سندھ کے دکھوں کا درد
شاید صحافی بھی گوشت پوست کا ایک حساس اور درد مند انسان ہوتا ہے۔
لاہور:
سکھر،گھوٹکی، ڈھرکی، اور اوباڑو سے بوجھل دل کے ساتھ واپسی پرکراچی کے ہم تین صحافی دوستوں کی ٹیم کراچی تک دم سادھے ایک دوسرے سے چھوٹی موٹی گفتگوکے علاوہ کچھ نہ کر پائے، غم میں نہاں بے بس ہندو اور دیگر خاندانوں کے نکتہ نظرکوجاننے کے بعد ہم سب دوست دکھوں اورغم کی ایک ایسی چادر میں لپیٹ دیے گئے تھے جن سے آہیں اور سسکیوں کا سیل رواں جاری تھا اور ہم سب جاننے کے باوجود خود کو بے بس ولاچار سمجھ رہے تھے،گو یہ ایک صحافتی ذمے داری کا کام تھا مگر احساس ہوا کہ شاید صحافی بھی گوشت پوست کا ایک حساس اور درد مند انسان ہوتا ہے جسے زمانے کے مد وجزر نے قوت بخشنے کی جگہ ہمتوں کو پست کرنے کا ہی ذریعہ سمجھ رکھا ہے... خیر... دوستوں کی ٹیم کا فیصلہ تھا کہ ان ظلم زیادتیوں کا جو قدیم ہندؤں سے روا رکھی جا رہی ہیں کا خود جا کر جائزہ لینا اہم ہے کہ جس سے اصل صورتحال سامنے آ سکے۔
اس خیال سے ہم تین صحافتی دوست پہلے مرحلے میں سکھر کی جانب پو پھٹے نکلے اور سبک رفتاری باعث بحفاظت سکھر کی سوسائٹی میں پہلا پڑاؤ ڈالا۔ سکھر پہنچتے ہی ہمارے رابطوں میں تیزی آ گئی اور ہم متاثرہ خاندان کے افراد سے جلد از جلد رابطے میں آنے کی کوششوں میں جت گئے، یہ وہ خاندان تھے جن کا اوڑھنا بچھونا ،کھانا پینا اور ساتھ رہنا صدیوں سے ایک ساتھ تھا مگر تواتر کے ساتھ ہندو برادری کی لڑکیوں سے مسلمان لڑکوں سے مبینہ زبردستی شادی کے واقعات نے برسوں کے رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا کام شروع کر دیا تھا، ہم اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ اصل صورتحال اور سندھ کی محبت بھری روایتوں کے برعکس ایک دوری کے احساس کو عمومی طور سے دکھانے کی کوشش میں درست زمینی حقائق سامنے نہیں آ رہے۔
اسی جستجو اور بے چینی نے ہمیں میلوں کے سفر کی تکان کا بھی احساس نہیں ہونے دیا اور ہم سب مل کر اصل حقائق کی کھوج میں سکھر پریس کلب کی خوبصورت عمارت پہنچ گئے جہاں سکھر پریس کلب کے آفس سیکریٹری علی محمد شر نے والہانہ انداز سے استقبال کیا اور پھر پریس کلب سکھر کے صدر یاسر فاروقی ، سیکریٹری نصر اللہ وسیر، مبین خان، شوکت راہی، وقاص آرئیں اور دیگر احباب رات گئے تک خوشگوار احساس کی گفتگو میں مگن رہے۔
گو سکھر پریس کلب کے اہم رکن اور پی ایف یو جے کے اسسٹنٹ سیکریٹری لالا اسد سکھر سے باہر تنظیمی مصروفیات کے باعث مگر سکھر پریس کلب کے دوستوں کی بے پناہ اپنائیت اور خلوص اور آؤ بھگت نے ہمیں لالا اسد کی کمی کا احساس تک نہیں ہونے دیا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحافیوں کو جوڑنے میں لالا اسد کس قدر متحرک ہیں ، اسی دوران ہمارے قیام و طعام کی مکمل ذمے داری ادا کی گئی۔ اسی اثنا سکھر ہندو پنچائیت کے مکھی ایشور لعل مسکراتے چہرے کے ساتھ پریس کلب میں داخل ہوئے اور دوسرے روزکے معاملات طے گئے۔
