شی مودی ملاقات۔ مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا
صدر شی کا نیپال کا دورہ بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔نیپال پہلے ہی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہو چکا ہے۔
گزشتہ کالم میں چینی صدر کے دورہ' بھارت پر بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ دورہ صدر شی جن پنگ اور وزیرِاعظم نریندر مودی کے درمیان دوسری غیر رسمی ملاقات ہوگی اوراس دورے کی وجہ یہ ہے کہ ڈوکلام تنازعے سے نکلنے کے لیے مودی نے جرمنی میں ایک میٹنگ کے موقع پر صدر شی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جس کے بعد ووہان چین میں دونوں لیڈروں کی پہلی ملاقات ہوئی۔ووہان ملاقات میں یہ بھی طے پایا کہ اگلے سال ایک اور ملاقات انڈیا میں ہوگی۔
اسی وجہ سے صدر شی نے بھارت کا دورہ کیا ،گزشتہ کالم میں ہی یہ بات بتائی گئی تھی کہ سرحدی تنازعے کے علاوہ کشمیر،لداخ اور ارونا چل پردیش میں جاری ایک بڑی فوجی مشق ایسی پیجیدگیاں ہیںجن کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ مشکل اور ایک رسمی نوعیت کا ہوگا اورکوئی خاص پیشرفت تقریباً ناممکن تھی۔
صدر شی بھارت کے دورے کے لیے چنائی پہنچے تو تامل ناڈو کے وزیرِاعلیٰ،گورنر اور تامل ناڈو ریاستی اسمبلی کے اسپیکر ہوائی اڈے پر انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ مرد فنکاروں کی تین اور خواتین فنکاروں کی ایک ٹولی بھی ثقافتی جھلک دکھانے صدر شی کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ ہوائی اڈے پر تقریب کے بعد صدر شی کو ساحلی قصبے لے جایا گیا جہاں انھوں نے قیام کیا۔
چینی صدر کے ہمراہ جناب ڈِنگ وزیرِخارجہ،مسٹر وانگ ممبر پولٹ بیورو تھے وہ الگ الگ اپنے اپنے ہم منصبوں سے مذاکرات کرتے رہے جب کہ بھارتی ٹیم میں وزیرِخارجہ جے شنکر۔نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول اور سیکٹری خارجہ وجے گوکھلے شامل تھے۔
اس دورے میں صدر شی اور وزیرِ اعظم مودی کو یوں تو آپس میں ملنے کے پانچ مواقعے ملے لیکن مذاکرات کا اصلی دور مچن ریسٹورنٹ میں ہوا جہاں دونوں فریق پچاس منٹ تک محوِ گفتگو رہے۔اس مذاکراتی دور میں صدر شی اور وزیرِ اعظم مودی کی مدد دونوں لیڈروں کی ٹیم نے کی۔ اجیت دوول بہت ایکٹو نظر آئے، دوول کو ان کے کردار کی اہمیت کی وجہ سے وزیر کا درجہ دے دیا گیا ہے تا کہ انھیں وزیرِاعظم کے علاوہ کسی اور کے سامنے جوابدہ نہ ہونا پڑے۔
دووال نے ہی سکم کے محاذ پر کامیابی حاصل کی۔وہ کئی سال بھارتی سفارتخانے اسلام آباد میں بھی تعینات رہے اور بھارتی یہ دعویٰ کرتے ہیںکہ پاکستان میں رہتے ہوئے دوول نے پاکستان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے سکھوں کی معلومات اکھٹی کیں اور ان ہی معلومات کے نتیجے میں بھارتی پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک سے نبٹا جا سکا۔
صدر شی کے دورے میں یوں تو کئی موضوعات زیرِ بحث آئے لیکن کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا بلکہ کہا گیا کہ دونوں فریق اپنا اپنا الگ اعلامیہ جاری کریں گے، اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ دونوں رہنما ؤں کی ملاقات میںکوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکا۔بیجنگ سے جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ دونوں تہذیبوں کو ایک دوسرے کو پڑھنے،سیکھنے اور روابط بڑھانے پر اتفاق ہوا۔
