مسئلہ کشمیرحل نہ ہونے کے درپردہ اسباب
جب تک پاکستان اوربھارت اپنے بنیادی نظریاتی مؤقف پرنظرثانی نہیں کرتے،مستقبل قریب میں اس کے حل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔
حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ فرانس میں مشترکہ پریس بریفنگ کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ ''پاکستان اور بھارت کے مابین کئی دوطرفہ مسائل ہیں۔'' مسئلہ کشمیر حل کروانے کے لیے صدر ٹرمپ کی پیش کش پر تبصرہ کرتے ہوئے مودی نے کہا: '' ہم کسی تیسرے ملک کو زحمت نہیں دینا چاہتے کیوں کہ ہم ان دوطرفہ مسائل پر آپس میں بات کرکے انھیں حل کرسکتے ہیں''۔
مودی نے یہاں بھی گول مول بات ہی کی کیوں کہ 5اگست کا اقدام کرکے خود انھوں نے کشمیر کے مسئلے کو یک طرفہ طور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بہ آسانی یہ بات فراموش کردی کہ بھارت ہی 1948میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں میں مختلف طریقوں سے استصوابِ رائے کروا کر اس مسئلے کے حل تجویز کیے گئے ہیں لیکن بھارت ان میں سے کسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہاں نہیں وہ تو بس اپنے غیر قانونی قبضے کی توثیق کے لیے اقوام متحدہ کا ٹھپا لگوانا چاہتا ہے۔ 1972میں بھٹو سے شملہ معاہدے پر دستخط کروا کر اندرا گاندھی نے اس معاملے سے اقوام متحدہ کو نکالنے اور اس تنازعے کو دو طرفہ معاملہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ اس معاہدے کی قانونی نزاکتوں کے باوجود دونوں ممالک کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پاکستان کی کوششوں سے جموں و کشمیر کی پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ مودی سرکار نے بھارتی آئین میں کشمیر کی خود مختار آئینی حیثیت ختم کرکے اسے براہ راست دہلی کے ماتحت کرنے کا جو اقدام کیا، اس سے نہ صرف بھارت نے عملاًاقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کو بھی مستردکردیا ہے بلکہ پورے کشمیر پر اپنے دعوے سے دست بردار ہوئے بغیر اپنے زیر قبضہ کشمیر پر ایک یک طرفہ حل مسلط کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر ایک سرحدی تنازعہ معلوم ہونے والا یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟ کوئی بھی فریق کسی علاقے کی تقسیم کرسکتا ہے یا اس کے بدلے کوئی علاقہ حاصل کرسکتا ہے یا پھر جنگ کے بعد سامنے آنے والے نتائج کو تسلیم کرسکتا ہے؟ کشمیر کو پاک بھارت تعلقات میں سب سے بنیادی وجہ نزاع تصور کیا جاتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ کے بارے میں یہ نقطہ نظر حقیقت سے دور ہے۔
آج بھی اصل مسئلہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا وجود ہے۔برصغیر کی سیاسی قوتوں کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے لیے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام کسی سرحدی تقسیم کے معاہدے سے بہت بڑھ کر تھا۔ اس کی بنیاد ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے اور انھی نظریات سے ان ریاستوں کے الگ الگ وجود کا جواز فراہم ہوتا ہے۔
اگرچہ کانگریس نے ہمیشہ ہی ایک ایسی سیکولر جماعت ہونے کا دعویٰ کیا جو اپنے اراکین کی مذہبی وابستگیوں اور تخیلاتی ہندوستانی قوم کے تصور سے لاتعلق رہی لیکن 19ویں صدی کے اواخر سے اس کے اکثر اراکین اور قائدین اپنے سماجی و مذہبی مرتبے سے بہت مخلص ہندو ہی تھے۔
ہندوستان کے عام آدمی کے لیے مغرب سے درآمد شدہ قوم، قومیت یا جمہوریت جیسے تصورات بالکل اجنبی تھے، کانگریس نے ان لوگوں تک اپنی بات پہنچانے اور عزائم واضح کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا۔ گاندھی گو کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے دعوے دار تھے لیکن ہندوستانی عوام کے سامنے اپنا مقصد واضح کرنے کے لیے انھوں نے ''رام راجیہ'' کے تصور کا سہارا لیا۔ کانگریس نے ہندوستان کو ایک ہندو دیوی کے روپ میں ''ہندوماتا'' بنا کر پیش کیا جس کا واضح مفہوم یہ تھا کہ اس کی تقسیم اس دیوی کے جسم کے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہوگا اور اسی لیے آج تک تقسیم ہند کو ایک ہولناک سانحہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