دوسرے دن ہم صحافی دوست روہڑی میں تھے جہاں پہلے ہی ایشور لعل نے روہڑی کے مکھی وکی کے ذریعے ہندو لڑکی سے مسلمان لڑکے کے تحفظات پر ان کے لواحقین سے ملاقات کا انتظام کر رکھا تھا اسی دوران سکھرکی ہندو پنچائت کے مکھی ایشور لال نے ہندو برادری کی سندھ میں معیشت اور ثقافت میں حصہ داری پر مفصل آگاہی دی ، ایشور کے مطابق سندھ کی معیشت کے ہر شعبے میں ہندو سرمایہ کاروں کی کثیر تعداد معیشت کے پہئے کو چلانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور سندھ کے ہر شعبے میں ہندو لڑکے اور لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کی بدولت اہم فرائض ادا کر رہے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے قوانین میں ہندو برادری کے انصاف واسطے وہ اقدامات لینے سے پرہیزکیا جاتا ہے جس سے ہندو برادری میں اعتماد بحال کیا جا سکے، اسی سلسلے کی کڑی انھوں نے حالیہ ہندو مسلم شادی کے سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ ہونا قرار دیا اور اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہندو لڑکیوں کے مسلمان لڑکوں سے محبت کے امکان کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جب کہ زبردستی کی شادیوں کے امکانات بھی سندھ کے دیہاتوں میں کثرت سے مل جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ہندو برادری کی معاشی کمزوری اور طاقتور افراد کی طاقت ہے، ایشور لعل کا کہنا تھا کہ موجودہ خوف زدہ صورتحال میں ایک ایسے انصاف کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہے جس میں ہندو برادری میں تحفظ اور زمین سے جڑنے کا احساس پیدا ہو۔
ایشور لعل کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ یہ ملک اور سر زمین صدیوں سے ہماری نگہبان اور ہماری جنم بھومی ہے لہٰذا کوئی بھی ہندو اس سرزمین کی حفاظت خاطر ہر وقت قربانی دینے کو تیار رہتا ہے لہٰذا اس بنیاد پر ہندو برادری میں اجنبیت کا احساس ختم کرنا بنیادی طور پر ریاست کی ذمے داری ہے جسکے لیے انصاف اور قانون کی بالادستی اہم عنصر ہے۔ اسی گفتگو دوران حیدرآباد سے غائب ہونے والی ہندو لڑکی ثمرن کے چچا دیوان کمار آئے اور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ان کی بھتیجی ثمرن کو زبردستی بہلا پھسلا کر اور بعد کو خوفزدہ کر کے شادی کروائی گئی ہے جسکا ثبوت عدالت عالیہ کی جانب سے ہر پیشی پر ثمرن کے لواحقین کے ساتھ ثمرن کی ملاقات کو یقینی بنانے کا عدالتی فیصلہ ہے۔
دیوان کمار کے بقول عدالت نے متعلقہ افراد پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ہندو لڑکی کے شوہرکو پابند کیا ہے کہ عدالت ہر پیشی پر ثمرن سے ان کے سلوک کے بارے میں سوالات کر سکتی ہے اورکسی بھی شکایت پر فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، دیوان کا خیال تھا کہ ان کی بھتیجی ثمرن ملاقات کے دوران خوف کا شکار نظر آئی اور ہمیشہ گفتگو سے پرہیزکیا۔
