مولانا اور ان کے مقتدی
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری اکثر منتخب حکومتیں بہت جلد ناپسندیدہ ہو جاتی ہیں
جمعیت علمائے پاکستان کے امیر جناب مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف آزادی مارچ کے اپنے اعلان پر فی الحال ڈٹے ہوئے ہیں اور ستائیس اکتوبر کو مارچ شروع کر کے اسلام آباد پہنچنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ میری بے خبری کا یہ عالم ہے کہ میں یہ فیصلہ نہیں کرپا رہا کہ اس نازک وقت میں مولانا صاحب حکومت سے آزادی چاہتے ہیں یا آزاد کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے آزادی مارچ کر رہے ہیں۔
وقت کی ضرورت تو یہی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت یک زبان ہو کر کشمیر کے لیے آواز بلند کرے مگر ہماری سیاسی قیادت کا تما م ترزور حکومت مخالف تحریک برپا کرنے پر ہے جس کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے۔ اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک کا امام مولانا کو بنایا ہے جب کہ خود مقتدی بننے کو ترجیح دی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس بات پر مصر ہیں کہ موجود حکومت کو ختم کر کے نئے الیکشن کرائے جائیں۔
انھوں نے اپنے مقتدین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک ہفتے کا سامان خوردو نوش لائیں یعنی وہ ایک ہفتے تک اسلام آباد میں دھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ اپوزیشن کی بڑی پارٹی مسلم لیگ نواز کے روح رواں نواز شریف نے جیل سے ایک خط کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپنے کارکنوں کو بھر پور شرکت کی تلقین اور مولانا کے دھرنے کی تائید کر دی ہے۔
مگر ان کی پارٹی کے چند عہدیدار اس دھرنے میں شمولیت کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ دھرنے مخالف قوتوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حق میں ہیں۔ میاں نواز شریف کے برادر خورد میاں شہباز شریف جو مصالحت کے قائل ہیں دھرنے میں شمولیت کے متعلق ان کے بھی تحفظات ہیں جن کا وہ دبے لفظوں میں اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن وہ کھل کر میاں نواز شریف کی مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے مولانا کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان نہیں کیا البتہ پارٹی نے مولانا کے قافلوں کے استقبال کرنے کا ضرور اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد کھلی سڑکوں اور وسیع سبزہ زاروں کا شہر ہے اور اس شہر کو بھرنے کے لیے کئی لاکھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومت مخالف کسی احتجاجی تحریک میں جذبے کی فراوانی افرادکی تعداد سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے اور یہ جذبہ ہی ہوتا ہے جس میں گھروں کے اندر بیٹھے لوگ بھی تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری اکثر منتخب حکومتیں بہت جلد ناپسندیدہ ہو جاتی ہیں اور انھیں ہٹانے کے لیے کوئی تحریک برپا کرنی پڑ جاتی ہے جب کہ مہذب دنیا میں کسی حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی کا اظہار الیکشن میں ہوتا ہے ۔ پُر امن اور جمہوری انداز میں اس طرح یہ حکومت بلا کسی تحریک اور خون خرابے کے رخصت ہو جاتی ہے اس کی مثال ہم دیکھ چکے ۔ہماری گزشتہ دونوں حکومتوں کو عوام نے اپنے ووٹ سے دوبارہ حکومت بنانے کے حق سے محروم کر دیا اور اور اب تیسرے الیکشن میں انھوں نے تحریک انصاف کے حق میں قرعہ نکالا ہے ۔لیکن ہمارے بے چین اور اقتدار سے دور سیاستدانوں نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔
اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ اپوزیشن کی چھوٹی پارٹیوں نے بھی مولانا کی اذان پر لبیک کہتے ہوئے اپنی ٹانگ اڑا لی ہے اور تحریک میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے ۔ یہ سب ان کی مجبوری ہے کہ ملک میں حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ بننے سے دور کیسے رہا جا سکتا ہے طوہاً کراہاً تحریک کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ یہ ساتھ کسی صورت میں بھی ہو سکتا ہے عملی یا زبانی کلامی ، سیاسی اور اخلاقی تائید کی صورت میں۔
