فحاشی ہے کیا
حالات حاضرہ کے پروگراموں میں تمام شرکا کو اپنا موقف بیان کرنے کا مکمل حق ہونا ضروری ہے
فحاشی کے بارے میں ملک میں بحث ہمیشہ سے رہی ہے۔ اب ایک بار پھر اس میں تیزی آگئی ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر ہے۔فحاشی ہے کیا، اس کی جامع تعریف کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ۔ ادھر جنوبی افغانستان کے ایک گائوں میں موسیقی کی محفل میں شریک ہونے والے 17 افراد کے سر قلم کر دیے گئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ یعنی اس گائوں کے لوگوں کے ذہن میں موسیقی کی محفل میں شریک ہونا بھی فحاشی ہے۔پاکستانی میڈیا پر بھی مختلف نوعیت کے اعتراضات کیے جاتے ہیں، خبروں اور ٹاک شوز کے معیار کے بارے میں نئے صحافت کے طالب علم اس نکتہ پر خصوصی توجہ دیتے ہیں کہ خبر تحریر کرنے اور بیان کرنے کا ایک خصوصی طریقہ کار ہے، جس کی بنیاد معروضیت اور سچائی پر ہوتی ہے۔
اگر کوئی مواد معروضیت اور سچائی پر مبنی نہیں ہو گا تو صحافت کا علم رکھنے والے اس کو خبر قرار نہیں دیں گے، اس خبر میں تمام فریقوں کے جوابات اور فرد کی خلوت کا حق Right of Privacy کا تحفظ ہونا ضروری ہے۔ اس طرح حالات حاضرہ کے پروگراموں میں اینکر پرسن کا کوئی ایجنڈا نہ ہونا اور تمام شرکا کو اپنا موقف بیان کرنے کا مکمل حق ہونا ضروری ہے۔ اکثر خبر نامے کی سرخیاں بننے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مخصوص ایجنڈا کے تحت خبر کی معروضیت کونظرانداز کیا جا رہا ہے اور جملے کی ترتیب سے جانبداری کا واضح اظہار ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ناظرین کو اطلاعات سے زیادہ فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات کسی بڑے شہر میں بم دھماکے کی آواز کے سننے کی افواہ کو مسلسل اسکرین پر پیش کر کے ملک بھر میں خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے اور افواہ غلط ثابت ہونے پر معذرت تک نہیں کی جاتی نہ ہی افواہ کو خبر قرار دینے والے عملے سے باز پرس کی جاتی ہے۔ انتہا پسند قاتلوں کو ہیرو بنانے اور عید کے چاند جیسے مسئلے پر ہیجان پیدا کیا جاتا ہے ۔اس صورتحال پر صحافیوں، اساتذہ، وکلا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بحث و مباحثے کے ذریعے تنقید کی ہے اور کئی بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی، جس کا نوٹس ٹی وی چینلز کو لینا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دس سال قبل جس طرح بے آبرو ہونے والی خواتین اور بچیوں کو اسکرین پر ایکسپوز کیا جاتا تھا وہ سلسلہ ایک حد تک تھم گیا ہے ۔
فحاشی ایک Relative Term ہے جس کی ہر زمانے میں مختلف نوعیت کی تعریف طے کی گئی۔ عربوں میں عورتوں کا مردوں کو رشتہ بھیجنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی مگر قدیم ہندوستان میں عورت کا اپنی شادی کے بارے میں اظہار کرنا ایک انتہائی قابل اعتراض بات سمجھی جاتی تھی۔ مغلوں کے دور میں امرا کی عورتوں کو صرف ڈولیوں میں سفر کرنے کی اجازت دی جاتی تھی مگر کروڑوں غریب عورتیں کھیتوں میں اپنے مردوں کے ساتھ کام کرتی تھیں، بادشاہوں کے علاوہ امرا کا باندیاں اور کنیزیں رکھنا عام بات تھی۔
انگریزوں کے دور میں متوسط طبقے کے وجود میں آنے کے بعد خواتین کو تعلیم کا حق ملا تو بہت سے علاقوں میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کو بے غیرتی سے تشبیہ دی جانے لگی۔ قائداعظم نے جب رتی بائی کو پسند کیا اور عدالتی فیصلے کے تحت شادی کی تو بعض علما نے رتی کے لباس پر اعتراض کیا تھا۔ اگر سابق صدر پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے دنوں کے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ جماعت اسلامی کے رہنما بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمایندگی کی بنا پر اس نظام کو مخلوط نظام قرار دیتے نظر آتے ہیں۔
