لوپور کے کچے قلعے سے لاہور کے شاہی قلعے تک

آج جس جگہ ایک مضبوط، بلند و بالا قلعہ موجود ہے، یہاں ماضی میں ایک کچا قلعہ ہوا کرتا تھا

شاہی قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور جسے ایک قدیم تاریخی شہر کی حیثیت حاصل ہے اور اس نے اپنے آغاز سے لے کر اب تک بے پناہ ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محاورے کے طور پر کچھ لوگ پنجابی لب و لہجے میں یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ بعض لوگ اسے زندہ دلان لاہور کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہاں سیر و تفریح کےلیے آنے والے لوگ بھی شہر سے متاثر ہوکر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ لاہور لاہور ہے۔

اور ان کی یہ بات غلط بھی نہیں، کیونکہ ماضی میں جس کراچی کو روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا، اب وہاں روشنیوں کی جگہ تاریکی نے لے لی ہے۔ ماضی میں اس کی سڑکیں جو کبھی روز دھلا کرتی تھیں، اب گندے پانی کی نکاسی نہ ہونے کے باعث تالاب کے مناظر پیش کررہی ہیں، جبکہ پورا شہر کوڑے دان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ جبکہ شہر لاہور نے چند برسوں میں عروس البلاد کہلانے والے اور پاکستان معیشت کے حب کا درجہ رکھنے والے کراچی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بے پناہ ترقی کی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج قدیم شہر لاہور میں چاروں طرف ترقی ہی ترقی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں کی سڑکیں، فٹ پاتھ اور گلیاں چمکتی دمکتی نظر آتی ہیں، جبکہ شہر بھر میں بنائے جانے والے اوور ہیڈ برج، انڈر پاس اور جدید ٹرانسپورٹ کے سبب ملکی اور غیر ملکی سیاح روزانہ کی بنیادوں پر یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اور انتظامی لحاظ سے صوبہ پنجاب کا صوبائی دارالحکومت ہے۔

پاکستان میں لاہور ایک تاریخی، تجارتی اور ثقافتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ لاہور کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس شہر کو پرانے زمانے میں لوپور کہا جاتا تھا، کیونکہ اسے 'لو' نے آباد کیا تھا اور اس کے جڑواں بھائی 'کُش' نے قصور کو آباد کیا تھا۔ لو اور کُش دونوں ہندو دیوتا رام کے دو بیٹے تھے، جن کا ذکر ہندو مذہبی کتاب رامائن میں تفصیل سے ہوا ہے۔ اس شہر کا پرانا نام لوپور (لو کا علاقہ/ شہر) ہوا کرتا تھا۔ بعد میں اسے لاہور کہا جانے لگا۔ لاہور دو الفاظ کا مرکب ہے، لوہ یا لاہ جس کا مطلب لَو، اور آور جس کا مطلب قلعہ ہے، یعنی لاہور کا مطلب لو کا قلعہ ہے۔

لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزو زینگ نے لکھا، جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گزرا تھا۔ اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے کہ رام چندر کے بیٹے 'لوہو' یا لَو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو 'پرانوں' میں لاہور کا نام 'لوہ پور' یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔ راجپوت دستاویزات میں اسے 'لوہ کوٹ' یعنی لوہ کا قلعہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ قلعہ جس کے لغوی معنی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کےلیے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔ کیونکہ لاہور میں پہلے قلعے کی جگہ ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا، جو لاہور شہر کی سطح سے کافی بلند تھا۔ لہٰذا قلعہ لاہور، جسے مقامی طور پر شاہی قلعہ بھی کہا جاتا ہے، شہر کے شمال مغرب میں واقع ہے۔

گو کہ یہ قلعہ، جس کی تاریخ زمانہ قدیم سے جاملتی ہے، کی ازسرِنو تعمیر مغل بادشاہ اکبر اعظم نے 1556 میں تعمیر شروع کرائی تھی، جو 1605 میں مکمل ہوگئی۔ مگر اس کے بعد بھی اس کی آنے والی نسلیں بھی قلعے کی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذا یہ قلعہ مغلیہ فنِ تعمیر اور روایت کا نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتا ہے۔


قلعے کے اندر واقع چند مشہور مقامات میں شیش محل، عالمگیری دروازہ، نولکھا محل اور موتی مسجد شامل ہیں، جوکہ اپنی مثال آپ ہیں اور اس کے تعمیراتی حسن اور قدامت کو دیکھتے ہوئے یونیسکو نے بھی اس قلعے کو شالامار باغ کے ساتھ عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔

آج جس جگہ ایک مضبوط، بلند و بالا قلعہ موجود ہے، یہاں ماضی میں ایک کچا قلعہ ہوا کرتا تھا۔ 1566 میں شہنشاہ اکبر نے اسے گرا کر اس جگہ نئے سرے سے ایک عالیشان پختہ قلعہ بنوایا۔ جس کی تعمیر میں رہائشی مقاصد کے ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس قلعہ کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے، جبکہ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں، جن کی چنائی مٹی کے گارے سے کی گئی ہے۔ ان دیواروں پر بندوقچیوں کےلیے سوراخ ہیں، جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی، گولیاں اور گولے برساتے تھے۔ اس کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔

قلعے کا بیرونی حصہ پچی کاری کے نہایت ہی خوبصورت نمونوں سے مزین ہے، جس پر جابجا انسانوں، گھوڑوں اور ہاتھیوں کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ قلعے کے اردگرد ایک اونچی فصیل ہے، جس کے تین بڑے دروازے ہیں، ایک مشرق کی سمت، دوسرا جنوب کی سمت، اور تیسرا شمال مغرب کی جانب ہے۔ شمال مغربی دروازے سے بادشاہ اور بیگمات ہاتھی پر سوار ہوکر گزرتے تھے۔ اس دروازے پر شاہ جہاں کا نام بھی کندہ ہے۔ یہ دروازہ انگریزوں کے حکم پر بند کردیا گیا تھا، مگر 1949 کو سابق گورنر پنجاب نے پورے تین سو سال بعد اسے دوبارہ کھلوادیا۔

قلعے کے اندر ایک دیوان ہے، جس کی چھت ستونوں کے سہارے کھڑی ہے۔ اسے دیوان عام کہتے ہیں۔ اس میں ایک جھروکا بنا ہوا ہے، جہاں بیٹھ کر شاہ جہاں اپنی رعیت کو اپنا دیدار کراتا تھا۔ دیوان خاص بادشاہ کا شاہی دربار تھا، جہاں وہ اپنے وزیروں، مشیروں، شہزادوں اور دوسرے راجاؤں مہاراجوں سے ملاقات کیا کرتا تھا اور سلطنت کے بارے میں صلاح مشورہ لیتا تھا۔ قلعے کے اندر ایک شیش محل ہے جو فن تعمیر اور فن نقاشی کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی دیواریں اور چھتیں رنگ برنگے شیشوں اور پچی کاری کے کام سے مزین ہیں۔ ان کی چمک دمک آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ اب بھی شیش محل کے کسی کمرے میں ٹارچ روشن کریں تو تمام کمرہ جھلمل کرنے لگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔

شیش محل کے قریب ہی موتی مسجد ہے۔ یہ بھی فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ اسے جہانگیر نے شاہی بیگمات کےلیے تعمیر کروایا تھا تاکہ وہ اس مسجد میں باپردہ نماز ادا کرسکیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی دورِ حکومت میں اس قلعے پر قبضہ کیا تو اس نے موتی مسجد کا نام بدل کر ''موتی مندر'' رکھ دیا تھا۔ اگرچہ سکھوں نے مسجد سے قیمتی ہیرے جواہرات نکال کر اس کی خوبصورتی کو سخت نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود اس کی عظمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں بہت سی نادر اشیاء محفوظ ہیں۔ بہت سی الماریوں میں پرانے زمانے کے اوزار، اسلحہ، تصویریں اور لباس وغیرہ بڑے قرینے سے سجائے گئے ہیں۔ اتنی مدت گزر جانے کے باوجود بھی ان چیزوں کی سج دھج اور شان و شوکت میں کوئی فرق نہیں آیا۔

ملکی و غیر ملکی سیاح ہر سال کثیر تعداد میں اس قلعے کو دیکھنے آتے ہیں۔ پہلے اس قلعے کو دیکھنے آنے والے سیاحوں کےلیے زیادہ سہولیات نہیں تھیں، مگر پچھلے چند برسوں میں شاہی قلعہ، مینار پاکستان اور بادشاہی مسجد کو ایک ہی چار دیواری کے اندر قید کردیا گیا ہے، جس کے پیش نظر یہاں آنے والے سیاح بیک وقت 3 اہم ترین یادگاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ چونکہ یہ تینوں یادگاریں بہت بڑے رقبے پر قائم ہیں، لہٰذا اسے پیدل چل کر دیکھنا محال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سیاحوں کی سہولت کےلیے حکومت پنجاب کی طرف سے مینار پاکستان میں ٹرینیں اور شاہی قلعے کی سیر کےلیے سفاری چلائی گئی ہے، جس سے آنے والے سیاح بیک وقت تینوں مقامات کے چپے چپے کی سیر کررہے ہوتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story