855 ملی میٹرفی سیکنڈ سے چلنے والی دنیا کی تیزرفتار چیونٹی
صحارا سِلور چیونٹی ایک سیکنڈ میں اپنے جسم سے 100 گنا زائد فاصلہ طے کرسکتی ہے۔
جب ہم تیزرفتار جانداروں کی بات کرتے ہیں تو فوری طور پر چیتے اور دیگر جانوروں کا خیال آتا ہے لیکن جب اپنے جسمانی لمبائی کے لحاظ سے فی سیکنڈ رفتار کی بات کی جائے تو اس میں حشرات اور کیڑے مکوڑوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
اس میدان میں صحارا کے ریگستان میں پائی جانے والی سلور چیونٹی Cataglyphis bombycina کا کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ ایک سیکنڈ میں یہ 855 ملی میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے یعنی ایک سیکنڈ میں 33.66 انچ تک آگے بھاگتی ہے۔ اگرچہ یہ چھوٹا فاصلہ لگتا ہے لیکن چیونٹی کے لحاظ سے یہ ایک عظیم جست ہے یعنی وہ اپنے جسم سے 108 گنا زیادہ دور جاسکتی ہے اور وہ بھی ایک سیکنڈ میں۔
ماہرین کے مطابق اگر یوسین بولٹ اسی تناسب سے دوڑے تو وہ ایک گھنٹے میں 800 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے۔ سلور چیونٹی نے کروڑوں سال میں خود کو صحارا ریگستان کے ماحول سے ہم آہنگ کیا ہے جس کے نتیجے میں اس نے برق رفتار انداز سے حرکت حاصل کرنا شروع کی ہے۔
دن کے وقت ریگستان کی گرمی 50 درجے سینٹی گریڈ تک ہوتی ہے لیکن اس تپش میں بھی یہ ریت پر تیزی سے دوڑتی پھرتی ہے۔ اس کی لمبی ٹانگوں کی بدولت چیونٹی کا جسم گرم ریت سے اوپر اٹھا رہتا ہے اور ارتقائی لحاظ سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ پھر ان کے جسم میں ایسے پروٹین بھی پائے جاتے ہیں جو حرارت برداشت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
یہ چیونٹیاں دن کے وقت بھی اپنے گھر سےنکلتے ہوئے بہت چھوٹا راستہ اختیار کرتی ہے تاکہ خوراک لے کر جلدی گھر پہنچ جائے۔ چیونٹی کے جسم پر باریک بال زگ زیگ اور تکونی صورت میں اگتےہیں جو سورج کی روشنی کو بہت حد تک منعکس کرسکتے ہیں۔
اپنے گھر سے نکل کر وہ کسی مرے ہوئے جانور کے جسم کو کھاتی ہیں اور چند منٹ بعد دوبارہ اپنے بل میں گھس جاتی ہیں۔
اس میدان میں صحارا کے ریگستان میں پائی جانے والی سلور چیونٹی Cataglyphis bombycina کا کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ ایک سیکنڈ میں یہ 855 ملی میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے یعنی ایک سیکنڈ میں 33.66 انچ تک آگے بھاگتی ہے۔ اگرچہ یہ چھوٹا فاصلہ لگتا ہے لیکن چیونٹی کے لحاظ سے یہ ایک عظیم جست ہے یعنی وہ اپنے جسم سے 108 گنا زیادہ دور جاسکتی ہے اور وہ بھی ایک سیکنڈ میں۔
ماہرین کے مطابق اگر یوسین بولٹ اسی تناسب سے دوڑے تو وہ ایک گھنٹے میں 800 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکتا ہے۔ سلور چیونٹی نے کروڑوں سال میں خود کو صحارا ریگستان کے ماحول سے ہم آہنگ کیا ہے جس کے نتیجے میں اس نے برق رفتار انداز سے حرکت حاصل کرنا شروع کی ہے۔
دن کے وقت ریگستان کی گرمی 50 درجے سینٹی گریڈ تک ہوتی ہے لیکن اس تپش میں بھی یہ ریت پر تیزی سے دوڑتی پھرتی ہے۔ اس کی لمبی ٹانگوں کی بدولت چیونٹی کا جسم گرم ریت سے اوپر اٹھا رہتا ہے اور ارتقائی لحاظ سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ پھر ان کے جسم میں ایسے پروٹین بھی پائے جاتے ہیں جو حرارت برداشت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
یہ چیونٹیاں دن کے وقت بھی اپنے گھر سےنکلتے ہوئے بہت چھوٹا راستہ اختیار کرتی ہے تاکہ خوراک لے کر جلدی گھر پہنچ جائے۔ چیونٹی کے جسم پر باریک بال زگ زیگ اور تکونی صورت میں اگتےہیں جو سورج کی روشنی کو بہت حد تک منعکس کرسکتے ہیں۔
اپنے گھر سے نکل کر وہ کسی مرے ہوئے جانور کے جسم کو کھاتی ہیں اور چند منٹ بعد دوبارہ اپنے بل میں گھس جاتی ہیں۔