ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خور30کے بجائے90دن تک حراست میں رکھے جا سکیں گے انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس نافذ
ججوں،گواہوں،پبلک پراسیکیوٹرزکوتحفظ دیاجائے گا، انسداددہشت گردی کیسز وڈیولنک کے ذریعے سنے جاسکیں گے.
صدرمملکت ممنون حسین نے انسداد دہشت گردی (ترمیمی) آرڈیننس 2013ء کی منظوری دے دی جو فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔
آرڈیننس کے تحت الیکٹرونک شواہد قابل قبول ہوں گے جبکہ ججوں، گواہوں اور پبلک پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم کیاجائے گا۔قابل اعتماد معلومات اور مناسب شکایات ملنے کے بعد ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث کسی بھی شخص کو 3 ماہ (90 دن )کیلیے حراست (حفاظتی تحویل) میں لینے کے احکام جاری کیے جاسکیں گے، اس سے قبل یہ مدت ایک ماہ تھی۔ انسداد دہشت گردی کے کیسوں کا وڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل ممکن ہوسکے گا ۔ انسداد دہشتگردی کے کیسوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں منتقل کیا جاسکے گا۔ تفتیشی افسر 30 روز میں چالان جمع نہ کراسکا تو تحقیقاتی ٹیم بنادی جائے گی ۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم متعلقہ مقدمات کے عبوری چالان جمع کرائے گی۔ ملک بھر کی جیلوں میں موبائل اور الیکٹرانک آلات پر مکمل پابندی ہوگی اور اس مقصد کیلیے جیلوں میں موثر جیمر لگائے جائیں گے، صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ قیدیوں کو موبائل فون تک رسائی نہ ہو۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ایک درجن سے زائد تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔
آرڈیننس کے تحت دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان کے مجرموں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کیخلاف ایس ایم ایس ، ای میل، ٹیلیفون کالز وغیرہ بطور شواہد استعمال کی جاسکیں گی۔ ججوں، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کے تحفظ کیلیے آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا کہ ضرورت پڑنے پر ٹرائل کے دوران گواہوں، ججوں اور پراسیکیوٹرزکو اسکرین کے ذریعے تحفظ دیا جائے گا ۔ اہم مقدمات کی سماعت جیل کی حدود میں ہوگی اور اس حوالے سے حکومت قانونی طریقے سے انتظامات کرے گی۔
کسی بھی مقدمے کی کامیاب تکمیل پر تفتیشی افسران کو انعامات و اعزاز دینے کی ترمیم بھی آرڈیننس میں شامل ہے۔ آرڈیننس کے تحت حکومت کسی بھی کیس کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت سے ملک کے کسی بھی حصے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کرنے کی مجاز ہوگی، اس حوالے سے متعلقہ چیف جسٹس کی منظوری لازمی ہوگی۔ مقدمے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تفتیش مکمل ہونے کے بعد عدالت کیس کی کارروائی روزانہ کی بنیادوں پر چلانے کی مجاز ہوگی، مقدمہ چلانے سے قبل تفتیشی افسران جو انسپکٹر کے رینک سے کم کے نہ ہوں، جوائنٹ انویسٹی گیش ٹیم (جے آئی ٹی) جس میں مسلح افواج اور سول فورسز کے ممبران شامل ہوں، ایک ماہ کے اندر تمام تفتیشی مراحل پورے کرے گی تاکہ کیس کی سماعت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔
آرڈیننس کے تحت الیکٹرونک شواہد قابل قبول ہوں گے جبکہ ججوں، گواہوں اور پبلک پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم کیاجائے گا۔قابل اعتماد معلومات اور مناسب شکایات ملنے کے بعد ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری میں ملوث کسی بھی شخص کو 3 ماہ (90 دن )کیلیے حراست (حفاظتی تحویل) میں لینے کے احکام جاری کیے جاسکیں گے، اس سے قبل یہ مدت ایک ماہ تھی۔ انسداد دہشت گردی کے کیسوں کا وڈیو لنک کے ذریعے ٹرائل ممکن ہوسکے گا ۔ انسداد دہشتگردی کے کیسوں کو ملک کے کسی بھی حصے میں منتقل کیا جاسکے گا۔ تفتیشی افسر 30 روز میں چالان جمع نہ کراسکا تو تحقیقاتی ٹیم بنادی جائے گی ۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم متعلقہ مقدمات کے عبوری چالان جمع کرائے گی۔ ملک بھر کی جیلوں میں موبائل اور الیکٹرانک آلات پر مکمل پابندی ہوگی اور اس مقصد کیلیے جیلوں میں موثر جیمر لگائے جائیں گے، صوبائی حکومتیں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ قیدیوں کو موبائل فون تک رسائی نہ ہو۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں ایک درجن سے زائد تبدیلیاں کی گئی ہیں ۔
آرڈیننس کے تحت دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان کے مجرموں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کیخلاف ایس ایم ایس ، ای میل، ٹیلیفون کالز وغیرہ بطور شواہد استعمال کی جاسکیں گی۔ ججوں، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کے تحفظ کیلیے آرڈیننس میں یہ بھی کہا گیا کہ ضرورت پڑنے پر ٹرائل کے دوران گواہوں، ججوں اور پراسیکیوٹرزکو اسکرین کے ذریعے تحفظ دیا جائے گا ۔ اہم مقدمات کی سماعت جیل کی حدود میں ہوگی اور اس حوالے سے حکومت قانونی طریقے سے انتظامات کرے گی۔
کسی بھی مقدمے کی کامیاب تکمیل پر تفتیشی افسران کو انعامات و اعزاز دینے کی ترمیم بھی آرڈیننس میں شامل ہے۔ آرڈیننس کے تحت حکومت کسی بھی کیس کو انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت سے ملک کے کسی بھی حصے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کرنے کی مجاز ہوگی، اس حوالے سے متعلقہ چیف جسٹس کی منظوری لازمی ہوگی۔ مقدمے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے تفتیش مکمل ہونے کے بعد عدالت کیس کی کارروائی روزانہ کی بنیادوں پر چلانے کی مجاز ہوگی، مقدمہ چلانے سے قبل تفتیشی افسران جو انسپکٹر کے رینک سے کم کے نہ ہوں، جوائنٹ انویسٹی گیش ٹیم (جے آئی ٹی) جس میں مسلح افواج اور سول فورسز کے ممبران شامل ہوں، ایک ماہ کے اندر تمام تفتیشی مراحل پورے کرے گی تاکہ کیس کی سماعت میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