اسی طرح بھارتی وزیرِاعظم مودی نے ایک بیان میں کہا کہ چین اور بھارت کے درمیان تعاون اور اشتراک کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔دونوں نے طے کیا ہے کہ اختلافات کو ایسے طریقے سے ڈیل کیا جائے کہ اختلافات جھگڑوںمیں تبدیل نہ ہوں۔چین اور بھارت کے مابین کوئی تین ہزار چھ سو کلو میٹر طویل سرحد ہے۔بھارت اس بات پر زور دیتا ہے کہ ساری سرحد غیر متنازعہ ہے جب کہ چین اس میں سے صرف ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کو غیر متنازعہ مانتا ہے۔بھارت اور چین دونوں تجارت کا حجم بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن بھارت کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 63ارب ڈالر کو پہنچ چکا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ایک دو سال میں یہ تجارتی خسارہ 75ارب ڈالر سے بڑھ سکتا ہے۔
بھارت اس تجارتی خسارے سے پریشان ہے اور کم کرنا چاہتا ہے،بھارت کو سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں پر بھی بہت تشویش ہے، چین کی افغانستان میں دلچسپی بہت بڑھ گئی ہے،بھارت چین کی افغانستان میں بڑھتی دلچسپی کو افغانستان کے اندر اپنے مفادات کے خلاف اور پاکستانی مفادات کے حق میں گردانتا ہے۔ صدر شی کی بھارت آمدسے صرف ایک دن پہلے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے دہلی میں کہا کہ بھار ت صدر شی اور پاکستان کے وزیرِاعظم کے درمیان ملاقات کی ایک رپورٹ کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں لیڈروں کی میٹنگ میں جموں و کشمیر پر بھی بات ہوئی۔ بھارت کی ہمیشہ سے یہ پوزیشن رہی ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور کسی دوسرے ملک کو بھارت کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ چین کو بھارت پاکستان معاملات سے دور رہنا چاہیے۔
صدر شی کے دورہ بھارت سے پہلے جناب عمران خان نے چین کا دورہ کیا۔جنرل باجوہ بھی وہیں موجود تھے۔یہ دورہ اس حوالے سے خاصا اہم تھا کیونکہ اس کی وجہ سے دونوں اسٹرٹیجک پارٹنر ممالک کو یہ موقع ملا کہ باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ چینی صدر کے دورہ بھارت پر صلاح مشورہ کر سکیں۔ چینی قیادت نے اہم امور پر پاکستانی قیادت کو اعتماد میں لیا۔اس موقع پر چین نے اعلامیہ میں کہا کہ چین جموں و کشمیر کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے،یہ ایک متنازعہ تاریخی مسئلہ ہے اور چین یہ چاہتا ہے کہ اس مسئلے کا ایک مناسب حل اقوام ِمتحدہ کے چارٹرکے مطابق تلاش کیا جائے۔ بھارت اس اعلامیے پر بہت پیچ و تاب کھا رہا ہے۔
اس اعلامیے سے صدر شی کے دورہ ' بھارت کی ٹون سیٹ ہو گئی اور بھارت کو پتہ چل گیا کہ چین کشمیر کے ایشو پر کہاں کھڑا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ شی مودی ملاقات کا کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی کامن گراؤنڈ نہیں ہے۔صدر شی اور مودی نے اگلے سال پھر ملنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔چین کے صدر بھارت کا دورہ مکمل کر کے نیپال کی راجدھانی پہنچے۔کسی بھی چینی سربراہ مملکت کا 1996 کے بعد یہ پہلا دورہ ہے،کھٹمنڈو میں صدر شی کا والہانہ اور فقید المثال استقبال ہوا ۔نیپال چونکہ ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے اس لیے اس کا بڑاانحصار بھار ت پر ہے۔ بھارت نیپال کو اپنے حلقہ' اثر میں گردانتا ہے اور ہرگز نہیں چاہتاکہ نیپال اس کے حلقہ ' اثر سے نکل جائے۔لیکن نیپال بھارت کی اس کے اندرونی معاملات میں بڑھی ہوئی مداخلت سے بہت نالاںہے ا ور اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح بھارت کے چنگل سے نکل جائے۔
صدر شی کا نیپال کا دورہ بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔نیپال پہلے ہی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہو چکا ہے۔چینی صدر نے نیپال میں 62بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا،یہ انوسٹمنٹ نیپال کو تبدیل کرکے رکھ سکتی ہے۔بھارت ان تمام باتوں کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
