کے فور منصوبے پر لاگت 27 ارب سے بڑھ کر 150 ارب ہوگئی
کراچی کے پانی کا سب سے بڑا منصوبہ کے فور پر ایک بار پھر کئی سوالات اٹھ گئے
روٹ میں تبدیلی کے باعث کراچی کو فراہمی آب کے منصوبے ''کے فور'' پر لاگت 27 ارب سے بڑھ کر 150 ارب ہوگئی۔
کراچی کے پانی کا سب سے بڑا منصوبہ کے فور پر ایک بار پھر کئی سوالات اٹھ گئے، منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے، اس بار ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے چیف سیکریٹری کو خط لکھ دیا جس میں سسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
خط کے متن کے مطابق کے فور منصوبے کے متعلق متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں، منصوبے میں روٹ اور ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کے فور منصوبے میں سندھ حکومت نے منصوبے کیلیے 2007 میں زمین الاٹ کی تھی، اسی زمین کو سندھ حکومت نے 2014 میں ونڈ پاور ملز کو الاٹ کردی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے یہ انکشاف کیا ہے کہ زمین کس طر ح دو بار الاٹ کر دی گئی، چیف سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ کے فور کے منصوبے کے روٹ میں تبدیلی کے نتیجے میں منصوبے کی لاگت ایک کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ گئی جب کہ اس منصوبے کی 2007 میں تخمینی لا گت 25 ارب روپے تھی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری سپریم کورٹ کے فیصلے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے قواعد کے برخلاف کی گئی۔
خط میں کہا گیا کہ نیسپاک کو کچی کینال کی فزیبلٹی اور ڈیزائن پر بھی انکوائری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کچی کینال منصوبے میں ناکامی کے باوجود نیسپاک کو بنا بولی کے فور کا منصوبہ ایوراڈ کیا گیا، اس کی کیا وجوہ ہیں، منصوبے کے موجودہ روٹ ٹھٹھہ کے مقام پر ایف ڈبلیو او 75 کلو میٹر کی کینال کی تعمیر کر چکی ہے، منصوبے سے کے تھری پروجیکٹ کا تجربہ رکھنے والے واٹر بورڈ کے سینئر افسران کو جان بوجھ کر الگ رکھا گیا، منصوبے پر نان ٹیکنیکل اور ناتجربہ کار پروجیکٹ ڈائر یکٹر اور پروجیکٹ مینجر لگایا گیا۔
خط میں لکھا گیا کہ منصوبے میں مسائل نہ پیدا کیے جاتے تو 2سال میں کراچی میں پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ فروری 2018 میں منصوبے میں سست روی اور ستمبر 2018 میں منصوبے پر مکمل کام بند کر دیا گیا۔
کراچی کے پانی کا سب سے بڑا منصوبہ کے فور پر ایک بار پھر کئی سوالات اٹھ گئے، منصوبہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے، اس بار ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے چیف سیکریٹری کو خط لکھ دیا جس میں سسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔
خط کے متن کے مطابق کے فور منصوبے کے متعلق متعدد شکایات موصول ہوئی ہیں، منصوبے میں روٹ اور ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کے فور منصوبے میں سندھ حکومت نے منصوبے کیلیے 2007 میں زمین الاٹ کی تھی، اسی زمین کو سندھ حکومت نے 2014 میں ونڈ پاور ملز کو الاٹ کردی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے یہ انکشاف کیا ہے کہ زمین کس طر ح دو بار الاٹ کر دی گئی، چیف سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ کے فور کے منصوبے کے روٹ میں تبدیلی کے نتیجے میں منصوبے کی لاگت ایک کھرب 50 ارب روپے تک پہنچ گئی جب کہ اس منصوبے کی 2007 میں تخمینی لا گت 25 ارب روپے تھی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کی تقرری سپریم کورٹ کے فیصلے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے قواعد کے برخلاف کی گئی۔
خط میں کہا گیا کہ نیسپاک کو کچی کینال کی فزیبلٹی اور ڈیزائن پر بھی انکوائری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کچی کینال منصوبے میں ناکامی کے باوجود نیسپاک کو بنا بولی کے فور کا منصوبہ ایوراڈ کیا گیا، اس کی کیا وجوہ ہیں، منصوبے کے موجودہ روٹ ٹھٹھہ کے مقام پر ایف ڈبلیو او 75 کلو میٹر کی کینال کی تعمیر کر چکی ہے، منصوبے سے کے تھری پروجیکٹ کا تجربہ رکھنے والے واٹر بورڈ کے سینئر افسران کو جان بوجھ کر الگ رکھا گیا، منصوبے پر نان ٹیکنیکل اور ناتجربہ کار پروجیکٹ ڈائر یکٹر اور پروجیکٹ مینجر لگایا گیا۔
خط میں لکھا گیا کہ منصوبے میں مسائل نہ پیدا کیے جاتے تو 2سال میں کراچی میں پانی کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ فروری 2018 میں منصوبے میں سست روی اور ستمبر 2018 میں منصوبے پر مکمل کام بند کر دیا گیا۔