اب اگر جدید دورمیں فحاشی کی تعریف کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب میں خواتین کے کار چلانے کو فحاشی سے تعبیر کر کے قابل جرم قرار دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان، ایران، مصر، مشرق بعید کے مسلمان ممالک میں یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے، طالبان کے دور میں تو خواتین کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے اور ان کے مردوں کے ساتھ کام کرنے کو سخت جرم سمجھا گیا جب کہ باقی اسلامی ممالک میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، بہت سے علما موسیقی کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیتے ہیں ، گلوکاری کو برا سمجھا جاتا ہے مگر عرب ممالک ام کلثوم، ایرانی خانم گوگوش اور پاکستانی میڈم نورجہاں پر فخر کرتے ہیں۔
بعض دانش مند فحاشی کو قوموں کی تباہی کی وجہ بیان کرتے ہیں مگر امریکی نظام کا مطالعہ کرنے والے لاس ویگاس میں عریاں کلبوں کی رونق کے ساتھ امریکا کی ترقی اور امریکا کی تباہی نہ آنے پر اظہارِ حیرت کرتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ جس طرح طالبان نے موسیقی سننے اور پیش کرنے والوں کو قتل کرنا شروع کیا ہے، کیا ایک مخصوص گروہ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس ضمن میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جماعت اسلامی کے رہنما محمود اعظم فاروقی وفاقی وزیر اطلاعات بنے تو انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن سے پاکستانی فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی۔ اس دور میں پاکستانی فلموں پر اتنی پابندیاں عائد کی گئیں کہ سینما ہائوس ختم ہو گئے مگر اس دور میں بھارتی فلموں کی کیسٹوں کی اجازت دی گئی۔
کیا اب پھر جنرل ضیاء الحق کے دور کی یاد تازہ کی جائے گی؟ ابلاغیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی ترقی، تعلیم کے عام ہونے اور خواتین کے معاشی طور پر خود مختار ہونے کے عمل سے انسانی رشتوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اب لڑکے اور لڑکی کا ساتھ تعلیم حاصل کرنا، اکٹھے سفر کرنا، ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات کا اظہار کرنا اور موسیقی سے لطف اندوز ہونا معمول کی بات ہے۔ اگر ان انسانی رشتوں کے درمیان تبدیل ہونے والے تعلقات اور پیدا ہونے والے معاملات کو کسی ڈرامے یا فلم کا موضوع بنایا جاتاہے تو اس پر غصے یا ناراضگی کا اظہار کرنے کا کیا جواز ہے۔ پھر اب تو ریموٹ کنٹرول نظام کے ذریعے پلک جھپکنے میں چینل تبدیل ہو جاتا ہے، لہٰذا جو لوگ جدید انسانی رشتوں پر مبنی مناظر کو دیکھنا نہیں چاہتے وہ چینل کی تبدیلی کے حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔
ایک وکیل شاہد علی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی سے ملک میں سیکڑوں بے گناہ قتل ہو رہے ہیں، جب کہ عدلیہ نے انتہا پسندی کے اسباب اور اس کے خاتمے کے مسئلے کا از خود نوٹس کیوں نہیں لیا؟ گزشتہ صدی کی 40ء اور 50ء کی دہائی میں اردو ادب میں عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند کے دوران ہونے والے فسادات کے تناظر میں ہمیشہ زندہ رہنے والے افسانے 'ٹھنڈا گوشت' 'کھول دو' اور 'کالی شلوار' تحریر کیے تھے، ان افسانوں کو پڑھ کر باشعور لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ لوگوں کو ان افسانوں میں فحاشی نظر آتی تھی۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار کو مستحکم کر کے جسٹس محمد منیر نے سعادت حسن منٹو کو 300 روپے جرمانے اور عدم ادائیگی کی صورت میں ایک ماہ کی سزا دی تھی مگر منٹو سزا پانے کے بعد امر ہو گیا تھا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ فحاشی کی کوئی جامع تعریف کرنا ممکن نہیں ہے یہ ہر سماج اپنی روایات کے مطابق خود طے کرتا ہے۔ ایک گروہ اگر کسی چیز کو فحاشی سمجھتا ہے تو اس کی سوچ کو پورے ملک پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ پوری دنیا اسی اصول کے مطابق کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی انھی اصولوں کو مشعل راہ بنایا جانا چاہیے اور مختلف گروہوں کو مثبت سرگرمیوں میں اپنی توانائی صرف کرنی چاہیے اور منفی باتوں سے بچنا چاہیے۔
اگر کوئی مواد معروضیت اور سچائی پر مبنی نہیں ہو گا تو صحافت کا علم رکھنے والے اس کو خبر قرار نہیں دیں گے، اس خبر میں تمام فریقوں کے جوابات اور فرد کی خلوت کا حق Right of Privacy کا تحفظ ہونا ضروری ہے۔ اس طرح حالات حاضرہ کے پروگراموں میں اینکر پرسن کا کوئی ایجنڈا نہ ہونا اور تمام شرکا کو اپنا موقف بیان کرنے کا مکمل حق ہونا ضروری ہے۔ اکثر خبر نامے کی سرخیاں بننے سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مخصوص ایجنڈا کے تحت خبر کی معروضیت کونظرانداز کیا جا رہا ہے اور جملے کی ترتیب سے جانبداری کا واضح اظہار ہوتا ہے۔
اس کے ساتھ ناظرین کو اطلاعات سے زیادہ فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔ بعض اوقات کسی بڑے شہر میں بم دھماکے کی آواز کے سننے کی افواہ کو مسلسل اسکرین پر پیش کر کے ملک بھر میں خوف و ہراس پیدا کیا جاتا ہے اور افواہ غلط ثابت ہونے پر معذرت تک نہیں کی جاتی نہ ہی افواہ کو خبر قرار دینے والے عملے سے باز پرس کی جاتی ہے۔ انتہا پسند قاتلوں کو ہیرو بنانے اور عید کے چاند جیسے مسئلے پر ہیجان پیدا کیا جاتا ہے ۔اس صورتحال پر صحافیوں، اساتذہ، وکلا اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے بحث و مباحثے کے ذریعے تنقید کی ہے اور کئی بنیادی خامیوں کی نشاندہی کی، جس کا نوٹس ٹی وی چینلز کو لینا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ دس سال قبل جس طرح بے آبرو ہونے والی خواتین اور بچیوں کو اسکرین پر ایکسپوز کیا جاتا تھا وہ سلسلہ ایک حد تک تھم گیا ہے ۔
فحاشی ایک Relative Term ہے جس کی ہر زمانے میں مختلف نوعیت کی تعریف طے کی گئی۔ عربوں میں عورتوں کا مردوں کو رشتہ بھیجنا کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی مگر قدیم ہندوستان میں عورت کا اپنی شادی کے بارے میں اظہار کرنا ایک انتہائی قابل اعتراض بات سمجھی جاتی تھی۔ مغلوں کے دور میں امرا کی عورتوں کو صرف ڈولیوں میں سفر کرنے کی اجازت دی جاتی تھی مگر کروڑوں غریب عورتیں کھیتوں میں اپنے مردوں کے ساتھ کام کرتی تھیں، بادشاہوں کے علاوہ امرا کا باندیاں اور کنیزیں رکھنا عام بات تھی۔
انگریزوں کے دور میں متوسط طبقے کے وجود میں آنے کے بعد خواتین کو تعلیم کا حق ملا تو بہت سے علاقوں میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کو بے غیرتی سے تشبیہ دی جانے لگی۔ قائداعظم نے جب رتی بائی کو پسند کیا اور عدالتی فیصلے کے تحت شادی کی تو بعض علما نے رتی کے لباس پر اعتراض کیا تھا۔ اگر سابق صدر پرویز مشرف کے بلدیاتی نظام کے نفاذ کے دنوں کے اخبارات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ جماعت اسلامی کے رہنما بلدیاتی نظام میں خواتین کی نمایندگی کی بنا پر اس نظام کو مخلوط نظام قرار دیتے نظر آتے ہیں۔
اب اگر جدید دورمیں فحاشی کی تعریف کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب میں خواتین کے کار چلانے کو فحاشی سے تعبیر کر کے قابل جرم قرار دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان، ایران، مصر، مشرق بعید کے مسلمان ممالک میں یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے، طالبان کے دور میں تو خواتین کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے اور ان کے مردوں کے ساتھ کام کرنے کو سخت جرم سمجھا گیا جب کہ باقی اسلامی ممالک میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، بہت سے علما موسیقی کی تمام صورتوں کو حرام قرار دیتے ہیں ، گلوکاری کو برا سمجھا جاتا ہے مگر عرب ممالک ام کلثوم، ایرانی خانم گوگوش اور پاکستانی میڈم نورجہاں پر فخر کرتے ہیں۔