تعلیم یافتہ لوگ بھی دیوی اور ماتا کے اس تصور پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ یہ ریاستی پراپیگنڈہ ان کے اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔ بھارتیوں کی اکثریت آج بھی ''اکھنڈ بھارت'' کے تصور پر اعتقاد رکھتی ہے۔ یہ سب اس حقیقت کے باوجود جوں کا توں ہے کہ 3جون 1947کو جاری ہونے والے ماؤنٹ بیٹن ایکٹ کے بعد کانگریس نے تقسیم ہند کو تسلیم کرلیا تھا۔ بی جے پی کے رہنما اور بھارت میں خارجہ، خزانہ اور دفاع کے وزیر رہنے والے جسونت سنگھ نے تحقیق پر مبنی اپنی تصنیف 'Jinnah. India-Partition-Independence' میں ان حقائق کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بھارت کی تاریخ کے بارے میں اپنی جماعت اور ریاست کے متعصبانہ موقف سے اختلاف کی پاداش میں جسونت سنگھ کو 2014میں بی جے پی سے نکال دیا گیا۔
کانگریس ایک جانب تو سیکولرازم کی داستانیں سناتی رہی لیکن دوسری جانب خاموشی سے ہندو قوم پرستی کو پھلنے پھولنے دیا، اسی وجہ سے بالآخر اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کانگریس کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں، پارٹی سے نہرو گاندھی خاندان کی دل چسپی کم ہوتی جارہی ہے اور بی جے پی ہندو اکثریت کے دل و دماغ میں اپنی مذہبی وابستگی کی بنا پر جگہ بنانے میں کام یاب ہوچکی ہے۔ پاکستان کا وجود ''بھارت ماتا'' اور ''اکھنڈ بھارت'' کا تصور رکھنے والوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔
ان کے لیے کشمیر پر اپنے دعوے سے دستبردار ہونا ناممکن ہے کیوں کہ یہ ان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کا آبائی وطن اور بھارت ماتا دیوی کے جسم کا حصہ ہے، اور ان سے بھی بڑھ کر ایسا کوئی فیصلہ جس سے بھارت پر پاکستان کی برتری کا مفہوم بھی نکلتا ہو ان کے لیے قابل برداشت نہیں۔ 1947میں جتنا کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل گیا وہ آج تک اس زخم کو نہیں بھلا پائے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ مستقبل قریب یا کم از کم بی جے پی کے دورِ اقتدار میں کشمیر سے متعلق کوئی پیش رفت یا تبدیلی ممکن نہیں۔
کشمیر کو اپنا حصہ قرار دینے کے لیے پاکستان کے اپنے نظریاتی اسباب ہیں۔ مسلم قوم پرستی اور 1937سے 1939تک ہندوستان پر کانگریس کی حکومت میں مسلمانوں کے تجربات نے انھیں اس بات پر قائل کرلیا تھا کہ انھیں ''اسلامی تعلیمات اور تقاضوں اور قرآن و سنت کے مطابق اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کی خاطر'' اپنے لیے الگ وطن حاصل کرنا ہوگا۔ اس مقصد اور برطانوی سلطنت کے مسلم اکثریتی اضلاع کو پاکستان میں شامل کرنے کے فیصلے کے مطابق جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنا ہمارا ریاستی مؤقف رہا ہے۔
وسیع تناظر میں مسئلہ کشمیر کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت اپنے بنیادی نظریاتی مؤقف پر نظر ثانی نہیں کرتے، مستقبل قریب میں اس کے حل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم مشرف کے ''چار نکاتی فارمولا'' جیسا غیر متوقع حل ممکن تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصولی طور پر بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اسے تسلیم کرنے کو تیار ہوگئے تھے اور اس وقت یہ مسئلہ حل ہونے کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔
لیکن اعلامیے پر دستخط کی تقریب منعقد ہونے سے چند گھنٹے قبل ایڈوانی کے زیر قیادت بی جے پی کے سخت گیر حلقے نے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی۔ بعد میں مشرف اور ان کا پیش کردہ حل دونوں ہی تاریخ ہوگئے۔