ہماری اپوزیشن کے کئی رہنما بہت حوصلہ مند ، متحمل مزاج اور صابر شاکر قسم کے لوگ ہیں یعنی عملیت اور حقیقت پسند ، لیکن مولانا فضل الرحمن صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور انھوں نے حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان بھی کر دیا اور ناموافق حالات کے باوجود پیچھے ہٹنے کو بھی تیار نہیں ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حکومتی صفوں میں پہلے تو مولانا کے مارچ کو شغل کے طور پر لیا گیا مگر اب حکومتی حلقوں میں بھی اس مارچ کے متعلق بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ مولانا کو راضی کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمن کے پاس ان کے ذاتی مقتدین کا ایک بڑا حلقہ موجود ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کی مدد کے بغیراسلام آباد کی سڑکوں کو بھر سکتے ہیں مگر اکیلے مولانا کی بات میں وہ دم خم نہیں ہو گا جو اپوزیشن کی مکمل حمایت کی صورت میں ہو گا ۔وقت کی نزاکت کے باوجود اگر مولانا اپنی ضد پر ڈٹے رہتے ہیں تو میری کمزور سی رائے میں مولانا کو اپنے آزادی مارچ کو نہ صرف حکومت کی سختی اور دیگر کارآمد حربوں سے بچانا ہو گا بلکہ اپنے سیاسی دوستوں سے بھی محتاط رہنا ہو گا ۔ کسی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے اور اس کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے کے کئی تماشے میں نے دیکھے ہیں ۔
یہ تحریک حکومت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتی تھی اگر اس تحریک کے لیے اپوزیشن مناسب وقت کا انتظار کرتی کیونکہ ابھی حکومت اپنی نوزائیدگی میں ہے اور عوام ماضی کے حکمرانوں کی کارستانیاں ابھی نہیں بھولے ۔ اس لیے یہ وقت کسی حکومت مخالف تحریک کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں اور خاص طور پر جب کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کی قیادت دنیا بھر میں کشمیریوں کی واحد آواز بنی ہوئی ہے، اس موقع پر حکومت کے خلاف تحریک کا وقت نہیں بلکہ مولانا کو اپنے آزادی مارچ کارخ حکومت سے چھٹکارے کے بجائے کشمیریوں کی آزادی کے لیے مقبوضہ کشمیر کی طرف موڑ دینا چاہیے، وقت کی یہی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو فی الحال اپنی امامت میںمقتدیوں کے ساتھ کشمیر یوں کی حمایت کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنا مارچ کشمیر کی آزادی کے لیے کریں تو حکومت کے خلا ف ان کو آزادی مارچ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔
وقت کی ضرورت تو یہی ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت یک زبان ہو کر کشمیر کے لیے آواز بلند کرے مگر ہماری سیاسی قیادت کا تما م ترزور حکومت مخالف تحریک برپا کرنے پر ہے جس کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہے۔ اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک کا امام مولانا کو بنایا ہے جب کہ خود مقتدی بننے کو ترجیح دی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس بات پر مصر ہیں کہ موجود حکومت کو ختم کر کے نئے الیکشن کرائے جائیں۔
انھوں نے اپنے مقتدین کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک ہفتے کا سامان خوردو نوش لائیں یعنی وہ ایک ہفتے تک اسلام آباد میں دھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ اپوزیشن کی بڑی پارٹی مسلم لیگ نواز کے روح رواں نواز شریف نے جیل سے ایک خط کے ذریعے مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں اپنے کارکنوں کو بھر پور شرکت کی تلقین اور مولانا کے دھرنے کی تائید کر دی ہے۔
مگر ان کی پارٹی کے چند عہدیدار اس دھرنے میں شمولیت کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ دھرنے مخالف قوتوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے حق میں ہیں۔ میاں نواز شریف کے برادر خورد میاں شہباز شریف جو مصالحت کے قائل ہیں دھرنے میں شمولیت کے متعلق ان کے بھی تحفظات ہیں جن کا وہ دبے لفظوں میں اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن وہ کھل کر میاں نواز شریف کی مخالفت مول نہیں لے سکتے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے مولانا کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان نہیں کیا البتہ پارٹی نے مولانا کے قافلوں کے استقبال کرنے کا ضرور اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد کھلی سڑکوں اور وسیع سبزہ زاروں کا شہر ہے اور اس شہر کو بھرنے کے لیے کئی لاکھ افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن حکومت مخالف کسی احتجاجی تحریک میں جذبے کی فراوانی افرادکی تعداد سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے اور یہ جذبہ ہی ہوتا ہے جس میں گھروں کے اندر بیٹھے لوگ بھی تحریک میں شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری اکثر منتخب حکومتیں بہت جلد ناپسندیدہ ہو جاتی ہیں اور انھیں ہٹانے کے لیے کوئی تحریک برپا کرنی پڑ جاتی ہے جب کہ مہذب دنیا میں کسی حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی کا اظہار الیکشن میں ہوتا ہے ۔ پُر امن اور جمہوری انداز میں اس طرح یہ حکومت بلا کسی تحریک اور خون خرابے کے رخصت ہو جاتی ہے اس کی مثال ہم دیکھ چکے ۔ہماری گزشتہ دونوں حکومتوں کو عوام نے اپنے ووٹ سے دوبارہ حکومت بنانے کے حق سے محروم کر دیا اور اور اب تیسرے الیکشن میں انھوں نے تحریک انصاف کے حق میں قرعہ نکالا ہے ۔لیکن ہمارے بے چین اور اقتدار سے دور سیاستدانوں نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان کر دیا ہے۔
اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ اپوزیشن کی چھوٹی پارٹیوں نے بھی مولانا کی اذان پر لبیک کہتے ہوئے اپنی ٹانگ اڑا لی ہے اور تحریک میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے ۔ یہ سب ان کی مجبوری ہے کہ ملک میں حکومت کے خلاف تحریک کا حصہ بننے سے دور کیسے رہا جا سکتا ہے طوہاً کراہاً تحریک کا ساتھ دینا پڑتا ہے۔ یہ ساتھ کسی صورت میں بھی ہو سکتا ہے عملی یا زبانی کلامی ، سیاسی اور اخلاقی تائید کی صورت میں۔
ہماری اپوزیشن کے کئی رہنما بہت حوصلہ مند ، متحمل مزاج اور صابر شاکر قسم کے لوگ ہیں یعنی عملیت اور حقیقت پسند ، لیکن مولانا فضل الرحمن صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے اور انھوں نے حکومت کے خلاف تحریک کا اعلان بھی کر دیا اور ناموافق حالات کے باوجود پیچھے ہٹنے کو بھی تیار نہیں ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ حکومتی صفوں میں پہلے تو مولانا کے مارچ کو شغل کے طور پر لیا گیا مگر اب حکومتی حلقوں میں بھی اس مارچ کے متعلق بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ مولانا کو راضی کرنے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمن کے پاس ان کے ذاتی مقتدین کا ایک بڑا حلقہ موجود ہے جو کسی بھی سیاسی جماعت کی مدد کے بغیراسلام آباد کی سڑکوں کو بھر سکتے ہیں مگر اکیلے مولانا کی بات میں وہ دم خم نہیں ہو گا جو اپوزیشن کی مکمل حمایت کی صورت میں ہو گا ۔وقت کی نزاکت کے باوجود اگر مولانا اپنی ضد پر ڈٹے رہتے ہیں تو میری کمزور سی رائے میں مولانا کو اپنے آزادی مارچ کو نہ صرف حکومت کی سختی اور دیگر کارآمد حربوں سے بچانا ہو گا بلکہ اپنے سیاسی دوستوں سے بھی محتاط رہنا ہو گا ۔ کسی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے اور اس کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے کے کئی تماشے میں نے دیکھے ہیں ۔
یہ تحریک حکومت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتی تھی اگر اس تحریک کے لیے اپوزیشن مناسب وقت کا انتظار کرتی کیونکہ ابھی حکومت اپنی نوزائیدگی میں ہے اور عوام ماضی کے حکمرانوں کی کارستانیاں ابھی نہیں بھولے ۔ اس لیے یہ وقت کسی حکومت مخالف تحریک کے لیے بالکل بھی موزوں نہیں اور خاص طور پر جب کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہو چکا ہے۔
پاکستان کی قیادت دنیا بھر میں کشمیریوں کی واحد آواز بنی ہوئی ہے، اس موقع پر حکومت کے خلاف تحریک کا وقت نہیں بلکہ مولانا کو اپنے آزادی مارچ کارخ حکومت سے چھٹکارے کے بجائے کشمیریوں کی آزادی کے لیے مقبوضہ کشمیر کی طرف موڑ دینا چاہیے، وقت کی یہی ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو فی الحال اپنی امامت میںمقتدیوں کے ساتھ کشمیر یوں کی حمایت کے لیے کھڑا ہو جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ اپنا مارچ کشمیر کی آزادی کے لیے کریں تو حکومت کے خلا ف ان کو آزادی مارچ کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