،ذہنی، جذباتی نشوونما اس انداز میں کی ہے کہ چار دیواری کے اندر خواتین کا کردار زیادہ تر نسل انسانی کو آگے بڑھانا ہی سمجھ لیا گیا ہے۔

شادی کے بعد سے ہی لوگ یہی سننے کے لیے کان لگائے ہوتے ہیں اور اگر ایک سال گزرنے کے بعد بھی کوئی امید نہ دکھائی دے، تو یہ تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے جنگل میں آگ لگ گئی ہو۔

اب گھر لائی ہوئی بہو چاہے کتنی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو وہ کہیں نہ کہیں کسی پیر بابا کے آستانے کی زیارت کا شرف حاصل کر چکی ہوتی ہے۔ ڈاکٹری علاج سے جھاڑ پھونک اور تعویذ وغیرہ تک سارے طریقے آزما لینے کے بعد بھی جب اولاد نہ ہو تو بات بے بات پر بے اولادی کا ذکر کر کے اس کی عزت نفس مجروح کرنا ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔

اس ساری صورت حال میں ایک مرد کی نسبت عورت سب سے زیادہ سماجی تنہائی کا شکار ہونے لگتی ہے یا آہستہ آہستہ سماج اپنی خوشی کی کسی بھی تقریب میں بھی اسے ایک کونے میں تنہا چھوڑ دیتا ہے۔

ایسے میں اس سماجی حیثیت کے آئینے میں خود کو قبول کرنا بھی عورت کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، جس میں مرد کا قصور کسی صورت میں تصور نہیں کیا جاتا اور نہ ہی سال بعد اسے اپنی بے اولادی کی کوئی خاص فکر ہوتی ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کے پاس دوسری شادی کا راستہ ہونا ہے، لیکن ایک سال کے اندر اندر ایک عورت سے توقع رکھی جاتی ہے کہ اس کے ہاں ولادت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے خاندانی نظام میں ایک لڑکی کی تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ شوہر کا گھر ہی اس کا اول و آخر قبلہ ہے، جس سے روگردانی کی صورت میں اس سے اس کا انسان ہونے کا بنیاد حق تک چھین لیا جائے گا!

اگر ایک عورت کے ہاں بچے کی پیدائش نہ ہو یا اس کی اولاد بوقت ولادت ہی فوت ہو جاتی ہو تو یہ ایسا 'قصور' شمار ہوتا ہے، جو ناقابل معافی ہے!

ایک طرف وہ جہاں اپنے اس غم کو سہہ رہی ہوتی ہے، تو دوسری طرف طلاق کا خوف، سوکن آنے اور پھر آکر اس کے ماں بن جانے کے بعد امتیازی سلوک مزید بدترین ہونے کے وسوسے آگھیرتے ہیں اور پھر حقیقت بھی بن جاتے ہیں، لیکن جب فیصلے کی گھڑی کسی سولی کی طرح سر پر لہرا رہی ہوتی ہے، تو عورت کو اپنی ترجیحات کا تعین جلد کر لینا چاہیے۔

پہلا یہ کہ جو جیسا بھی ہے، اسے ساری زندگی کے لیے گلے میں ڈال کر قبول کر لیا جائے اور دوسرا یہ کہ اگر بے اولادی کی وجہ سے طلاق ہو رہی ہے، تو سب سے پہلے اعصابی طور پر مضبوط ہونے کی کوشش کرے۔


کیوں کہ چار دیواری کے باہر آپ پر دو چارجز لگیں گے ایک طلاق یافتہ کا اور دوسرا بے اولادی کا! تو اب آپ کا موجودہ سماجی حیثیت کا تعین بھی اسی تناظر میں کیا جائے گا۔

آپ جب پلٹ کر اپنے والدین کے گھر جائیں گی، تو اپنی اس نئی حیثیت کے طور پر ہی سلوک کی مستحق ہوں گی، لہٰذا اپنے سامنے آنے والے ہر رویے پر ردعمل دینے کی بہ جائے یہ جان لیجیے کہ آپ اپنی زندگی کی کہانی دوسروں کو سنانے کی پابند نہیں ہیں۔ اس مضبوط سوچ کو پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے تو آپ اپنی اس موجودہ شناخت کو قبول کر لیں۔