ماضی کے مقابلے میں یہ تنازعہ زیادہ خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خطاب نے مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کی جانب عالمی برادری کو متوجہ کرنے میں مؤثر ترین کردار ادا کیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور جنگ کے آثار واضح ہوتے جارہے ہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
مودی نے یہاں بھی گول مول بات ہی کی کیوں کہ 5اگست کا اقدام کرکے خود انھوں نے کشمیر کے مسئلے کو یک طرفہ طور پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے بہ آسانی یہ بات فراموش کردی کہ بھارت ہی 1948میں کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ لے کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں میں مختلف طریقوں سے استصوابِ رائے کروا کر اس مسئلے کے حل تجویز کیے گئے ہیں لیکن بھارت ان میں سے کسی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہاں نہیں وہ تو بس اپنے غیر قانونی قبضے کی توثیق کے لیے اقوام متحدہ کا ٹھپا لگوانا چاہتا ہے۔ 1972میں بھٹو سے شملہ معاہدے پر دستخط کروا کر اندرا گاندھی نے اس معاملے سے اقوام متحدہ کو نکالنے اور اس تنازعے کو دو طرفہ معاملہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ اس معاہدے کی قانونی نزاکتوں کے باوجود دونوں ممالک کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
پاکستان کی کوششوں سے جموں و کشمیر کی پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ مودی سرکار نے بھارتی آئین میں کشمیر کی خود مختار آئینی حیثیت ختم کرکے اسے براہ راست دہلی کے ماتحت کرنے کا جو اقدام کیا، اس سے نہ صرف بھارت نے عملاًاقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کو بھی مستردکردیا ہے بلکہ پورے کشمیر پر اپنے دعوے سے دست بردار ہوئے بغیر اپنے زیر قبضہ کشمیر پر ایک یک طرفہ حل مسلط کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بظاہر ایک سرحدی تنازعہ معلوم ہونے والا یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہوتا؟ کوئی بھی فریق کسی علاقے کی تقسیم کرسکتا ہے یا اس کے بدلے کوئی علاقہ حاصل کرسکتا ہے یا پھر جنگ کے بعد سامنے آنے والے نتائج کو تسلیم کرسکتا ہے؟ کشمیر کو پاک بھارت تعلقات میں سب سے بنیادی وجہ نزاع تصور کیا جاتا ہے۔ برصغیر کی تاریخ کے بارے میں یہ نقطہ نظر حقیقت سے دور ہے۔
آج بھی اصل مسئلہ ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا وجود ہے۔برصغیر کی سیاسی قوتوں کے طور پر انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کے لیے ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کا قیام کسی سرحدی تقسیم کے معاہدے سے بہت بڑھ کر تھا۔ اس کی بنیاد ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر قائم ہے اور انھی نظریات سے ان ریاستوں کے الگ الگ وجود کا جواز فراہم ہوتا ہے۔
اگرچہ کانگریس نے ہمیشہ ہی ایک ایسی سیکولر جماعت ہونے کا دعویٰ کیا جو اپنے اراکین کی مذہبی وابستگیوں اور تخیلاتی ہندوستانی قوم کے تصور سے لاتعلق رہی لیکن 19ویں صدی کے اواخر سے اس کے اکثر اراکین اور قائدین اپنے سماجی و مذہبی مرتبے سے بہت مخلص ہندو ہی تھے۔
ہندوستان کے عام آدمی کے لیے مغرب سے درآمد شدہ قوم، قومیت یا جمہوریت جیسے تصورات بالکل اجنبی تھے، کانگریس نے ان لوگوں تک اپنی بات پہنچانے اور عزائم واضح کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا۔ گاندھی گو کہ مسلمانوں کی خیر خواہی کے دعوے دار تھے لیکن ہندوستانی عوام کے سامنے اپنا مقصد واضح کرنے کے لیے انھوں نے ''رام راجیہ'' کے تصور کا سہارا لیا۔ کانگریس نے ہندوستان کو ایک ہندو دیوی کے روپ میں ''ہندوماتا'' بنا کر پیش کیا جس کا واضح مفہوم یہ تھا کہ اس کی تقسیم اس دیوی کے جسم کے ٹکڑے کرنے کے مترادف ہوگا اور اسی لیے آج تک تقسیم ہند کو ایک ہولناک سانحہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
