ریاست مدینہ کےلیے آپ بھی تو کچھ کیجئے

خان صاحب کا انتظار کرنے کے بجائے خود اہل مدینہ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کیجئے

وہ دن دور نہیں جب ریاست مدینہ کی طرز پر ایک حقیقی اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ (فوٹو: فائل)

جب سے عمران خان صاحب نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کےلیے ریاست مدینہ کی طرز پر ڈھالنے کا اعلان کیا ہے، ان پر تنقید کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہے۔

ابتدا میں ان پر تنقید ان کی ذات کے حوالے سے کی گئی، ان کی نجی زندگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں پر ایک چھوٹا سا واقعہ عرض کرتا چلوں۔ ایک معروف گلوگار جو توبہ کرکے اس شعبے سے کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے، ایک موقع پر لوگوں کو اللہ رب العزت کی ذات کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوئے کہ لوگو، اللہ کی طرف لوٹ آؤ۔ اگر آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کیا تو اللہ پاک میرے جیسے ناچنے والے کو ہدایت دے کر ممبر پر بٹھا دے گا۔ یعنی اگر ہماری نیک اور پارسا لیڈرشپ نے اسلامی ریاست کی طرف پیش قدمی کی ہوتی تو شائد آج عمران خان جیسے بندے کو یہ کوشش نہ کرنی پڑتی۔

جوں جوں وقت گزرا ان کی کارکردگی بھی تنقید کی زد میں آگئی۔ ابتدا میں ان پر تنقید ان کے سیاسی مخالفین ہی کرتے تھے، مگر اب ایک سال گزرنے کے بعد ان پر تنقید کرنے والوں میں پڑھے لکھے، سمجھدار اور محب وطن لوگ بھی شامل ہوچکے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے عمران خان واحد حکمران ہیں جنہوں نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ پاکستان کو اس کے قیام کے مقاصد کے عین مطابق ڈھالا جائے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ عزم خان صاحب نے اس وقت کیا جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پل ہی بہہ چکا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ بہرحال یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ کسی کو تو یہ خیال آیا کہ وطن عزیز کو اس کے مقاصد جلیلہ کے مطابق ڈھالا جائے۔

لیکن نہایت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ بجائے قوم خان صاحب کی معاونت کرتی، ہر شخص خان صاحب کا انتظار کرنے کے بجائے خود مدنی بننے کی کوشش کرتا، یعنی وہ صفات جو اہل مدینہ کی تھیں، قوم کا ہر فرد وہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا، جیسے مثال کے طور پر مدینہ میں رسول پاکؐ کا ہر ماننے والا سنت نبویؐ سے پیار کرتا تھا، کسی شخص کےلیے کسی بات پر عمل کرنے کےلیے یہ کافی تھا کہ یہ سنت ہے، (اور ہم سنت کو اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ سنت ہے، عمل کرلو تو ثواب ہے نہ کرو تو گناہ تو نہیں ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر) مدینہ میں کوئی شخص جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ ہم بھی عہد کرلیں کہ جھوٹ نہیں بولیں گے، (کیونکہ حضور نبی اکرمؐ کا فرمان عالیشان ہے (مفہوم) ''جھوٹ میں ہلاکت ہے'')، فراڈ نہیں کریں گے، رشوت نہیں لیں گے، (کیونکہ فرمان نبویؐ ہے (مفہوم) رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں)، کسی سے زیاتی نہیں کریں گے، ایثار کریں گے۔


ہم نے بجائے خان صاحب کا معاون بننے کے اعتراض کرنا شروع کردیا۔ ہم نے بنی اسرائیل کی طرح سوالات شروع کردیئے۔ اگر ہماری یہی روش رہی تو شائد آئندہ کوئی حکمران خواہش کے باوجود ایسا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ اگر ہمارے نشتر برسانے پر عمران خان صاحب نے دلبرداشتہ ہوکر راہ فرار اختیار کرلی، تو ہم سب بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے۔

آئیے ہم سب بھی عہد کریں کہ بجائے ہم خان صاحب کا انتظار کریں، ہم خود مدنی بن جائیں۔ علما سے پوچھ کر صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ بجائے خان صاحب پر تنقید کرنے کے اپنی ذات کی خامیاں دیکھیں گے۔ ریاست مدینہ کے شہریوں میں جو صفات مطلوب ہیں، وہ صفات اپنی ذات، اپنے اہل عیال اور اپنے دست نگر لوگوں کے اندر پید ا کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ بقول شاعر
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ دن دور نہیں جب ریاست مدینہ کی طرز پر ایک حقیقی اسلامی معاشرہ قائم ہوجائے گا۔ بصورت دیگر اگر ہم ریاست مدینہ کے قیام کےلیے صرف عمران خان کی طرف دیکھ کر تنقید کے نشتر ہی برساتے رہے اور خود کچھ نہ کیا، تو شائد ریاست مدینہ کی تعمیر مشکل ہوجائے۔ کیونکہ خان صاحب ستر سال کا بگاڑ ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو یقینی طور پر ایک طویل اور محنت طلب کام ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story