بعض دانش مند فحاشی کو قوموں کی تباہی کی وجہ بیان کرتے ہیں مگر امریکی نظام کا مطالعہ کرنے والے لاس ویگاس میں عریاں کلبوں کی رونق کے ساتھ امریکا کی ترقی اور امریکا کی تباہی نہ آنے پر اظہارِ حیرت کرتے ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ جس طرح طالبان نے موسیقی سننے اور پیش کرنے والوں کو قتل کرنا شروع کیا ہے، کیا ایک مخصوص گروہ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس ضمن میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جماعت اسلامی کے رہنما محمود اعظم فاروقی وفاقی وزیر اطلاعات بنے تو انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن سے پاکستانی فلم کی نمائش پر پابندی لگا دی تھی۔ اس دور میں پاکستانی فلموں پر اتنی پابندیاں عائد کی گئیں کہ سینما ہائوس ختم ہو گئے مگر اس دور میں بھارتی فلموں کی کیسٹوں کی اجازت دی گئی۔
کیا اب پھر جنرل ضیاء الحق کے دور کی یاد تازہ کی جائے گی؟ ابلاغیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی ترقی، تعلیم کے عام ہونے اور خواتین کے معاشی طور پر خود مختار ہونے کے عمل سے انسانی رشتوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اب لڑکے اور لڑکی کا ساتھ تعلیم حاصل کرنا، اکٹھے سفر کرنا، ایک دوسرے کے لیے محبت کے جذبات کا اظہار کرنا اور موسیقی سے لطف اندوز ہونا معمول کی بات ہے۔ اگر ان انسانی رشتوں کے درمیان تبدیل ہونے والے تعلقات اور پیدا ہونے والے معاملات کو کسی ڈرامے یا فلم کا موضوع بنایا جاتاہے تو اس پر غصے یا ناراضگی کا اظہار کرنے کا کیا جواز ہے۔ پھر اب تو ریموٹ کنٹرول نظام کے ذریعے پلک جھپکنے میں چینل تبدیل ہو جاتا ہے، لہٰذا جو لوگ جدید انسانی رشتوں پر مبنی مناظر کو دیکھنا نہیں چاہتے وہ چینل کی تبدیلی کے حق کو استعمال کر سکتے ہیں۔
ایک وکیل شاہد علی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی سے ملک میں سیکڑوں بے گناہ قتل ہو رہے ہیں، جب کہ عدلیہ نے انتہا پسندی کے اسباب اور اس کے خاتمے کے مسئلے کا از خود نوٹس کیوں نہیں لیا؟ گزشتہ صدی کی 40ء اور 50ء کی دہائی میں اردو ادب میں عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو کے افسانوں نے تہلکہ مچا دیا تھا۔ سعادت حسن منٹو نے تقسیم ہند کے دوران ہونے والے فسادات کے تناظر میں ہمیشہ زندہ رہنے والے افسانے 'ٹھنڈا گوشت' 'کھول دو' اور 'کالی شلوار' تحریر کیے تھے، ان افسانوں کو پڑھ کر باشعور لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے اور کچھ لوگوں کو ان افسانوں میں فحاشی نظر آتی تھی۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار کو مستحکم کر کے جسٹس محمد منیر نے سعادت حسن منٹو کو 300 روپے جرمانے اور عدم ادائیگی کی صورت میں ایک ماہ کی سزا دی تھی مگر منٹو سزا پانے کے بعد امر ہو گیا تھا۔
بنیادی بات یہ ہے کہ فحاشی کی کوئی جامع تعریف کرنا ممکن نہیں ہے یہ ہر سماج اپنی روایات کے مطابق خود طے کرتا ہے۔ ایک گروہ اگر کسی چیز کو فحاشی سمجھتا ہے تو اس کی سوچ کو پورے ملک پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ پوری دنیا اسی اصول کے مطابق کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں بھی انھی اصولوں کو مشعل راہ بنایا جانا چاہیے اور مختلف گروہوں کو مثبت سرگرمیوں میں اپنی توانائی صرف کرنی چاہیے اور منفی باتوں سے بچنا چاہیے۔