ادھر نیپال سمیت خطے کے تمام ممالک میں چین کی بڑھتی دلچسپی، اس کی مضبوط دفاعی صلاحیت اور روز افزوں اوپر جاتی معیشت یہ پیغام دے رہی ہے کہ چین خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔خطے کے تمام ممالک چین کو اپنا اہم رول ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیں صرف بھارت امریکا کی شہہ پر اس لُوپ سے باہر ہے اور اپنے تئیں چین کوروکنے پر مُصر ہے دوسری طرف چین یہ چاہتا ہے کہ مسائل اور تنازعات کو نہیں بلکہ تعاون کو جِلا ملنی چاہیے۔
اسی وجہ سے صدر شی نے بھارت کا دورہ کیا ،گزشتہ کالم میں ہی یہ بات بتائی گئی تھی کہ سرحدی تنازعے کے علاوہ کشمیر،لداخ اور ارونا چل پردیش میں جاری ایک بڑی فوجی مشق ایسی پیجیدگیاں ہیںجن کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ مشکل اور ایک رسمی نوعیت کا ہوگا اورکوئی خاص پیشرفت تقریباً ناممکن تھی۔
صدر شی بھارت کے دورے کے لیے چنائی پہنچے تو تامل ناڈو کے وزیرِاعلیٰ،گورنر اور تامل ناڈو ریاستی اسمبلی کے اسپیکر ہوائی اڈے پر انھیں خوش آمدید کہنے کے لیے موجود تھے۔ مرد فنکاروں کی تین اور خواتین فنکاروں کی ایک ٹولی بھی ثقافتی جھلک دکھانے صدر شی کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ ہوائی اڈے پر تقریب کے بعد صدر شی کو ساحلی قصبے لے جایا گیا جہاں انھوں نے قیام کیا۔
چینی صدر کے ہمراہ جناب ڈِنگ وزیرِخارجہ،مسٹر وانگ ممبر پولٹ بیورو تھے وہ الگ الگ اپنے اپنے ہم منصبوں سے مذاکرات کرتے رہے جب کہ بھارتی ٹیم میں وزیرِخارجہ جے شنکر۔نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول اور سیکٹری خارجہ وجے گوکھلے شامل تھے۔
اس دورے میں صدر شی اور وزیرِ اعظم مودی کو یوں تو آپس میں ملنے کے پانچ مواقعے ملے لیکن مذاکرات کا اصلی دور مچن ریسٹورنٹ میں ہوا جہاں دونوں فریق پچاس منٹ تک محوِ گفتگو رہے۔اس مذاکراتی دور میں صدر شی اور وزیرِ اعظم مودی کی مدد دونوں لیڈروں کی ٹیم نے کی۔ اجیت دوول بہت ایکٹو نظر آئے، دوول کو ان کے کردار کی اہمیت کی وجہ سے وزیر کا درجہ دے دیا گیا ہے تا کہ انھیں وزیرِاعظم کے علاوہ کسی اور کے سامنے جوابدہ نہ ہونا پڑے۔
دووال نے ہی سکم کے محاذ پر کامیابی حاصل کی۔وہ کئی سال بھارتی سفارتخانے اسلام آباد میں بھی تعینات رہے اور بھارتی یہ دعویٰ کرتے ہیںکہ پاکستان میں رہتے ہوئے دوول نے پاکستان کے ساتھ رابطے میں رہنے والے سکھوں کی معلومات اکھٹی کیں اور ان ہی معلومات کے نتیجے میں بھارتی پنجاب میں سکھ علیحدگی تحریک سے نبٹا جا سکا۔
صدر شی کے دورے میں یوں تو کئی موضوعات زیرِ بحث آئے لیکن کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا بلکہ کہا گیا کہ دونوں فریق اپنا اپنا الگ اعلامیہ جاری کریں گے، اس سے یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہے کہ دونوں رہنما ؤں کی ملاقات میںکوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہوسکا۔بیجنگ سے جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا کہ دونوں تہذیبوں کو ایک دوسرے کو پڑھنے،سیکھنے اور روابط بڑھانے پر اتفاق ہوا۔
اسی طرح بھارتی وزیرِاعظم مودی نے ایک بیان میں کہا کہ چین اور بھارت کے درمیان تعاون اور اشتراک کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔دونوں نے طے کیا ہے کہ اختلافات کو ایسے طریقے سے ڈیل کیا جائے کہ اختلافات جھگڑوںمیں تبدیل نہ ہوں۔چین اور بھارت کے مابین کوئی تین ہزار چھ سو کلو میٹر طویل سرحد ہے۔بھارت اس بات پر زور دیتا ہے کہ ساری سرحد غیر متنازعہ ہے جب کہ چین اس میں سے صرف ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کو غیر متنازعہ مانتا ہے۔بھارت اور چین دونوں تجارت کا حجم بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن بھارت کا چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 63ارب ڈالر کو پہنچ چکا ہے اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ایک دو سال میں یہ تجارتی خسارہ 75ارب ڈالر سے بڑھ سکتا ہے۔
