ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
کلاسیکی موسیقی کہ اپنی جگہ علم دریائو ہے۔
KARACHI:
وطن سے کالے کوسوں دور امریکا کے شہر فلوریڈا میں اس عالم بے بدل نے جسے ہم دائود رہبر کے نام سے جانتے تھے برسوں سے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ پاکستان سے تو وہ بہت پہلے سدھار گیا تھا۔ اب دنیا سے بھی سدھار گیا۔ ہم نے اسے عالم بے بدل کہا تو اسے مبالغہ مت جاننا۔ ایسا گوہر گرامی پاکستان میں تو ڈھونڈھنے ہی سے ملے تو ملے۔ وہ بھی کوئی لازم نہیں۔ ساتوں گنوں میں پورا۔ کلاسیکی موسیقی کہ اپنی جگہ علم دریائو ہے، اس کا شناور۔ مذہبوں اور تہذیبوں کے بحر ناپیدا کنار کا غواص۔ ادبیات کا سیاح۔ اردو ادب میں رچا بسا۔ علمی مطالعہ اپنی جگہ اور تخلیقی عمل اپنی جگہ۔ شاعری سے بڑھ کر نثر میں گل پھول کھلائے ہیں۔ اور اس شان سے کہ موسیقی پر لکھنا شروع کیا تو باتوں باتوں میں برصغیر کے موسیقاروں کا سارا احوال اور احوال ہی کے واسطے سے سُرتال کی پڑتال کر ڈالی۔ ان کی کتاب 'باتیں کچھ سریلی سی' سمجھ لو کہ دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔
عالمی تہذیبوں میں بطور خاص چار تہذیبوں کو چنا، اسلامی تہذیب، ہندو تہذیب، مسیحی تہذیب، چینی تہذیب اور پھر گوتم بدھ کا احوال، اور عجیب رنگ سے مطالعہ کیا کہ جن مذاہب سے ان تہذیبوں نے جنم لیا ہے ان کا بھی تذکرہ اور محال ہے کہ ان میں سے کسی تہذیب اور کسی مذہب سے ذرہ برابر تعصب برتا ہو۔ بلکہ ان کے خلاف جو مختلف گروہوں میں تعصبات پھیلے ہوئے ہیں ان کی چھانٹی۔ سارا مطالعہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ کیا اور کس کمال کے ساتھ کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے تہذیبی اور مذہبی معاملات پر گفتگو کی مگر مجال ہے کہ اپنے پروں پہ پانی پرنے دیا ہو اور پھر علم بگھارنے کے بجائے روزمرہ میں ایسے بیان کیا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ ذرا اسلامی کلچر کی تعریف ملاحظہ فرمائیے۔
''اسلامی کلچر کی معجون کا نسخہ اگر کوئی حکیم لکھے تو اس میں تین اجزا کا شامل کرنا ضروری ہو گا۔ ایک تولہ تسنن، ایک تولہ تشیع، اور ایک تولہ تصوف۔ تینوں اجزا اس میں پڑیں تو مفرح معجون بنے۔'' اور خود کلچر کیا ہے وہ بھی سن لیجیے۔
''فنون لطیفہ اپنی جگہ سہی، لیکن کلچر صرف فنون لطیفہ پر منحصر نہیں، کلچر زندگی کی ہانڈی پکانے کی ترکیب کا نام ہے۔ کلچر کی ہانڈی کا ایک خاص مسالہ ملت کا حافظہ ہے جس میں اس سارے ماضی کی گونج ہے۔''
کلچر میں غذائیں دو ہیں۔ جسمانی غذا اور روحانی غذا۔ ''جسمانی غذا کے لیے ہم ناشپاتی درخت سے توڑ کر کھائیں گے۔ پیاس بجھانے کو تربوز کا رس نچوڑ کر پئیں گے۔'' اور روحانی غذا وہ یوں ہے:
''روحانی غذا ہم کو پالتو بلی کی خر خر سے ملے گی یا لہلہاتی ہوئی گھاس کے منظر سے۔ اڑتی ہوئی چڑیا کو دیکھ کر ہمارا باطن مسکراتا ہے۔ قیس عامری مجنوں نہ ہوتا اگر دشت نہ ہوتا۔ سندباد کے جہازی ہونے کے لیے سمندر لازم ہوا۔''
دائود رہبر کی دانست میں ''ہندو کلچر کی ساری فضا دیومالا کی چہل پہل سے معمور ہے۔ ایسی سوسائٹی جو دیومالا سے منہ موڑے ہندو عوام کے مزاج کی سوسائٹی نہ ہو گی۔''
عالمانہ معاملات کو غیر عالمانہ رنگ میں بیان کرنے کا دلاویز ہنر کوئی دائود رہبر سے سیکھے۔ کیسی ہی علم و فضل کے ذکر اذکار ہوں عالموں والے ثقہ اور ثقیل انداز بیان کا تو سایہ بھی اپنے بیان پر نہیں پڑنے دیتے۔
علمی مسائل سے ہٹ کر دائود رہبر ایک اور راہ پر بھی چل پڑے۔ آخر انھوں نے غالبؔ کو بھی تو بہت ذوق و شوق سے پڑھا تھا۔ اور خالی غالبؔ کی شاعری کو نہیں۔ غالبؔ کے خطوط بھی اس ذوق و شوق سے پڑھے تھے۔ اور شاید ان خطوط کا لب و لہجہ اور انداز بیان دائود رہبر کے مزاج سے بہت قریب تھا۔ تو موصوف نے یاروں کو خط لکھنے شروع کر دیے۔ اور کس اہتمام سے خط لکھے کہ ہر خط لکھ کر اس کی ایک نقل تیار کرتے تھے اور ایک مٹکے میں ڈال دیتے تھے اور آپ جانیں کہ مٹکا تو اتنا عالی ظرف ہوتا ہے کہ اس میں گھڑوں پانی انڈیل دیا جائے پھر بھی وہ لبالب نہیں بھرتا۔ مگر دائود رہبر نے اتنے خط لکھے کہ گھروں میں رکھے مٹکے منہ منہ بھر گئے۔ انھوں نے خط مٹکوں کے حساب سے لکھے اور گھڑوں کے حساب سے چھپوائے۔ کچھ یاد نہیں آ رہا کہ ان کے خطوط کے کتنے مجموعے چھپے ہیں اور کس کمال سے خط لکھے ہیں کہ علمی مسائل بھی زیر بحث ہیں اور روزمرہ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ایران، توران، یونان تک کی اڑان ہے اور ساتھ ہی میں ماڈل ٹائون میں اپنا گھر بھی یاد آ رہا ہے۔ تو سمجھ لیجیے کہ یہاں یونان سے ماڈل ٹائون تک کی مار ہے۔ علمی ثقاہت اور گھریلو معاملات کی کیا خوب کھچڑی پکائی ہے۔
ہاں خاکہ نگاری کا شوق ہوا تو کتنے خاکے لکھ ڈالے۔ مجموعے کا نام رکھا پراگندہ طبع لوگ، جواز یہ پیش کیا کہ بندہ اکثر خود پراگندہ نہ ہوتا تو یہ کہانیاں نہ لکھتا۔ میں نے ایک دوست سے کہا، ممکن ہے دیگر پراگندہ لوگ یاد آئیں اور میں ان کی کہانیاں بھی لکھوں۔ اس عزیز نے کہا، دنیا پراگندہ لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ کس کس کی کہانی لکھو گے۔''
صحیح کہا۔ بہرحال دائود رہبر نے جن پراگندہ طبع لوگوں کے بارے میں لکھا خوب لکھا ہے۔ ایک تو وہ پراگندہ طبع پراگندہ خاطر اور پھر بیاں دائود رہبر کا۔ پراگندہ طبعی کا خوب نقشہ باندھا ہے۔
سو مطلب یہ کہ دائود رہبر کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رہے۔ قلم رواں تھا۔ جس سمت میں بھی رواں ہوا اور جس موضوع کو بھی ہاتھ لگایا اس پر حق ادا کیا۔ ان کا اپنا ایک طرز بیان تھا۔ شگفتگی اس کا امتیاز تھا۔ ہمارے زمانے کے صاحبِ اسلوب نثر نگاروں میں ان کا شمار ہونا چاہیے اور ایسے زمانے میں جب اچھی نثر ہمعصر ادب میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اور ایسے صاحب کمال اہل قلم۔