جو رشتہ چُھوٹ گیا ہے، اسے ہر وقت الزام دینے والی کسوٹی پر رکھ کر الزام دینا چھوڑ دیں۔ آپ دوسروں کو یہ تو سمجھا رہی ہیں کہ وہ غلط آدمی تھا تھا مارتا تھا، خرچہ نہیں دیتا تھا، مگر خود یہ نہیں سمجھ رہیں یا دوسروں سے ہمدردی کا سرٹیفکیٹ لینے کی خاطر یہ سمجھنا نہیں چاہ رہی ہیں کہ اصل معاملہ جو باعث طلاق بنا، وہ بھلا دوسروں سے کب تک چھپ سکتا ہے؟ اور اگر آپ اس پر پردہ ڈال کر دوسری شادی کر بھی رہی ہیں تو یہ آپ کی بدترین غلطی ہوگی۔

سماجی تنہائی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹھنڈے ذہن کے ساتھ اس معاملے کو سلجھائیں۔ راقم الحروف سمجھتی ہے کہ آپ کے لیے یہ بہتر ہے کہ آپ شوہر کو دوسری شادی کی اجازت دیں... آنے والی سوکن کو اپنی جگہ نہ سہی، مگر عزت دیں بہ جائے اس کے کہ طلاق لے کر بیٹھیں اور پھر ساری عمر والدین کے در پر پڑی رہیں اور والدین کے بعد مزید پریشانیوں کا سامنا کریں۔

لیکن اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کی حق تلفی ہو رہی ہے، لہٰذا روز روز کی لڑائی جھگڑوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ایک ہی بار فیصلہ کر لیں، لیکن علیحدہ ہو جانے کے بعد ہر وقت خود کو کوستے رہنا، یا ڈپریشن کا شکار ہوکر اپنی زندگی اجیرن کر لینا قطعاً کوئی دانش مندی نہ ہوگی، گو یہ ایک سفاک حقیقت ہے کہ طلاق کے بعد آپ گھر آ چکی ہیں، تو اس سانحے پر کیا آپ اپنی ساری زندگی کی بنیاد رکھیں گی؟ یقیناً نہیں، تو پھر کوشش کریں کہ اپنی زندگی کو مثبت بنیادوں پر استوار کریں۔

اس کی شروعات وہاں سے کریں، جہاں سلسلے منقطع ہوئے۔ اگر آپ کم پڑھی لکھی ہیں، تو بہتر ہے کہ اپنے رکے ہوئے تعلیمی سلسلے کو بحال کریں۔ 'فاصلاتی تعلیم' کے ذریعے آپ گھر بیٹھے بھی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں، اس کے لیے آپ کسی اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہوگا۔ اس سے آپ کی مصروفیت بڑھ جائے گی اور ذہن منفی اور تکلیف دہ سوچوں کے حصار سے بھی آزاد ہو جائے گا۔

آپ گھر بیٹھے سلائی کڑھائی یا بوتیک وغیرہ کے کام کے ذریعے اپنے سخت معاشی حالات کا مقابلہ کر سکتی ہیں، اگر اچھا کھانا پکا سکتی ہیں، تو کسی اسکول کالج یا دفتر وغیرہ کی کینٹین کا کنٹریکٹ بھی مل سکتا ہے یا پھر تھوڑی سی سرمایہ کاری کر کے اپنا چھوٹا سا ڈھابہ بھی کھول سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ بیوٹیشن یا ٹیوشن وغیرہ کی مصروفیت آپ کی آمدنی میں بھی اضافہ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائپنگ سیکھ کر انٹرنیٹ پر روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔

یاد رکھیے، تعلیم اور ہنر سے خود کو محروم کرنا دراصل زندگی میں اپنے حق سے دست برداری ہے۔ اس لیے آپ کو اپنی لڑائی خود لڑتے ہوئے اپنی معاشی ذمہ داری خود اٹھانا ہے۔ لڑکیوں کی زندگی میں سب سے اہم رشتہ ازدواجی تعلق ہے، اِس کا ختم ہو جانا جہاں تکلیف دہ ہے وہاں سر جھکا کر جینا خود پر مزید ظلم کے مترادف ہے۔ زندگی نہ بے اولاد رہ جانے کے بعد ختم ہوتی ہے اور نہ طلاق جیسے انتہائی مرحلے کے بعد رکتی ہے، لیکن اس سوچ کو ذہن میں بٹھا لیں کہ معاشی مضبوطی آپ کے اکثر مسائل کا حل ثابت ہوگی۔
Load Next Story