جس پہ ہمیں شبہ ہے کہ ثمرن خوف میں مبتلا ہے۔ ہماری بات چیت کے درمیان اچانک امیت کمار کی آمد ہوئی اور ہم سے کہا گیا کہ مشہور زمانہ رینا اور روینہ کیس کے متاثرین سے ملنے کے لیے تیار ہو جائیں ، فوری طور پر ڈھرکی جانا ہے، ہم تینوں دوست ڈھرکی جانے سے پہلے سکھر میں واقع ہندوؤں کے وسیع و عریض گؤ شالا (گائے گھر) ایشور لعل کے ساتھ گئے اور پھر عارف ہالار کے خوش و خرم خاندان سے ملاقات نے ہمارے ذہنوں میں ایک خوشگوار حیرت کا اضافہ کیا کہ 33 برس پہلے ہندو لڑکی ریشماں جو کہ اب کنیز فاطمہ ہے سے عارف ہالار نے محبت کی شادی کی اور ان کا پورا خاندان اس رشتے پر خوش اور پر اعتماد دیکھا، عارف ہالار کے بعد ہم امیت کمار کے ہمراہ ڈھرکی کے ہندو مکھی شیو لعل کے ہمراہ رینا اور، روینا کے گھرکو روانہ ہوئے جوکہ موٹر وے 9 پر لب سڑک تھا، جیسے ہی رینا اور روینا کے والد ہری داس نے بڑھ کر ہاتھ ملایا تو مجھے سوشل میڈیا کی مشہور وہ ویڈیو یاد آ گئی۔
جس میں ہری داس ڈھرکی تھانے کی حدود میں آہ و زاری کرتا ہوا دکھایا گیا تھا اور اپنی بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ درج کروانا چاہتا تھا ، مگر ہری داس اس بات پر اب تک غم گسار اور دل گرفتہ ہے کہ اس کی دونوں بیٹیوں کی عمر ریاست کے کار پرزاروں نے اغوا کنندگان کو فائدہ پہنچانے کے لیے اضافی لکھوائی، جس کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے رینا اور روینا کے نکاح کو جائز قرار دیا ، اس لمحے رینا اور روینا کے بھائی نے ہولی والے روز زبردستی بندوق بردار افراد کے گھر میں گھسنے کا واقعہ بیان کیا اور دکھی لہجے میں کہا کہ ''میری دونوں بہنیں قریب ہی گاؤں میں رہتے ہوئے بھی زبردستی ہم سے دور کر دی گئی ہیں '' بھائی اور ہری داس کی بے بسی اور غم و اندوہ کی داستان ہم تینوں صحافی دوستوں کو کراچی تک غم گسارکیے رہی اور ہم ریاست کے انصاف فراہم کرنے والے نظام کی بے انصافی کو سوالیہ نگاہوں سے تک رہے تھے اور مظلوم باپ کی ناتوانی پر دکھی ہونے کے ساتھ ایک نئے سویرے کے منتظر تھے اور پر یقین بھی کہ قلم کی روشنی کا دیا ایک روز ہری داس ثمرن اور دیگر ہندو بیٹیوں کو انصاف ضرور دلوائے گا۔
سکھر،گھوٹکی، ڈھرکی، اور اوباڑو سے بوجھل دل کے ساتھ واپسی پرکراچی کے ہم تین صحافی دوستوں کی ٹیم کراچی تک دم سادھے ایک دوسرے سے چھوٹی موٹی گفتگوکے علاوہ کچھ نہ کر پائے، غم میں نہاں بے بس ہندو اور دیگر خاندانوں کے نکتہ نظرکوجاننے کے بعد ہم سب دوست دکھوں اورغم کی ایک ایسی چادر میں لپیٹ دیے گئے تھے جن سے آہیں اور سسکیوں کا سیل رواں جاری تھا اور ہم سب جاننے کے باوجود خود کو بے بس ولاچار سمجھ رہے تھے،گو یہ ایک صحافتی ذمے داری کا کام تھا مگر احساس ہوا کہ شاید صحافی بھی گوشت پوست کا ایک حساس اور درد مند انسان ہوتا ہے جسے زمانے کے مد وجزر نے قوت بخشنے کی جگہ ہمتوں کو پست کرنے کا ہی ذریعہ سمجھ رکھا ہے... خیر... دوستوں کی ٹیم کا فیصلہ تھا کہ ان ظلم زیادتیوں کا جو قدیم ہندؤں سے روا رکھی جا رہی ہیں کا خود جا کر جائزہ لینا اہم ہے کہ جس سے اصل صورتحال سامنے آ سکے۔
اس خیال سے ہم تین صحافتی دوست پہلے مرحلے میں سکھر کی جانب پو پھٹے نکلے اور سبک رفتاری باعث بحفاظت سکھر کی سوسائٹی میں پہلا پڑاؤ ڈالا۔ سکھر پہنچتے ہی ہمارے رابطوں میں تیزی آ گئی اور ہم متاثرہ خاندان کے افراد سے جلد از جلد رابطے میں آنے کی کوششوں میں جت گئے، یہ وہ خاندان تھے جن کا اوڑھنا بچھونا ،کھانا پینا اور ساتھ رہنا صدیوں سے ایک ساتھ تھا مگر تواتر کے ساتھ ہندو برادری کی لڑکیوں سے مسلمان لڑکوں سے مبینہ زبردستی شادی کے واقعات نے برسوں کے رشتوں میں دراڑیں ڈالنے کا کام شروع کر دیا تھا، ہم اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ اصل صورتحال اور سندھ کی محبت بھری روایتوں کے برعکس ایک دوری کے احساس کو عمومی طور سے دکھانے کی کوشش میں درست زمینی حقائق سامنے نہیں آ رہے۔