وطن سے کالے کوسوں دور امریکا کے شہر فلوریڈا میں اس عالم بے بدل نے جسے ہم دائود رہبر کے نام سے جانتے تھے برسوں سے ڈیرا ڈال رکھا تھا۔ پاکستان سے تو وہ بہت پہلے سدھار گیا تھا۔ اب دنیا سے بھی سدھار گیا۔ ہم نے اسے عالم بے بدل کہا تو اسے مبالغہ مت جاننا۔ ایسا گوہر گرامی پاکستان میں تو ڈھونڈھنے ہی سے ملے تو ملے۔ وہ بھی کوئی لازم نہیں۔ ساتوں گنوں میں پورا۔ کلاسیکی موسیقی کہ اپنی جگہ علم دریائو ہے، اس کا شناور۔ مذہبوں اور تہذیبوں کے بحر ناپیدا کنار کا غواص۔ ادبیات کا سیاح۔ اردو ادب میں رچا بسا۔ علمی مطالعہ اپنی جگہ اور تخلیقی عمل اپنی جگہ۔ شاعری سے بڑھ کر نثر میں گل پھول کھلائے ہیں۔ اور اس شان سے کہ موسیقی پر لکھنا شروع کیا تو باتوں باتوں میں برصغیر کے موسیقاروں کا سارا احوال اور احوال ہی کے واسطے سے سُرتال کی پڑتال کر ڈالی۔ ان کی کتاب 'باتیں کچھ سریلی سی' سمجھ لو کہ دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔
عالمی تہذیبوں میں بطور خاص چار تہذیبوں کو چنا، اسلامی تہذیب، ہندو تہذیب، مسیحی تہذیب، چینی تہذیب اور پھر گوتم بدھ کا احوال، اور عجیب رنگ سے مطالعہ کیا کہ جن مذاہب سے ان تہذیبوں نے جنم لیا ہے ان کا بھی تذکرہ اور محال ہے کہ ان میں سے کسی تہذیب اور کسی مذہب سے ذرہ برابر تعصب برتا ہو۔ بلکہ ان کے خلاف جو مختلف گروہوں میں تعصبات پھیلے ہوئے ہیں ان کی چھانٹی۔ سارا مطالعہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ کیا اور کس کمال کے ساتھ کہ ہندو اور مسلمان دونوں کے تہذیبی اور مذہبی معاملات پر گفتگو کی مگر مجال ہے کہ اپنے پروں پہ پانی پرنے دیا ہو اور پھر علم بگھارنے کے بجائے روزمرہ میں ایسے بیان کیا کہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ ذرا اسلامی کلچر کی تعریف ملاحظہ فرمائیے۔
''اسلامی کلچر کی معجون کا نسخہ اگر کوئی حکیم لکھے تو اس میں تین اجزا کا شامل کرنا ضروری ہو گا۔ ایک تولہ تسنن، ایک تولہ تشیع، اور ایک تولہ تصوف۔ تینوں اجزا اس میں پڑیں تو مفرح معجون بنے۔'' اور خود کلچر کیا ہے وہ بھی سن لیجیے۔
''فنون لطیفہ اپنی جگہ سہی، لیکن کلچر صرف فنون لطیفہ پر منحصر نہیں، کلچر زندگی کی ہانڈی پکانے کی ترکیب کا نام ہے۔ کلچر کی ہانڈی کا ایک خاص مسالہ ملت کا حافظہ ہے جس میں اس سارے ماضی کی گونج ہے۔''
کلچر میں غذائیں دو ہیں۔ جسمانی غذا اور روحانی غذا۔ ''جسمانی غذا کے لیے ہم ناشپاتی درخت سے توڑ کر کھائیں گے۔ پیاس بجھانے کو تربوز کا رس نچوڑ کر پئیں گے۔'' اور روحانی غذا وہ یوں ہے:
''روحانی غذا ہم کو پالتو بلی کی خر خر سے ملے گی یا لہلہاتی ہوئی گھاس کے منظر سے۔ اڑتی ہوئی چڑیا کو دیکھ کر ہمارا باطن مسکراتا ہے۔ قیس عامری مجنوں نہ ہوتا اگر دشت نہ ہوتا۔ سندباد کے جہازی ہونے کے لیے سمندر لازم ہوا۔''