بھارت اس تجارتی خسارے سے پریشان ہے اور کم کرنا چاہتا ہے،بھارت کو سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبوں پر بھی بہت تشویش ہے، چین کی افغانستان میں دلچسپی بہت بڑھ گئی ہے،بھارت چین کی افغانستان میں بڑھتی دلچسپی کو افغانستان کے اندر اپنے مفادات کے خلاف اور پاکستانی مفادات کے حق میں گردانتا ہے۔ صدر شی کی بھارت آمدسے صرف ایک دن پہلے بھارتی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے دہلی میں کہا کہ بھار ت صدر شی اور پاکستان کے وزیرِاعظم کے درمیان ملاقات کی ایک رپورٹ کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں لیڈروں کی میٹنگ میں جموں و کشمیر پر بھی بات ہوئی۔ بھارت کی ہمیشہ سے یہ پوزیشن رہی ہے کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور کسی دوسرے ملک کو بھارت کے اندرونی معاملات پر تبصرہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ چین کو بھارت پاکستان معاملات سے دور رہنا چاہیے۔
صدر شی کے دورہ بھارت سے پہلے جناب عمران خان نے چین کا دورہ کیا۔جنرل باجوہ بھی وہیں موجود تھے۔یہ دورہ اس حوالے سے خاصا اہم تھا کیونکہ اس کی وجہ سے دونوں اسٹرٹیجک پارٹنر ممالک کو یہ موقع ملا کہ باہمی دلچسپی کے امور کے علاوہ چینی صدر کے دورہ بھارت پر صلاح مشورہ کر سکیں۔ چینی قیادت نے اہم امور پر پاکستانی قیادت کو اعتماد میں لیا۔اس موقع پر چین نے اعلامیہ میں کہا کہ چین جموں و کشمیر کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے،یہ ایک متنازعہ تاریخی مسئلہ ہے اور چین یہ چاہتا ہے کہ اس مسئلے کا ایک مناسب حل اقوام ِمتحدہ کے چارٹرکے مطابق تلاش کیا جائے۔ بھارت اس اعلامیے پر بہت پیچ و تاب کھا رہا ہے۔
اس اعلامیے سے صدر شی کے دورہ ' بھارت کی ٹون سیٹ ہو گئی اور بھارت کو پتہ چل گیا کہ چین کشمیر کے ایشو پر کہاں کھڑا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ شی مودی ملاقات کا کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی کامن گراؤنڈ نہیں ہے۔صدر شی اور مودی نے اگلے سال پھر ملنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان گفتگو کا سلسلہ جاری رہے گا۔چین کے صدر بھارت کا دورہ مکمل کر کے نیپال کی راجدھانی پہنچے۔کسی بھی چینی سربراہ مملکت کا 1996 کے بعد یہ پہلا دورہ ہے،کھٹمنڈو میں صدر شی کا والہانہ اور فقید المثال استقبال ہوا ۔نیپال چونکہ ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے اس لیے اس کا بڑاانحصار بھار ت پر ہے۔ بھارت نیپال کو اپنے حلقہ' اثر میں گردانتا ہے اور ہرگز نہیں چاہتاکہ نیپال اس کے حلقہ ' اثر سے نکل جائے۔لیکن نیپال بھارت کی اس کے اندرونی معاملات میں بڑھی ہوئی مداخلت سے بہت نالاںہے ا ور اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح بھارت کے چنگل سے نکل جائے۔
صدر شی کا نیپال کا دورہ بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔نیپال پہلے ہی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہو چکا ہے۔چینی صدر نے نیپال میں 62بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا،یہ انوسٹمنٹ نیپال کو تبدیل کرکے رکھ سکتی ہے۔بھارت ان تمام باتوں کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔
ادھر نیپال سمیت خطے کے تمام ممالک میں چین کی بڑھتی دلچسپی، اس کی مضبوط دفاعی صلاحیت اور روز افزوں اوپر جاتی معیشت یہ پیغام دے رہی ہے کہ چین خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔خطے کے تمام ممالک چین کو اپنا اہم رول ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیں صرف بھارت امریکا کی شہہ پر اس لُوپ سے باہر ہے اور اپنے تئیں چین کوروکنے پر مُصر ہے دوسری طرف چین یہ چاہتا ہے کہ مسائل اور تنازعات کو نہیں بلکہ تعاون کو جِلا ملنی چاہیے۔