اسی جستجو اور بے چینی نے ہمیں میلوں کے سفر کی تکان کا بھی احساس نہیں ہونے دیا اور ہم سب مل کر اصل حقائق کی کھوج میں سکھر پریس کلب کی خوبصورت عمارت پہنچ گئے جہاں سکھر پریس کلب کے آفس سیکریٹری علی محمد شر نے والہانہ انداز سے استقبال کیا اور پھر پریس کلب سکھر کے صدر یاسر فاروقی ، سیکریٹری نصر اللہ وسیر، مبین خان، شوکت راہی، وقاص آرئیں اور دیگر احباب رات گئے تک خوشگوار احساس کی گفتگو میں مگن رہے۔
گو سکھر پریس کلب کے اہم رکن اور پی ایف یو جے کے اسسٹنٹ سیکریٹری لالا اسد سکھر سے باہر تنظیمی مصروفیات کے باعث مگر سکھر پریس کلب کے دوستوں کی بے پناہ اپنائیت اور خلوص اور آؤ بھگت نے ہمیں لالا اسد کی کمی کا احساس تک نہیں ہونے دیا، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحافیوں کو جوڑنے میں لالا اسد کس قدر متحرک ہیں ، اسی دوران ہمارے قیام و طعام کی مکمل ذمے داری ادا کی گئی۔ اسی اثنا سکھر ہندو پنچائیت کے مکھی ایشور لعل مسکراتے چہرے کے ساتھ پریس کلب میں داخل ہوئے اور دوسرے روزکے معاملات طے گئے۔
دوسرے دن ہم صحافی دوست روہڑی میں تھے جہاں پہلے ہی ایشور لعل نے روہڑی کے مکھی وکی کے ذریعے ہندو لڑکی سے مسلمان لڑکے کے تحفظات پر ان کے لواحقین سے ملاقات کا انتظام کر رکھا تھا اسی دوران سکھرکی ہندو پنچائت کے مکھی ایشور لال نے ہندو برادری کی سندھ میں معیشت اور ثقافت میں حصہ داری پر مفصل آگاہی دی ، ایشور کے مطابق سندھ کی معیشت کے ہر شعبے میں ہندو سرمایہ کاروں کی کثیر تعداد معیشت کے پہئے کو چلانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور سندھ کے ہر شعبے میں ہندو لڑکے اور لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کی بدولت اہم فرائض ادا کر رہے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان کے قوانین میں ہندو برادری کے انصاف واسطے وہ اقدامات لینے سے پرہیزکیا جاتا ہے جس سے ہندو برادری میں اعتماد بحال کیا جا سکے، اسی سلسلے کی کڑی انھوں نے حالیہ ہندو مسلم شادی کے سلسلے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہ ہونا قرار دیا اور اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ ہندو لڑکیوں کے مسلمان لڑکوں سے محبت کے امکان کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جب کہ زبردستی کی شادیوں کے امکانات بھی سندھ کے دیہاتوں میں کثرت سے مل جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ ہندو برادری کی معاشی کمزوری اور طاقتور افراد کی طاقت ہے، ایشور لعل کا کہنا تھا کہ موجودہ خوف زدہ صورتحال میں ایک ایسے انصاف کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہے جس میں ہندو برادری میں تحفظ اور زمین سے جڑنے کا احساس پیدا ہو۔