دائود رہبر کی دانست میں ''ہندو کلچر کی ساری فضا دیومالا کی چہل پہل سے معمور ہے۔ ایسی سوسائٹی جو دیومالا سے منہ موڑے ہندو عوام کے مزاج کی سوسائٹی نہ ہو گی۔''
عالمانہ معاملات کو غیر عالمانہ رنگ میں بیان کرنے کا دلاویز ہنر کوئی دائود رہبر سے سیکھے۔ کیسی ہی علم و فضل کے ذکر اذکار ہوں عالموں والے ثقہ اور ثقیل انداز بیان کا تو سایہ بھی اپنے بیان پر نہیں پڑنے دیتے۔
علمی مسائل سے ہٹ کر دائود رہبر ایک اور راہ پر بھی چل پڑے۔ آخر انھوں نے غالبؔ کو بھی تو بہت ذوق و شوق سے پڑھا تھا۔ اور خالی غالبؔ کی شاعری کو نہیں۔ غالبؔ کے خطوط بھی اس ذوق و شوق سے پڑھے تھے۔ اور شاید ان خطوط کا لب و لہجہ اور انداز بیان دائود رہبر کے مزاج سے بہت قریب تھا۔ تو موصوف نے یاروں کو خط لکھنے شروع کر دیے۔ اور کس اہتمام سے خط لکھے کہ ہر خط لکھ کر اس کی ایک نقل تیار کرتے تھے اور ایک مٹکے میں ڈال دیتے تھے اور آپ جانیں کہ مٹکا تو اتنا عالی ظرف ہوتا ہے کہ اس میں گھڑوں پانی انڈیل دیا جائے پھر بھی وہ لبالب نہیں بھرتا۔ مگر دائود رہبر نے اتنے خط لکھے کہ گھروں میں رکھے مٹکے منہ منہ بھر گئے۔ انھوں نے خط مٹکوں کے حساب سے لکھے اور گھڑوں کے حساب سے چھپوائے۔ کچھ یاد نہیں آ رہا کہ ان کے خطوط کے کتنے مجموعے چھپے ہیں اور کس کمال سے خط لکھے ہیں کہ علمی مسائل بھی زیر بحث ہیں اور روزمرہ کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ ایران، توران، یونان تک کی اڑان ہے اور ساتھ ہی میں ماڈل ٹائون میں اپنا گھر بھی یاد آ رہا ہے۔ تو سمجھ لیجیے کہ یہاں یونان سے ماڈل ٹائون تک کی مار ہے۔ علمی ثقاہت اور گھریلو معاملات کی کیا خوب کھچڑی پکائی ہے۔
ہاں خاکہ نگاری کا شوق ہوا تو کتنے خاکے لکھ ڈالے۔ مجموعے کا نام رکھا پراگندہ طبع لوگ، جواز یہ پیش کیا کہ بندہ اکثر خود پراگندہ نہ ہوتا تو یہ کہانیاں نہ لکھتا۔ میں نے ایک دوست سے کہا، ممکن ہے دیگر پراگندہ لوگ یاد آئیں اور میں ان کی کہانیاں بھی لکھوں۔ اس عزیز نے کہا، دنیا پراگندہ لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ کس کس کی کہانی لکھو گے۔''
صحیح کہا۔ بہرحال دائود رہبر نے جن پراگندہ طبع لوگوں کے بارے میں لکھا خوب لکھا ہے۔ ایک تو وہ پراگندہ طبع پراگندہ خاطر اور پھر بیاں دائود رہبر کا۔ پراگندہ طبعی کا خوب نقشہ باندھا ہے۔
سو مطلب یہ کہ دائود رہبر کسی ایک موضوع تک محدود نہیں رہے۔ قلم رواں تھا۔ جس سمت میں بھی رواں ہوا اور جس موضوع کو بھی ہاتھ لگایا اس پر حق ادا کیا۔ ان کا اپنا ایک طرز بیان تھا۔ شگفتگی اس کا امتیاز تھا۔ ہمارے زمانے کے صاحبِ اسلوب نثر نگاروں میں ان کا شمار ہونا چاہیے اور ایسے زمانے میں جب اچھی نثر ہمعصر ادب میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
اور ایسے صاحب کمال اہل قلم۔