ترکی نے امریکا سے مذاکرات کے بعد کردوں کے خلاف فوجی آپریشن روک دیا

امریکی حکومت کے مطابق 120 گھنٹے کے لیے جنگ بندی کی گئی ہے جس میں مخصوص علاقہ کرد افواج سے خالی کرایا جائے گا

امریکی نائب صدر انقرہ پہنچنے کے بعد ترک صدر کے ساتھ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی موجود ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ترکی اور امریکا کے درمیان شام میں کردوں کے خلاف جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا جس کے بعد ترکی نے شام میں عارضی طور پر سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے کردوں کو نکلنے کے لیے پانچ دن کی مہلت دے دی۔

جنگ بندی کے حوالے سے امریکا کے نائب صدر مائیک پینس ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کرنے انقرہ پہنچے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام پہنچایا، ان کے ساتھ وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی موجود تھے۔

ملاقات کے بعد دونوں رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی جس میں مائیک پینس نے بتایا کہ امریکا اور ترکی کے درمیان بات چیت کے بعد ترکی نے کردوں کے خلاف آپریشن عارضی طور پر معطل کردیا ہے، دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت ترکی کردوں کو نکلنے کے لیے پانچ دن (120 گھنٹے) کی مہلت دے گا۔

مائیک پینس نے کہا کہ 120 گھنٹے کی جنگ بندی کے دوران امریکا کردوں کے زیر نگرانی افواج کو اس علاقے سے باہر نکالنے میں مدد کرے گا جسے ترکی لاکھوں پناہ گزینوں کے لیے محفوظ زون بنانا چاہتا ہے اور یہ ترک سرحد کے پاس قائم کیا جائے گا۔


امریکا کا ترکی پر مزید پابندیاں عائد نہ کرنے کا اعلان

مائیک پینس نے یہ بھی کہا کہ اس معاہدے کے بعد اب ترکی پر مزید پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی، ترکی اور امریکا دونوں داعش کے خلاف متحد ہیں۔

واضح رہے کہ ترکی نے گزشتہ ہفتے اس کی سرحد پر جمع ہونے والے کرد نیم فوجی دستوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی جس کے بعد یورپ اور امریکا نے ترکی پر تنقید کی تھی۔

اس ضمن میں صدر ٹرمپ نے ترکی پر نہ صرف سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا بلکہ ترک صدر کے نام ایک بہت سخت خط بھی تحریر کردیا تھا جسے تجزیہ نگاروں نے سفارتی آداب کے منافی بھی قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ ترکی سے ملحقہ شامی علاقے سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد ایک بحران پیدا ہوگیا تھا اور ترکی وہاں 35 لاکھ شامی مہاجرین کو بسا کر وہاں ایک سیف زون بنانا چاہتا ہے۔

Load Next Story