ایشور لعل کا اس بات پر پختہ یقین تھا کہ یہ ملک اور سر زمین صدیوں سے ہماری نگہبان اور ہماری جنم بھومی ہے لہٰذا کوئی بھی ہندو اس سرزمین کی حفاظت خاطر ہر وقت قربانی دینے کو تیار رہتا ہے لہٰذا اس بنیاد پر ہندو برادری میں اجنبیت کا احساس ختم کرنا بنیادی طور پر ریاست کی ذمے داری ہے جسکے لیے انصاف اور قانون کی بالادستی اہم عنصر ہے۔ اسی گفتگو دوران حیدرآباد سے غائب ہونے والی ہندو لڑکی ثمرن کے چچا دیوان کمار آئے اور اس خدشہ کا اظہار کیا کہ ان کی بھتیجی ثمرن کو زبردستی بہلا پھسلا کر اور بعد کو خوفزدہ کر کے شادی کروائی گئی ہے جسکا ثبوت عدالت عالیہ کی جانب سے ہر پیشی پر ثمرن کے لواحقین کے ساتھ ثمرن کی ملاقات کو یقینی بنانے کا عدالتی فیصلہ ہے۔
دیوان کمار کے بقول عدالت نے متعلقہ افراد پر عدم اعتماد کرتے ہوئے ہندو لڑکی کے شوہرکو پابند کیا ہے کہ عدالت ہر پیشی پر ثمرن سے ان کے سلوک کے بارے میں سوالات کر سکتی ہے اورکسی بھی شکایت پر فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتی ہے، دیوان کا خیال تھا کہ ان کی بھتیجی ثمرن ملاقات کے دوران خوف کا شکار نظر آئی اور ہمیشہ گفتگو سے پرہیزکیا۔
جس پہ ہمیں شبہ ہے کہ ثمرن خوف میں مبتلا ہے۔ ہماری بات چیت کے درمیان اچانک امیت کمار کی آمد ہوئی اور ہم سے کہا گیا کہ مشہور زمانہ رینا اور روینہ کیس کے متاثرین سے ملنے کے لیے تیار ہو جائیں ، فوری طور پر ڈھرکی جانا ہے، ہم تینوں دوست ڈھرکی جانے سے پہلے سکھر میں واقع ہندوؤں کے وسیع و عریض گؤ شالا (گائے گھر) ایشور لعل کے ساتھ گئے اور پھر عارف ہالار کے خوش و خرم خاندان سے ملاقات نے ہمارے ذہنوں میں ایک خوشگوار حیرت کا اضافہ کیا کہ 33 برس پہلے ہندو لڑکی ریشماں جو کہ اب کنیز فاطمہ ہے سے عارف ہالار نے محبت کی شادی کی اور ان کا پورا خاندان اس رشتے پر خوش اور پر اعتماد دیکھا، عارف ہالار کے بعد ہم امیت کمار کے ہمراہ ڈھرکی کے ہندو مکھی شیو لعل کے ہمراہ رینا اور، روینا کے گھرکو روانہ ہوئے جوکہ موٹر وے 9 پر لب سڑک تھا، جیسے ہی رینا اور روینا کے والد ہری داس نے بڑھ کر ہاتھ ملایا تو مجھے سوشل میڈیا کی مشہور وہ ویڈیو یاد آ گئی۔
جس میں ہری داس ڈھرکی تھانے کی حدود میں آہ و زاری کرتا ہوا دکھایا گیا تھا اور اپنی بیٹیوں کے اغوا کا مقدمہ درج کروانا چاہتا تھا ، مگر ہری داس اس بات پر اب تک غم گسار اور دل گرفتہ ہے کہ اس کی دونوں بیٹیوں کی عمر ریاست کے کار پرزاروں نے اغوا کنندگان کو فائدہ پہنچانے کے لیے اضافی لکھوائی، جس کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ نے رینا اور روینا کے نکاح کو جائز قرار دیا ، اس لمحے رینا اور روینا کے بھائی نے ہولی والے روز زبردستی بندوق بردار افراد کے گھر میں گھسنے کا واقعہ بیان کیا اور دکھی لہجے میں کہا کہ ''میری دونوں بہنیں قریب ہی گاؤں میں رہتے ہوئے بھی زبردستی ہم سے دور کر دی گئی ہیں '' بھائی اور ہری داس کی بے بسی اور غم و اندوہ کی داستان ہم تینوں صحافی دوستوں کو کراچی تک غم گسارکیے رہی اور ہم ریاست کے انصاف فراہم کرنے والے نظام کی بے انصافی کو سوالیہ نگاہوں سے تک رہے تھے اور مظلوم باپ کی ناتوانی پر دکھی ہونے کے ساتھ ایک نئے سویرے کے منتظر تھے اور پر یقین بھی کہ قلم کی روشنی کا دیا ایک روز ہری داس ثمرن اور دیگر ہندو بیٹیوں کو انصاف ضرور دلوائے گا۔