تعلیم یافتہ لوگ بھی دیوی اور ماتا کے اس تصور پر یقین رکھتے ہیں کیوں کہ یہ ریاستی پراپیگنڈہ ان کے اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔ بھارتیوں کی اکثریت آج بھی ''اکھنڈ بھارت'' کے تصور پر اعتقاد رکھتی ہے۔ یہ سب اس حقیقت کے باوجود جوں کا توں ہے کہ 3جون 1947کو جاری ہونے والے ماؤنٹ بیٹن ایکٹ کے بعد کانگریس نے تقسیم ہند کو تسلیم کرلیا تھا۔ بی جے پی کے رہنما اور بھارت میں خارجہ، خزانہ اور دفاع کے وزیر رہنے والے جسونت سنگھ نے تحقیق پر مبنی اپنی تصنیف 'Jinnah. India-Partition-Independence' میں ان حقائق کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بھارت کی تاریخ کے بارے میں اپنی جماعت اور ریاست کے متعصبانہ موقف سے اختلاف کی پاداش میں جسونت سنگھ کو 2014میں بی جے پی سے نکال دیا گیا۔
کانگریس ایک جانب تو سیکولرازم کی داستانیں سناتی رہی لیکن دوسری جانب خاموشی سے ہندو قوم پرستی کو پھلنے پھولنے دیا، اسی وجہ سے بالآخر اسے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کانگریس کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں، پارٹی سے نہرو گاندھی خاندان کی دل چسپی کم ہوتی جارہی ہے اور بی جے پی ہندو اکثریت کے دل و دماغ میں اپنی مذہبی وابستگی کی بنا پر جگہ بنانے میں کام یاب ہوچکی ہے۔ پاکستان کا وجود ''بھارت ماتا'' اور ''اکھنڈ بھارت'' کا تصور رکھنے والوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔
ان کے لیے کشمیر پر اپنے دعوے سے دستبردار ہونا ناممکن ہے کیوں کہ یہ ان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کا آبائی وطن اور بھارت ماتا دیوی کے جسم کا حصہ ہے، اور ان سے بھی بڑھ کر ایسا کوئی فیصلہ جس سے بھارت پر پاکستان کی برتری کا مفہوم بھی نکلتا ہو ان کے لیے قابل برداشت نہیں۔ 1947میں جتنا کشمیر ان کے ہاتھ سے نکل گیا وہ آج تک اس زخم کو نہیں بھلا پائے۔ اس سے ایک بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ مستقبل قریب یا کم از کم بی جے پی کے دورِ اقتدار میں کشمیر سے متعلق کوئی پیش رفت یا تبدیلی ممکن نہیں۔
کشمیر کو اپنا حصہ قرار دینے کے لیے پاکستان کے اپنے نظریاتی اسباب ہیں۔ مسلم قوم پرستی اور 1937سے 1939تک ہندوستان پر کانگریس کی حکومت میں مسلمانوں کے تجربات نے انھیں اس بات پر قائل کرلیا تھا کہ انھیں ''اسلامی تعلیمات اور تقاضوں اور قرآن و سنت کے مطابق اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی گزارنے کی خاطر'' اپنے لیے الگ وطن حاصل کرنا ہوگا۔ اس مقصد اور برطانوی سلطنت کے مسلم اکثریتی اضلاع کو پاکستان میں شامل کرنے کے فیصلے کے مطابق جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل کرنا ہمارا ریاستی مؤقف رہا ہے۔
وسیع تناظر میں مسئلہ کشمیر کا پس منظر دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب تک پاکستان اور بھارت اپنے بنیادی نظریاتی مؤقف پر نظر ثانی نہیں کرتے، مستقبل قریب میں اس کے حل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم مشرف کے ''چار نکاتی فارمولا'' جیسا غیر متوقع حل ممکن تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصولی طور پر بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اسے تسلیم کرنے کو تیار ہوگئے تھے اور اس وقت یہ مسئلہ حل ہونے کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔
لیکن اعلامیے پر دستخط کی تقریب منعقد ہونے سے چند گھنٹے قبل ایڈوانی کے زیر قیادت بی جے پی کے سخت گیر حلقے نے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے دی۔ بعد میں مشرف اور ان کا پیش کردہ حل دونوں ہی تاریخ ہوگئے۔
ماضی کے مقابلے میں یہ تنازعہ زیادہ خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خطاب نے مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں پر بھارتی ظلم و ستم کی جانب عالمی برادری کو متوجہ کرنے میں مؤثر ترین کردار ادا کیا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دو جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے مابین ایک اور جنگ کے آثار واضح ہوتے جارہے ہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)